• 13 مئی, 2025

نظام وصیّت کی اہمیت و عظمت ’’رسالہ ا لوصیّت‘‘ کی روشنی میں

امام الزمان سیدنا حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی نوّے (90) سے زائد تصانیف میں ’’رسالہ الوصیت‘‘ کو ایک بلند مقام اور نمایاں حیثیت حاصل ہے۔ یہ کتاب دسمبر 1905ء کی تصنیف ہے۔اس کتاب کی تصنیف کا فوری پس منظر وہ متعدد الہامات ہیں جو آپ کو باربار ہوئے اور جن میں آپ پریہ ظاہر کیا گیا کہ اب آپ کی وفات کا وقت قریب آگیاہے۔ دنیا دار تو ایسی خبر ملنے پر گھبرا جاتے ہیں لیکن خدا کے پاک بندوں کا ردّعمل بالکل مختلف ہوتاہے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے اس موقع پر یہ عظیم الشان کتاب تصنیف فرمائی اور جماعت کو قرب وفات کے بارہ میں ہونے والے الہامات سے آگاہ کرتے ہوئے تسلی دی کہ اس خبر سے گھبرانے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہم ایک زندہ خدا پر ایمان رکھتے ہیں جو ہر دم زندہ اور حی وقیوم ہے۔ ہاں آپ کی اور افراد جماعت کی طبعی فکر مندی کو دور کرنے کے لئے اور یہ بتانے کے لئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خداتعالیٰ نے مبعوث کیاہے اور یہ سلسلہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ کا لگایا ہوا ایک پودا ہے جس نے بہرصورت آگے بڑھنا ،ترقی پر ترقی کرنا اور بالآخر ساری دنیا پر روحانی طورپر غالب آنا ہے، خدائے قادر وتوانا اور علیم وخبیر نے آپ کو دو عظیم الشان بشارتیں عطا فرمائیں۔

ایک بشارت کا تعلق آ پ کے وصال کے بعد جماعت میں روحانی نظام قیادت یعنی خلافت کے قیام سے ہے جس کو آپ نے قدرت ثانیہ کے الفاظ میں بیان کیا۔ دوسری بشارت کا تعلق روحانی زندگی کی بقا اور ترقی کے لئے نظام وصیت کے قیام سے ہے۔ ہر دو عظیم الشان بشارتوں کی تفصیل اور متعلقہ امور کی وضاحت حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے کتاب ’’الوصیت‘‘ میں تحریر فرمائی ہے۔ یہ کتاب اگرچہ کتابی سائز کے صرف چالیس صفحات پر مشتمل ہے لیکن غیر معمولی شوکت والے بیانات سے بھری ہوئی ہے۔

اس مضمون میں یہ ارادہ کیاہے، وباللہ التوفیق، کہ نظام وصیت کی اہمیت اور عظمت کے مضمون کو رسالہ الوصیت میں مندرج تحریرات کی روشنی میں کسی قدر اجاگر کیاجائے۔ حتی الوسع اسی ترتیب کے ساتھ جس طرح یہ بیانات کتاب میں درج ہیں۔

کتاب کی بالکل ابتداء میں حضرت مسیح موعودؑ نےفرمایا:

’’میں نے مناسب سمجھاکہ اپنے دوستوں اور ان تمام لوگوں کے لئے جو میرے کلام سے فائدہ ا ٹھانا چاہیں چند نصائح لکھوں‘‘۔

اس فقرہ سے پتہ لگتاہے کہ حضورعلیہ السلام نے یہ کتاب بہت محبت بھرے دلی جذبات کے ساتھ بطور نصیحت لکھی ہے اور خاص طورپر وہ احباب جماعت مخاطب ہیں جن کو حضورعلیہ السلام نے ’’دوستوں‘‘ کے پیار بھرے لفظ میں یاد فرمایاہے۔ گویا یہ محبت کرنے والے اور مسیح پاک علیہ السلام سے محبت کا دعویٰ کرنے والے کتاب کے اولین مخاطب ہیں اور پھر اس کتاب کے عمومی پیغام کا دائرہ دیگر لوگوں تک پھیلا ہوا ہے خواہ وہ لوگ جماعت کے ہوں یاغیرازجماعت ہوں۔

اس فقرہ سے حضورعلیہ السلام نے ضمناً اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ حضورعلیہ السلام کی تحریرات اور آپ کے کلام سے احباب کو ہمیشہ بھرپور استفادہ کی کوشش کرنی چاہئے۔ آپ کا کلام اور آپ کی تحریرات کوئی معمولی تحریرات نہیں ہیں۔ ایک دوسری جگہ آپ نے اپنی تحریرات کے بارہ میں یہ الفاظ خود تحریر فرمائے ہیں جو ہمیشہ ہر احمدی کو یاد رکھنے چاہئیں۔ فرمایا:

