جہاں جہاں گریگورئین کیلنڈر رائج ہے سال کا اختتام31 دسمبر اور آغاز یکم جنوری سے ہوتا ہے امریکہ میں سالِ نَو کے موقع پر ہر چھوٹے بڑے شہر میں جشن کا سماں ہوتا ہے رات دیر تک جاگتے ہیں خوشی منانے کا ان کا اپنا انداز ہے جتنی بڑی خوشی اتنے بڑے اہتمام۔ کرسمس کی وجہ سے بڑی چھوٹی عمارتیں بازار گلیاں درخت پہلے ہی برقی قمقموں اور طرح طرح کی سجاوٹوں سے جگمگا رہے ہوتے ہیں۔برف کی دبیز تہیں روشن شہروں کو جاذب نظر بناتی ہیں ہر کس و ناکس خوشی منانے کے موڈ میں ہوتا ہے۔ امریکہ کی آبادی مختلف رنگ و نسل مختلف مذہبی اور ثقافتی پس منظر سے تعلق رکھتی ہے۔ سب کے ملنے سے جو کلچر وجود میں آیا ہے اس پر تجارتی فائدے نے اپنا طاقتور اثر دکھایا ہے۔ ہر تہوار پر خریدو فروخت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ اس سے ایسے رسوم و رواج جنم لیتے ہیں جن سے زیادہ سے زیادہ سرمایا حاصل ہو۔ نئے سال کی آمد سے پہلے ہی سٹوروں میں تہنیتی کارڈوں کی بھرمار ہوجاتی ہے جو کافی مہنگے ہوتے ہیں ان کی ترسیل پر ڈاک کا نظام گھٹنے ٹیکنے لگتا ہے۔ کثرت سے تحائف دئے جاتے ہیں بزرگوں سے ملنا خیریت دریافت کرنا اور تحائف دینا معمول ہے۔ بچھڑے ہوئے دوستوں سے ملنا اور ناراضگیاں دور کرنا بھی پسندیدہ ہے۔ ہم خیال دوست جمع ہوتے ہیں اور اپنا وقت ہلّے گلّے میں گزارتے ہیں۔ شور شرابے، شراب کباب، ناچ گانے آتشبازی سے خوشی کا اظہار ہوتا ہے۔ سال کو رخصت بھی بے سود غل غپاڑے سے کرتے ہیں اور استقبال بھی لہو ولعب کے ساتھ ہوتا ہے۔ یہ ایک معاشرتی مزاج بن گیا ہے عوام سودو زیاں کے احساس سے بے نیاز ایک رَو میں بہتے چلے جاتے ہیں۔ رات کو دیر تک راگ و رنگ میں دعوت ِعیش دیتے ہیں گھڑیاں بارہ بجا تی ہیں تو ان کے بھی بارہ بج جاتے ہیں ہر قسم کا اودھم عروج پر پہنچ جاتا ہے۔
سب سے بڑا اجتماع نیو یارک کے ٹائم سکوائر میں ہوتا ہے کم و بیش دس لاکھ افراد شدید سردی میں آسمان کے نیچے کھڑے کھڑے رات بھر نئے سال کے گیت گاتے ہیں اور ہاؤ ہو کرتے ہوئے 5400 کلو گرام وزن اور 3.7 میٹر قطر کا کرسٹل کے بال گرنے کا نظارہ کرتے ہیں دنیا بھر میں قریباً ایک ارب افراد اس گیند کا دیدار کرنے کے لئے ٹی وی پر نظریں گاڑے بیٹھے رہتے ہیں۔ مختلف شہروں میں اپنے اپنے انداز میں نئے سال کا استقبال کیا جاتا ہے۔ جس میں پارٹیاں ’دعوتیں ملنا جلنا آتش بازی قدر مشترک ہے۔ شراب نوشی اور داد عیش پر بہت سا مال خرچ کیا جاتا ہے۔ یہ سلسلہ رات بھرجب تک آنکھوں میں دم اور ہاتھ میں جنبش رہتی ہے چلتا ہے۔ بے حد اور بے قید لذت یابی کے بعد نئے سال کی جو پہلی صبح طلوع ہوتی ہے اخلاقی بے رہ روی کی مزید گراوٹ۔ مدہوش ڈرائیوروں کے حادثات ’آتش بازی سے نقصانات ’سڑکوں پر کچرے ’مال کے ضیاع اور وقت کی تباہی کے ہوش ربا نا خوشگوار اعدادو شمار بتاتی ہے۔ اس موقع پر پھونکا ہوا پیسہ امریکہ اور دنیا کے کتنے غریبوں کے درد کا درماں بن سکتا ہے۔ خوشی کے موقع پر خوشیاں منانے کا سب کو حق ہے مگر اتنا کچھ کھو کر جشنِ تباہی منانا دانشمندی نہیں۔
