اے نئے سال بتا، تجھ میں نیا پن کیا ہے؟
ہر طرف خلق نے کیوں شور مچا رکھا ہے
ہر احمدی کو نئے سال کے موقعہ پر جب وہ اپنے اردگرد لوگوں کو نئے سال کی خوشیاں مناتا دیکھتا ہے یا کسی کے یہ پوچھنے پر کہ تم نئے سال کو خوش آمدید کیسےکہتے ہو؟ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کا یہ واقعہ لازمی یاد آتا ہے۔ یہ ایک عملی اظہار ہے کہ ایک احمدی کو ہر موقع پر چاہے وہ کسی کو الوادع کہنا ہو یا خوش آمدید،کسی خوشی کو منانا ہو یا کسی غم سے دوچار ہو ہر حال میں اپنے سر کو اس خالق حقیقی کے آگے ہی جھکانا چاہیے۔ خوشی کے موقع پر سجدہِ شکر اور تکلیف کے وقت صبر اور دعا کے ساتھ اس رحمان ذات کو پکارنا اور اس سے مدد طلب کرنا۔
جماعت احمدیہ کینیڈا بھی بفضل تعالیٰ اُسی ذات پر یقین رکھتے ہوئے اسی کے آگے سر بسجود رہتی ہے۔ دسمبر میں جہاں ان ملکوں میں کرسمس کے تہوار کو منانے کی تیاریاں عروج پر ہوتی ہیں وہاں ہی نئے سال کو خوش آمدید کہنے کے لیے بھی تقاریب کا انعقاد ہوتا ہے جن کو نیو ائیر پارٹیز کا نام دیا جاتا ہے جہاں بارہ بجنے پر ہر طرح کا لغو اور بیہودہ کام جائز قرار دے دیا جاتا ہے۔ شراب اور مختلف ڈرگز کے زیر اثر ایسے ایسے کام کیے جاتے ہیں جو نہ صرف خود انکے لیے باعث تکلیف ہوتے ہیں بلکہ وہ دوسروں کو بھی اپنے اس عمل سے نقصان پہنچا رہے ہوتے ہیں۔ وہاں ہی جماعت احمدیہ کینیڈا کے ممبران بھی نیا سال منانے کی تیاری کرتے ہیں شعبہ تبلیغ کی طرف سے ہر سال جماعت کے پیار بھرے پیغام ’’محبت سب کے لیے نفرت کسی سے نہیں‘‘ اور دیگر نیک خواہشات کے اظہار کے ساتھ نئے سال کی مبارکباد کے کارڈز افرادِ جماعت کینیڈا کو موصول ہوتے ہیں جو وہ کیک، مٹھائی، چاکلیٹ یا کسی اور کھانے کی چیز اور اپنی حیثیت کے مطابق تحفے تحائف کے ساتھ اپنے ہمسائیوں، اپنے کام کرنے والی جگہوں پر،اپنے غیر ازجماعت دوستوں، اپنے بچوں کے اساتذہ اور انکے دوستوں کے گھروں میں بجھواتے ہیں۔ جن کا ان سب کے دلوں پر ایک اچھا اثر پڑتا ہے اور وہ اس عمل پر نہایت خوشی کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔
لجنہ ممبرات کی ٹیم بنائی جاتی ہے جو ان تمام اسکولوں میں جہاں احمدی بچے بچیاں زیر تعلیم ہوتے ہیں ان اسکولوں میں چھٹیاں ہونے سے قبل یہ تحفہ پہنچا کر آئیں۔ اور اپنی جماعت کا تعارف بھی کروایا جاتا ہے۔ جس سے ان لوگوں کو جماعت کے بارے میں جاننے کا شوق پیدا ہوتا ہے نیز ان سے مقامی جماعتوں کے اچھے روابط بھی پیدا ہوتے ہیں۔ شعبہ خدمت خلق کے تحت ان خواتین اور بچوں کے لیے جو گورنمنٹ کے زیر کفالت ہوتے ہیں انکے استعمال کی اشیاء اور بچوں کے لیے کھلونوں،کتابیں اور کھانے پینے کی اشیاء افراد جماعت سے جمع کر کے ان تک پہنچائی جاتی ہیں۔ جس پر وہ آرگنائزیشنز بے حد مشکور ہوتی ہیں۔افریقہ او دیگر غریب ممالک کے لیے بھی فنڈ ریزنگ کی جاتی ہے اور ان تک بھی تحائف بجھوائےجاتے ہیں۔
یکم جنوری کو صبح مساجد میں نمازِ تہجد کا اہتمام کیا جاتاہے۔ درس قرآن و حدیث ہوتا ہے۔ نماز فجر کے بعد تمام حاضرین کی خدمت میں ناشتہ پیش کیا جاتا ہے۔ اور اسکے بعد خدام الاحمدیہ اور اطفال الاحمدیہ کے رکن وقارِ عمل کے لیے قریبی شہروں کے ان حصوں کی صفائی کے لیے جاتے ہیں جہاں گزشتہ رات کو نئے آمدہ سال کی خوشی میں جمع ہونے والے لوگوں نے راستوں اور سڑکوں پر کوڑا کرکٹ پھینکا ہوتا ہے۔ اس طرح جماعت احمدیہ، جو کہ لوگوں کی روحانی صفائی کے لیے قائم کی گئی ہے، کے ارکان ظاہری صفائی کے قیام میں بھی اپنا حق ادا کرتے ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس ہدایت پر عمل پیرا ہوتے ہیں کہ:
صفائی نصف ایمان ہے۔
(صحیح مسلم، حدیث:223)