’’میری زبان کی تائید میں ایک اور زبان بول رہی ہے اور میرے ہاتھ کی تقویت کے لئے ایک اور ہاتھ چل رہاہے جس کو دنیا نہیں دیکھتی مگر مَیں دیکھ رہاہوں۔ میرے اندر ایک آسمانی روح بول رہی ہے جو میرے لفظ لفظ اور حرف حرف کو زندگی بخشتی ہے‘‘۔

(روحانی خزائن جلد 3،ازالہ اوہام صفحہ 403)

’’پہلے میں اس مقدس وحی سے اطلاع دیتاہوں جس نے میری موت کی خبر دے کرمیرے لئے یہ تحریک پیدا کی‘‘۔

اس فقرہ میں آپ نے کتاب کے لکھنے اور اس میں نصائح درج کرنے کے فوری پس منظر کا ذکر فرمایا ہے۔ آپ نے عربی اور اردو میں وحی الٰہی کا ذکر فرمایا ہے اور لکھا ہے کہ اسی مقدس وحی نے جہاں ایک طرف مجھے میری وفات کی خبر دی ہے (جس کی وجہ سے طبعاً ہر ایک کو فکر مندی ہوگی) اسی وحی کی وجہ سے میرے دل میں یہ تحریک ہوئی ہے کہ مَیں یہ نصائح لکھوں جن کی وجہ سے انہیںپڑھنے اور ان پر عمل کرنے والوں کے لئے غیر معمولی تسلّی اور اطمینان قلب کی صورت پیدا ہوگی۔ گویا یہ سب کام اللہ تعالیٰ کی وحی کے تابع ہے، نظام خلافت کا قیام بھی اور نظام وصیت کا اجراء بھی۔

’’ہم کھلے کھلے نشان تیری تصدیق کے لئے ہمیشہ موجود رکھیں گے‘‘۔

اس فقرہ سے پتہ لگتاہے کہ یہ دونوں نظام جواللہ تعالیٰ کی ایماء سے قائم ہوں گے نہ صرف خداتعالیٰ کے نشانوں میں سے ہوں گے بلکہ ایسے کھلے کھلے نشانات ثابت ہوں گے کہ دنیا ہمیشہ ان کی عظمت کو دیکھتی رہے گی۔اور ان نشانوں کاوجود کبھی منقطع نہیں ہوگا۔ نظام خلافت بھی اور نظام وصیت بھی ہمیشہ جاری رہیں گے۔نیز یہ بھی واضح ہوتاہے کہ ان ہردو نشانات کا وجود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کو ثابت کرنے کا ذریعہ ہوگا۔ اور ان دونوں کے لئے مسیح موعود علیہ السلام کی سچائی مستقبل میں واضح تر ہوتی چلی جائے گی۔

جماعت میں نظام خلافت کے قیام کی بشارت اور جماعت کی ترقیات کے نہایت ایمان افروز تذکرہ کے بعد الوصیت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ’’ایک جگہ مجھے دکھائی گئی اور اس کا نام بہشتی مقبرہ رکھا گیا‘‘۔

اس سے ایک تو یہ بات قطعی طورپر معلوم ہوتی ہے کہ نظام وصیت میں شامل ہونے والوں کے مدفن کانام بہشتی مقبرہ ہے اور یہ نام الہامی ہے۔ اس جگہ حضورعلیہ السلام نے جوطرز کلام اختیار فرمایا ہے اس سے واضح ہوتاہے کہ خداتعالیٰ نے یہ نام اس مقدس جگہ کے لئے عطا فرمایا ہے اور فرشتوں کی زبانی یہ نوید آپ کو عطا ہوئی۔

اس بہشتی مقبرہ کے بارہ میں فرمایا :
’’ظا ہر کیا گیا ہے کہ وہ ان برگزیدہ جماعت کے لوگوں کی قبریں ہیں جو بہشتی ہیں‘‘۔