زمانے کی قسم انسان خسارے میں ہے یہ خسارے کا سودا اللہ پاک سے منہ موڑنے کی وجہ سے ہوا ہے قرآن پاک کے بتائے ہوئے انسانی پیدائش کے مقصد سے غفلت کی وجہ سے ہوا ہے۔ قرآن مجید میں تنبیہ موجود ہے۔
اَلَّذِیۡنَ اتَّخَذُوۡا دِیۡنَہُمۡ لَہۡوًا وَّ لَعِبًا وَّ غَرَّتۡہُمُ الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَاۚ فَالۡیَوۡمَ نَنۡسٰہُمۡ کَمَا نَسُوۡا لِقَآءَ یَوۡمِہِمۡ ہٰذَا ۙ وَ مَا کَانُوۡا بِاٰیٰتِنَا یَجۡحَدُوۡنَ ﴿۵۲﴾
(الاعراف: 52)
ترجمہ: (اُن پر) جنہوں نے اپنے دین کو لغویات اور کھیل کود بنا رکھا تھا اور انہیں دنیا کی زندگی نے دھوکہ میں مبتلا کر دیا۔ پس آج کے دن ہم بھی انہیں اسی طرح بُھلا دیں گے جیسے وہ اپنے اس دن کی ملاقات کو بھلا بیٹھے تھے اور بسبب اس کے کہ وہ ہماری آیات کا انکار کیا کرتے تھے۔
درد عہدِ نَو کا ہے میرے دیدۂ تر میں
جہل کے جزیرے ہیں علم کے سمندر میں
بحر و بر کی ہر طاقت لے کے اپنے قبضے میں
وقت کے خداؤں نے کیا لکھا مقدر میں
احمدی سال نَو پر کیا کرتے ہیں؟
احمدی یعنی حقیقی اسلام کو ماننے اور عمل کرنے والے کسی ایک ملک میں نہیں رہتے۔ خدا کے فضل سے ساری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ نیا سال قرآنی تعلیمات اور اسوۂ رسول ؐ کی روشنی میں مناتے ہیں ان کے سامنے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کی نصائح ہوتی ہیں۔ نئے سال کے آغاز میں نوافل اور تہجد میں خدا تعالیٰ سے رحم ’عفو‘ عافیت اور نصرت کی بھیک مانگتے ہیں۔ بلاؤں کو ٹالنے کے لئے صدقات دیتے ہیں۔ رخصت اور استقبال میں صدق نصیب ہونے کی دعا کرتے ہیں :
وَ قُلۡ رَّبِّ اَدۡخِلۡنِیۡ مُدۡخَلَ صِدۡقٍ وَّ اَخۡرِجۡنِیۡ مُخۡرَجَ صِدۡقٍ وَّ اجۡعَلۡ لِّیۡ مِنۡ لَّدُنۡکَ سُلۡطٰنًا نَّصِیۡرًا ﴿۸۱﴾
(بنی اسرائیل: 81)
اور تو کہہ اے میرے ربّ! مجھے اس طرح داخل کر کہ میرا داخل ہونا سچائی کے ساتھ ہو اور مجھے اس طرح نکال کہ میرا نکلنا سچائی کے ساتھ ہو اور اپنی جناب سے میرے لئے طاقتور مددگار عطا کر۔
نئے سال کے آغاز پر آنحضور ؐ کی سکھائی ہوئی دعا بھی لبوں پر رہتی ہے
اَللّٰهُمَّ أَدْخِلْهُ عَلَيْنَا بِالْأَمْنِ وَالْإِيمَانِ، وَالسَّلَامَةِ وَالْإِسْلَامِ، وَرِضْوَانٍ مِّنَ الرَّحْمٰنِ، وَجِوَارٍ مِّنَ الشَّيْطَانِ۔
(معجم الصحابہ للبغوی ص1539)
ترجمہ: اے اللہ اس چاند کو ہمارے اوپر امن، ایمان، سلامتی اور اسلام کے ساتھ اور رحمن کی رضامندی اور شیطان کے بچاؤ کے ساتھ داخل فرما۔
