اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجھے 1959ءسے لے کر 1965ءتک تعلیم الاسلام کالج میں پڑھنے کا موقعہ ملا۔ ایف اے، بی اے اور پھر اسی کالج سے ایم اے عربی بھی کیا۔ اس عرصہ کی چند یادیں تحریر کرتا ہوں۔
کالج کے زمانہ کی یادوں کا آغاز تو کالج کے ہر دلعزیز اور بزرگ پرنسپل حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد رحمہ اللہ سے ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کو شاہانہ طرز اور وقار عطا فرمایا تھا لیکن آپ کی طبیعت میں سادگی اور بے تکلفی بھی بہت نمایاں طور پر پائی جاتی تھی۔ مجھے اس کا ایک تجربہ اس وقت ہوا جب ایک بار آپ ؒ کے ساتھ شکار پر جانے کا موقع ملا۔ ان دنوں آپ تعلیم الاسلام کالج کے پرنسپل تھے۔ آپ کے ساتھ جانے والوں میں محترم صاحبزادہ مرزا منوراحمد۔ میرے والد محترم مولانا ابوالعطاء اور محترم مولانا احمد خان نسیم کے علاوہ اور بھی چند احباب تھے۔ جاتے ہوئے احمدنگر کے قریب کچی سڑک پر کیچڑ ہونے کی وجہ سے بس جس میں سب سوار تھے پھنس گئی۔ سب نیچے اترے اور بس کو کیچڑ سے نکالنے کی کوشش ہونے لگی۔ میں نے دیکھا کہ باقی ساتھیوں کے ساتھ آپ ؒ بھی اس کام میں برابر شریک تھے۔ میں اس وقت چھوٹی عمر کا تھا لیکن یہ نظارہ آج بھی گویا میری نظروں کے سامنے ہے کہ آپ ؒ بھی قریبی کھیتوں سے جھاڑیاں اکھاڑ کر لا رہے تھے۔ اور اسی طرح مٹی کے بڑے بڑے ڈھیلے لائے جارہے تھے تاکہ ان کو مائیکرو بس کے پہیوں کے آگے رکھا جائے اور وہ کیچڑ سے باہر آسکے۔یہ بظاہر ایک معمولی سا واقعہ تھا لیکن اس کی یاد آج بھی تازہ ہے اور آپ ؒ کی سادہ اور خاکسارانہ طبیعت کی یاد دلاتی ہے۔
آپؒ کی طبیعت کی سادگی کے بارہ میں ایک اور بات یاد آئی۔ پچھلے دنوں ایک بہت ہی پرانی تصویر دیکھنے کا موقع ملا۔ یہ تعلیم الاسلام کالج کی ربوہ میں تعمیر کے دنوں کی ہے۔ اس میں حضرت مرزا ناصر احمد ؒ تعمیر کا کام کرنے والے چند مزدوروں کے ساتھ کالج کے ایک برآمدہ کی سیڑھیوں پر بڑی بےتکلفی سے بیٹھے ہوئے ہیں۔ یہ تصویر آپ کی بے تکلفی، انکساری اور عظمت کو خوب ظاہر کرتی ہے۔
کالج کے پرنسپل کی حیثیت سے طلباء کے اخلاق کی نگرانی اور ان کی بہبود کا خیال رکھنا آپ کی شخصیت کا ایک خاص وصف تھا۔ 1959ء کی بات ہے میں جب میٹرک پاس کرکے کالج میں داخل ہوا تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے وظیفہ کا حقدار پایا تھا۔ اس وقت مجھے خیال آیا کہ کالج کے ہوسٹل میں قیام کروں۔ میرا یہ خیال تھا کہ اس طرح شاید وقت کی بچت ہو اور کھیلوں اور دوسرے پروگراموں میں بھی شرکت ہوسکے گی اور چونکہ سرکاری وظیفہ کی وجہ سے اخراجات کی بھی فکرمندی نہ تھی ۔اس لئے میں نے یہی خیال کیا کہ یہ صورت بہت بہتر رہے گی۔
