• 30 اپریل, 2024

ڈاکٹر عبدالسلام (نوبیل لارئیٹ) کے متعلق برطانوی استاد سرفریڈرک ہوئیل کے تاثرات

سرفریڈرک ہوئیل کا شمار بیسویں صدی کے معروف آسٹرونومر میں کیا جاتا ہے۔ انہوں نے سب سے پہلے بگ بینگ کی سائنسی اصطلاح سے دنیا کو متعارف کیا۔ اُن کا نام سائنس فکشن رائٹر کی حیثیت سے بھی مغربی ممالک میں زبان زدِ عام ہے۔ اُن کے بعض خیالات سائنسدانوں کی عام روش سے ہٹ کر بہت عجیب قسم کے تھے۔ مثلاً 1990ء میں ایک مضمون شہرہ ٔآفاق رسالہ نیچر میں شائع ہوا جس کے مطابق سورج کے اندر سن سپاٹس کی و جہ سے زمین پر انفلوئنزا گاہے بگاہے پھیلتا ہے۔ اُن کا یقین تھا کہ سپیس مختلف قسم کی وائرسز سے بھری پڑی ہے۔ جو سن سپاٹس کی و جہ سے زمین پر پہنچ جاتی ہیں 1958ء میں انہوں نے یہ انوکھی مگر حیران کُن دریافت کی کہ انسانی جسم کے اندر ہیوی کیمیکل ایلیمنٹ جیسے آکسیجن کاربن اور آئرن جو موجود ہیں وہ بڑے بڑے ستاروں کے پھٹنے سے زمین پر آئے تھے۔ گویا ہم لوگ سٹار ڈسٹ سے بنے ہیں ۔ زندگی کے آخری ایام تک وہ کائنات کی سٹڈی سٹیٹ تھیوری کے قائل تھے۔ جس کے مطابق کائنات کا کوئی معین آغاز نہ تھا۔ اُن کی کتابوں سے The Alchemy of Love اور A for Andromeda بہت مشہور ہیں۔ مؤخر الذکر کتاب پر ٹیلیویژن سیریز بھی بنائی گئی۔ ان کی آٹوبائیوگرافی A Home where the wind blows بہت دلچسپ کتاب ہے۔ ان کی پیدائش 1915ء میں یارکشائر میں ہوئی۔ وہ کیمبرج یونیورسٹی میں سینٹ جانز کالج میں عرصہ دراز تک پروفیسر رہے۔ 1972ء میں اُن کو سر کا خطاب دیا گیااُن کی وفات 23۔اگست 2001ء کو برطانیہ میں ہوئی۔ جب ڈاکٹر عبدالسلام بطور طالب علم سینٹ جانز کالج میں آئے تو سر فریڈرک ہوئیل اُن کے استاد مقرر ہوئے۔ مندرجہ ذیل مضمون انہوں نے ڈاکٹر سلام کی وفات پر لکھا جو کالج کے رسالہ The Eagle میں شائع ہوا۔