نماز فجر کے بعد بڑے شہروں میں خدام ٹولیوں میں رضاکارانہ طور پر رات کا کچرا صاف کرنے کے لئے بڑے بڑے تھیلے لئے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ شدید سردی میں نوجوانوں کو عباد الرحمان کی یہ خدمت کرتے دیکھ کر لوگ بہت متأثر ہوتے ہیں۔ ذرائع ابلاغ ان جنونی خدمت گزاروں کو بہت سراہتے ہیں۔ احمدیوں کے انداز اور کردار سب سے جدا ہیں کیونکہ ان کا قرآن پاک پر عمل ہے قرآن پاک نے لہوو لعب اور لغو سے اعراض کا حکم دیا ہے لَہَو سے مراد جو غافل کردے ’لَعَب سے مراد جو بے حقیقت ہو۔ لَغو سے مراد کُل باطل کُل معاصی ،ان سے منہ موڑنے والوں کو فلاح پانے والوں میں شمار کیا ہے
وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ عَنِ اللَّغۡوِ مُعۡرِضُوۡنَ ﴿ۙ۴﴾
(المؤمنون: 4)
اور وہ جو لغو سے اِعراض کرنے والے ہیں۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ سال نو کے موقع پر اپنا ایک واقعہ سناتے ہیں۔
’’مجھے وہ لمحہ بہت پیارا لگتا ہے جو ایک مرتبہ لندن میں New Year’s day کے موقع پر پیش آیا یعنی اگلے روز نیا سال چڑھنے والا تھا اور عید کا سماں تھا رات کے بارہ بجے سارے لو گ ٹریفالگر سکوائر Trafalgar Square میں اکٹھے ہوکر دنیا جہان کی بے حیائیوں میں مصروف ہو جاتے ہیں کیونکہ جب رات کے بارہ بجتے ہیں تو پھر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اب کوئی تہذیبی روک نہیں ،کوئی مذہبی روک نہیں ہر قسم کی آزادی ہے اس وقت اتفاق سے وہ رات بوسٹن اسٹیشن پر آئی مجھے خیال آیا جیسا کہ ہر احمدی کرتا ہے اس میں میرا کوئی خاص الگ مقام نہیں تھا۔ اکثر احمدی اللہ کے فضل سے ہر سال نیا دن اس طرح شروع کرتے ہیں کہ رات کے بارہ بجے عبادت کرتے ہیں مجھے بھی موقع ملا میں بھی وہاں کھڑا ہوگیا اخبار کے کاغذ بچھائے اور دو نفل پڑھنے لگا کچھ دیر بعد مجھے یوں محسوس ہوا کہ کوئی شخص میرے پاس آکر کھڑا ہوگیا ہے اور پھر نماز میں نے ابھی ختم نہیں کی تھی کہ مجھے سسکیوں کی آواز آئی چنانچہ نماز سے فارغ ہونے کے بعد میں نے دیکھا کہ وہ بوڑھا انگریز ہے جو بچوں کی طرح بلک بلک کے رو رہا ہے میں گبھرا گیا میں نے کہا پتہ نہیں یہ سمجھا ہے میں پاگل ہو گیا ہوں اس لئے شاید بے چارہ میری ہمدردی میں رو رہا ہے میں نے اس سے پوچھا کہ تمہیں کیا ہوگیا ہے تو اس نے کہا مجھے کچھ نہیں ہوا میری قوم کو کچھ ہو گیا ہے ساری قوم اس وقت نئے سال کی خوشی میں بے حیائی میں مصروف ہے اور ایک آدمی ایسا ہے جو اپنے رب کو یاد کررہا ہے اس چیز نے اور اس موازنہ نے میرے دل پر اس قدر اثر کیا کہ میں برداشت نہیں کرسکا چنانچہ وہ بار بار کہتا تھا
God bless you. God bless you God bless you. God bless you.
