• 30 اپریل, 2024

سلطنت عمان اور عربوں کی یادیں

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ پر رونق اور خوبصورت باغات کا ذکر ان الفاظ میں کرتا ہے۔

فرمایا: ’’یا یہ تو بتاؤ کہ کون ہے وہ جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور تمہارے لئے آسمان سے پانی اتارا اور اس کے ذریعہ ہم نے پر رونق باغات (حَدَآئِقَ ذَاتَ بَہۡجَۃٍ ۚ) اگائے۔ تمہارے بس میں تو نہ تھا کہ تم ان کے درخت پروان چڑھاتے۔ پس اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود ہے؟ نہیں بلکہ وہ نا انصافی کرنے والے لوگ ہیں۔‘‘

( النمل :61)

بھجۃ الانظار السلطانی

قرآن کریم میں مستعمل اس مبارک نام کی طرح ’’بھجۃ الانظار السلطانی‘‘ نام کا ایک خوبصورت باغ مجھے سلطنت عمان میں صحار شہر میں دیکھنے کا موقع ملا جوکہ دیوان آف رائل کورٹ افیئر کے ماتحت سلطان قابوس بن سعید کا ایک باغ ہے جس کی سیکیورٹی بہت سخت ہے۔ صحار سلطنت عمان کا پرانا دارالحکومت ہے اور ایک اہم پورٹ ٹاؤن ہے صحار کو مشہور زمانہ ملاح (sailor) سند باد کی روایتی جائے پیدائش شمار کیا جاتا ہے۔

1981ء، 1987ء کا زمانہ تھا جو میں نے خدا کے فضل سے سلطنت عمان میں گزارا جس کی خوشگوار یادیں ذہن سے محو نہیں ہوئیں پراجیکٹ کے کام کے ساتھ ساتھ مجھے سلطنت عمان اور متحدہ عرب امارات کی week ends پرسیاحت کا بھی موقع ملا۔
ابو ظہبی میں محمد سرور جاوید اور میں نے حلمی شافعی صاحب سے ملاقات بھی کی تھی جو ان دنوں نیوی کے کالج میں ملازم تھے بعد میں لندن میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے ترجمان کے طور پر ایم ٹی اے کے پروگرام ’’لقاء مع العرب‘‘ میں آتے رہے اور عالمی شہرت پاگئے۔

صحار روڈز پراجیکٹ

صحار روڈ پراجیکٹ میں شہر کی اندرونی سڑکوں کے علاوہ سلطان قابوس بن سعید کے باغ جس کا نام بھجۃ الانظار السلطانی ہے کی اندرونی سڑکوں کا کام بھی شامل تھا ہمارے بڑے محدود سٹاف کو بھجۃ الانظار کے اندر جانے کے پرمٹ ملے میرا بھی پرمٹ تھا۔ بڑا خوبصورت باغ ہے کئی قسم کے درخت جیسے Eucalyptus اور پھلدار درخت کھجور انگوروں کی بیلیں آم کے درخت اور قسم قسم کے پھل اور پھول ہیں

اس دوران باغ کے اندر سلطان قابوس کا گیسٹ ہاؤس بھی دیکھنے کا موقع ملا وہاں دیوان آف رائل کورٹ افیئر کی طرف سے باقاعدہ ایک عمانی ڈائریکٹر مقرر تھا جس کی معاونت ایک مصری حسن نامی ایگریکلچر انجینئر کر رہا تھا۔ وہ میرا دوست بن گیا تھا اسی کی وساطت سے گیسٹ ہاؤس تک رسائی ہوئی میں نے دیکھا کہ گیسٹ ہاؤس کے دروازوں کے ہینڈل اور کھانے کی میز پر کراکری سونے اور چاندی کی ہےاگرچہ بنو امیہ، بنو عباس، مغلوں، حمدانیوں، عثمانیوں، صفویوں، قجریوں وغیرہ کے شاہی باغات سے کوئی نسبت ہی نہیں لیکن نام کے لحاظ سے جو قرآن کریم سے اخذ کیا گیا ہے ’’بھجۃ الانظار‘‘ کو ایک خاص امتیازی حیثیت حاصل ہے جو بہت کم لوگوں کو دیکھنا نصیب ہوا ہے۔