وہ لکھتےہیں:
مجھے پختہ یقین نہیں لیکن میرا اندازہ ہے کہ عبدالسلام سینٹ جانز کالج1947-48ءمیں عین اس وقت طالبعلم بن کر پہنچا جب اس وقت غیر معمولی قسم کی سردی کے موسم کا دور دورہ تھا اس سرد موسم کا صحیح اندازہ کرنا کہ وہ کتنا ناموافق تھا یا اس کا محض تصور کرنا اس وقت تک محال ہے جب تک انسان نے جنگِ عظیم دوئم کے بعد کے سالوں کا خود تجربہ نہ کیا ہو۔ ہمارے وزیرِ اعظم ونسٹن چرچل نے تو ہمیں دھوپ بھرے علاقوں کے سہانے سپنے دکھلائے تھے مگر ہوا اس کے برعکس یعنی-48 1947ءکا بدترین موسم سرما۔ میری رہائش سینٹ جانز کالج میں نیوکورٹ والے حصے میں تھی جو اجتماعی رائے عامہ کے مطابق کالج کا بدترین حصہ تھا اس حصہ میں عمارتیں نصف انیسویں صدی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ڈیزائن کی گئی تھی۔ اُن کے اندر کمروں میں بڑی بڑی فائر پلیسز اور وسیع و عریض چمنیاں تھیں جو کوئلہ بُرے طریق سے ہڑپ کرتی تھی تا بوائلر رومزکو مہیا کیا جا سکے۔ جو اکیڈمک انجن کو سٹیم مہیا کرتا تھا اُس کا ڈیزائن ایسا تھاکہ صبح کے وقت کالج کو روشن کرتا تھا پھر دن کے وقت بھی یہ سلسلہ متواتر جاری رہتا۔ مگر یہ کام-48 1947ءکے سالوں میں جاری نہ رہ سکا۔ اگر ہم اس سردی کے موسم میں آگ جلانا چاہتے تو یہ کام خود کرنا پڑتا تھا۔ بلکہ آگ جلانے کے سامان کو بھی خود ہی مہیا کرنا ہوتا تھا۔ ہاں اگر کوئلہ ختم ہوجاتا تو یہ کام جاری نہ رہتا۔ طلبہ کو 18 نیو کورٹ میں سپروائزکرنے کے لئے پورے ہفتے کاراشن کوئلوں کا ایک بیگ ہوتاتھا۔ اوپر بیان کردہ تکلیف کے برخلاف ہمارے لئے ایک عیاشی والی بات ہوتی تھی کہ کالج میں ریاضی کی تعلیم کے لئے ابھی بھی چار لیکچرار ہوتے تھے۔ Peter and white smithes اور pure mathکے لئے howarth کے ساتھ میں applied math کیلئے مقرر تھے۔ howarth کا کمرہ میرے ساتھ ملحقہ تھا جو سیڑھیوں کے قریب تھا۔اس کاکمرہ میرے کمرہ سے فنی اور تکنیکی اعتبار سے بہت ایڈوانس تھا کیونکہ اس کے اندر فائر پلیس کو بلاک کر دیا تھا۔ اس کی جگہ کمرہ کے اندر گیس فائر تھی جو طلباء اس کے کمرہ میں کوچنگ کے لئے آتے تھے ان کی خاطر تواضع اس گیس فائر سے کی جاتی تھی۔ کمرہ کے باہر درجہ حرارت -20متواتر رہنے لگا تھا اور میرے کمرہ کے اندر گیس فائر کا کوئی انتظام نہ تھاچنانچہ خود کو گرم رکھنے کے لئے طلبا کو میرے کمرہ میں جو نظر آتا وہ اپنے اوپر اوڑھ لیتے۔ دوسری اشیاء کی طرح جنگ کے بعدپہننے کے کپڑے بھی راشن پر ملتے تھے۔ چنانچہ اس کا مطلب یہ تھا کہ انسان کا ہاتھ جس کپڑے پر پڑتا وہ اسے دبوچ لیتا۔ چاہے وہ لباس کتناہی فرسودہ ہی کیوں نہ ہو۔ پھر میرے طلبا نے یہ بات خوب جان لی کہ جو ملتاہے پہن لو کیونکہ ہم تو وہاں کائنات کے لاینحل مسائل کا حل تلاش کرنے کے مقصد سے جمع ہوتے تھے۔

