• 29 اپریل, 2024

خُلق کى اصلاح ممکن ہے

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
’’یہ سچ ہے کہ سب انسان ایک مزاج کے نہیں ہوتے۔اسی لئے قرآن شریف میں آیا ہے کُلٌّ یَّعْمَلُ عَلٰی شَا کِلَتِہٖ (بنی اسرائیل : 85) بعض آدمی ایک قسم کے اخلاق میں اگر عمدہ ہیں، تو دوسری قسم میں کمزور ۔ اگر ایک خلق کا رنگ اچھا ہے تو دوسرے کا برا۔لیکن تا ہم اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اصلاح ناممکن ہے۔

خلق سے ہماری مراد شیریں کلامی ہی نہیں بلکہ خَلق اور خُلق دو الفاظ ہیں۔ آنکھ، کان، ناک وغیرہ جس قدر اعضاء ظاہری ہیں جن سے انسان کو حسین وغیرہ کہا جاتا ہے۔یہ سب خَلق کہلاتے ہیں اور اس کے مقابل پر باطنی قویٰ کا نام خُلق ہے۔مثلاً عقل، فہم، شجاعت،عفت، صبر وغیرہ اس قسم کے جس قدر قویٰ سرشت میں ہوتے ہیں وہ سب اسی میں داخل ہیں اور خُلق کو خَلق پر اس لئے ترجیح ہے کہ خَلق یعنی ظاہری جسمانی اعضاء میں اگر کسی قسم کا نقص ہو تو وہ ناقابل علاج ہوتا ہے۔مثلاً ہاتھ اگر چھوٹا پیدا ہوا ہے تو اس کو بڑا نہیں کر سکتا،لیکن خُلق میں اگر کوئی کمی بیشی ہو تو اس کی اصلاح ہو سکتی ہے۔
ذکر کرتے ہیں کہ افلاطون کو علم فراست میں بہت دخل تھا اور اس نے دروازہ پر ایک دربان مقرر کیا ہوا تھا۔

جسے حکم تھا کہ جب کوئی شخص ملاقات کو آوے،تو اول اس کا حلیہ بیان کرو۔ اس حلیہ کے ذریعے وہ اس کے اخلاق کا حال معلوم کر کے پھر اگر قابل ملاقات سمجھتا تو ملاقات کرتا؛ورنہ ردّ کردیتا۔ ایک دفعہ ایک شخص اس کی ملاقات کو آیا۔دربان نے اطلاع دی۔ اس کے نقوش کا حال سنکر افلاطون نے ملاقات سے انکار کر دیا۔ اس پر اس شخص نے کہلا بھیجا کہ افلاطون سے کہہ دو کہ جو کچھ تم نے سمجھا ہے۔بالکل درست ہے۔مگر میں نے قوت مجاہدہ سے اپنے اخلاق کی اصلاح کرلی ہے۔ اس پر افلاطون نے ملاقات کی اجازت دے دی۔پس خُلق ایسی شئے ہے جس میں تبدیلی ہو سکتی ہے۔ اگر تبدیلی نہ ہوسکتی تو یہ ظلم تھا،لیکن دعا اور عمل سے کام لو گے،تب اس تبدیلی پر قادر ہو سکو گے۔عمل اس طرح سے کہ کوئی شخص ممسک ہے تووہ قدرے قدرے خرچ کرنے کی عادت ڈالے اور نفس پر جبر کرے۔ آخر کچھ عرصہ کے بعد نفس میں ایک تغیر عظیم دیکھ لے گا اور اس کی عادت امساک کی دور ہو جاوے گی۔ اخلاق کی کمزوری بھی ایک دیوار ہے جو خدا اور بندے کے درمیان حائل ہو جاتی ہے۔

(ملفوظات جلد چہارم ص 100

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 20 جنوری 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 جنوری 2020