حضرت چوہدری محمد ظفرا للہ خان ؓ
آپ کی دعائیں کسی خاص فرد یا مقصد تک محدود نہیں تھیں بلکہ سارا عالم آپ کی دعاؤں سے مستفید ہوتا تھا۔ ایک دفعہ جب امریکہ کے خلاباز میں گئے تو فرمایا کہ جس دن انہوں نے اترنا تھا اس دن میں سارا دن ان کی بخیریت زمین پر واپسی کے لئے دعا کرتا رہا اگرچہ میں اپنے کام میں لگا ہوا تھا لیکن دل کی کیفیت ان کے لئے مجسم دعا تھی اور جب ان کے اترنے کی اطلاع ملی تو دل حمد الٰہی سے بھر گیا۔
(محمد ظفراللہ خان چندیادیں ص 50،51)
حضرت مولانا غلام رسول راجیکی ؓ
مکرم برکات احمد راجیکی تحریر کرتے ہیں کہ 1942ء کا ذکر ہے کہ میں لاہور میں ملازم تھا۔میرے بائیں کان میں پھوڑا نکلا اور شدید ورم اور درد پیدا ہوئی۔ جس کی وجہ سے میں بیمار ہو کر رخصت پر قادیان آگیا۔ چار ماہ کی رخصت دفتر والوں نے جناب ڈاکٹر حشمت اللہ انچارج شفاخانہ نور کے سرٹیفیکیٹ پر منظور کرلی۔ جب میری رخصت ختم ہونے میں چند دن باقی تھے اور میری طبیعت بھی بہت حد تک سنبھل چکی تھی دفتر کی طرف سے سول سرجن صاحب گورداسپور کو لکھا کہ ہم انچارج شفاخانہ نور کے سرٹیفیکیٹ کو کافی نہیں سمجھتے۔ آپ معائنہ کرکے رپورٹ کریں اور مجھے بھی اس کی نقل بھجوا کر جلد معائنہ کروانے کی ہدایت کی گئی۔ میری طبیعت پر یہ بوجھ تھا کہ اب رخصت کے آخری دن ہیں اور صحت کافی اچھی ہو چکی ہے۔ اگر سول سرجن نے لکھا کہ میں ڈیوٹی دینے کے قابل ہوں۔ تو دفتر والے الزام دیں گے کہ پہلا سرٹیفیکیٹ غلط تھا۔ جس میں اتنے عرصہ کی رخصت کی سفارش تھی اور اگر اس نے کام کے ناقابل بتایا تو افسران بالا جن میں سے ایک میرا سخت مخالف تھا۔ لمبی بیماری کی وجہ سے ملازمت سے برخواست کرنے کے لئے قدم اٹھا سکتا تھا۔
میں نے اپنی اس الجھن کو حضرت والد بزرگوار مولانا غلام رسول راجیکی کی خدمت میں بیان کیا۔ آپ نے فرمایا۔ میں دعا کروں گا تم کوئی فکر نہ کرو اور گورداسپور جا کر معائنہ کروا لو چنانچہ میں سائیکل پر نہر کے راستہ گورداسپور روانہ ہوا۔برسات کا موسم تھا اور آسمان پر کہیں کہیں بادل کے ٹکڑے منڈلا رہے تھے۔ لیکن میں محفوظ اور بآرام گورداسپور پہنچ گیا۔جب میں معائنہ کرکے واپس لوٹا تو رستہ میں نہر کی پٹڑی پر بارش کے آثار تھے اور بعض نشیبی جگہوں پر پانی بھی کھڑا تھا۔ لیکن جہاں سے میں گزر رہا تھا وہاں مطلع صاف تھا۔ اور اس طرح خاکسار بسہولت اور بغیر بھیگنے کے واپس لوٹا۔ واپسی پر حضرت والد صاحب نے بتایا کہ جب تم سائیکل پر روانہ ہوئے تو کچھ دیربعد ایک گھنا بادل چھا گیا اور بارش شروع ہو گئی۔میں نے تمہاری تکلیف اور بے سروسامانی کا خیال کرکے خداتعالیٰ کے حضور التجا کی کہ بارش سے برکات احمد بچ جائے اور اس کو کوئی تکلیف نہ ہو۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا فضل شامل حال ہوا اور تم آرام و سہولت سے واپس آ گئے۔ فالحمدللہ بعد میں دفتر کی الجھن بھی خداتعالیٰ نے اپنے فضل سے دور فرما دی۔