جماعت احمدیہ کینیڈا ہمیشہ فَاسْتَبِقُوْ الْخَیْرَاتِ پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ہر چھوٹی سے چھوٹی نیکی بھی بجا لانے کی کوشش کرتی ہے اور اپنے پیارے امام ایدہ اللہ تعالیٰ کی اس نصیحت پر عمل کرنے کی کوشش کرتی ہے جو آپ نے نئے سال کے خطبہ جمعہ کے موقع پر کی۔ حضور ایدہ اللہ فرماتے ہیں:
’’سال کا پہلا دن جمعہ کی وجہ سے مومن کے لئے تو اَور بھی اہم ہو گیا ہے کہ وہ اس دن کو اپنی دعاؤں سے سجاتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے، رات کو بھی اپنی عبادت سے زندہ کرتے ہوئے نئے سال کا استقبال کررہے ہیں جو انتہائی برکت والے دن سے شروع ہورہا ہے۔ جبکہ غیرمومن جس کو نہ جمعہ کی اہمیت کا علم ہے، نہ نئے سال کے استقبال کے طریقے کا پتہ ہے، اس کی صرف یہ غرض ہے کہ نئے سال کی پہلی رات اور گزرے سال کی آخری رات کو یہ وقت لہو و لعب، شور شرابا اور شراب کے جام پہ جام چڑھانے میں گزارنا ہے۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ یکم جنوری 2010ء)
پھر اسی خطبے میں آپ ہمیں دین و دنیا کی حسنات طلب کرنے کی دعا مانگنے کی نصیحت کرتے ہیں۔
آپ فرماتے ہیں:
وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ یَّقُوۡلُ رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنۡیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الۡاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ
(البقرہ: 202)
ترجمہ : اور انہی میں سے وہ بھی ہیں جو کہتے ہیں اے ہمارے ربّ! ہمیں دنیا میں بھی حسنہ عطا کر اور آخرت میں بھی حسنہ عطا کر اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔
پس یہ وہ حقیقی مومن ہیں جو اللہ تعالیٰ سے دنیا کی حسنہ بھی مانگتے ہیں اور آخرت کی حسنہ بھی مانگتے ہیں۔ نئے سال کے شروع ہونے کی دعا میں صرف دنیاوی ترقیات ہی نہیں مانگتے بلکہ روحانی ترقی کے لئے بھی دعا کرتے ہیں۔ صرف اپنی بہتری کے لئے ہی نہیں سوچتے بلکہ دوسروں کے حقوق کی ادائیگی کے لئے بھی سوچتے اور دعا کرتے ہیں۔ پس تقویٰ پر چلنے والے اور حقیقی مومن جہاں دنیا کی حسنات کی تلاش میں ہوتے ہیں وہاں اللہ تعالیٰ سے آخرت کی حسنہ کے حصول کی بھی دعا کرتے ہیں تاکہ یہ ہر دو حسنات جو ہیں انہیں آگ کے عذاب سے بچائیں۔ یہ ایک ایسی جامع دعا ہے جو عارضی حسنات کے حصول کے لئے بھی سکھائی گئی ہے اور مستقل حسنات کے حصول کے لئے بھی سکھائی گئی ہے۔ اللہ کرے کہ ہم ہمیشہ اپنے امام کے کامل اطاعت گزار رہیں اور سال کے ہر دن کو خدا تعالیٰ کی رضا کی راہوں پر چلتے ہوئے گزارنے والے ہوں۔ خدا تعالیٰ ہمیں ہر طرح کی لغویات اور بیہودگیوں سے بچا کر رکھے۔ ہماری اولاد در اولاد تقویٰ کی راہوں پر قدم مارنے والی ہو۔ آمین اللھم آمین
حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ رضی اللہ عنہا کے اس دعائیہ شعر کے ساتھ اپنا نیا سال شروع کرتے ہیں۔ جو آپ نے اپنے بزرگ شوہر کی فرمائش پر اُن کے نئے سال کے کیلنڈر پر لکھنے کے لیے تحریر کیا تھا۔ جس کو وہ ہمیشہ نئے سال کے کیلنڈر کے سرورق پر لکھتے تھے۔ اور اکثر احمدی گھروں میں بھی نئے سال کے کیلنڈر پر یہ شعر لکھا دکھائی دیتا ہے۔ میری والدہ بھی ہمیشہ یہ شعر اپنے کیلنڈر پر لکھا کرتی ہیں۔
فضلِ خدا کا سایہ ہم پر رہے ہمیشہ
ہر دن چڑھے مبارک ہر شب بخیر گزرے
اَللّٰهُمَّ أَدْخِلْهُ عَلَيْنَا بِالْأَمْنِ وَالْإِيمَانِ، وَالسَّلَامَةِ وَالْإِسْلَامِ، وَرِضْوَانٍ مِّنَ الرَّحْمَنِ، وَجِوَارٍ مِّنَ الشَّيْطَانِ۔
ترجمہ: اےاللہ اس چاند کو ہمارے اوپر امن، ایمان، سلامتی اور اسلام کے ساتھ اور رحمن کی رضامندی اور شیطان کے بچاؤ کے ساتھ داخل فرما۔ آمین ثم آمین
یا رب! یہی دُعا ہے ہر کام ہو بخیر
اکرام لازوال ہو انعام ہو بخیر
ہر وقت عافیت رہے ہر گام ہو بخیر
آغاز بھی بخیر ہو، انجام ہو بخیر
(صدف علیم صدیقی۔ ریجائنا،کینیڈا)