خدا تمہیں برکت دے، خدا تمہیں برکت دے، خدا تمہیں برکت دے، خدا تمہیں برکت دے
(خطبہ جمعہ 20اگست 1982ء)
احمدیوں کے لئے سب سال مبارک ہیں
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒنے یکم جنوری 1999ء کے خطبہ جمعہ میں جماعت کو نئے سال کی مبارکباد دیتے ہوئے فرمایا:
’’سب سے پہلے تو تمام دنیا کی جماعتوں کو السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ اور نیا سال مبارک ہو۔ اور جب میں نیا سال مبارک کہتا ہوں تو سب بنی نوع انسان کے لئے ہی مبارک ہو اگرچہ بظاہر اس کے مبارک ہونے کے آثار دکھائی نہیں دے رہے لیکن جماعت احمدیہ کے لئے تو بہر صورت مبارک ہے اور یہ برکتیں بڑھتی جا رہی ہیں اور بڑھتی چلی جائیں گی اور ان شاء اللہ اگلی صدی تک پھیل جائیں گی‘‘
(الفضل 12؍اپریل 1999ء)
سال نو اپنے جائزہ، نوافل،
دعا اور صدقات سے منائیں
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنا جائزہ لینے کے لئے ایک سوالنامہ دیا ہے پڑھتے جائیں اور دل ہی دل میں جواب بھی دیتے جائیں
1۔ کیا ہمارا ہر قدم اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اٹھنے والا قدم تھا کیا ہم نے شرک نہ کرنے کے عہد کو پورا کیا۔ بتوں اور سورج چاند کو پوجنے کا شرک نہیں بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق وہ شرک جو اعمال میں ریاء اور دکھاوے کا شرک ہے۔ وہ شرک جو مخفی خواہشات میں مبتلا ہونے کا شرک ہے۔
(مسند احمد بن حنبل جلد4 صفحہ800-801۔ حدیث محمود بن لبید حدیث نمبر24036۔ عالم الکتب بیروت 1998ء)
’’توحید صرف اس بات کا نام نہیں کہ منہ سے لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کہیں اور دل میں ہزاروں بُت جمع ہوں۔ بلکہ جو شخص کسی اپنے کام اور مکر اور فریب اور تدبیر کو خدا کی سی عظمت دیتا ہے یا کسی انسان پر بھروسہ رکھتا ہے جو خدا تعالیٰ پر رکھنا چاہئے یا اپنے نفس کو وہ عظمت دیتا ہے جو خدا کو دینی چاہئے ان سب صورتوں میں وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک بُت پرست ہے۔‘‘
(سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب۔ روحانی خزائن جلد12 صفحہ349)
2۔ کیا ہمارا ہر دن اُسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر چلنے والا دن تھا۔
3۔ کیا ہمارے دن اور رات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے عہد بیعت نبھانے کی طرف لے جانے والے تھے۔
4۔ کیا ہماری نمازیں، ہمارے روزے، ہمارے صدقات، ہماری مالی قربانیاں، ہمارے خدمت خلق کے کام، ہمارا جماعت کے کاموں کے لئے وقت دینا، خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے تھا؟ ہمارے دل کی چُھپی ہوئی خواہشات اللہ تعالیٰ کے مقابلے پر کھڑی تو نہیں ہو گئی تھیں۔
5۔ کیا ہمارا سال جھوٹ سے مکمل طور پر پاک ہو کر اور کامل سچائی پر قائم رہتے ہوئے گزرا ہے؟ یعنی ایسا موقع آنے پر جب سچائی کے اظہار سے اپنا نقصان ہو رہا ہو لیکن پھر بھی سچائی کو نہ چھوڑا جائے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کا معیار یہ مقرر فرمایا ہے کہ: ’’جب تک انسان اُن نفسانی اغراض سے علیحدہ نہ ہو جو راست گوئی سے روک دیتے ہیں تب تک حقیقی طور پر راست گو نہیں ٹھہر سکتا سچ کے بولنے کا بڑا بھاری محل اور موقع وہی ہے جس میں اپنی جان یا مال یا آبرو کا اندیشہ ہو۔‘‘
(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد10 صفحہ360)