یہ فقرہ واضح کرتاہے کہ یہ خبر اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو دی گئی کہ ا س میں جو برگزیدہ اور متقی لوگ دفن ہوں گے وہ اس زمرۂ ابرار میں شامل ہوں گے جن کے لئے جنتی کالفظ استعمال کیا گیاہے۔ یہ مضمون حضورعلیہ السلام کی اسی کتاب میں متعدد بارمتنوع انداز میں بیان ہواہے اور ان سب کو یکجانظر میں رکھنے سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ نظام وصیت کی شرئط، جو اللہ کے ا یماء پرحضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تحریرفرمائیں، کو پوراکرنے والے بہشتی اور جتنی لوگ ہی اس قابل بنائے جائیں گے کہ اس مقدس قبرستان میں تدفین کی سعادت ان کو ملے ۔جو اس معیار پرپورانہ اترے گا اور عنداللہ جنتی نہ ہوگا اس کی تدفین کی راہ میں خدائے قادر کی طرف سے کوئی نہ کوئی روک ڈا ل دی جائے گی۔

نظام وصیت کے حوالہ سے قائم ہونے والے بہشتی مقبرہ کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تین بار بڑی ہی پرمعارف دلی دعائیں اس کے لئے کی ہیں ۔پہلی بار دعا کے الفاظ یہ ہیں:

’’میں دعا کرتاہوںکہ خدا اس میں برکت دے اور اسی کو بہشتی مقبرہ بنا دے ۔اور یہ اس جماعت کے پاک دل لوگوں کی خوابگاہ ہو جنہوں نے درحقیقت دین کو دنیا پرمقدم کرلیا اور دنیا کی محبت چھوڑ دی اور خدا کے لئے ہوگئے اور پاک تبدیلی اپنے اندر پیدا کرلی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کی طرح وفاداری اور صدق کا نمونہ دکھلایا۔ آمین یَا رَبَّ الْعَالَمِیْنَ۔‘‘

اس دعا میں حضورؑ نے بہشتی مقبرہ کے بابرکت ہونے اور واقعی بہشتی مقبرہ بنائے جانے کی بھی دعا کی ہے۔ اور یہ بھی کہ یہ جماعت کے پاک دل لوگوں کی خوابگاہ ہو۔ پاک دل لوگوں کی صفات کا بھی ساتھ ہی ذکر فرما دیا ہے تایہ سب باتیں ہر موصی پرخوب واضح رہیں اور وہ صرف وصیت کرنے پر ہی اکتفا نہ کرے بلکہ ان سب اوصاف کو واقعی طور پر اپنے اندر پیدا کرنے کی ہمیشہ کوشش کرتا رہے۔

دوسری بار کی دعا کے الفاظ حسب ذیل ہیں:
’’میں پھر دعا کرتاہوں کہ اے میرے قادر خدا اس زمین کومیری جماعت میں سے اُن پاک دلوں کی قبریں بنا جو فی الواقع تیرے لئے ہو چکے اور دنیا کی اغراض کی ملونی اُن کے کاروبار میں نہیں۔ آمین یَا رَبَّ الْعَالَمِیْن‘‘۔

اس دعا میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی محبت بھری دعا میں چند اوصاف کا ذکر فرمایا ہے تا یہ امر پوری طرح ذہن نشین رہے کہ کون سی صفات حسنہ ہیں جن کا حامل حقیقت میں ان دعاؤں کا وارث ہوگا۔ پاک دل ہونے کا ذکر اس دعا میں دوسری بار آیاہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے نزدیک نظام وصیت میں شمولیت کے لئے یہ ایک بنیادی شرط ہے اور ایک سچے موصی کا بنیادی وصف یہ ہے کہ وہ واقعی ایک پاک دل انسان بن جائے۔

تیسری بار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعا کے الفاظ یہ ہیں:
’’پھر میں تیسری دفعہ دعا کرتاہوں کہ اے میرے قادر کریم! اے خدائے غفور ورحیم ! توُ صرف ان لوگوں کو اس جگہ قبروں کی جگہ دے جو تیرے اس فرستادہ پر سچا ایمان رکھتے ہیں اور کوئی نفاق اور غرض نفسانی اور بدظنّی اپنے اندر نہیں رکھتے اور جیسا کہ حق ایمان اور اطاعت کا ہے بجا لاتے ہیں۔ اور تیرے لئے اور تیری راہ میں اپنے دلوں میں جان فدا کر چکے ہیں ۔جن سے توُ راضی ہے اور جن کو توُ جانتاہے کہ بکلّی تیری محبت میں کھوئے گئے اور تیرے فرستادہ سے وفاداری اور پورے ادب اور انشراحی ایمان کے ساتھ محبت اور جانفشانی کا تعلق رکھتے ہیں۔ آمین یَا رَبَّ الْعَالَمِیْن‘‘۔