(حیات قدسی حصہ پنجم ص 174)
حضرت مولانا محمد ابراہیم بقاپوری ؓ
25۔ اگست 1957ء کو مکرم چوہدری محمد شریف وکیل کا تار آیا کہ 1955ء کے سیلاب کی طرح ہمارے گاؤں میں اب بھی سیلاب آنے والاہے۔ دعائے خاص کی ضرورت ہے میں نے ایک دو دن دعا کی تو الہام ہوا۔ ’’ اَلْآنَ کَمَا کَانَ ‘‘ یعنی پہلے کی طرح ان کا گاؤں انشاء اللہ بچایا جائے گا۔
الحمدللہ! کہ آج 10ستمبر 1957ء کو ان کا خط موصول ہواکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے گاؤں کو محفوظ رکھا۔
(حیات بقا پوری حصہ سوئم ص 135،134)
حضرت سیٹھ شیخ حسن ؓ
سیٹھ صاحب نے قبول احمدیت کے بعد مولانا میر محمد سعید سے دریافت کیا کہ اب ہم کیا کریں۔ میر صاحب نے فرمایا کہ پانچ وقت نماز باجماعت ادا کریں۔ قرآن مجید پڑھیں اور تہجدادا کیا کریں اور خداتعالیٰ کی مخلوق سے بھلائی کریں۔ سیٹھ صاحب بیان کرتے تھے کہ پہلے مجھے نماز کی عادت نہ تھی اور نہ ہی تہجد اور قرآن مجید سے شناسا تھا۔ کوشش سے تہجد بھی باقاعدہ ہو گئی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے نماز میں ایک ذوق اور شوق حاصل ہوا کئی دن بعد ایک روز تہجد سے فارغ ہوا تو میری زبان پر بار بار اَللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ کے الفاظ جاری ہوئےاور زبان انہیں بار بار دہرانے لگی اور خود بخود ہی گریہ و بکاشروع ہو گیا میری اہلیہ پیرساں بی بی نے رونے کا سبب دریافت کیامیں نے یہ بات کہہ سنائی لیکن عربی نہ انہیں آتی تھی نہ مجھے۔
بعد میں سیٹھ صاحب پر مصائب کی تیز آندھیاں چلیں اور مخالفین مخالفت میں سرگرم رہے لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کو تمام شر و رو آفات سے اپنی حفظ و امان میں رکھا اور آپ کو الہامات وکشوف سے نوازا۔ ایک دفعہ رویا میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہت دودھ پلایا۔ جس کا مزہ منہ میں بیدار ہونے پر بھی موجود تھا۔ سو اس کے مطابق اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو ایمان و عرفان سے وافر حصہ عطا ہوا۔
(اصحابِ احمد جلد2ص 212)
حضرت فیض الدین ؓ
