حکیم الامت حضرت مولوی نور الدینؓ ایک نابغہ روزگاراور نافع الناس وجود تھے (The Genius and Beneficent person of his Time) آپ نے علم الادیان اور علم الابدان کے حصول کے لئے بڑی جدوجہد کی اور جب آپ امام الزمان مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کے بعد خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کے منصب پر فائز ہوئے تو آپ نے اپنی زندگی کے چیدہ چیدہ حالات و واقعات کئی نشستوں میں برصغیر کے مشہور مصنف جناب اکبر شاہ خان نجیب آبادی کو املاء کروائے جو ’’مرقاۃ الیقین فی حیات نور الدین‘‘ کی زینت ہیں اس میں سے صرف چند واقعات پیش خدمت ہیں۔
رامپور کا واقعہ، صحبت صالحین
حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ بیان فرماتے ہیں:
’’شاہ جی عبد الرزاق صاحب ایک بزرگ تھے میں ان کی خدمت میں اکثر جایا کرتا تھا ایک زمانہ میں مجھ سے سستی ہوئی اور کچھ دنوں کے بعد ان کی خدمت میں پہنچا تو انہوں نے فرمایا کہ
نور الدین! تم بہت دنوں میں آئے ۔اب تک کہاں تھے؟ میں نے عرض کیا کہ حضرت ہم طالب علموں کو اپنے درس تدریس کے اشغال سے فرصت بھی کم ہی ملتی ہے۔ کچھ سستی بھی ہوئی۔ فرمانے لگے۔
’’کبھی تم نے قصاب کی دکان بھی دیکھی ہے؟ میں نے عرض کیاکہ ’’ہاں اکثر اتفاق ہوا ہے۔‘‘ فرمایا کہ ’’تم نے قصاب دیکھا ہوگا کہ گوشت کاٹتے کاٹتے جب اس کی چھریاں کند ہو جاتی ہیں تو وہ دونوں چھریاں لے کر ایک دوسری سے رگڑتا ہے چھریوں کی دھار پر جو چربی جم جاتی ہے اس طرح رگڑنے سے وہ دور ہو جاتی ہے اور قصاب پھر گوشت کاٹنے لگتا ہے اور اسی طرح تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد چھریوں کو آپس میں رگڑ رگڑ کر تیز کرتا رہتا ہے۔‘‘
میں نے عرض کیا کہ ہاں حضرت یہ سب کچھ دیکھا ہے مگر آپ کا اس سے کیا مطلب ہے؟
فرمایا ’’کچھ ہم پر غفلت کی چربی چھا جاتی ہے کچھ تم پر، جب تم آجاتے ہو تو کچھ تمہاری غفلت دور ہو جاتی ہے کچھ ہماری اور اس طرح دونوں تیز ہو جاتے ہیں۔پس ہم سے ملتے رہا کرو اور زیادہ عرصہ جدائی اور دوری میں نہ گزارا کرو‘‘۔
ان کی اس بات نے مجھے بہت ہی بڑے بڑے فائدے پہنچائے اور ہمیشہ مجھ کو یہ خواہش رہی کہ نیک لوگوں کے پاس آدمی کو جا کر ضرور بیٹھنا چاہئے اس سے بڑی بڑی سستیاں دور ہو جاتی میں۔
(مرقات الیقین فی حیات نور الدین صفحہ 80،79)
بھوپال جاتے ہوئے…. جب میں گوالیار پہنچا تو میری ملاقات ایک ایسے بزرگ سے ہوئی جو حضرت سید احمد صاحب بریلوی کے مخلصوں میں سے تھے مجھ کو کچھ ان کی صحبت میں ایسی خوشی حاصل ہوئی کہ میں وہیں رہ پڑا مجھ سے باتیں کرتے کرتے انہوں نے یہ دو شعر پڑھے
نہ کر عوض مرے عصیاں و جرم بےحد کا