اس تیسری بار کی پُردرد دعا میں بھی چند غیرمعمولی اوصاف کا ذکر ہے جو ایک موصی کو صحیح معنوں میں عنداللہ موصی بنانے کے لئے ازبس لازم ہیں ۔ان اوصاف پر یکجائی طورپر نظر کی جائے تو یہ امر خوب نکھر کر سامنے آتاہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جن پاک دل لوگوں کا ذکر پہلی دو دعاؤں میں فرمایا ہے یہ سب اوصاف گویا نیک دلی کے بلند مقام تک پہنچنے کے زینے ہیں اور ان راہوں سے گزرے بغیر نفس کو پاک کرنے کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔

یہ امر بھی خاص طورپر قابل توجہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بہشتی مقبرہ کے حوالہ سے اس میں دفن ہونے والے خوش نصیبوں کے لئے تین بار بڑے درد اور ا لحاح سے دعائیں کی ہیں اور یہ بات اپنی ذات میں ایک غیر معمولی بات ہے جو سارے نظام وصیت کی عظمت اوراہمیت پر روشنی ڈالتی ہے ۔تینوں بار دعا کے آخر پر ’’ آمین یَا رَبَّ الْعَالَمِیْن ‘‘ کے الفاظ بڑے اہتمام سے درج ہیں۔ یہ بھی ایک خاص بات ہے جو یہ اشارہ بھی کرتی ہے کہ وصیت کا سارا نظام ربّ العالمٰین کے اشارہ اور ایماء پر جاری ہوا اور اسی رب العالمین کے حضور عاجزانہ دعاؤں سے اس کی بنیادوں کو استوار کیاجارہا ہے۔

ان تین بار کی دعاؤں پراس پہلو سے بھی نظر کرنی چا ہئے کہ ان میں مسیح موعود علیہ السلام نے ان اوصاف کا ذکر فرمایا ہے جو آ پ ایک موصی میں دیکھنا چاہتے ہیں ۔ جو دراصل وصیت کے استحقاق کی شرط کے طورپر ہیں۔ اگر ابتداء میں یہ ا وصاف کسی موصی میں نہ بھی ہوں تو اسے یہ پیغام خوب اچھی طرح یاد رکھنا چاہئے کہ یہ وہ صفات ہیں جو اسے اپنے ماٹو کے طور پر یاد رکھنی چاہئیں اور دیانتداری کے ساتھ یہ سب اوصاف اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔

بہشتی مقبرہ کے بارہ میں آپ ؑ نے فرمایا ہے:
’’اس قبرستان کے لئے بڑی بھاری بشارتیں مجھے ملی ہیں اور نہ صرف خدانے یہ فرمایا ہے کہ یہ مقبرہ بہشتی ہے بلکہ یہ بھی فرمایا کہ ’’ اُنْزِلَ فِیْھَا کُلُّ رَحْمَۃٍ ‘‘ یعنی ہر ایک قسم کی رحمت اس قبرستان میں اتاری گئی ہے اور کسی قسم کی رحمت نہیں جو اس قبرستان والوں کو اس سے حصہ نہیں‘‘۔

اس سے معلوم ہوتاہے کہ بہشتی مقبرہ کا نام خود خداتعالیٰ نے رکھاہے اور ’’بڑی بھاری بشارتیں‘‘ اس سلسلہ میں آپ کو عطا ہوئی ہیں۔ اور ’’ہر ایک قسم کی رحمت‘‘ اس میں اتاری گئی ہے ۔ یہ سب اموراس بہشتی مقبرہ کے بلند وبالا مقام اور اس کے مہبط انوار ہونے کا قطعی ثبوت ہیں۔ اس کی عظمت کے گواہ ہیں۔ اسی وجہ سے مزید تحریر فرمایا کہ آپ نے وحی خفی کے نتیجہ میں اس مقدس قبرستان ’’بہشتی مقبرہ‘‘ میں تدفین کے لئے تین بنیادی شرائط مقرر فرمائیں۔

1۔ شرط اول کے طور پر کچھ مالی ادائیگی جو گویا انفاق فی سبیل اللہ کا فوری اورپہلا زینہ ہے ۔
2۔ ترکہ کے دسویں حصہ کی ادائیگی کی وصیت جو انفاق فی سبیل اللہ کا ایک امتیازی زینہ ہے ۔
3۔ تیسری شرط یہ بیان فرمائی کہ دفن ہونے والا متقی ہواور محرمات سے پرہیز کرتا اور کوئی شرک اور بدعت کا کام نہ کرتاہو۔ سچا اور صاف مسلمان ہو ۔یہ شرط سب سے اہم اور موصی کی ساری زندگی سے تعلق رکھتی ہے۔