سیبوں پر گزارا

یہ وہ صورتحال جس میں عبدالسلام کیمبرج پر وارد ہوا آئندہ زندگی میں اس کو ملنے والی کامیابیوں کی ایک و جہ یہ تھی کہ اس نے ایسے دشوار حالات میں زندہ رہنا ممکن بنا لیا تھا۔ عبدالسلام انڈیا میں ریاضی کی ڈگری پہلے ہی حاصل کر چکے تھے جو کہ اس وقت کا دستور تھا۔ پاکستان قریب قریب اسی دور میں بنا جب سلام کیمبرج روانہ ہوا تھا ۔ گرم علاقے سے سرد علاقے کی طرف جاتے ہوئے سرد موسم کا ضرور سوچا ہو گا۔لیکن انڈیا میں اچھا کھانا کھاتے ہوئے اس ملک میں کھانا نہ ملنے کا وہم و گمان بھی نہ تھا۔ چنانچہ کالج میں آمد پر اس کی فوڈ راشن بک آتے ہی ختم ہو چکی تھی۔ اس پہلے موسم سرما میں اس نے سیب کھا کھا کر گزارہ کیا۔ کیونکہ مارکیٹ میں صرف سیب ہی کوپن کے بغیر خریدے جا سکتے تھے شاید آلو بھی خریدے جا سکتے تھے مگر شاید وہ آلو پکانا نہیں جانتا تھا میں مذاق نہیں کر رہا۔ یقین کریں52ء1951- ء تک ہمارا ہفتہ وار پنیر کا راشن ایک اونس ہوتا تھا لوگ قطار میں کھڑے ہو کر پنیر کیوں لینا چاہتے تھے اس سے انگریز قوم کے مزاج کی کوئی خاص تعریف نہیں ہوتی۔ ریاضی کے شعبہ میں کالج کا سینئر لیکچرار ہونے کی بنا پر اس بات کی ذمہ داری کے طلبا کو کس گروپس میں بانٹا جائے یہ پیٹر وائٹ کے کندھوں پر پڑی۔عموماً پانچ یا سات طلباء کے گروپس بنائے جاتے تھے۔جو ایک سال تک برقرار رہتے تھے ۔ بعض دفعہ اس میں معمولی سی تبدیلی بھی ہو جاتی۔ لیکن اکثر ایسا نہ ہوتا تھا۔ہر طالب علم کو دو گھنٹہ کی سپر ویژن ملتی تھی۔ ایک گھنٹہ پیور میتھ میں ایک گھنٹہ اپلائیڈ میتھ میں۔پھر ہم چاروں لیکچرارز کے درمیان بھی alternation ہوتی تھی۔ ایک ٹرم سے دوسری ٹرم تک۔یعنی وائٹ اور سمتھزٹرم پیور میتھ پڑھاتے اور میرے ساتھ ہاورتھ اپلائیڈ میتھ پڑھاتا اگلی ٹرم میں یہ بدل جاتا اور ہم دونوں پیور میتھ پڑھاتے تھے۔اس طریق کار سے کالج کے لیکچرارز پر کم سے کم دباؤ اور بوجھ پڑتا تھا۔جبکہ چھوٹے کالجز میں ایک لیکچرار پیور میتھ پڑھاتا تو دوسرا اس کے ساتھ اپلائیڈ میتھ پڑھاتااور یوں طلباء دونوں سے پڑھتے کالج میں لیکن بعض لیکچرارز ایسے بھی ہوتے تھے۔جو پیور اور اپلائیڈ میتھ پڑھانا پسند کرتے تھے ۔ جیسے LA PARS جس کا تعلق جی کنگز کالج سے تھا اورMR INGHAM جس کا تعلق کنگز کالج سے تھا ۔ مجھے کسی نے بتلایا کہ میرے گریجوایٹ طالب علموں میں سے J V NARLIKAR کنگز کالج کا آخری طالب علم تھا۔جس نے1960ء کی دہائی میں دونوں مضامین پڑھائے تھے۔ بہرحال عبدالسلام ان نادرروزگار طالب علموں میں سے تھا جس کو صرف اکیلے پڑھایا جاتا تھا۔ کیونکہ اس کا کلاس میں کوئی پارٹنر نہ بن سکا تھا جیسے کہ طلباء کے گروپس بنائے گئے تھے ۔ ہاورتھ نے فرسٹ ائیر میں اسے پڑھایا ایک روز ڈنر کے بعد شام کو کافی پینے کے دوران اس نے مجھے بتلایا کہ اس کا ایک سٹوڈنٹ انڈیا سے آیا ہے جو بہت ہی لائق و فائق ہے ۔ یہ پہلا موقع تھا کہ مجھے عبدالسلام کے بارے میں کچھ معلوم ہوا ۔ہاورتھ سے مجھے یہ معلوم ہوا کہ عبدالسلام کی یہ عجیب سی عادت تھی کہ وہ جھک کر کالج کے کورٹس میں اسلامی(انڈین) طریقے سے سلام کرتا تھا۔ گویا اس کے گھٹنے سڑک کی اینٹوں کو لگ جاتے تھے ۔ چنانچہ leslie یا پیٹر وائٹ سلام کو سمجھاتا کہ ایسی تعظیم اور عزت کی کیمرج میں کوئی ضرورت نہیں۔جب میرا وقت لینٹ ٹرم میں عبدالسلام کی فردًا فردًا سپرویژن کے لئے آیا تو یہ دینی طریقہ کم ہو کر ہاتھ ہلانے اور دور سے سلام کہنے تک محدود ہو گیا۔ Lent Term کے دوران غضب کی سردی پڑی اس کے بعد تو صرف زندہ رہنا ہی محال ہو گیا ۔کلاس روم میں بھی میں گھنٹہ ختم ہونے کا انتظار کرتا تاکہ میں کامن روم میں جاسکوں۔ جہاں آگ کمرہ گرم کرنے کے لئے جل رہی ہوتی تھی اور عبدالسلام اگلے سیب کا منتظر ہوتا تھا۔ Lent Term آئی اور چلی بھی گئی اور پھر جون کے وسط میں میری ملاقات عبدالسلام سے دوبارہ ہوئی۔ میری یہ سرسری ملاقات اس سے سیکنڈ کورٹ کی بلڈنگ میں ہوئی میں نے اس سے سوال کیا کہ اس کے ابتدائی امتحانات کیسے رہے؟ اس نے جواب دیا کہ بہت خراب۔ بہت غلطیاں سرزد ہوئیں اور یہ کہہ کر قہقہہ لگاتے ہوئے غائب ہو گیا۔

