ہے فرض حکمِ عبادت ہمیں بجا لانا
بڑا گناہ ہے خدا کا شریک ٹھہرانا
اور اس کے ساتھ ہے مولا کریم کا ارشاد
ہو حرزِ جان وَ ِبالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا
سلام ماں کو کہ جنت ہے قدموں کے نیچے
سلام باپ کو ہے سائباں کریمانہ
اگر حیات ہوں ماں باپ خوش نصیبی ہے
کسی طرح بھی ہوں ہر وقت ان کے کام آنا
نہ کہنا ’’اُف‘‘ کبھی کچھ ناگوار بھی گزرے
جھکانا رحم کے پَر ان کی ڈھال بن جانا
اطاعت ان کی مقدم ہے اور لازم ہے
خوشی سے رکھنا سر آنکھوں پہ ان کا فرمانا
کہیں نہ ٹھیس لگے دل کے آبگینے کو
چھلک نہ جائے کہیں غم کا ان کا پیمانہ
ثواب و اجر تو قربانیوں سے ملتا ہے
کسی بھی حال میں ماتھے پہ بل نہیں لانا
وہ ٹوکیں بے سبب بھولیں یا بات دہرائیں
تو نرمی اور محبت سے ان کو سمجھانا
ہوا کے رخ پہ دھرے مضمحل چراغ ہیں یہ
کسی بھی وقت مقدر ہے ان کا بجھ جانا
دکھائیں ہم انہیں خدمت کا حق ادا کر کے
اگر بڑھاپے میں اولاد سے ہے سُکھ پانا
دعائیں لے لو کہ ہر ایک پل غنیمت ہے
یہ زادِ راہ ہے جنت کا ایک پروانہ
جزا یہاں بھی وہ دیتا ہے حسنِ خدمت کی
وہاں جزا کا ہے مولا کا اپنا پیمانہ
ہمیں جب ان کی ضرورت تھی وہ رہے حاضر
ضرورت ان کو پڑے جب تو خوب کام آنا
بڑھاپا بےبسی کمزوریاں عوارض ہیں
پڑے نہ ان کو بڑھاپے میں کوئی غم کھانا
ہمارے نیک عمل صدقہ جاریہ ہوں گے
ہمارا فرض ہے ان کو ثواب پہنچانا
وہ جیسے کرتے ہیں احساں ہمارے بچپن میں
خدایا ان پہ تو ویسا ہی رحم فرمانا
(امۃ الباری ناصر۔امریکہ)