نظام وصیت کے بارہ میں فرمایا:
’’یہ مت خیال کرو کہ یہ صرف دور از قیاس باتیں ہیں ۔ یہ اس قادر کا ارادہ ہے جو زمین و آسمان کا بادشاہ ہے‘‘۔

ان زوردار اور متحدیانہ الفاظ سے نظام وصیت کی عظمت و شوکت کا نقشہ آنکھوں کے سامنے آجاتاہے۔ اس مقدس نظام کی بنیاد رکھتے وقت یہ الفاظ مسیح پاک علیہ السلام کے قلم مبارک سے نکلے اور آج سو سال پورے ہونے پر بالخصوص خلافت خامسہ کے بابرکت دور میں نظام وصیت کی عالمگیر وسعت کو دیکھ کر دل اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا سے بھر جاتاہے۔

نظام وصیت کی عظمت اور افادیت جاننے کے لئے یہ فقرہ بھی قابل توجہ ہے۔

’’اس وصیت کے لکھنے میں جس کا ما ل دائمی مدد دینے والا ہوگا اس کا دائمی ثواب ہوگا اورخیرات جاریہ کے حکم میں ہوگا‘‘۔

اس ارشادمیں ہر موصی کے لئے یہ زبردست نوید ہے کہ وہ دائمی ثواب کا مستحق ہوگا اور اس کی یہ مالی قربانی ایسی ہوگی کہ اس کے مرنے کے بعد بھی اس کے ایصال ثواب کا موجب ہوگی اور صدقہ جاریہ کے طورپر اس کا فیض کبھی ختم نہ ہوگا۔

نظام وصیت کے نتیجہ میں قائم ہونے والے بہشتی مقبرہ کے بارہ میں فرمایا:
’’خداتعالیٰ کا ارادہ ہے کہ ایسے کامل الایمان ایک ہی جگہ دفن ہوں ۔تا آئندہ کی نسلیں ایک ہی جگہ ان کو دیکھ کر اپنا ایمان تازہ کریں ۔اور تا اُن کے کارنامے یعنی جو خدا کے لئے انہوں نے دینی کام کئے ہمیشہ کے لئے قوم پر ظاہر ہوں‘‘۔

یہ پُرمعارف فقرہ بہشتی مقبرہ کے قیام کے عالی مقصد کو خوب واضح کرتاہے۔ ہر موصی کو کامل الایمان بننے کی دعوت دینے والا یہ فقرہ اسے یہ خوشخبری سناتا ہے کہ بہشتی مقبرہ میں تدفین کے ذریعہ اس کا وجود آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے نیکی کی تحریک کا موجب بن جائے گا۔ اور اس طرح اس کے نیک نمونہ کودیکھ کرنیکی کی توفیق پانے والے اس کے لئے دعا گو ہوں گے اور وہ مرحوم موصی اَلدَّالُ عَلَی الْخَیْرِ کَفَاعِلِہٖ کے مطابق مرنے کے بعد بھی عنداللہ اجر اور ثواب پاتا رہے گا۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک اور پیارا دعائیہ فقرہ ملاحظہ ہو:
’’بالآخر ہم دعا کرتے ہیں کہ خداتعالیٰ اس کام میں ہر ایک مخلص کومدد دے اور ایمانی جوش ان میں پیدا کرے اور ان کا خاتمہ بالخیرکرے۔ آمین۔‘‘

عجزو انکسارکے پیکرحضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قلم مبارک سے اپنے بارہ میں ’’ہم‘‘ کا لفظ بہت ہی منفرد مثال ہے۔ ظاہر ہے کہ اس لفظ کے استعمال کے پیچھے آپ کی اپنی ذات نہیں بلکہ آپ کے قلب اطہرمیں اس قادروتوانا خدا کا خیال ہے جو زمین و آسمان کا بادشاہ ہے اور جس کے ارادہ اور اذن سے یہ عظیم الشان نظام وصیت جاری ہو رہا تھاجیساکہ اوپر کے ایک حوالہ میں ذکر ہوچکاہے۔

اس ایک فقرہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کس خوبی اور کمال محبت سے ہر موصی کو تین نہایت جامع دعاؤں کی دولت سے مالامال کردیاہے ۔خدا یہ دولت ہر موصی کو عطا فرماتا رہے۔

بہشتی مقبرہ کے بارہ میں آپؑ نے فرمایا:
’’کوئی نادان اس قبرستان اور اس کے انتظام کو بدعت میں داخل نہ سمجھے کیونکہ یہ انتظام حسب وحی الٰہی ہے اور انسان کا اس میں دخل نہیں‘‘۔