6۔ کیا ہم نے اپنے آپ کو ایسی تقریبوں سے دُور رکھا ہے جن سے گندے خیالات دل میں پیدا ہو سکتے ہوں۔ یعنی آجکل اس زمانے میں ٹی وی ہے، انٹرنیٹ ہے۔ یا اس قسم کی چیزیں اور ان پر ایسے پروگرام جو خیالات کے گندہ ہونے کا ذریعہ بنتے ہیں اگر ہم ان ذریعوں سے گندی فلمیں اور پروگرام دیکھ رہے ہیں تو ہم عہد بیعت سے دُور ہٹ گئے ہیں اور ہماری حالت قابل فکر ہے کیونکہ یہ باتیں ایک قسم کے زنا کی طرف لے جاتی ہیں۔
7۔ کیا ہم نے بدنظری سے اپنے آپ کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کی ہے اور کر رہے ہیں؟ کیونکہ بدنظری کا جہاں تک سوال ہے۔ اس میں یہ جو حکم ہے کہ اپنی نظریں نیچی رکھو اور غضِّ بصر سے کام لو، یہ عورتوں اور مَردوں دونوں کے لئے ہے کیونکہ کھلی نظر سے دیکھنے سے (بدنظری کے) امکانات پیدا ہو سکتے ہیں۔
8۔ کیا ہم نے فسق و فجور کی ہر بات سے اس سال میں بچنے کی کوشش کی ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مومن سے گالی گلوچ کرنا فسق ہے۔
(مسند احمد بن حنبل جلد2 صفحہ153مسند عبد اللہ بن مسعود حدیث نمبر4178عالم الکتب بیروت 1998ء)
9۔ کیا سودابازی میں جھوٹ تو نہیں بولا قسمیں اٹھا اٹھا کر قیمتیں تو نہیں بڑہائیں شکر اور صبر نہ کرنے والوں کو بھی آنحضرت ؐ فاسق فرمایا۔
(مسند احمد بن حنبل جلد5 صفحہ385-386 حدیث عبد الرحمن بن شبل حدیث نمبر15752-15753عالم الکتب بیروت 1998ء)
10۔ کیا ہم نے اپنے آپ کو ہر ظلم سے بچا کر رکھا ہے۔ یعنی ظلم کرنے سے بچا کے رکھا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی کی ایک ہاتھ زمین بھی دبا لینا۔ تھوڑی سی زمین بھی کسی کی دبا لینا یا کسی کاایک کنکر جو چھوٹا سا پتھر جو ہے، کنکری، مٹی کا ٹکڑہ، وہ بھی غلط طریق سے لینا ظلم ہے۔
(صحیح البخاری کتاب فی المظالم و الغضب باب اثم من ظلم شیئا من الارض حدیث 2452)
11۔ کیا ہم نے ہر قسم کی خیانت سے اپنے آپ کو پاک رکھا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس سے بھی خیانت نہیں کرنی جو تم سے خیانت کرتا ہے۔
(سنن ابی داؤد کتاب البیوع باب فی الرجل یاخذ حقہ من تحت یدہ حدیث 3534)
یہ ہے معیار۔
12۔ کیا ہم نے ہر قسم کے فساد سے بچنے کی کوشش کی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شریر ترین لوگ فسادی ہیں اور یہ فسادی ہیں جو چغل خوری سے فساد پیدا کرتے ہیں۔ یہاں کی بات وہاں لگائی، اِدھر سے اُدھر بات پھیلائی وہ لوگ فسادی ہیں۔ جو لوگ محبت کرنے والوں کے درمیان بگاڑ پیدا کرتے ہیں وہ فسادی ہیں۔ جو فرمانبردار ہیں، اطاعت کرنے والے ہیں، نظام کی ہر بات کو ماننے والے ہیں یا دین کی ہر بات کو ماننے والے ہیں انہیں کسی غلط کام میں مبتلا کرنے کی کوشش کرتے ہیں یا گناہ میں مبتلا کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ فسادی ہیں۔
(مسند احمد بن حنبل جلد8 صفحہ914 حدیث اسماء بنت یزید حدیث نمبر28153عالم الکتب بیروت 1998ء)
13۔ کیا ہم نفسانی جوشوں سے مغلوب تو نہیں ہو جاتے؟ آجکل کے زمانے میں جبکہ ہر طرف بے حیائی پھیلی ہوئی ہے ان نفسانی جوشوں سے بچنا بھی ایک جہاد ہے۔
14۔ کیا ہم پانچ وقت نمازوں کا التزام کرتے رہے ہیں۔ سال میں باقاعدگی سے پڑھتے رہے ہیں کہ اس کی اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں کئی جگہ تلقین فرمائی ہے، نصیحت فرمائی ہے بلکہ حکم دیا ہے۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نماز کو چھوڑنا انسان کو شرک اور کفر کے قریب کر دیتا ہے۔
(صحیح مسلم کتاب الایمان باب بیان اطلاق اسم الکفر علی من ترک الصلاۃ حدیث (82))