آپ تحریر فرماتے ہیں کہ ملک حسن محمد سمبڑیالوی نے جو حضور مولوی صاحب کے خاص دوستوں میں سے ہیں۔ بتایا کہ خود حضور مولوی صاحب نے انہیں بتایا تھا کہ مجھے جب یہ علم ہوا کہ لوگ میرے قتل کے درپے ہیں تو میں نے کثرت سے اس دعا کا ورد شروع کر دیا۔یعنی ’’اے خدا میری دعا سن اور اپنے اور میرے دشمنوں کو پراگندہ کر۔‘‘
آپ نے فرمایا کہ میں چلتے پھرتے اٹھتے بیٹھتے یہ دعا کرتا رہتا۔ ایک دن میں محراب کے سامنے مسجد میں بیٹھا ہوا یہی دعا کر رہا تھا کہ ایک شریر ہاتھ میں ڈنڈا لئے ہوئے گالیاں دیتا ہوامسجد میں گھس آیا۔ میں نے دونوں ہاتھ اٹھا کر یہی دعا پڑھنی شروع کر دی۔ میں نے محسوس کیاکہ اس نے دائیں بائیں دونوں طرف چکر لگا ئے۔پھر میں نے دیکھاکہ وہ کچھ بڑ بڑاتا ہوا باہر چلا گیا۔ آپ نے بتایاکہ میں سمیع و بصیر خدا پر قربان جاؤں۔ جس نے اپنے تصرف خاص سے مجھے اس شریر کے حملہ سے بچایا۔ نیز آپ نے یہ بھی فرمایا کہ اس دعا کو میں نے مخالفت کے دنوںمیں بہت مؤثر پایا۔
(حیات فیض ص 23،22)
حضرت حافظ محمد حسین ؓ
حافظ محمد حسین تحریر کرتے ہیں کہ حکیم عبدالرحیم کی وفات کے بعد ٹرپئی میں چپکے چپکے مخالفین صلاح مشورے کرنے لگے۔ایک دفعہ ٹرپئی کے لوگوں نے مشورہ کیا کہ مرزائی چپکے سے کچی مسجد میں جمعہ پڑھ لیتے ہیں نہ ان کو کوئی پوچھتا ہے اور نہ کوئی مؤاخذہ کرتا ہے آئندہ جمعہ سارا گاؤں کچی مسجد میں ادا کرے اور مسجدپختہ میں ان کو آنے نہ دیں اور آخری دفعہ کچھ باتیں ان سے پوچھ کر ان کا پورا پورا بندوبست کریں چنانچہ اس مشورہ کی اطلاع مجھے بھی کئی دوستوں نے دی اور کہا کہ مناسب ہے تم چند یوم کے لئے کہیں چلے جاؤ۔ میں نے کہا اگر اب کی دفعہ چلے گئے تو دوسرے جمعہ کو وہ ایسے ہی کریں گے کیوں نہ ان کو اپنے ارمان نکال لینے دیں۔ جو ں جوں جمعہ کا دن قریب آتا جاتا تھا۔ شور زیادہ ہوتا جاتا تھا حتیٰ کہ جمعرات کی رات جس کے بعد صبح جمعہ کا دن تھا رات اکیلا دیر تک نماز پڑھتا اور دعا کرتا رہا۔ ابھی وتر باقی تھے اور سنتوں کے سلام کے لئے التحیات میں بیٹھا ہوا تھا کہ یکایک نور کا شعلہ ایک انگلی کے برابر موٹا اور ڈیڑھ دو گز لمبا دور سے آتا ہوا دکھائی دیا اور پہلو کی طرف دل پر آ کر لگا۔جس سے بلند آواز سنائی دی جو یہ تھی ’’کیا اللہ اپنے بندہ کے لئے کافی نہیں‘‘۔فضل اور رحمت کی آواز اس قدر اس وقت بلند تھی کہ اگر بیسیوں شخص میرے پاس ہوتے تو سب کو سنائی دیتی۔ اس کے بعد وہی حرف درود شریف کے زبان پر تھے۔ جمعہ تو انہوں نے کچی مسجد میں پڑھا۔ مگر ہم کو کسی نے پوچھا تک نہیں ۔ صرف جمعہ کے بعد ایک دوسرے سے یہ باتیں کرتے ہوئے کہ یہ (یعنی اس کمترین کی طرف اشارہ کرکے کہ) اب تو یہ مرزائی ہو گیا ہے امام کس کو بنائیں۔ایک نے کسی کا نام لیا اور دوسرے نے اس پر چوری کا الزام لگایا۔ دوسرے نے کسی اور کا نام لیا تیسرے نے اس پر کوئی اور الزام لگایا۔ اس طرح کرتے ہوئے چلے گئے۔