یہ جامع فقرہ ہرنادان کے اس شک اور بدظنی کو دور کرنے کے لئے بہت کافی ہے کہ یہ سارا نظام کسی ذاتی غرض، ارتکاز دولت یا دین میں اختراع اور بدعت کے طورپر جاری کیا گیاہے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ یہ سارا نظام وحی الٰہی پر مبنی ہے اور کسی انسانی سوچ یا منصوبہ کا اس میں کوئی دخل نہیں۔ اس بات کا مزید ثبوت یہ ہے کہ بہشتی مقبرہ میں تدفین کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیان فرمودہ تیسری شرط میں یہ ذکر ہے کہ دفن ہونے والا کوئی شرک اور بدعت کا کام نہ کرتاہو۔ ظاہر ہے کہ بدعتی عمل کرنے والے کو ردّ کرنے والا نظام خود بدعت پر مبنی کیسے ہو سکتاہے؟

بہشتی مقبرہ کے بارہ میں یہ بنیادی فقرہ بھی خا ص توجہ کے لائق ہے:
’’کوئی یہ خیال نہ کرے کہ صرف اس قبرستان میں داخل ہونے سے کوئی بہشتی کیونکر ہو سکتا ہے۔ کیونکہ یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ زمین کسی کو بہشتی کردے گی۔ بلکہ خدا کے کلام کا یہ مطلب ہے کہ صرف بہشتی ہی اس میں دفن کیا جائے گا‘‘۔

ایک اور پہلو سے دیکھاجائے تو یہ فقرہ ایک موصی کو ہر لمحہ بیدار کرنے کے لئے بہت کافی ہے کہ وہ وصیت کی جملہ شرائط کو ہمیشہ مدنظر رکھتے ہوئے ان کے مطابق زندگی بسر کرے اور اللہ تعالیٰ کی توفیق سے وہ یہ مقام حاصل کرلے کہ عنداللہ بہشتی قرار پائے تبھی وہ بہشتی مقبرہ میں تدفین کی سعادت حاصل کرسکے گا۔

شرائط تدفین کے بارہ میں فرمایا:
’’ضروری ہوگا کہ ایسا وصیت کرنے والا جہاں تک اس کے لئے ممکن ہے پابندِ احکامِ اسلام ہو۔ اور تقویٰ اور طہارت کے امور میں کوشش کرنے والا ہو۔ اور مسلمان خدا کو ایک جاننے والا اور اس کے رسول پر سچّا ایمان لانے والا ہو۔ اورنیز حقوقِ عباد غصب کرنے والا نہ ہو‘‘۔

یہ فقرہ بھی بہت بنیادی اہمیت کا حامل ہے اور ہمیشہ ہر موصی کی نظروں کے سامنے رہنا چاہئے۔ یہ وہ امورہیں جن سے ہر انسان اپنے اعمال کا محاسبہ کر سکتاہے۔

نظام وصیت کے ذریعہ جمع ہونے والے اموال کا مصرف کیا ہوگا ؟ فرمایا :
’’انجمن جس کے ہاتھ میںایسا روپیہ ہوگا اس کو اختیار نہیں ہوگا کہ بجز اغراض سلسلہ احمدیہ کے کسی اَور جگہ وہ روپیہ خرچ کرے۔ اور ان اغراض میں سے سب سے مقدّم اشاعتِ اسلام ہوگی‘‘۔

اس ایک فقر ہ میں سارے نظام وصیت کی بنیادی غرض بہت خوبصورتی سے بیان کردی گئی ہے۔ یہ سلسلہ محض اموال کے جمع کرنے کی خاطر نہیں جیساکہ بعض نادان سمجھ سکتے ہیں بلکہ صرف اور صر ف ان اغراض عالیہ کے لئے ہے جو اس سلسلہ عالیہ احمدیہ کی ہیں۔ اور یہ بیان کرنے کے ساتھ ہی وضاحت فرما دی کہ ان اغراض میں سب سے مقدم اشاعت اسلام ہے۔ اس سے ضمناً یہ وضاحت بھی ہوگئی کہ سلسلہ کی اغراض اور اشاعت اسلام میں باہم کوئی فرق نہیں۔ یہ دراصل ایک ہی چیز کے دونام ہیں۔ دوسرے یہ واضح ہوا کہ وصیتی مالوں کا بہترین مصرف اشاعت اسلام ہے۔