15۔ کیا نماز تہجد پڑھنے کی طرف ہماری توجہ رہی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اس بارے میں ارشاد ہے کہ نماز تہجد کا التزام کرو۔ اس میں باقاعدگی پیدا کرنے کی کوشش کرو؟ یہ صالحین کا طریق ہے۔ یہ قرب الٰہی کا ذریعہ ہے۔ اس کی عادت گناہوں سے روکتی ہے۔ برائیوں کو ختم کرتی ہے اور جسمانی بیماریوں سے بھی بچاتی ہے۔
(سنن الترمذی کتاب الدعوات باب فی دعاء النبیؐ حدیث 3549)
16۔ کیا ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے کی باقاعدہ کوشش کرتے رہے ہیں یا کرتے ہیں کہ یہ مومنوں کو اللہ تعالیٰ کے خاص حکموں میں سے ایک حکم ہے اور یہ دعاؤں کی قبولیت کا ذریعہ بھی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر درود کے بغیر دعائیں ہیں تو یہ زمین اور آسمان کے درمیان ٹھہر جاتی ہیں۔
(سنن الترمذی کتاب الصلاۃ ابواب الوتر باب ما جاء فی فضل الصلاۃ علی النبیؐ حدیث 486)
17۔ کیا ہم باقاعدگی سے استغفار کرتے رہے ہیں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو شخص استغفار کو چمٹا رہتا ہے یعنی باقاعدگی سے کرتا رہتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لئے ہر تنگی سے نکلنے کی راہ بنا دیتا ہے اور ہر مشکل سے کشائش کی راہ پیدا کر دیتا ہے اور اسے ان راہوں سے رزق عطا کرتا ہے جس کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتے۔
(سنن ابی داؤد ابواب الوتر باب فی الاستغفار حدیث 1518)
18۔ کیا اللہ تعالیٰ کی حمد کرنے کی طرف ہماری توجہ رہی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حمد کے بغیر شروع کیا جانے والا کام ناقص رہتا ہے، بے برکت ہوتا ہے، بے اثر ہوتا ہے۔
(سنن ابن ماجہ۔ کتاب النکاح باب خطبة النکاح حدیث 1894)
19۔ کیا ہم اپنوں اور غیروں سب کو کسی بھی قسم کی تکلیف پہنچانے سے گریز کرتے رہے ہیں؟ کیا ہمارے ہاتھ اور ہماری زبانیں دوسروں کو تکلیف پہنچانے سے بچی رہی ہیں؟
20۔ کیا ہم عفو اور درگذر سے کام لیتے رہے ہیں؟
21۔ کیا عاجزی اور انکساری ہمارا امتیاز رہا ہے۔
22۔ کیا خوشی غمی تنگی اور آسائش ہر حالت میں ہم خدا تعالیٰ کے ساتھ وفا کا تعلق رکھتے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے کبھی کوئی شکوہ تو نہیں پیدا ہوا کہ میری دعائیں کیوں قبول نہیں کی گئیں یا مجھے اس تکلیف میں کیوں مبتلا کیا گیا۔ اگر یہ شکوہ ہے تو کوئی انسان مومن نہیں رہ سکتا۔
23۔ کیا ہر قسم کی رسوم اور ہواوہوس کی باتوں سے ہم نے پوری طرح بچنے کی کوشش کی ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ رسوم اور بدعات تمہیں گمراہی کی طرف لے جاتی ہیں ان سے بچو۔
(سنن الترمذی کتاب العلم باب ما جاء فی الاخذ بالسنۃ واجتناب البدع حدیث 2676)
24۔ کیا قرآن کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات اور ارشادات کو ہم مکمل طور پر اختیار کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں؟
25۔ کیا تکبر اور نخوت کو ہم نے مکمل طور پر چھوڑا ہے یا اس کے چھوڑنے کے لئے کوشش کی ہے کہ شرک کے بعد سب سے بڑی بلا تکبر اور نخوت ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ متکبر جنت میں داخل نہیں ہو گا اور تکبر یہ ہے کہ انسان حق کا انکار کرے۔ لوگوں کو ذلیل سمجھے۔ ان کو حقارت کی نظر سے دیکھے اور ان سے بری طرح پیش آئے۔
(صحیح مسلم کتاب الایمان باب تحریم الکبر وبیانہ حدیث 91)