دو کلچرز کا تصادم

جہاں تک ابتدائی امتحانات کا تعلق ہے کلاس میں طلباء کی لسٹ اور ان کے امتحان میں نمبر ان کے سپروائزر کو بھجوادیئے گئے ۔عبدالسلام نے اول پوزیشن حاصل کی تھی اور میرے خیال میں اس فہرست میں تیسرے نمبر پر تھا۔ اس کے بعد اس کا ٹرائی پوز کا سال شروع ہوا اور میری اس سے ملاقات پہلے سے زیادہ ہونے لگی۔ہاورتھ نے اس وقت برسٹل یونیورسٹی میں اپلائیڈ میتھ کی چیئر قبول کرلی تھی اور میری عبدالسلام سے زیادہ ملاقات کی وجہ یہی تھی ۔ یہ فی الحقیقت دو کلچرز کا تصادم تھا۔ انڈیا میں اس نے جس مکتب فکر میں تعلیم حاصل کی تھی اسے رامانوجن سکول کہا جاتا ہے جس کے مطابق یہ جاننا کہ حقیقت کیا ہے اس کو فوقیت حاصل ہے اس امر پر کہ اس حقیقت کو سچ کیسے ثابت کیا جائے؟ میری ٹریننگ اس کے برعکس کیمبرج کے مکتب خیال میں ہوئی تھی جس کے مطابق یہ جاننا کہ اس کی حقیقت کیا ہے اس کی زیادہ اہمیت نہیں صرف اس کو سچا ثابت کرنا زیادہ ضروری ہے چنانچہ ہم دونوں نے اس ٹرائی پوز کے بہت سارے مسائل کو جوں توں کرکے حل کر ہی لیا۔ ٹرائی پوز میں درپیش سوالات کے جوابات کی صاف ستھری فائلیں تیار کرنا یہ کام جس طرح بہت سارے دوسرے کرتے تھے میری طبیعت اس جانب مائل نہ ہو سکی۔