(حافظ محمدحسین صفحہ 24،23)
جس روز چوہدری رستم علی کا جنازہ آیا تھا اور حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ جنازہ دفنانے کے بعد حضرت مسیح موعودؑ کے مزار مبارک پر دعا کے لئے تشریف فرما ہوئے۔ اکثر دوست حضور کے ہمراہ تھے۔ حضور دعا فرما رہے تھے کہ خاکسار کو حضور کا چہرہ مبارک دکھائی دیا اور فرمانے لگے محمود کے آج کل بہت دشمن ہیں۔ مگر خدا کے فرشتے ہر وقت ان کے ہمراہ ہوتے ہیں۔ ضرورت کے وقت تو بے شمار ہوتے ہیں مگر پانچ فرشتے ہر وقت ہمراہ ہوتے ہیں۔ اتنے میں حضور دعا سے فارغ ہو گئے اور مجھ سے بھی وہ حالت جاتی رہی۔
(حافظ محمد حسین ص 54)
حضرت حکیم عبدالصمد ؓ
حضرت حکیم صاحب ہجرت 1947ء کے ضمن میں تحریر فرماتے ہیں کہ جس ٹرک میں ہم سوار تھے اس میں حضرت پیر منظور احمد قاعدہ یسرنا القرآن والے بھی ہمارے ساتھ تھے۔ جیسے ہی کانوائے حرکت میں آیا حضرت پیر صاحب نے بہ یک زبان بسم اللّٰہ مجرٖھا پڑھنا شروع کیا اور تمام راستے یہ الفاظ ان کے ورد زبان رہے۔ساتھ کبھی کبھی ہم پڑھتے رہے۔ کئی مقامات خطرے کے آئے مگر اللہ تعالیٰ نے تمام خطرات ٹالے۔ کانوائے نہر کی پٹڑی پر چل رہا تھا۔ دوسری طرف سکھوں کے فوجی مورچہ جمائے ہوتے۔ ایک جیپ میں تیزی سے فوجی لوگوں کو کہتا جاتا ٹرک میں گر جاؤ لیٹ جاؤ خطرہ ہے مگر جب خطرہ ٹل جاتا تو پھر وہ کہتا اب بے شک بیٹھ جاؤ ٹرک خراب ہو جاتا تو وہ تمام کانوائے کو روک دیتا۔ جب ٹرک ٹھیک ہو جاتا تو ساتھ لے کر چلتا۔ بعض لوگوں نے اس سے کہا بھی کہ اس کو یہیں چھوڑ دو جب ٹھیک ہو جائے گا تو پیچھے سے آ جائے گا۔ مگر اس نے یہ بات نہیں مانی اور کانوائے آہستہ آہستہ چلتا رہا یہاں تک کہ شام ہوگئی۔کسی نے اطلاع دی کہ ہم لاہور کی سرحد میں آ گئے ہیں- خوشی سے نعرہ ہائے تکبیر بلند ہوئے۔جودھامل بلڈنگ پہنچتے پہنچتے ہم کو رات ہو گئی ہم نے دیکھا وہاں نواب محمد جلیلالقدر “میرے بڑے ماموں” بھی موجود تھے۔صبح کو حضور کو اطلاع دی گئی کہ حکیم صاحب بھی معہ بچوں کے اس کانوائے میں آ گئے ہیں۔ حضور خوش ہوئے۔ لڑکیاں حضرت اماں جانؓ اور خاندان کی دوسری خواتین سے ملیں۔ سب بہت خوش ہوئے۔ حضرت اماں جانؓ نے تو مسکرا کر فرمایا کہ لڑکیو زندہ سلامت آگئیں؟ انہوں نے جواب دیا آپ ہمارے لئے دعائیں جو بہت کر رہی تھیں۔