نظام وصیت کے سلسلہ میں یہ فقرہ بھی خاص توجہ کے لائق ہے:
’’اگر کوئی شخص خدا تعالیٰ کی خاص وحی سے ردّ کیا جائے تو گو وہ وصیّتی مال بھی پیش کرے تا ہم اس قبرستان میں داخل نہیں ہوگا‘‘۔

اس فقرہ سے ایک بار پھر اس امر کی وضاحت ہوتی ہے کہ نظام وصیت کامقصد ارتکاز دولت نہیں ہے اور نہ ہی محض دولت کے بل بوتے پر کوئی شخص اس مبارک بہشتی مقبرہ میں داخل ہونے کا استحقاق حاصل کر سکتاہے۔ اصل اور بنیادی شرط تقویٰ کا اعلیٰ معیار ہے۔ چونکہ یہ سارا نظام ِوصیت دراصل وحی الٰہی پرمبنی ہے اس لئے اگر وحی الٰہی سے کوئی شخص ردّ کیا جائے تو وہ کسی صورت میں اس نظام کا حصہ نہیں بن سکتا خواہ وہ کتنا بھی مال پیش کرے۔

اس سارے نظام وصیت سے خداتعالیٰ کیا چاہتاہے؟ فرمایا :
’’اور ہم خود محسوس کرتے ہیں کہ جو لوگ اس الٰہی انتظام پر اطلاع پاکر بلا توقّف اس فکر میں پڑتے ہیں کہ دسواں حصّہ کُل جائیداد کا خدا کی راہ میں دیں بلکہ اس سے زیادہ اپنا جوش دکھلاتے ہیں وہ اپنی ایمانداری پر مہر لگا دیتے ہیں‘‘۔

یہ فقرہ ہر احمدی کو بہت مستعد اور بیدار کرنے والا ہے۔ واضح طورپر فرمایا کہ نظام وصیت کے قیام کا مقصد یہ ہے کہ خدا تعالیٰ مومن اور منافق میں ایک امتیاز قائم کر کے دکھا دے۔ گویا اس کو سچے احمدیوں کے ایمان کا ایک معیار قرار دیا ہے اور ایک مخلص احمدی کی شان یہ ہے کہ وہ اس الٰہی انتظام کی اطلاع پانے کے بعد اس میں شمولیت سے پیچھے نہ رہے بلکہ فرمایا کہ جو احمدی فوراً اس میں شامل ہو جائیں گے وہ اپنے عمل کے ساتھ اپنی ایمانداری کا ثبوت دیں گے۔ اس پرزور تاکیدی فقرہ کو پڑھ کر ہر احمدی کو اپناجائزہ لینا چاہئے کہ اس کا شمار کن لوگوں میں ہے۔

اسی مضمون کو ایک دوسرے پیرایہ میں یوں بیان فرمایا :
’’وہ ہر ایک زمانہ میں چاہتاہے کہ خبیث اور طیّب میں فرق کرکے دکھلاوے اس لئے اب بھی اس نے ایسا ہی کیا‘‘۔

اس فقرہ سے واضح فرمایا گیاہے کہ نظام وصیت اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک امتحان کے طورپر ہے ۔ جو اس امتحان پرپورے اتریں گے وہی اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں سچے مومن ہوں گے ۔ وہی طیب قرار پائیں گے جن کو اللہ تعالیٰ اپنے پیار سے نوازتاہے۔ یہ زوردار فقرہ بھی ایک سچے احمدی کو اس بابرکت نظام میں شمولیت پر آمادہ کرنے کے لئے بہت کافی ہونا چاہئے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس بابرکت نظام وصیت میں شمولیت کے بارہ میں باربار تاکید ی اظہار فرمایا ہے۔ ایک موقع پر فرمایا:
’’ہم خود محسوس کرتے ہیں کہ اِس وقت کے امتحان سے بھی اعلیٰ درجہ کے مخلص جنہوں نے درحقیقت دین کو دنیا پر مقدّم کیا ہے، دوسرے لوگوں سے ممتاز ہو جائیں گے۔ اور ثابت ہو جائے گا کہ بیعت کا اقرار انہوں نے پورا کرکے دکھلادیا اور اپنا صدق ظاہر کر دیا۔ بے شک یہ انتظام منافقوں پر بہت گراں گزرے گا اور اِس سے اُن کی پردہ دَری ہوگی‘‘۔