جب یہ بات آپ ؒ کے علم میں آئی تو آپ ؒ نے اس سے اتفاق نہیں فرمایا اور مجھے تاکیداً یہی کہا کہ ہوسٹل میں ہر گز نہیں رہنا بلکہ گھر میں ہی قیام کرتے ہو ئے تعلیم حاصل کی جائے ۔اس وقت کے جذبات کے لحاظ سے مجھے یہ فیصلہ اور ارشاد کچھ بوجھل محسوس ہوا اوراس کی کوئی حکمت سمجھ نہ آئی کہ جب اخراجات کا بھی کوئی مسئلہ نہیں (کیونکہ وظیفہ کی سہولت موجود ہے) تو پھر کیوں اس صورت کو اختیار نہ کیا جائے۔ بہر حال آپ ؒ کا ارشاد تھا اس کی تعمیل کی گئی اور بعد میں آپ ؒ کی کسی بات سے اور خود اپنے تجربہ اور مشاہدہ سے یہ بات مجھ پرخوب واضح ہوئی کہ گھر کا ماحول ہوسٹل کے ماحول سے بدرجہا بہتر ہوتا ہے اور اسی حکمت کی وجہ سے آپ ؒ نے ہوسٹل میں میرے قیام کو پسند نہیں فرمایا تھا۔ ہوسٹل تودراصل ان لوگوں کیلئے ہوتاہے جنہیں گھر میں رہنے کی سہولت نہ ہواور جنہیں گھر کی سہولت میسر ہو ان کیلئے بلاوجہ ہوسٹل میں قیام چنداں مفید نہیں ہوتا بلکہ نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ اب اس واقعہ پر غور کرتا ہوں تو یہ بات سمجھ آتی ہے کہ یہ آپ ؒ کا عظیم احسان تھا کہ آپ ؒ نے اس بارہ میں میری بروقت صحیح راہنمائی فرمائی۔
کالج کے دنوں میں ایک اوردلچسپ واقعہ یہ ہوا کہ جلسہ تقسیم اسناد و انعامات کے موقع پر جب حضرت مولانا جلال الدین شمس ؓ خاکسار کو وہ طلائی میڈل لگا رہے تھے جو پنجاب یونیورسٹی سے ملے تھے تو آپ ؒ سٹیج پرقریب ہی کھڑے تھے۔ جتنی دیر Pin وغیرہ لگانے میں لگتی ہے اس عرصہ میں آپ ؒ نے یہ پُرلطف تبصرہ فرمایا کہ دیکھنا! ان طلائی میڈلوں کو اپنے ابا جان سے بچا کے رکھنا وگرنہ وہ انہیں بھی الفرقان میں لگادیں گے!۔ اس تبصرہ میں مزاح بھی تھا اور اس مشاہدہ اور حقیقت کا اظہار بھی کہ محترم اباجان مرحوم کو ماہنامہ الفرقان کتنا عزیز تھا۔ یہ آپ کا ذاتی رسالہ تھا اور اس کے سب اخراجات آپ اپنی جیب سے ادا فرماتے تھے۔ میں تو خود اس بات کا ذاتی طور پر گواہ ہوں کیونکہ میں بھی کافی عرصہ رسالہ کی انتظامیہ میں شامل رہا۔ شاید اسی وجہ سے آپ ؒ نے یہ پُرلطف تبصرہ فرمایا۔ میں نے بعد میں جب ابا جان سے اس بات کا ذکر کیا تو آپ نے بھی اس سے خوب لطف اٹھایا۔
تعلیم الاسلام کالج کا وسیع و عریض ہال بہت خوبصورت ہا ل تھا۔ ابتدائی دور میں اس کی حالت مالی گنجائش نہ ہونے کی وجہ سے کافی خستہ ہوتی تھی۔ ربوہ کی زمین میں بہت کلّر ہوتا تھا جس کی وجہ سے ہال کی دیواروں پرسیمنٹ کے پلستر پر عجیب و غریب قسم کے نقوش بن جاتے تھے۔ ان دنوں مکرم پروفیسر نصیر احمد خان کالج یونین کے سرپرست ہوتے تھے۔ انہوں نے کئی بار محترم پرنسپل صاحب سے اس بارہ میں درخواست کی کہ اس صورت حال کاکچھ ازالہ کروادیا جائے مگر مالی مجبوریاں اس کام میں حائل ہو جاتی رہیں۔ انہی دنوں ایک مجلس مشاعرہ منعقد ہوئی۔ ہال سامعین سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ مکرم پرنسپل صاحب پہلی قطار میں تشریف فرما تھے۔ مکرم ڈاکٹر نصیر خان کی باری آئی۔ آپ بہت بلند پایہ شاعر تھے۔ بڑے بذلہ سنج اور موقعہ کی مناسبت کوخوب سمجھنے والے تھے۔ آپ نے اپنی نظم بڑے وقار سے تحت اللفظ پیش کرنی شروع کی۔ اس دوران ایک موقعہ پر آپ نے پرنسپل صاحب کو بڑے ادب سے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ اگلا شعرہمارے مہربان محترم پرنسپل صاحب کی خصوصی توجہ کے لئے ہے۔ ہال میں کلّر کے نقش و نگار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے شعر پڑھا۔ جس کا دوسرا مصرعہ یوں تھا
ہمارے ’’ہال‘‘ پر نظر کرم یوں بھی ہے اور یوں بھی
یہ مصرعہ سنتے ہی ہر طرف مسکراہٹ پھیل گئی۔بس ایک مصرعہ سارا کام کرگیا اور جلد ہی ہال کا حال بھی ٹھیک ہوگیا!