چنانچہ اکتوبر کے مہینہ میں جملہ فرائض کو یوں بغیر سوچے سمجھے فوری طور پر کرنے پر مجھے بہت سے مسائل سے دوچار ہونا پڑا۔ کیونکہ لمبی تعطیلات کے بعد میرے ذہن کو زنگ لگ چکا ہوتا تھا اور اب مجھے دوبارہ ہر چیز پڑھانا ہوتی تھی۔ مگر نومبر کے وسط تک یہ خوف ذہن سے مائل ہو چکا تھا اور بقیہ سال بھی یہی حالت رہتی حتیٰ کہ مئی کا مہینہ آجاتا اور ہر کام آسان لگنے لگتا تھا۔ بُرے اوقات میں میرے لئے یہ کام زیادہ بوجھل نہ ہوتا تھا۔جب میں عبدالسلام جیسے طالب علم کے ساتھ (ریاضی) کے گھمبیر مسائل میں گم ہوجاتا تھا بہ نسبت ایسے طلباء کے جو کلاس میں یوں ہی بیٹھے رہتے اور کھڑکی سے باہر دور فضا میں ٹکٹکی لگائے دیکھ رہے ہوتے مؤخر الذکر طلباء کے ساتھ گویا انسان کو دو بھاری پتھر اوپر کی طرف لے جانے ہوتے تھے ۔ ایک بھاری پتھر تو وہ ریاضی کا اصل مسئلہ ہوتا تھا اور دوسرا کند ذہن طالب علم کو وہ مسئلہ سمجھانا ہوتا تھا۔ عبدالسلام کے ساتھ انسان کو صرف ایک پتھر اوپر کی طرف لے جانا ہوتا تھا ۔ کیونکہ وہ خود اس پتھر کو پوری قوت و استعداد کے ساتھ دھکیلتا تھا۔اس دوران زمین ایک بار پھر اپنے مدار پر گھوم چکی ہوتی تھی اور عبدالسلام سے جس کام کی توقع کی جاتی تھی ۔ اس کام کو وہ سرانجام دے چکا ہوتا تھا۔ یعنی میتھ کے ٹرائی پوز پارٹ دوم میں اس نے اول پوزیشن حاصل کی چنانچہ اب کی بار میری اس سے ملاقات تھرڈ کورٹ کی عمارت میں ہوئی۔جو کہ لائبریری کی طرف جاتے ہوئے موڑپر واقع ہے۔ اس نے مجھے پُر جوش کلام کیا ۔ میں وہیں رک گیااور پھر ہم دونوں نے ایک دوسرے کی طرف بے اختیار چلنا شروع کیااس نے مجھے بتایا کہ اسے ایک مشکل مسئلہ درپیش ہے جو کہ مندرجہ ذیل تھا ۔

حکومت پاکستان نے اسے تھرڈ ایئر کا سکالر شپ مہیا کیا تھا اس نے سوچا کہ وہ فزکس پارٹ دوم کا اس سال مطالعہ کرنے کی بجائے میتھ پارٹ دوم کی کلاسز لے۔لیکن اس نے ابھی تک چونکہ تجرباتی فزکس نہ کی تھی لہٰذا اس کو اس مضمون میں دوسرے درجہ سے زیادہ نمبر حاصل کرنے کی امید نہ تھی جبکہ اگر وہ میتھ پارٹ سوم کرے تو اسے یقین کی حد تک اعتماد تھا وہ فرسٹ پوزیشن حاصل کر سکے گا ۔جس کی و جہ سے وطن عزیز میں سرکاری حکام مسرت کا اظہار کریں گے ۔اس نے مجھ سے استفسار کیا کہ مجھے اس صورت حال میں کیا کرنا چاہئے ۔کچھ دیر کی گفتگو کے بعد میں نے بالآخر یہ کہا کہ اسے وہ مضمون پڑھانا چاہئے جس کی پاکستان کو مستقبل میں زیادہ ضرورت ہوگی بجائے شارٹ ٹرم فائدہ حاصل کرنے کے ۔ جس سے میری مراد یہ تھی کہ وہ فزکس پارٹ دوم کرے (یعنی ریاضی دان بننے کی بجائے وہ فزکس کی فیلڈ اختیار کرے) بعد کے سالوں میں وہ مجھے بتلایا کرتا تھا کہ یہ گفتگو اس کی زندگی کی اہم ترین گفتگو تھی۔ چنانچہ کیونڈش لیبارٹری میں ریاضی کے ایسے ماہر کا گھومنا پھرنا، لیب میں کا م کرنے والے افراد کے لئے ایک انوکھا تجربہ تھا ۔خیر کچھ بھی ہو جلد ہی عبدالسلام سے ہر کوئی متعارف ہو گیا اور تھیورٹیکل فزکس میں ہونے والی تازہ بتازہ ریسرچ اور رینارما لائزیشن تھیوری میں اس کے انکشافات میں وہ ایسا انسان ثابت ہوا جس پر نت نئے آئیڈیاز ہر وقت ہر آن نازل ہوتے رہتے ہوں۔ جوں جوں سال تیزرفتاری کے ساتھ گزرتے گئے وہ دیکھتے ہی دیکھتے کالج کا فیلو مقرر ہو چکا تھا پھر یونیورسٹی کا لیکچرار۔