(رفیق نکتہ داں ص 53،52)
جب قادیان کے حالات زیادہ خراب ہوئے تو لوگوں کو محفوظ مقامات پر لے جایا گیا اور حضرت میاں بشیر احمدؓ کی ہدایت پر ابا جان کو دارالمسیح میں ٹھہرایا گیا مجھے یہ منظر خوب یاد ہے جب ہمارے ابا جان دعائیں پڑھتے ہوئے گھرسے نکلے ہیں تو چاروں طرف سکھ تھے۔ ابا جان دعائیں پڑھتے آگے چل رہے تھے اور ان کے پیچھے ہم سب یعنی ہم پانچ بہنیں بھابھی اور دو ہماری ماموں زاد بہنیں تھیں۔اس طرح سکھوں کے درمیان سے نکلنا معجزے سے کم نہ تھا۔
(رفیق نکتہ داں صفحہ 110)
حضرت مولانا شیر علیؓ
مکرم ڈاکٹر لعل محمد بارہ بنگوی حضرت مولانا شیر علی ؓکے متعلق تحریر کرتے ہیں کہ
غالباً 1929ء کے جلسہ سالانہ کی بات ہے کہ میں جلسے کے بعد 10جنوری 1930ء تک قادیان میں مقیم رہنے کے بعد لکھنؤ واپس جانے کے لئے دارالامان سے روانہ ہوا۔ میں قادیان کے اسٹیشن پر ریل میں بیٹھا گاڑی کے چلنے کا انتظار کر رہا تھا۔ اتنے میں کیاد یکھتا ہوں کہ حضرت مولانا شیر علیؓ گھی کا ایک مٹکا ہاتھوں میں اٹھائے گاڑی کے ڈبے میں جھانکتے پھر رہے ہیں۔ جب آپ اس ڈبے کے سامنے آئے جس میں میں تھا تو آپ نے فرمایا کوئی لکھنؤ جانے والے صاحب بھی ہیں۔ میں نے فوراً عرض کیا فرمائیے میں جا رہا ہوں۔ آپ نے فرمایایہ گھی میرے لڑکے عبدالرحمن کو دے دینا وہ لکھنؤ میں اے۔ ایس۔ سی میں پڑھتا ہے۔میں نے مٹکا لے لیا۔ حضرت مولوی صاحب نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھاتے ہوئے فرمایا میں آپ کے بخیر و عافیت پہنچنے کے بارے میں دعا کرتا ہوں۔ مولوی صاحب نے دعا کرائی جس میں میں بھی شریک ہوا۔چلتے وقت آپ نے کہا آپ سفر پر جا رہے ہیں۔اللہ آپ کے ساتھ ہو۔
اسی روز چار بجے سہ پہر کے قریب امرتسر سے میں دوسری گاڑی میں سوار ہوا۔ جو لکھنؤ سے ہوتی ہوئی سیدھی کلکتہ جاتی تھی۔دوسرے روز رات کے بارہ بجے کے قریب کلٹربک گنج اسٹیشن پہنچنے ہی والی تھی کہ یکایک ایک دھماکہ محسوس ہوا اور آن کی آن میں یوں معلوم ہونے لگا کہ گویا دریا کا کوئی پل ٹوٹ گیا ہےاور گاڑی بڑی تیزی کے ساتھ نیچے کی طرف اس طرح جا رہی ہے جس طرح کوئی چیز کنوئیں میں گرتی ہے۔ سارے مسافر گھبرا گئے۔ میں نے درود شریف پڑھنا شروع کر دیا۔ چند ہی سیکنڈ میں وہ کیفیت دور ہو گئی اور یوں محسوس ہوا کہ گویا گاڑی رکی ہوئی ہے۔بتیاں گل ہو چکی تھیں اور گاڑیاں رکنے سے چند سیکنڈ کے لئے خاموشی سی چھا گئی۔ میں اطمینان میں تھا کہ اتنے میں ایک سکھ مسافر نے کہا کہ میاں کس خیال میں ہو فوراً نیچے اترو اتنے میں گارڈ آ گیا اور وہ چیخ چیخ کر مسافروں کو نیچے اترنے کی ہدایت کر رہا تھا۔