• 29 اپریل, 2024

ہمارے آقاؐ شُکرگزاری کے مظہرِ اتم

آنحضرتؐ کی ذات میں وہ تمام صفات کاملہ اور اخلاق حمیدہ جمع تھے جن کا انسانی سوچ احاطہ کر سکتی ہے۔ انہی صفات میں سے ایک صفت شکر گزاری ہے۔ نبی کریم ﷺپنے رب کی صفت شکور کے مظہر اتم تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر احسان کی قدر اور اس پر شکریہ کے جذبات آپﷺ کی ذات مبارک کا کمال خاصہ تھا۔

شکر کے اظہار کے لئے دعائیں

آنحضرت ﷺ ہر وقت، ہرلمحہ اس تلاش میں رہتے تھے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا جائے اور یہ دعا کیا کرتے تھے کہ
اے میرے اللہ! تو مجھے اپنا شکر بجالانے والا اور بکثرت ذکر کرنے والا بنادے۔

(سنن ابوداؤد کتاب الوتر باب ما يقول الرجل اذاسلم)

اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر

آپﷺ اللہ تعالیٰ کی ہر چھوٹی سے چھوٹی نعمت کابھی شکر ادا کرتے تھے۔ روایت میں آتا ہے کہ پہلی بارش پر اُس کے قطرے زبان پر لیا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے اور شکر گزاری کا طریقہ یہی ہے کہ اس کو اپنے اوپر لیا جائے یا اس کو چکھا جائے ۔ اسی طرح کھانے کے بعد الله تعالیٰ کا شکر ادا کرنا معمول تھا۔ اکثر یہ ہوتا تھا کہ سرکہ سے یا پانی کے ساتھ ہی روٹی تناول فرمالیا کرتے تھے اور اس پر بھی اللہ تعالی ٰکا بے انتہا ء شکر ادا کیا کرتے تھے۔

(سنن ابوداؤد کتاب الاطعمة باب ما يقول الرجل اذا طعم)

پھر جب نیا کپڑا پہنتے تو اسے پہن کر بھی الله تعالیٰ کا شکر ادا کرتے اور اس کے بداثرات سے بچنے کی دعا مانگا کرتے تھے۔

(ترمذی – کتاب اللباس باب ما یقول اذالبس ثوبا جديدا)

عبادتوں کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا شکر گزاربننا

آپ ﷺنے اللہ تعالیٰ کی عبادتوں کے اعلی معیار اس لئے قائم فرمائے کہ اس کا شکر گزار بنده بنوں حضرت عائشہ روایت کرتی ہیں کہ
آپﷺ رات کو نماز پڑھتے وقت اس قدر لمبا قیام فرماتے تھے کہ اس کی وجہ سے آپؐ کے پاؤں سوج جایا کرتے تھے۔ اس پر ایک صحابیؓ نے پوچھا کہ یا رسول اللہ ﷺ کیا آپ کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ آپؐ کے سارے گناہ بخشے گئے ہیں۔ پہلے بھی اور بعد کے بھی تو اب بھی اتنا لمبا قیام فرماتے ہیں؟ تو آپ ﷺنے فرمایا کیا میں خدا کا عبد شکور نہ بنوں جس نے مجھ پر اتنا احسان کیا ہے۔ کیا میں اس کا شکریہ ادا کرنے کے لئے نہ کھڑا ہوا کروں۔

(بخاری کتاب التفسير سورة الفتح)

اپنے رب کے حضور سجدہ شکر

حضرت سعدؓ بن ابی وقاص سے روایت ہے کہ ہم آنحضرتﷺ کے ساتھ مکّہ سے مدینہ واپس لوٹ رہے تھے جب ہم عزوراء مقام پر پہنچنے تو آنحضور ﷺنے دعا کے لئے ہاتھ اُٹھائےاور کچھ دیر دعا کی ۔پھر حضور ﷺ سجدہ میں گر گئےاور بڑی دیر تک سجدہ میں رہےپھر کھڑے ہوئے اور ہاتھ اُٹھا کر دُعا کی۔پھر سجدہ میں گر گئے۔ آپ نے تین دفعہ ایسا کیا۔ پھر آپﷺ نے فرمایا کہ میں نے اپنے رب سے یہ دعا مانگی تھی اور اپنی امت کیلئے شفاعت کی تھی تو اللہ تعالیٰ نے میری امت کی ایک تہائی کی شفاعت کی اجازت دے دی۔ میں اپنے رب کا شکرانہ بجالانے کیلئے سجدہ میں گر گیا اور سر اٹھا کر پھر اپنے رب سے امت کیلئے دعا کی تو الله تعالیٰ نے مجھے مزید ایک تہائی امت کی شفاعت کی اجازت فرمائی۔ پھر میں شکرانہ کا سجدہ بجا لایا۔ پھر سر اٹھایا اور امت کیلئے اپنے رب سے دعا کی ۔ تب اللہ تعالی ٰنے میری امت کی تیسری تہائی کی بھی شفاعت کے لئے مجھے اجازت عطا فرما دی اور میں اپنے رب کے حضور سجدہ شکر بجا لانے کے لئے گر گیا۔

(سنن ابو داؤد کتاب الجهاد باب فی سجود الشكر)