کہ تیری ذات غفور الرحیم کہتے ہیں
کہیں نہ کہہ دے عدو دیکھ کر مجھے غمگین
یہ اس کا بندہ ہے جس کو کریم کہتے ہیں
…اگرچہ ادعیہ مسنونہ کی برابری یہ دعا نہیں کر سکتی مگر معلوم نہیں کہ کیسے دل سے نکلی تھی جس میں عجیب قسم کا اثر ہے۔
(مرقات الیقین صفحہ 95)
خدا نہ بننا رسول نہ بننا
’’جب بھوپال سے رخصت ہونے لگا تو اپنے ا استاد مولوی عبدالقیوم صاحب کی خدمت میں رخصتی ملاقات کےلئے حاضر ہوا سینکڑوں آدمی بطریق مشایعت میرے ہمراہ تھے جن میں اکثر علماء اور معزز طبقہ کے آدمی تھے
میں نے مولوی صاحب سے عرض کیا کہ مجھ کو کوئی ایسی بات بتائیں جس سے میں ہمیشہ خوش رہوں فرمایا کہ
’’خدا نہ بننا اور رسول نہ بننا‘‘
میں نے عرض کیا کہ حضرت یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی اور یہ بڑے بڑے عالم موجود ہیں غالباً یہ بھی نہ سمجھے ہوں گے سب نے کہا ہاں ہم بھی نہیں سمجھے۔
مولوی صاحب نے فرمایا کہ تم خدا کس کو کہتے ہو؟ میری زبان سے نکلا کہ خدا تعالیٰ کی ایک صفت ہے۔ فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيدُ وہ جو چاہتا ہے کر گزرتا ہے۔
فرمایا کہ بس ہمارا مطلب اسی سے ہے یعنی تمہاری کوئی خواہش ہو اور وہ پوری نہ ہو تو تم اپنے نفس سے کہو کہ میاں تم کوئی خدا ہو؟
رسول کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم آتا ہے وہ یقین کرتا ہے کہ اس کی نافرمانی سے لوگ جہنم میں جائیں گے اس لئے اس کو بہت رنج ہوتا ہے۔
تمہارا فتویٰ اگر کوئی نہ مانے تو وہ یقینی جہنمی تھوڑا ہی ہو سکتا ہے لہٰذا تم کو اس کا رنج نہ ہونا چاہئے۔
حضرت مولوی صاحب کے اس نکتہ نے اب تک مجھ کو بڑی راحت پہنچائی وجزاھم اللہ تعالیٰ‘‘
(مرقات الیقین صفحہ 106)
حکیم علی حسین صاحب لکھنوی کی شاگردی میں
…دوسرے دن گاڑی پر سوار کرا کرلکھنو روانہ کیا کچی سڑک اور گرمی کا موسم، گرد و غبار نے مجھے خاک آلود کر دیا تھا کہ میں لکھنؤ پہنچا جہاں گاڑی ٹھہری وہاں اترتے ہی میں نے حکیم صاحب کا پتہ پوچھا خدائی عجائبات ہیں کہ جہاں گاڑی ٹھہری تھی اس کے سامنے ہی حکیم صاحب کا مکان تھا….. میں اسی وحشیانہ حالت میں مکان میں جا گھسا ایک بڑا ہال نظر آیا ایک فرشتہ خصلت دلربا، حسین سفید ریش، نہایت سفید کپڑے پہنے ہوئے ایک گدیلے پر چارزانو بیٹھا ہوا پیچھے اس کے ایک نہایت نفیس تکیہ اور دونوں طرف چھوٹے چھوٹے تکیےتھے سامنے پان دان اگلدان خاص دان قلم دوات کاغذ دھرےہوئے…. مشرقی دروازے سے… حضرت حکیم صاحب کی طرف جانے کا قصد کیا گرد آلود پاؤں جب اس چاندنی پر پڑے تو اس کے نقش و نگار سے میں خود ہی محجوب ہوگیا حکیم صاحب تک بے تکلف جا پہنچا اور وہاں اپنی عادت کے مطابق زور سے السلام علیکم کہا جو لکھنؤ میں ایک نرالی آواز تھی….. ایک شخص نے جو اراکین لکھنؤ سے تھا اس وقت مجھے مخاطب کرکے کہا آپ کس مہذب ملک سے تشریف لائے ہیں؟ میں تو اپنے قصور کا پہلے ہی قائل ہو چکا تھامگر ’’خدا شر ے بر انگیزد کہ خیر ما دراں باشد‘‘ میں نے نیم نگاہی کے ساتھ اپنی جوانی کی ترنگ میں اس کو یہ جواب دیا کہ یہ بے تکلفیاں اور السلام علیکم غیر ذی ذرع کے امی اور بکریوں کے چرواہے کی تعلیم کا نتیجہ ہے ﷺ فِدَاہُ اَبِی وَ أُمِّی، اس میرے کہنے کی آواز نے بجلی کا کام دیا اور حکیم صاحب پر وجد طاری ہوا اور وجد کی حالت میں اس امیر کو کہا کہ آپ تو بادشاہ کی مجلس میں رہے ہیں کبھی ایسی زک اٹھائی ہے؟ اور تھوڑے وقفہ کے بعد مجھ سے کہا آپ کا کیا کام ہے؟ میں نے عرض کیا کہ میں پڑھنے کے لئے آیا ہوں اس پر آپ نے فرمایا کہ میں اب بہت بوڑھا ہو گیا ہوں اورپڑھانے سے مجھے ایک انقباض ہے، میں خود تو نہیں پڑھا سکتا میں نے قسم کھا لی ہے کہ اب نہیں پڑھاؤں گا میری طبیعت ان دنوں بڑی جوشیلی تھی اور شاید سہر کا بقیہ بھی ہو اور حق تو یہ ہے کہ خدا تعالٰی کے کام ہوتے ہیں منشی محمد قاسم صاحب کی فارسی تعلیم نے یہ تحریک کی کہ میں نے جوش بھری اور درد مندانہ آواز سے کہا کہ شیرازی حکیم نے بہت ہی غلط کہا ’’رنجانیدن دل جہل است و کفارہ یمین سہل‘‘
اس پر ان کو دوبارہ وجد ہوا اور چشم پر آب ہو گئے تھوڑے وقفہ کے بعد فرمایا مولوی نور کریم حکیم ہیں اور بہت لائق ہیں میں آپ کو ان کے سپرد کر دوں گا اور وہ آپ کو اچھی طرح پڑھا دیں گے جس پر میں نے عرض کیا کہ
’’ملک خدا تنگ نیست پائے مرا لنگ نیست‘‘
تب آپ پر تیسری دفعہ وجد کی حالت طاری ہوئی اور فرمایا ہم نے قسم توڑ دی‘‘۔
(مرقاۃ الیقین صفحہ 87،86)
امیر شاہ عامل باکمال کا مشورہ
امیر شاہ عامل نےفرمایا کہ ’’ہم ایک بات عملیات کے متعلق کہتے ہیں اس کو سن لو جب کوئی شخص تمہارے پاس کسی غرض کے لئے آئے تو تم کو چاہیئےکہ تم جناب الہی کی طرف جھک جاؤ اور یوں التجا کرو کہ الہی میں نے اس کو نہیں بلایا تو نے خود بھیجا ہے جس کام کے لئے آیا ہے اگر وہ کام تجھ کو کرنا منظور نہیں تو جس گناہ کے سبب میرے لئے تو نے یہ سامان ذلت بھیجا میں اس گناہ سے توبہ کرتا ہوں پھر بھی دوبارہ تمہاری اس دعا مانگنے کے بعد وہ شخص اصرار کرے تو دوبارہ اللہ تعالیٰ کے حضور دعا مانگ کر اس کو کچھ لکھ دیا کرو۔
مجھ کو امیر شاہ صاحب کے بتائے ہوئے اس نکتہ نے آج تک بڑا فائدہ دیا‘‘
حضرت مسیح موعودؑ نے کیا خوب فرمایا ہے:
چہ خوش بودے اگر ہر یک ز امت نور دیں بودے
ہمیں بودے اگر ہر دل پر از نور یقیں بودے
(انجینئر محمود مجیب اصغر)