26۔ کیا ہم نے خوش خُلقی کے اعلیٰ معیار حاصل کرنے کی کوشش کی ہے؟ کیا ہم نے حلیمی اور مسکینی کو اپنانے کی کوشش کی ہے؟ مسکینوں کا مقام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں کتنا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا کیا کرتے تھے کہ اے اللہ! مجھے مسکینی کی حالت میں زندہ رکھ۔ مجھے مسکینی کی حالت میں موت دے اور مجھے مسکینوں کے گروہ میں ہی اٹھانا۔
(سنن ابن ماجہ کتاب الزھد باب مجالسۃ الفقراء حدیث 4126)
27۔ کیا ہر دن ہمارے اندر دین میں بڑھنے اور اس کی عزت و عظمت قائم کرنے والا بنتا رہا ہے؟ دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا عہد جو ہم اکثر دہراتے ہیں صرف کھوکھلا عہد تو نہیں رہا۔
28۔ کیا اسلام کی محبت میں ہم نے اس حد تک بڑھنے کی کوشش کی ہے کہ اپنے مال پر اس کو فوقیت دی۔ اپنی عزت پر اس کو فوقیت دی۔ اور اپنی اولاد سے زیادہ اسے عزیز اور پیارا سمجھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خدا نے مجھے دین اسلام دے کر بھیجا ہے اور اسلام یہ ہے کہ تم اپنی پوری ذات کو اللہ تعالیٰ کے حوالے کر دو۔ دوسرے معبودوں سے دستکش ہو جاؤ۔ نماز قائم کرو اور زکوۃ دو۔
(کنز العمال جلد1 صفحہ152 کتاب الایمان والاسلام من قسم الافعال، فی فصل الثانی، فی حقیقۃ الاسلام حدیث نمبر1378دار الکتب العلمیۃ بیروت 2004)
29۔ کیا ہم اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی ہمدردی میں آگے بڑھنے کی کوشش کرنے والے ہیں یا کرتے رہے ہیں؟
30۔ کیا اپنی تمام تر استعدادوں کے ساتھ مخلوق خدا کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کرتے رہے ہیں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمام مخلوقات اللہ تعالیٰ کی عیال ہے۔
(المعجم الاوسط جزء4 صفحہ153 من اسمہ محمدحدیث نمبر5541 دار الفکر عمان 1999ء)
پس اللہ تعالیٰ کو اپنی مخلوقات میں سے وہ شخص بہت پسند ہے جو اس کے عیال کے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہے اور ان کی ضروریات کا خیال رکھتا ہے۔
31۔ کیا یہ دعا کرتے رہے اور اپنے بچوں کو بھی نصیحت کرتے رہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اطاعت کے معیار ہمیشہ ہم میں قائم رہیں۔ ہم ہمیشہ آپ کی اطاعت کرتے رہیں۔ اعلیٰ معیاروں کے ساتھ اور اس میں بڑھتے بھی رہیں۔
32۔ کیا ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے تعلق اخوّت اور اطاعت اس حد تک بڑھایا ہے کہ باقی تمام دنیوی رشتے اس کے سامنے ہیچ ہو جائیں، معمولی سمجھے جانے لگیں۔ پھر یہ سوال ہے کہ کیا ہم خلافت احمدیہ سے وفا اور اطاعت کے تعلق میں قائم رہنے اور بڑھنے کی دعا سال کے دوران کرتے رہے؟ کیا اپنے بچوں کو خلافت احمدیہ سے وابستہ رہنے اور وفا کا تعلق رکھنے کی طرف توجہ دلاتے رہے اور اس کے لئے دعا کرتے رہے کہ ان میں یہ توجہ پیدا ہو؟
33۔ کیا خلیفۂ وقت اور جماعت کے لئے باقاعدگی سے دعا کرتے رہے۔؟
آپ نے سورة بقرہ کی یہ دعا کثرت سے پڑھنے کی تلقین فرمائی
رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنۡیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الۡاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ (البقرہ: 202) اے ہمارے ربّ! ہمیں دنیا میں بھی حسنہ عطا کر اور آخرت میں بھی حسنہ عطا کر اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔
پس یہ وہ حقیقی مومن ہیں جو اللہ تعالیٰ سے دنیا کی حسنہ بھی مانگتے ہیں اور آخرت کی حسنہ بھی مانگتے ہیں۔ نئے سال کے شروع ہونے کی دعا میں صرف دنیاوی ترقیات ہی نہیں مانگتے بلکہ روحانی ترقی کے لئے بھی دعا کرتے ہیں۔ صرف اپنی بہتری کے لئے ہی نہیں سوچتے بلکہ دوسروں کے حقوق کی ادائیگی کے لئے بھی سوچتے اور دعا کرتے ہیں۔ پس تقویٰ پر چلنے والے اور حقیقی مومن جہاں دنیا کی حسنات کی تلاش میں ہوتے ہیں وہاں اللہ تعالیٰ سے آخرت کی حسنہ کے حصول کی بھی دعا کرتے ہیں تاکہ یہ ہر دو حسنات جو ہیں انہیں آگ کے عذاب سے بچائیں گے۔ یہ ایک ایسی جامع دعا ہے جو عارضی حسنات کے حصول کے لئے بھی سکھائی گئی ہے اور مستقل حسنات کے حصول کے لئے بھی سکھائی گئی ہے۔
(خطبہ جمعہ 30 دسمبر 2016ء)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی نئے سال پر دعائیں
سب سے پہلے تو مَیں آپ سب کو نئے سال کی مبارکباد دیتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے ہر احمدی کے لئے یہ سال اور آئندہ آنے والا ہر سال مبارک فرماتا چلا جائے۔ ہم ہر سال کی مبارکباد ایک دوسرے کو دیتے ہیں لیکن ایک مومن کے لئے سال اور دن اس صورت میں مبارک ہوتے ہیں جب وہ اس کی توبہ کی قبولیت کا باعث بن رہے ہوں اور اس کی روحانی ترقی کا باعث بن رہے ہوں، اس کی مغفرت کا باعث بن رہے ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے بھی ایک جگہ فرمایا ہے کہ اصل عید اور خوشی کا دن اور مبارک دن وہ ہوتا ہے جو انسان کی توبہ کا دن ہوتا ہے۔ اس کی مغفرت اور بخشش کا دن ہوتا ہے۔ جو انسان کو روحانی منازل کی طرف نشاندہی کروانے کا دن ہوتا ہے۔ جو دن ایک انسان کو روحانی ترقی کے راستوں کی طرف راہنمائی کر نے والا دن ہوتا ہے۔ جو دن حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف توجہ دلانے والا دن ہوتا ہے۔ جو دن اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اپنی تمام تر صلاحیتوں اور استعدادوں کو بروئے کار لانے کی طرف توجہ دلانے والا دن ہوتا ہے۔ جو دن اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کے لئے عملی کوششوں کا دن ہوتا ہے۔ پس ہمارے سال اور دن اُس صورت میں ہمارے لئے مبارک بنیں گے جب ان مقاصد کے حصول کے لئے ہم خالص ہو کر، اللہ تعالیٰ کی مدد مانگتے ہوئے، اس کے آگے جھکیں گے۔ اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔‘
(الفضل انٹرنیشنل جلد 17شمارہ 4مورخہ 22جنوری تا28جنوری2010 صفحہ5تا 8)
تم کو ایک نور دیا جائے گا
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’اے ایمان لانے والو! اگر تم متقی ہونے پر ثابت قدم رہو اور اللہ تعالیٰ کے لئے اتقاء کی صفت میں قیام اور استحکام اختیار کرو تو خداتعالیٰ تم میں اور تمہارے غیروں میں فرق رکھ دے گا وہ فرق یہ ہے کہ تم کو ایک نور دیا جائے گا جس نور کے ساتھ تم اپنی تمام راہوں میں چلو گے یعنی وہ نور تمہارے تمام افعال اور اقوال اور قویٰ اور حواس میں آجائے گا تمہاری عقل میں بھی نور ہوگا اور تمہاری ایک اٹکل کی بات میں بھی نور ہوگا اور تمہاری آنکھوں میں بھی نور ہوگا اور تمہارے کانوں اور تمہاری زبانوں اور تمہارے بیانوں اور تمہاری ہر ایک حرکت اور سکون میں نور ہوگا اور جن راہوں میں تم چلو گے وہ راہ نورانی ہوجائیں گی۔ غرض جتنی تمہاری راہیں تمہارے قویٰ کی راہیں تمہارے حواس کی راہیں ہیں وہ سب نور سے بھرجائیں گی اور تم سراپا نور میں ہی چلو گے تقوی ٰ سے جاہلیت ہرگز جمع نہیں ہوسکتی ہاں فہم اور ادراک حسب مراتب تقویٰ کم و بیش ہوسکتا ہے‘‘
(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 177-178)
(امۃ الباری ناصر۔ امریکہ)