اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں خوشخبری عطا فرمائی ہے۔
وَ اِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیۡ عَنِّیۡ فَاِنِّیۡ قَرِیۡبٌ ؕ اُجِیۡبُ دَعۡوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ فَلۡیَسۡتَجِیۡبُوۡا لِیۡ وَ لۡیُؤۡمِنُوۡا بِیۡ لَعَلَّہُمۡ یَرۡشُدُوۡنَ
ترجمہ:جب دعا کرنے والا مجھے پکارے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں سو چاہئے کہ وہ میرے حکم قبول کریں اور مجھ پر ایمان لائیں تا وہ ہدایت پائیں۔
(البقرہ:187)
پھر ایک روایت ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ لوگوں میں سے میرے حسن سلوک کا کون زیادہ مستحق ہے؟ آپؐ نے فرمایا: تیری ماں۔ پھر اس نے پوچھا پھر کون؟ آپؐ نے فرمایا تیری ماں۔ اس نے پوچھا پھر کون؟ آپؐ نے فرمایا تیری ماں۔ اس نے چوتھی بار پوچھا اس کے بعد کون؟ آپؐ نے فرمایا ماں کے بعد تیرا باپ تیرے حسن سلوک کا زیادہ مستحق ہے۔ پھر درجہ بدرجہ قریبی رشتہ دار۔
(بخاری کتاب الادب۔ باب من احق الناس بحسن الصحبۃ)
اللہ جل شانہ نے اپنی ذات کا ثبوت دینے کے لئے انبیاء کرام علیہم السلام کو مبعوث کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے اور اپنی رحمتوں کو تقسیم کرنے کے لئے دعا کو ذریعہ بنایا ہے۔ دعا کے باعث بگڑی بنانے مصیبتوں اور بلاؤں کو ٹالنے کا باب کھولا ہوا ہے۔
خدا تعالیٰ نے دعا قبول کرنے کے کئی ذرائع اور طریق مقرر فرمائے ہیں۔ سب سے زیادہ انبیاء و رسل کی دعائیں شرف قبولیت پاتی ہیں پھر ان کے خلفاء کرام کی پھر اولیاء اللہ کی پھر صالحین کی علیٰ ھذہ القیاس۔ دربار الٰہی میں قبولیت دعا کے ان گنت و بیشمار وسیلے ہیں ان میں سے ایک ذریعہ قبولیت دعا کا ماں کی اپنی اولاد کے متعلق بیقرار اور دلی آہ و بکا کی پُرخلوص دعائیں ہیں جو عرش رب جلیل کو ہلا دیتی ہیں اور ماں کی وہ کربناک حالت میں مانگی ہوئی دعائیں مشکلات کو حل کر دیتی ہیں۔ اولاد کو چاہئے ماؤں کا دل نہ دکھائیں انہیں غمناک نہ کریں ان سے بدسلوکی نہ کریں۔ گستاخی نہ کریں ان سے نامناسب رویہ نہ اپنائیں ماں کو تکلیف دینے والے کبھی خیروبرکت کا منہ نہیں دیکھتے کیا ایسی اولادیں اپنے مقاصد میں کامیاب ہوسکتی ہیں جو اپنی کمزور ناتواں ماؤں کو خون کے آنسو رلائیں، اذیت دیں۔ بے عزتی کریں ظالمانہ اور سفاکانہ سلوک برتیں اور بدتمیزی کی ساری حدیں عبور کر جائیں اور باہر بڑے نیک و پارسا بن کر بزرگوں سے بھی دعائیں کراتے پھریں اور خود بھی رو رو کر دعائیں مانگتے پھریں؟ اولاد کا اول فرض ہے کہ ماں کی خدمت کرے اس کا دل خوش کرے اس سے محبت بھرا رویہ اپنائے اور ہر مشکل کے لئے اسے دعا کے لئے کہے اور کہا کرے کہ اللہ، رسول اور خلفاء کے بعد تیری ذات میری پریشانیوں کو دور کرنے کا ذریعہ اور سہارا ہے۔ آپ میرے حق میں دعا کریں پھر بزرگان کی خدمت میں بھی دعا کے لئے درخواست کرے اور خود بھی دعائیں کرے تو خدا کا فضل شامل حال ہوگا اور بگڑے کام سنور جائیں گے۔
وہ اولادیں جو ماں کا دل دکھانے کی وجہ سے اپنے معاملات میں ناکام و نامراد رہتی ہیں اس مجرب طریق کو اپنا کر دیکھیں تو سارے دکھڑے ختم ہو جائیں گے مفت میں ماں بھی خوش ہو جائے گی اور آسانی سے کام بھی ہوتے رہیں گے!
