• 29 اپریل, 2024

عبادت استعانت اور ہدایت کے طریق

ہم ہر نماز میں کہتے ہیں:

اِیَّاکَ نَعۡبُدُ…

(الفاتحہ:5)

ترجمہ:تیری ہی ہم عبادت کرتے ہیں…
اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ ہم صرف اللہ کی عبادت کرتے ہیں تو پھر ہمیں اُس کا شکر ادا کرتے رہنا چاہئے۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُلُوۡا مِنۡ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقۡنٰکُمۡ وَ اشۡکُرُوۡا لِلّٰہِ اِنۡ کُنۡتُمۡ اِیَّاہُ تَعۡبُدُوۡنَ

(البقرہ:273)

ترجمہ:اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جو رزق ہم نے تمہیں دیا ہے اس میں سے پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور اللہ کا شکر ادا کرو اگر تم اسی کی عبادت کرتے ہو۔
اور اُس کا شکر ادا کرنے کے لئے ہمیں اللہ کی عبادت کرنی چاہئے۔

بَلِ اللّٰہَ فَاعۡبُدۡ وَ کُنۡ مِّنَ الشّٰکِرِیۡنَ

(الزمر:67)

ترجمہ:بلکہ اللہ ہی کی عبادت کر اور شکرگزاروں میں سے ہو جا۔

حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ اس قدر عبادت کرتے تھے کہ آپ ﷺ کے پاؤں سوج جایا کرتے تھے۔ میں نے کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ آپ اس قدر مشقت کیوں کرتے ہیں جبکہ آپ کے اگلے پچھلے سب گناہ معاف کردئیے گئے ہیں تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ کیا میں اللہ کا شکرگزار بندہ نہ بنوں؟

(بخاری کتاب التفسیر۔ سورۃ الفتح)

مطلب یہ کہ اگر ہم صرف اللہ ہی کی عبادت کرتے ہیں تو ہمیں اُس کا شکرگزار بندہ بننا چاہئے اور اُس کا شکر ادا کرنے کے لئے ہمیں صرف اُسی کی عبادت کرنی چاہئے
پھر ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ

وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ …

(الفاتحہ:5)

ترجمہ: اور تجھی سے ہم مدد چاہتے ہیں۔

لیکن یہ نہیں جانتے کہ استعانت یعنی مدد کیسے طلب کرنی ہے۔ اس کا طریقہ بھی اللہ تعالیٰ نے قرآن میں سکھادیا ہے جب فرمایا:

وَ اسۡتَعِیۡنُوۡا بِالصَّبۡرِ وَ الصَّلٰوۃِ وَ اِنَّہَا لَکَبِیۡرَۃٌ اِلَّا عَلَی الۡخٰشِعِیۡنَ

(البقرہ:46)

ترجمہ: اور صبر اور نماز کے ساتھ مدد مانگو اور یقیناً یہ عاجزی کرنے والوں کے سوا سب پر بوجھل ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہم یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم کسی اور سے نہیں بلکہ صرف اور صرف اللہ سے ہی مدد چاہتے ہیں تو پھر ہمیں پنج وقتہ نمازوں اور استقامت یعنی صبر پر عمل کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنی چاہئے۔ جو شخص نماز ادا نہ کرے اور مستقل مزاجی سے کام نہ لے اس کا صرف اللہ سے مدد مانگنے کا دعویٰ درست نہیں ہے۔

اسی طرح ہم یہ دعا مانگتے ہیں:

اِھۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ

(الفاتحہ:6)

صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ

(الفاتحہ:7)

ہمیں سیدھے راستہ پر چلا ۔ ان لوگوں کے راستہ پر جن پر تُو نے انعام کیا ۔ جن پر غضب نہیں کیا گیا اور جو گمراہ نہیں ہوئے۔
عام طور پر اس ضمن میں سورۃ النساء کی آیت 70 کا حوالہ دیا جاتا ہے جس میں انعام یافتہ لوگوں کو درجہ بدرجہ بیان کیا گیا ہے۔

وَ مَنۡ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ الرَّسُوۡلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمَ اللّٰہُ عَلَیۡہِمۡ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیۡقِیۡنَ وَ الشُّہَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیۡنَ ۚ وَ حَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیۡقًا

(النساء:70)