باغ میں داخل ہونے کے آداب

قرآن کریم میں باغ میں داخل ہونے کے آداب بھی سکھائے گئے ہیں فرمایا ‘‘اور جب تو اپنے باغ میں داخل ہوا تو کیوں تو نے نہ کہا
’’ماشاء اللّٰہ لا قوۃ الا باللّٰہ‘‘

(الکہف:18)

گویا یہ باغ میں داخل ہونے کی دعا ہے۔

عمانیوں کی روایتی مہمان نوازی

اس پراجیکٹ کی بہت اہمیت تھی لینڈ ایکوزیشن کا کام بھی نیسپاک کے ذمہ تھا 900 کے قریب مکانات، اور دکانیں اور رہائشی اور ایگریکلچر پلاٹ جزوی طور پر متاثر ہو رہے تھے جن کے Site Plan ہم بناتے تھےاور منسٹری کے افسران کے ساتھ دورے کرتے تھےاور صحار کے والئ آفس میں آتے جاتے رہتے تھےاس لئے کافی حد تک پبلک ڈیلنگ ہو جاتی تھی اور بعض مقامی عمانیوں سے دوستی ہو گئی تھی۔

بعض عمانی عرب دعوت پر بھی بلا لیتے تھے چنانچہ ایک ٹریفک پولیس کے سینئر افسر نے دعوت پر بلایا ان کے دسترخوان پر ہر قسم کی نعمت تھی اور زور دے دے کر ہر چیز کھانے پر مجبور کرتے تھے۔

دیہاتی علاقوں میں تو مہمانوں کو گویا پیٹ پھاڑ کر کھلایا جاتا تھا ایک مرتبہ ایک اور روڈپراجیکٹ پر پہاڑی وادیوں میں مہمان نوازی کا اتفاق ہوا پہاڑ کے دامن میں Tented House تھے اور ان کا ایک Tent میں مشترکہ مہمان خانہ تھا ہم تین پاکستانی اور ایک ہمارے ساتھ مسقط سے عمانی سرکاری آدمی تھا بستی والوں نے قہوہ، بڑے بڑے پراٹھے اور شھد پیش کیا ابھی ہم کھا ہی رہے تھے تو ایک اور تھال کھانے کا آگیا بتایا گیا یہاں یہ رواج ہے کہ مہمان کو ہر گھر سے کھانا بھیجا جاتا ہے اور مہمان کو وہ کھانا کھانا پڑتا ہے۔ ہم نے کہا کہ ہمارا تو پیٹ بھر گیا ہے کہنے لگے آپ تو اجنبی ہیں آپ کو اس روایت کا علم نہیں ہوگا اس لئے آپ کو تو چھوڑ دیتے ہیں لیکن آپ کے ساتھ جو عمانی آیا ہے اسے نہیں چھوڑیں گے اسے ہر گھر سے آیا ہوا کھانا ضرور کھانا پڑے گا عجیب سماں تھا عمانی مہمان ہنس ہنس کر خیمے سے باہر بھاگ جاتا تھا اور میزبان اسے پکڑ کر اندر لے آتے تھے اور کہتے تھے کہ ابھی اور کھاؤ وہ کہتا “انا متروس” غالباً اس کا مطلب تھا میں بہت سیر ہو چکا ہوں لیکن وہ اسے پھر کھانے پر مجبور کرتے حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے افراط و تفریط سے منع فرمایا ہوا ہے ہم اس کشمکش سے بہت محظوظ ہوتے رہے۔

حضرت مسیح موعودؑ کا منظوم عربی کلام

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منظوم عربی کلام میں بھی ان مبارک الفاظ ’’حدیقۃ بھجۃ‘‘ کا استعمال نظر آتا ہے۔

آپؑ نے آنحضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی مدح میں تحریر فرمایا۔

من ذکر وجھک یا حدیقۃ بھجتی
لم اخل فی لحظ و لا فی آن

یعنی اے میرے خوشی کے باغ آپ کے چہرے کی یاد سے میں ایک لحظہ اور آن کے لئے بھی خالی نہیں رہا۔