نظام وصیت کو اس وقت کا امتحان قرار دیتے ہوئے بالکل واضح الفاظ میں فرمایا ہے کہ اس نظام میں شامل ہونے والے ہی درحقیقت دین کو دنیا پر مقدم کرنے والے ہوں گے۔ یہی امر ان کے عہد بیعت کی سچائی کا بھی گواہ ہوگا۔ اور پھر بہت ہی واضح اور دوٹوک الفاظ میں فرمایا کہ اس ایک امتحان سے منافقوں کی منافقت خوب کھل کر سامنے آجائے گی اور اس طرح ہر شخص ان کو خوب جان لے گا۔ مجھے یقین ہے کہ اس فقرہ کو توجہ سے پڑھنے کے بعد کوئی مخلص احمدی اس بابرکت نظام سے باہر نہیں رہ سکتا۔

اور وہ مخلص جو امام الزمان سیدنا حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی اس آواز پر لبیک کہتے ہوئے اس نظام وصیت میں شامل ہوجائیں گے ان کو کیا انعامات ملیں گے ۔ اس سلسلہ میں فرمایا:
’’اس کام میں سبقت دکھلانے والے راستبازوں میں شمار کئے جائیں گے اور ابد تک خداتعالیٰ کی ان پر رحمتیں ہوںگی‘‘۔

اور مزید فرمایاکہ ایسے لوگ حقیقی طورپر تارک الدنیا ہوں گے جو :
’’یہ ثابت کردیں گے کہ کس طرح انہوں نے میرے حکم کی تعمیل کی ۔ خدا کے نزدیک مومن وہی ہیں اور اس کے دفتر میں سابقین اولین لکھے جائیں گے‘‘۔

یہ الفاظ اس قدر انعامات اور بشارات کی نوید پر مشتمل ہیں کہ سست سے سست احمدی کوبھی فوراً بیدار اور مستعد ہوجانا چاہئے۔ اور اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کو پانے کے لئے فی الفور اس بابرکت نظام میں شامل ہو جانا چاہئے۔ اس وقت کی غفلت بہت ہی بڑے گھاٹے کا سودا ہوگی۔
اس نظام میں شمولیت کی برکات کا بہت ہی مختصر الفاظ میں ذکرکرتے ہوئے آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ اس نظام کاحصہ بنوگے تو ’’بہشتی زندگی پاؤ گے‘‘۔

گویا یہ صرف آخرت میں بہشت پانے یا دئے جانے کا وعدہ اور سودا نہیں ہے بلکہ اس نظام میں شمولیت کے ذریعہ تو دمِ نقد اسی دنیا میں بہشتی زندگی ان لوگوں کو مل جائے گی۔ اور قرآن مجید ہمیں بتاتاہے کہ اگر کسی کو اس زندگی میں جنت کی حلاوت نصیب نہ ہوئی تو وہ آخرت میں بھی اس نعمت سے بے بہرہ اٹھایاجائے گا۔ کیاکوئی ایسا شخص ہو سکتاہے جو یہ سب کچھ جاننے کے باوجود اس دنیا میں ہی بہشتی زندگی پانے کا خواہاں نہ ہو۔ کون سا ایسا بدبخت ہوگا جو اس نعمت سے محروم رہنا پسند کرے گا۔ خدا کرے کہ کوئی بھی ایسا نہ ہو۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہر ممکن طورپر نظام وصیت کی برکت اور اہمیت واضح کرنے کے ساتھ اس میں شمولیت کی تاکید فرمائی اور اس نصیحت کا پورا پورا حق ادا کردیا ۔فجزاہ اللہ احسن الجزاء۔ آپ نے یہ سب کچھ انتہائی درد اور محبت سے بیان فرمایا اور کتا ب کا آخری فقرہ یوں تحریرفرمایا:
’’بہتیرے ایسے ہیں کہ وہ دنیا سے محبت کر کے میرے حکم کو ٹال دیں گے مگر بہت جلد دنیا سے جدا کئے جائیں گے تب آخری وقت میں کہیں گے۔ { ھٰذَا مَا وَعَدَ الرَّحْمٰنُ وَصَدَقَ الْمُرْسَلُوْنَ } (یٰٓسین:53) وَالسَّلاَمُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی۔ ‘‘

کتنے کرب اور دکھ کا اظہارہے ان لوگوں پرجوامام الزمان کے دست مبارک پر بیعت کا عہد کرنے کے باوجود اس کے اس تاکیدی حکم کوٹال دیں گے۔ خدا کرے کہ کوئی احمدی ایسا بدقسمت نہ نکلے۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا منشائے مبارک سمجھتے ہوئے اس بابرکت نظام وصیت میں شمولیت کی توفیق اور سعادت عطا فرمائے ۔ آمین

(مولانا عطاء المجیب راشد ۔لندن)

پچھلا پڑھیں

طلوع و غروب آفتاب

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