ترجمہ: اور جو بھی اللہ کی اور اِس رسول کی اطاعت کرے تو یہی وہ لوگ ہیں جو اُن لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام کیا ہے (یعنی) نبیوں میں سے، صدیقوں میں سے، شہیدوں میں سے اور صالحین میں سے اور یہ بہت ہی اچھے ساتھی ہیں۔

لیکن جس اہم امر کو فراموش کردیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں انعام یافتہ لوگوں کے اس راستہ یعنی صراطِ مستقیم کی طرف کیسے چلائے گا، اور یہ کہ اس کے لئے ہمیں کیا کرنا چاہئے۔ اس اہم امر کو اللہ تعالیٰ نے سورۃ النساء کی آیت۔70 سے، جس میں انعام یافتہ گروہ کا ذکر ہے، چند آیات پہلے بیان کیا ہے اور بتایا ہے کہ صراطِ مستقیم کی طرف رہنمائی کن لوگوں کو مل سکتی ہے۔

وَ لَوۡ اَنَّا کَتَبۡنَا عَلَیۡہِمۡ اَنِ اقۡتُلُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ اَوِ اخۡرُجُوۡا مِنۡ دِیَارِکُمۡ مَّا فَعَلُوۡہُ اِلَّا قَلِیۡلٌ مِّنۡہُمۡ ؕ وَ لَوۡ اَنَّہُمۡ فَعَلُوۡا مَا یُوۡعَظُوۡنَ بِہٖ لَکَانَ خَیۡرًا لَّہُمۡ وَ اَشَدَّ تَثۡبِیۡتًا

(النساء:67)

وَّ اِذًا لَّاٰتَیۡنٰہُمۡ مِّنۡ لَّدُنَّـاۤ اَجۡرًا عَظِیۡمًا

(النساء:68)

وَّ لَہَدَیۡنٰہُمۡ صِرَاطًا مُّسۡتَقِیۡمًا

(النساء:69)

اور اگر ہم نے ان پر یہ فرض کر دیا ہوتا کہ تم اپنے نفسوں کو قتل کرو یا اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہو تو ان میں سے چند ایک کے سوا کوئی ایسا نہ کرتا۔ اور اگر وہ وہی کرتے جس کی انہیں نصیحت کی جاتی ہے تو یہ ان کے لئے بہت بہتر ہوتا اور ان کے ثباتِ قدم کے لئے ایک مضبوط ذریعہ ثابت ہوتا۔ اور ایسی صورت میں ہم ضرور انہیں اپنی جناب سے بڑا اجر عطا کرتے۔ اور ہم ضرور انہیں سیدھے رستے کی طرف ہدایت دیتے۔

اِن آیات میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر مؤمنین اللہ تعالیٰ کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے اپنی نفسانی خواہشات کا گلا گھونٹیں اور اپنے گھروں سے باہر نکلیں تو اللہ تعالیٰ ضرور انہیں اجر عظیم عطا کرے گا اور انہیں صراطِ مستقیم کی طرف رہنمائی کرے گا۔مطلب یہ کہ ہمیں نماز میں یا نماز کے علاوہ بھی محض زبان سے ’’ہمیں صراطِ مستقیم دکھا‘‘ کہنے سے صراطِ مستقیم یعنی انبیاء، صدیقوں، شہداء، اور صالحین کا راستہ نہیں مل سکتا بلکہ ہمیں اپنی نفسانی خواہشات کو قتل کرکے یعنی دینی ضروریات کو اپنی ذاتی اور بیوی بچوں کی ضروریات پر فوقیت دے کر، سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اور آپ کی زیرِسربراہی اور زیرانتظام چلنے والے نظامِ جماعت کی طوعًا یعنی نہایت خوشدلی سے مکمل اور غیرمشروط اطاعت کرکے، غیروں کے سامنے اپنا حُسنِ کردار دکھا کر اور گھروں کے آرام کو تج کر خدمتِ دین یعنی تبلیغ کے لئے سردی گرمی آندھی، طوفان اوربرفباری وغیرہ کی پرواہ نہ کرتے ہوئے باہر نکلنا چاہئے۔ ایسے لوگوں سے ہی اجرِ عظیم اور صراطِ مستقیم کی طرف رہنمائی کا وعدہ کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس پر عمل کرنے کی توفیق اور اس کے نتیجہ میں اجرعظیم اور صراط مستقیم کی طرف ہدایت عطا فرمائے۔ آمین!

(انصر رضا۔ٹورنٹو، کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

اوقات سحر و افطار

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 جنوری 2020