اس پر میرے بھی کان کھڑے ہوئے جلدی میں کھڑکی کے راستہ سے نیچے اترا نیچے اتر کرمعلوم ہوا کہ گاڑی کی ایک مال گاڑی سے ٹکر ہو گئی ہے اور چیخ پکار پڑی ہوئی ہے۔ہمارے سامنے کا ڈبہ اپنے سے اگلے ڈبہ میں گھسا ہوا ہے اور پٹڑی سے اس طرح اٹھا ہوا تھا کہ جیسے تازیہ ہوتا ہے۔ دونوں ڈبوں کے تختے ایک دوسرے میں گھسے ہوئے تھے اور ایک مسافر ان میں پھنسا ہوا تڑپ رہا تھا سکھ مسافر بولا بواجی قیامت آ گئی میں نے کہا جس دن آنی ہو گی ایسے ہی آ جائے گی۔ اس کے بعد مجھے اپنے سامان اور حضرت مولوی صاحب کے مٹکے کا خیال آیا۔دیکھا تو حیرت کی انتہا نہ رہی۔ گاڑی سے گاڑی ٹکرانے اور دنیا الٹ پٹ ہو جانے کے باوجود گھی کا مٹکا جس میں 8، 7 سیر کے قریب گھی تھا جوں کا توں اپنی جگہ رکھا ہوا تھا۔میں نے خدا کا شکر کیا اور دل میں سوچا کہ یہ حضرت مولوی صاحب کی دعا کا کرشمہ تھا کہ گھی کا یہ مٹکا اور اس مٹکے کے طفیل میں زندہ بچ رہا۔ پانچ چھ گھنٹے بعد میں دوسری گاڑی ملی اور ہم اس میں سوار ہو کر بخیریت لکھنؤ پہنچ گئے۔ میں نے گھی کا مٹکا حضرت مولوی صاحب کے صاحبزادے عبدالرحمن صاحب کو پہنچا دیا۔
(سیرت حضرت مولانا شیر علی صاحب ص 285تا 288)
حضرت مولانا محمد حسین ؓ
ایک دن ہم جہاز میں کام کر رہے تھے کہ حکم آیا کہ یہ جہاز مع کام کرنے والوں کے بغداد بھیج دیا جائے گا۔ اس لئے سب کام کرنے والے اپنا سامان جہاز ہی میں لے آئیں کیونکہ اس وقت بڑی سخت جنگ ہو رہی تھی۔میرے دس ساتھیوں نے یہ سنتے ہی رونا شروع کر دیا۔مگر میں نے نفل پڑھنے شروع کر دئیے۔جہاز کی روانگی کا دو مرتبہ وسل (Whistle) ہو چکا تھا۔ جہاز کی روانگی میں صرف دو منٹ باقی تھے کہ جنرل صاحب کی طرف سے فون آیا کہ میرے معائنہ کے بغیر جہاز روانہ نہ کیا جائے۔ چنانچہ جنرل صاحب وہاں پہنچے اور بعد معائنہ جہاز کی روانگی کا حکم دیا۔ پھر جب اچانک ہم لوگوں پر نظرپڑی تو جہاز کے کپتان سے دریافت کیا کہ یہ فٹر کنارہ کے ہیں یا پانی کے؟ اس نے جواب دیا کہ حضور کنارہ کے۔ جنرل صاحب نے کہا نہیں نہیں یہ نہیں جائیں گے۔ صرف پانی کے فٹر ہمراہ لے جاؤ اور ہمیں جنرل صاحب نے جہاز سے باہر آنے کا حکم دیا۔ بعدہٗ پانی کے فٹر آگئے اور جہاز روانہ ہو گیا۔ رات دو بجے کے قریب اطلاع آئی کہ دشمن نے جہاز غرق کر دیا ہے اور ایک آدمی بھی زندہ نہیں بچ سکا۔ ہم نے خداتعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ ہماری ابھی زندگی باقی تھی۔
(میری یادیں صفحہ 44 تا 45)