صحار میں جماعت کا قیام

صحار میں خدا کے فضل سے ہم نے باقاعدہ جمعہ کی نماز شروع کی سیالکوٹ کے کچھ لوگ فاسٹ فوڈ کا کام کرتے تھے ایک بنک مینیجر جاوید اقبال بھی احمدی مل گئے ایک اور بنک مینجر شاہد عمر قریب کے شہر شناص سے آجاتے تھے ربوہ کے ایک ڈرائیور عبدالجبار کنٹریکٹر فرم strabag میں کام کرتے تھے لکھنو کے ایک دوست بھی ہمارے ساتھ نماز پڑھنے لگےاس کے علاوہ پندرہ بیس کلو میٹر دور تک چند اور احمدیوں کو بھی pick کروا لیتے تھے ان سب کے ساتھ جمعہ اکٹھا پڑھنا شروع کیا اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کے خطبہ کی کیسٹ جو ہمیں تین دن بعد مل جاتی تھی جمعہ پر مل کر سن لیتے تھے مسقط سے میں نے ایک Colleague انجینئر ابراہیم نصر اللہ درانی کو بھی ٹرانسفر کروا لیا تھا اس طرح اچھی خاصی جماعت بن گئی اس سے پہلے سلطنت عمان میں صرف دو شہروں مسقط اور صلالہ میں جماعتیں قائم تھیں۔میرے بعد بھی وہاں جماعت قائم رہی اور چند سال بعد میرا چھوٹا بھائی بھی ایک Road Project پر صحار کے قریب پہنچ گیا اور اسے وہاں کا صدر نامزد کر دیا گیامیرا خیال ہے اب بھی وہاں جماعت قائم ہے اس دور کے خلیفۃ المسیح الرابع ؒکے بعض خوشنودی کے خطوط بھی میرے ریکارڈ میں پڑے ہوئے ہیں اور یہ محض اللہ کا فضل ہے۔

برکات خلافت

میرا عمان میں ٹرانسفر ہو کر آنا اور کامیابی سے پراجیکٹس مکمل کروانا خلافت کی برکت سے تھا چھ سات سالوں میں میرے پاکستان اور عمان کے درمیان کم ازکم دس چکر لگے ہوں گے کئی لوگ سمجھتے تھے کہ میں پاکستان میں ہی ہوں ۔وہاں پر مجھے نیسپاک کے لئے بزنس پروموشن کی بھی توفیق ملی وہاں کی حکومت کے متعلقہ لوگ اور نیسپاک انتظامیہ میرے کام سے بہت خوش تھے یہی حسد فتنے کا باعث بنا۔

اندر اندر کترنے والے چوہے

جب میں پہلی مرتبہ مارچ 1981ء میں عمان جارہا تھا تو اس سے پہلے قصر خلافت اور پرائیویٹ سیکرٹری بلڈنگز کی تعمیراتی نگرانی کے لئے وقف عارضی کر رہا تھا آخری دن حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے زمینوں پر جاتے ہوئے شرف ملاقات عطا فرمایا حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد ناظر اعلیٰ اور صاحبزادہ مرزا لقمان احمد بھی ہمراہ تھے۔ حضور کو علم تھا کہ میں مسقط عمان جا رہا ہوں مسکراتے ہوئے فرمایا ’’وہاں اندر اندر کترنے والے چوہے تو نہیں‘‘

اس وقت تو سمجھ نہ آئی لیکن جب صحار پراجیکٹ پر اپنے ہی Colleagues نے فتنہ کھڑا کیا تو اس وقت اندر اندر چوہوں کے کترنے والی بات سمجھ آئی فتنہ کے دنوں میں اضطراری کیفیت میں جو خط میں نے حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کو لکھا وہی خط حضور نے ایک نوٹ لکھ کر واپس بھجوا دیا کہ ‘‘فکر نہ کریں میں دعا کر رہا ہوں اللہ تعالیٰ فضل کرے گا’’

چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فضل کیا میں وہاں بڑے باعزت طریقے سے وہ پراجیکٹ مکمل کروا کر واپس پاکستان آیا بلکہ Maintenance Period ختم ہونے کے بعد میں نے ہی واپس جاکر اس پراجیکٹ کی فائنل پینڈنگاوور کروائی۔

(انجینئر محمود مجیب اصغر)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 30 جنوری 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 1 فروری 2020