آیئے ماں کی دعا کی تاثیر کے چند واقعات پڑھتے ہیں۔
غار سے پتھر ہٹ گیا
حدیث النبی ﷺ میں خدمت والدین کی برکت کا ایک واقعہ اس طرح بیان ہوا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تین آدمی جارہے تھے کہ انہیں بارش نے آلیا۔ چنانچہ وہ ایک پہاڑ کی غار میں چھپ گئے غار کے منہ پر پہاڑ کے اوپر سے ایک بہت بڑا پتھر آگرا اور وہ بند ہو کر رہ گئے۔ چنانچہ وہ آپس میں کہنے لگے کہ کوئی ایسا نیک عمل دیکھو جو تم نے محض رضائے الٰہی کے لئے کیا ہو اور اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے دعا کرو شائد یہ مشکل آسان ہو جائے۔ چنانچہ ان میں سے ایک نے کہا اے اللہ میرے والدین زندہ تھے اور انتہائی بڑھاپے کی عمر کو پہنچے ہوئے تھے نیز میرے چھوٹے چھوٹے بچے بھی تھے میں ان کے لئے بکریاں چرایا کرتا تھا جب میں شام کو واپس لوٹتا تو بکریاں دوہتا اور اپنے بچوں سے پہلے اپنے والدین کو دودھ پلایا کرتا تھا ایک روز جنگل میں دور جانکلا اور شام کو دیر سے واپس لوٹا وہ اس وقت سو چکے تھے میں حسب معمول دودھ لے کر ان کے سرہانے آکھڑا ہوا میں نے نیند سے بیدار کرنا پسند نہ کیا اور بچوں کو ان سے پہلے پلا دینا بھی اچھا نہ لگا حالانکہ بچے میرے قدموں میں رو پیٹ رہے تھے۔ حتیٰ کہ صبح تک میری اور ان کی حالت یہی رہی اے اللہ! تو جانتا ہے اگر میں نے یہ کام تیری رضا کے لئے کیا تو اس پتھر کو ہٹا دے تاکہ ہم آسمان کو تو دیکھیں پس اللہ تعالیٰ اسے تھوڑا سا ہٹا دیا کہ اس میں سے انہیں آسمان نظر آنے لگا باقی دو نے بھی اپنی اپنی نیکیوں کا حوالہ دیا اور کہا کہ ہم نے محض اللہ کی رضا کے لئے کیا اے اللہ! جتنا راستہ بند رہ گیا ہے اسے کھول دے پس اللہ تعالیٰ نے ان کے سامنے سے پتھر ہٹا دیا۔
(صحیح بخاری کتاب الادب باب 560 ص337, 336)
والدہ کی رضامندی
ایک بزرگ کو اپنی ماں کی غمخواری و خدمت گزاری کی بدولت غیب سے ایسے سامان پیدا ہوگئے کہ آپ علم کے نور سے منور ہوگئے۔ تذکرۃ الاولیاء میں اس حکایت کو درج کیا گیا ہے۔ لکھا ہے۔
مشہور صوفی حضرت محمد علی ترمذی حکیم نے اعلیٰ مذہبی تعلیم کے حصول کے لئے دو طالب علموں کے ہمراہ شہر سے باہر جانے کا ارادہ کیا تو آپ نے اپنی والدہ سے اس کا اظہار کیا۔ والدہ نے کہا کہ میں ضعیف ہوں مجھ کو اس حالت میں چھوڑ کر کہاں جاتے ہو۔ چنانچہ آپ رک گئے اور دوسرے ساتھی چلے گئے۔ پانچ ماہ بعد آپ گورستان میں بیٹھ کر رونے لگے کہ میں یہاں بیکار ہوں اور میرے ساتھی کل عالم سے ہو کر آئیں گے۔ آپ ابھی رو ہی رہے تھے کہ ایک طرف ایک نورانی شکل بزرگ نمودار ہوئے اور آپ سے رونے کا سبب پوچھا۔ آپ نے سارا حال سنایا۔ اس بزرگ نے فرمایا تم کوئی غم نہ کرو اگر تم چاہو تو میں تمہیں روزانہ سبق پڑھا دیا کروں گا۔ تاکہ تم ان سے بڑھ جاؤ۔ چنانچہ تین سال تک وہ روزانہ سبق پڑھاتے رہے۔ فرماتے ہیں میں نے یہ دولت والدہ کی رضامندی سے حاصل کی۔
(تذکرۃ الاولیاء 251 تا 252) از حضرت شیخ فریدالدین عطارؒ ناشر کتب خانہ شان اسلام)
ماں باپ کی عزت کرو
سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز حضرت مسیح موعودؑ کے حوالہ سے فرماتے ہیں کہ
جو شخص اپنے ماں باپ سے اس طرح بدسلوکی کرتا ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں۔ جیسا کہ فرمایا کہ جو شخص اپنے ماں باپ کی عزت نہیں کرتا اور امور معروفہ میں جو خلاف قرآن نہیں ہیں ان کی بات کو نہیں مانتا اور ان کی تعہد خدمت سے لاپروا ہے وہ میری جماعت سے نہیں ہے۔
(کشتی نوح جلد19 ص19)
(خطبہ جمعہ مورخہ 16 جنوری 2004ء روزنامہ الفضل 8 جون 2004ء)
اللہ تعالیٰ ہمیں اور ہماری نسلوں کو والدین کی خدمت کرتے رہنے کی توفیق عطا فرماتا رہے۔ آمین
(نذیر احمد سانول)