نظم وضبط قائم رکھنا اور طلبہ سے شفقت کا سلوک کرنا ادارہ کے سربراہ کا بنیادی فرض ہوتا ہے۔ یہ دونوں باتیں محترم پرنسپل صاحب کے طرز عمل میں بیک وقت کار فرما نظر آتی تھیں۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ایک بار ہماری کلاس کے ایک طالب علم کو کسی غلطی یا شرارت کی بنا پر دس روپے جرمانہ کی سزا دی گئی۔بےچارے غریب طالب علم کے لئے یہ ادائیگی ناممکن سی بات تھی۔ طالب علم فوراً ایک لمبی درخواست لکھ کر پرنسپل صاحب کے دفتر میں حاضر ہوگیا۔ آپ نے درخواست پر ایک نظر ڈالی اور قلم ہاتھ میں لے کر موٹے الفاظ میں NO کا لفظ لکھا اور درخواست واپس کردی۔ طالب علم سخت مایوس ہوکر دفتر سے باہر آگیا۔ وہ اپنی کلاس میں مغموم اور فکر مند بیٹھا تھاکہ کالج کا ایک کارکن آیا اور اسے ایک لفافہ دے گیا۔ اس میں دس روپے کا نوٹ تھا اور ساتھ پرنسپل صاحب کا نوٹ تھا کہ دفتر جاکر جرمانہ کی ادائیگی کردیں!
ہمارے انگریزی کے استاد محترم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد تھے۔ ہر روز بڑے اہتمام کے ساتھ تیار ہوکر بروقت آتے۔کوئی غیر ضروری بات نہ کرتے۔ آتے ہی تدریس شروع ہوجاتی اور پورا وقت پڑھاتے تھے۔ انگریزی تلفظ پر خاص زور دیا کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ POPULATION کا صحیح تلفظ بتانے کے بعد کافی دیر کلاس میں اجتماعی طور پر اور پھر انفرادی طور پر اس کی مشق کرواتے رہے۔ ایک روز بڑا ہی شاندار واقعہ ہوا۔ ہماری کلاس میں ایک قریبی گاؤں سے آنے والے ایک نوجوان بھی تھے۔ وہ بہت اچھی طبیعت کے محنتی طالب علم تھے۔ ان کے بولنے کے اندازپر دیہاتی ماحول کا بہت اثر تھا جس کو بہتر بنانے کے لئے وہ کافی کوشش کرتے رہتے تھے۔ ایک روز صاحبزادہ صاحب نے بلیک بورڈ پر انگریزی کاایک فقرہ لکھا کہ
THE CIGARETTE IS MADE OF PAPER AND TOBACCO
یہ لکھ کر آپ نے الفاظ کا صحیح تلفظ بتایا اور خوب اچھی طرح وضاحت کی اور پھر ایک ایک طالب علم کو کہا کہ وہ بلند آواز سے اس فقرہ کو دہرائے۔ چنانچہ ہر طالب علم نے باری باری یہ فقرہ دوہرانا شروع کیا ۔ اگر کسی جگہ کوئی کمی رہ جاتی تو آپ اصلاح فرما دیتے۔ جب ہمارے مذکورہ بالا دوست کی باری آئی تو وہ کھڑے ہوئے اور بڑے اعتماد اور تیزی سے فقرہ دہرایا۔ انہوں نے کہا
دی سِرْگَٹْ اِزْ میڈْ آف پیپر اینڈْ تَبَاخُو
بے تکلفانہ انداز اوردیہاتی تلفظ سن کر ساری کلاس نے زوردار قہقہہ لگایا اور محترم صاحبزادہ صاحب کا تو یہ حال تھا کہ ان کی ہنسی ضبط سے باہر ہورہی تھی۔ آپ نے اپنا رجسٹر اٹھایا اور نصف سبق کے دوران ہی کلاس روم سے باہر چلے گئے!
