(نقطہ نظر)
کشمیرپر بھارت کے غاصبانہ قبضہ کو 70 سال گزر گئے ۔بھارت میں جو سیاسی جماعتیں برسرِاقتدار آئیں۔ انہوں نے کشمیر میں اپنے ہم خیال تلاش کر کے کشمیریوں کی تحریک آزادی کو مسلمانوں کے ہاتھوں ہی دبانے کی کوشش کی لیکن آزادی کی آواز کو دبایا نہ جاسکا۔ بھارت جنتا پارٹی کی موجودہ قیادت تو بظاہر کشمیریوں سے بدلہ لینے پر اتر آئی ہے۔ایک طرف وادی کشمیر کو کرفیو کے حوالے کر کے روزمرہ کی زندگی کو مفلوج کر دیا گیا ہے اور دوسری طرف مرکزی حکومت نے بھارتی آئین میں تبدیلیاں کرکے کشمیر کی ممکنہ حیثیت کو ختم کر دیا ہے۔ اس موجودہ سیاسی کشمکش میں اقوام متحدہ کی ان قراردادوں کا بار بار ذکر آرہا ہے جن کی بدولت کشمیر کو جداگانہ حیثیت حاصل ہوئی ان قراردادوں کو اقوام متحدہ میں پیش کرنے اور انہیں منظور کروانے کا سہراحضرت چودھری محمد ظفراللہ خان صاحب کے سر ہے۔جب تک چودھری صاحب کے ہمعصر زندہ رہے پاکستان میں چودھری صاحب کی خدمات کا تذکرہ بڑے فخرسے کیا جاتا تھا لیکن1980ءکی دہائی میں جب ملک ضیاءالحق جیسے تنگ نظر حکمرانوں کے حوالے ہو گیا تو ملک و قوم کے لئے چودھری ظفر اللہ خان کی خدمات پر بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والے منفی تبصروں کے ساتھ میدان سیاست میں اتر آئے اور یہ سلسلہ گزشتہ30 سال سے جاری ہے اب تاریخ نے اپنے آپ کو دہراتے ہوئےایک ایسا موقع پیدا کیا ہے اہل وطن کو چودھری ظفراللہ خان صاحب کی خدمات جلیلہ کا ذکر کرنا مجبوری بن گیا ہے دنیا کو اپنا ہمنوا بنانے اور بھارتی آئین میں کی جانے والی ترمیم کو مسترد کروانے کے لئے چودھری صاحب کی تقاریرکا حوالہ بار بار دیا جانا وقت کی ضرورت بن گیا ہے۔ جن پر ملک میں زرد صحافت کو فروغ دینے والے مجیب الرحمن شامی اوریا مقبول جان اور ان کا قبیلہ چودھری صاحب محترم کو موردِ الزام ٹھہراتا رہا ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ زرد قبیلے کی طرف سے محض مذہبی تعصب کی بناء پر چودھری صاحب پر2 الزام لگائے جاتے رہے ہیں۔اول یہ کہ چودھری صاحب نے باؤنڈری کمیشن میں مسلم لیگ کی طرف سے پیش ہونے پر لاکھوں روپے فیس وصول کی اور دوم اقوام متحدہ میں لمبی لمبی تقریریں کرکے مسئلہ کشمیر کے بارے میں ممبران میں اکتاہٹ پیدا کر دی۔
گزشتہ دنوں ایک ٹی وی مذاکرہ میں زرد صحافی مجیب الرحمن شامی نے باؤنڈری کمیشن میں کیس کی فیس کا تذکرہ کرنے کی کوشش کی تو معروف دانشور اور نیک نام و کیل اور شریعت کورٹ کے سابق جج سید افضل حیدر نے(جن کے والد سید محمد شاہ، چودھری صاحب کے ساتھ وکلا ءپینل میں شامل تھے )مجیب الرحمان شامی کی طرف سے ماضی میں لگایا جانے والا الزام آج رد کر دیا ۔سید افضل حیدر نے شامی کی طرف سے پوچھے جانے والے سوال کے جواب میں کہا کہ جب 31 جولائی کو لاہور ہائی کورٹ میں چیف جسٹس کے ساتھ والے کمرے میں بحث ختم ہوئی سب وکلاءباہر آگئے ۔تھکے ہوئے برآمدے میں کھڑے تھے اس دوران سیپک بام نے جو بعد میں انڈیا کے اٹارنی جنرل بنے، نے آکر چودھری ظفر اللہ خان کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا سر محمد آپ کو مبارک ہو آپ نے بہت اچھا مقدمہ لڑا ہے اور پھر مسکرا کر کر سامنے وکلاء صاحبزادہ نوازش علی خان ابا جی، سید محمد شاہ ،شیخ نثار کو پوچھا کہ آپ نے بہت بڑی فیس لی ہوگی۔ ان سب وکلاء نے کہا کہ ہم نے تو اپنے پاس سے پیسے خرچ کئے ہیں کوئی فیس نہیں لی۔ کانگریس کے وکیل سیپک بام کا جواب سنیئے۔
.Then I must return 7 Lakh (seven hundred thousand rupees) to national congress
اگر آپ لوگوں نے فیس نہیں لی تو مجھے بھی نہیں لینی چاہئے۔ شیخ نثار نے ان کو پھر کہا کہ ہم نے تو کوئی فیس نہیں لی ۔
چودھری صاحب پرایک دوسرا الزام تقاریر کی طوالت کے اعتبار سے لگایا جاتا رہا ہے۔ یہی بات سینئر صحافی ایڈیٹر آتش فشاں منیراحمدمنیر نے چودھری صاحب سے 80 ءکی دہائی میں لئے جانے والے ایک طویل انٹرویو میں پوچھی تھی۔ جس کو انہوں نے 1985 ءمیں سیاسی اتار چڑھاؤ کے عنوان سے کتاب میں شامل کیا۔ منیراحمدمنیر کا سوال اور چودھری صاحب کا جواب حاصل مطالعہ کے تحت یہاں نقل کر رہا ہوں اس لئے کشمیر کے معاملے میں برطانوی چالوں اور چودھری صاحب کو کیسے حالات میں یہ سیاسی جنگ لڑنا پڑی اس سے آگاہی حاصل ہوتی ہے اور چودھری ظفراللہ خان کی مسئلہ کشمیر میں خدمات ملک و قوم کے آگے سرتسلیم خم کئے بغیر چارہ ممکن نہیں۔
(عرفان احمد خان۔جرمنی)