شکر گزاری کے خُلق میں دوسروں کےساتھ

اسی طرح رسول کریم ﷺ اگر شکر گزاری کے خلق کو غیرقوموں میں بھی دیکھتے تو اس پر بھی عمل کرنے کی کوشش فرماتے تا کہ اللہ تعالیٰ کے شکر اداکرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جائے۔ چنانچہ حضرت ابو ہریرہ ؓروایت کرتے ہیں کہ نبی کر یم ﷺ کچھ ایسے یہودیوں کے پاس سے گزرے جنہوں نے یوم عاشورہ کا روزہ رکھا ہوا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے ان سے دریافت فرمایا یہ کیسا روزہ ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ آج کے دن ہی اللہ نے موسیٰ اور بنی اسرائیل کو غرق ہونے سے بچایا تھا اور اس روز فرعون غرق ہوا تھا، نوحؑ کی کشتی جودی پہاڑ پر رُکی تھی۔ نوحؑ اور موسیٰ ؑنے اللہ تعالیٰ کے شکرانے کے طور پر اس دن روزہ رکھا تھا۔ اس پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا میں موسیٰ کے ساتھ تعلق کا سب سے زیادہ حقدار ہوں اور اسی وجہ سے اس دن روزہ رکھنے کا بھی میں زیادہ حقدار ہوں ۔ پھر حضور ﷺنے خود بھی روزہ رکھا اور اپنے صحابہ کو بھی عاشورہ کا روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔

(مسند احمد بن حنبل جلد 2 صفحہ 359)

فتح مکہ کے موقع پر آپﷺ کی کمال شکرگزاری

آپﷺ کی شکر گزاری کی ایک منفرد مثال اس وقت قائم ہوئی جب آپؐ ایک فاتح کی حیثیت سے الله تعالیٰ کی حمد کرتے ہوئے مکہ میں داخل ہوئے۔
روایت میں آتا ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر جب رسول اللہؐ ذی طویٰ مقام پر پہنچے تو سرخ یمنی کپڑے کا عمامہ باندھے اپنی سواری پر ٹھہر گئے ۔ آنحضور ﷺنے جب دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو فتح دے کر آپ کی کس قدر عزت افزائی کی فرمائی ہے تو آپ ﷺنے تواضع اور شکر گزاری سے اپنا سر اس قدر جھکایا کہ یوں لگتا تھا کہ آپ ﷺکی ریش مبارک سواری کے کجاوے سے چھوجائے گی۔

(السيرة النبویۃ لابن هشام ذکر فتح مكۃ وصول النبجانی ذی طوی)

بندوں کے لئے شکر گزاری

ضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ
رسول کریم ﷺ اکثر حضرت خدیجہؓ کا بڑے اچھے اور تعریفی انداز میں ذکر فرمایا کرتےتھے۔ ایک روز میں نے اس بات سے غیرت کھاتے ہوئے کہا کہ آپ ﷺکیا ہر وقت اس بڑھیا کا ذکر کرتے رہتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس سے بہتر بیویاں عطا کیں۔ اس پر حضور ﷺنے فرمایا کہ
جب لوگوں نے مجھے جھٹلایا تو انہوں نے مجھے قبول کیا۔ جب لوگوں نے میرا انکار کیا تو وہ ایمان لائیں ۔ جب لوگوں نے مجھے مال سے محروم کیا تو انہوں نے اپنے مال سے میری مدد کی اور اللہ نےانہیں سے مجھے اولا د بھی عطافرمائی۔

(مسند احمد بن حنبل جلد 6صفحہ 118)

ہر احسان کا احسن رنگ میں بدلہ دینا

انسانوں میں سے کسی کے احسان کو آپﷺ نے بغیر بدلہ کے نہیں چھوڑا۔ جب نجاشی کا وفد رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو رسول کریم ﷺ ان کے استقبال کے لئے خود کھڑے ہوئے اور آپ ﷺکے صحابہ نے عرض کی کہ یارسولاللہﷺ ہم کافی ہیں ۔ آپﷺ نے فرمایا وہ ہمارے ساتھیوں کے ساتھ بڑے اخلاق سے پیش آتے تھے۔ بڑی عزت کی تھی اور ان کو اپنے پاس رکھا تھا۔ تو میں پسند کرتا ہوں کہ ان کے اس احسان کا بدلہ خود اتاروں۔

(السيرة الحلبية باب ذكر مغازی ﷺ غزوة خيبر)

قرض کی احسن طریق پرادا ئیگی کرنا

اسی طرح شکرگزاری کا ایک پہلو جس کو آپﷺ نے اپنے اُسوہ سے قائم فرمایا کہ جنہوں نے قرض لیا ہوا ہے وہ جب واپس کریں تو احسن طریق سے واپس کریں۔فرمایا قرض دینے کا بدلہ شکریہ کے ساتھ ادائیگی ہے۔

(سنن النسائی کتاب البيوع باب الاستقراض)

سب سے بڑھ کر عبدِ شکور

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز آپﷺ کی شکرگزاری کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’آنحضرت ﷺ ہر وقت، ہر لمحہ اس تلاش میں رہتے تھے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا جائے۔ کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتے تھے جس میں خدا تعالی ٰکے حضور شکر کے جذبات کے ساتھ دعانہ کی ہو۔ آپ ﷺکی ہر وقت کوشش رہتی تھی کہ سب سے بڑھ کر عبد شکور بنیں۔
پس شکر گزاری کے جذبات ہی ہیں جو گناہوں کی بخشش کے بھی سامان کرتے ہیں اور پھر اس وجہ سے مزید نیکیاں کرنے کی توفیق بھی پیدا ہوتی ہے۔‘‘

اللہ تعالیٰ ہمیں آنحضرت ﷺ کے اسوہ پر چلتے ہوئے اپنا شکر گزار بندہ بنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

(ماہنامہ خالد جولائی 2016ء)

(ابو عثمان)

پچھلا پڑھیں

اوقات سحر و افطار

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 جنوری 2020