ایک اور محنتی طالب علم کا واقعہ بھی بہت دلچسپ ہے ۔ ان دنوں ہمارے اکنامکس کے استاد مکرم ظفر وینس ہو ا کرتے تھے۔ اکنامکس کی مشہور کتاب ESSENTIALS OF ECONOMICS جو پروفیسر ایس ایم ظفر کی لکھی ہوئی تھی ہمارے نصاب کی کتاب تھی۔ کلاس میں لیکچر انگریزی میں ہوتا تھا۔ امتحان کے وقت پرچہ سوالات انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں دیا جاتا اور اجازت ہوتی تھی کہ کسی بھی زبان میں جوابات دیں۔ ہماری کلاس میں صرف چار یا پانچ طلبہ ایسے تھے جو انگریزی میں جوابات لکھتے تھے۔ ایک افریقہ کے تھے ایک بحرین کے اور باقی تین طلبہ ایسے تھے جواپنے شوق سے انگریزی میں جوابات لکھا کرتے تھے۔ ان میں سے ایک طالب علم ایسے تھے جن کی انگریزی توکافی کمزور تھی لیکن ان کا اصرار تھا کہ میں نے بہر صورت جوابات انگریزی میں ہی لکھنے ہیں۔
انہوں نے ایک بہت ہی عجیب اور حیران کن طریقہ اختیار کیا ہوا تھا کہ ساری کی ساری کتا ب زبانی یاد کرلی تھی۔ امتحان کے وقت جو بھی سوال آتا ، وہ اس کا جواب کتاب کے عین مطابق بالکل صحیح درج کر آتے ۔اب بھلاان کو سوفیصد نمبر کیسے نہ ملتے؟
کتاب کاایک پورا باب اس بارہ میں تھا کہ ملک کے سٹیٹ بینک کے کام کیا کیا ہوتے ہیں۔ امتحان میں یہ سوال آیا کہ بینکوں کے بینک کے طور پرسٹیٹ بینک کے کام کیا ہیں؟ ہمارے اس محنتی دوست نے آؤ دیکھا نہ تاؤ کتاب کا پورے کا پورا باب (جو سٹیٹ بینک سے متعلق تھا اور کئی صفحات پر محیط تھا) شروع سے لیکر آخر تک من و عن نقل کر دیا۔ نمبر تو ا ن کو ضرور مل گئے ہوں گے لیکن باقی سوالوں کے جوابات کا وقت ملا یا نہیں، یہ الگ بات ہے۔ خیر یہ تو ہوا لیکن سب سے دلچسپ بات یہ ہوئی کہ انہوں نے اپنے جواب کا آغاز ( کتاب کے عین مطابق) اس فقرہ سے کیا کہ
….. As we have already explained in the last chapter
کالج کے سارے کے سارے اساتذہ ہی بہت لائق اور قابل ذکر ہیں۔ اس جگہ اپنے ایک نہایت نیک، محنتی، دعاگو اورمشفق و مہربان استاد محترم صوفی بشارت الرحمٰن کا مختصر ذکر کرتا ہوں۔وہ ہمارے عربی کے استاد تھے۔ بڑا لمبا عرصہ تدریس کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ مجھے بھی ان سے کئی سال شرفِ تلمّذ حاصل رہا۔ نصاب کی کتابیں سالہا سال ایک جیسی ہوتی تھیں لیکن وہ ہر بار کلاس میں آنے سے قبل پوری تیاری کے ساتھ آتے اور بہت ہی تفصیل کے ساتھ ایک ایک لفظ سمجھاتے تھے۔ بڑی باقاعدگی اور محنت سے فریضۂ تدریس ادا کرتے تھے۔ بڑے بزرگ اور دعاگو انسان تھے۔ ان کی ایک بات نے مجھے ہمیشہ متاثر کیا اور آج تک ان کا یہ وصف میرے دل پر نقش ہے کہ آپ ہمیشہ قرآن مجید پر غوروفکر اور تدبر کرتے رہتے۔ مختلف آیات قرآنیہ کے مشکل مقامات کو حل کرنا اور امکانی طور پر پیدا ہونے والے سوالات کو عربی زبان کے لحاظ سے سلجھانا آپ کی پسندیدہ مصروفیت تھی۔ کلاس میں بھی ان امور کا اکثر ذکر فرماتے اور طلبہ کو بھی اس تحقیق اور تدبر میں اپنے ساتھ شامل کر لیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرماتا رہے۔ آمین
خاکسار نے یہ مضمون حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں ارسال کیا تو حضور انور نے ازراہِ شفقت جواباً تحریر فرمایا:
’’ آپ کا خط ملا۔ آپ نے تعلیم الاسلام کالج کے حوالہ سے اپنی جو یادداشتیں بھجوائیں ہیں وہ ماشاء اللہ بہت خوب ہیں۔ مرزا خوارشید احمد کے تلفظ سے مجھے بھی ایک واقعہ یاد آگیا۔ آپ ہماری کلاس میں ہمیں تلفظ سکھا رہے تھے۔ ایک پنجابی ہمارے دوست تھے۔ بے تکلفی بھی ہوتی تھی۔ کلاس ختم ہوئی تو کھڑے ہو کر کہنے لگے آپ جس طرح پڑھاتے ہیں اس سے ہمیں انگریزی زبان تو پتہ نہیں آتی ہے یا نہیں لیکن اس طرح تلفظ ادا کرنے سے ہماری زبان میں بَل ضرور پڑھ جائے گا۔‘‘
(خط محررہ 6.04.2016)
(مولانا عطاء المجیب راشد۔لندن)