پھر امپیرئیل کالج آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (لندن یونیورسٹی) میں تھیورٹیکل فزکس کا پروفیسر۔ مجھے ہمیشہ یہ امید بندھی رہی کہ عبدالسلام ضرور ایک روز کیمرج واپس آ جائے گا اور میرا یقین ہے کہ اگر اسے تھیورٹیکل فزکس کی چیئر پیش کی گئی ہوتی تو وہ ضرور واپس لوٹ آتا۔ ایسے دو مواقع1960ء کی دہائی میں نمودار ہوئے لیکن دونوں مرتبہ فیکلٹی آف میتھ نے الیکٹرورل بورڈ کو ہدایت کی کہ یونیورسٹی کو continuum mechanics کے پروفیسر کی زیادہ ضرورت ہے بہ نسبت تھیوریٹیکل فزکس کے۔ اس فیصلہ سے میں بھی متفق نہ تھا اور یہ جملہ وجوہات میں سے ایک و جہ تھی کہ1960ء کی دہائی کے نصف سے میرے تعلقات فیکلٹی آف میتھ کے ساتھ گرتے گرتے صفر درجہ تک پہنچ گئے۔ میں نے کیمبرج کو1972ء میں الوداع کہہ دیا اور عبدالسلام آئی سی ٹی پی کا ٹریسٹ (اٹلی) میں ڈائریکٹر مقرر ہوگیا۔ تو میں اس کے ساتھ تواتر کے ساتھ ملاقات کی غرض سے جاتا رہا۔چنانچہ زندگی کے آخری سالوں میں میرا اس سے ملنا زیادہ ہوا۔اس کا ایک نقطہ نظر تھا جس کو اس نے زندگی کے آخری سانس تک سینے سے لگائے رکھا اور جس سے میں قابل ستائش سمجھتے ہوئے یہاں ریکارڈ میں لانا چاہتا ہوں۔ عبدالسلام کے نزدیک بیسویں صدی کا سب سے بڑا عظیم سائنسدان بلاشبہ پال ڈائراک تھا۔ شاید کوئی استدلال کرے کہ ہاں سینٹ جانز کالج کا ایک گریجوایٹ اسی کالج کے دوسرے گریجوایٹ کی لازماً تائید کرے گا لیکن جب میں نے اس سے استفسار کیا۔کہ اس فہرست میں آئن سٹائن بھی شامل ہے ؟ اس کا جواب اس ضمن میں دو ٹوک تھا اور وہ یوں تھا: آئن سٹائن کے لئے اس کا تمام میتھ ا س کو کرکے دیا جاتا تھا جبکہ ڈائراک نے اس کو خود ایجاد کیا نہ صرف یہ بلکہ وہ ڈائراک ہی تھا جس نے یہ بات واضح کی کہ تھیوریٹیکل فزکس کی طرف والا راستہ Abstract math سے ہو کر جاتا ہے نہ کہ میتھ کو انجینئر کرنے سے۔ میرے نزدیک عبدالسلام کا یہ نقطۂ نظر بالکل درست تھا۔

(رانا عبدالرزاق خاں)

پچھلا پڑھیں

اوقات سحر و افطار

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 جنوری 2020