محسنِ حقیقی تو یقیناً اللہ تعالیٰ کی ذات بابرکات ہے۔ لیکن اُس خدانے اپنے بندوں کوبھی احسان کرنے کی صفت اورصلاحیت عطاکررکھی ہے۔خداکے بعد ہم پرسب سے زیادہ احسان کرنے والے ہمارے والدین ہوتے ہیں۔میرے والدین نے بھی زندگی بھر مجھ پر ان گنت احسان کئے۔لیکن میری زندگی کے معمار اور حقیقی طور پر درست سمت میں ڈالنے والے میرے شفیق اورمحسن مہربان آقاسیّدناحضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒہیں۔
حضورانورؒ سے میرا پہلا تعارف اس وقت ہواجب میں اپنے والدمحترم مولانا محمدمنور کے ساتھ 9 ستمبر1964ء کو FSc میں داخلہ کے لئے ٹی آئی کالج ربوہ گیا۔ میٹرک میں میری فرسٹ ڈویژن آئی اورمیرے والد صاحب کی خواہش تھی کہ میں جامعہ احمدیہ میں داخل ہوجاؤں لیکن میرے نانا جان محترم محمدحیات خان مرحوم چاہتے تھے کہ میں ڈاکٹربنوں۔ میرے ابا نے نانا جان کی خواہش کے احترام میں مجھے FSc (پری میڈیکل) میں داخل کروا دیا اوراس وقت سے مجھ پرحضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے احسانات کا سلسلہ شروع ہوا جو زندگی بھر جاری رہا۔
داخلہ کے وقت انٹرویو کے دوران حضورانور(محترم پرنسپل صاحب) نے مجھ سے سوال کیا کہ حرام مغزکاکیاکام ہے؟ جو سمجھ تھی عرض کردیا۔ پھرسوال کیا حلا ل مغز کا کیا کام ہے؟ اس کا جواب میرے والد صاحب نے دیاکہ یہ کھانے کے کام آتاہے۔ حضور مسکرائے اوریوں ہم باپ بیٹاکے انٹرویو کے بعد مجھے گیارہویں کلاس میں داخلہ مل گیا۔رول نمبر 9 تھا۔
جب کالج کے دفتر میں فیس وغیرہ اداکرنے گئے تومکرم قریشی محمدعبداللہ صاحب اکاؤنٹنٹ نے بتایا کہ آپ کے فارم پر پرنسپل صاحب نے H.F.Cلکھ دیا ہے جس کا مطلب ہے Half Fee Concession۔ داخلہ کے بعدیہ مجھ پر حضورؒ کا دوسرا احسان تھا۔ کالج میں میں عمومی طورپرایک لاپرواہ طالب علم ثابت ہوا۔ اس لئے جلدسائنس چھوڑ کرآرٹس کے مضامین رکھ لئے اورپرائیویٹ طورپر سرگودھا جاکر ایف اے کا امتحان دے دیااورکامیاب ہوگیا۔پھرٹی آئی کالج میں بی اے میں داخلہ لے لیا۔ میرا ارادہ لاہورجاکر پنجاب یونیورسٹی سے B.A کرنے کاتھا۔جس کی اطلاع میری امی جان نے کینیاخط لکھ کر اباجان کو کردی۔ وہاں سے اباجان نے بغرض مشورہ و راہنمائی حضورانورؒ کی خدمت میں تحریرکردیا۔میرے والد صاحب کو حضورؒ کا جواب آگیا کہ
’’ آپ کابیٹا ربوہ میں ہی پڑھے گا۔‘‘ ساتھ ہی تعلیم الاسلام کالج کے پرنسپل صاحب کو ہدایت چلی گئی کہ مبارک طاہر کو B.A میں داخلہ دے دیں۔ چنانچہ کالج والوں نے مجھے تلاش کرکے تھرڈائیر میں داخل کرلیا۔ رول نمبر 143 تھا۔ یہ حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کامجھ پر مزید ایک احسان تھا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی اجازت سے میں نے آرمی میں جانے کے لئے Apply کیا تھا۔ ملتان سنٹر مقررہوا۔ میڈیکل پاس کرنے کے بعد جب میں انٹرویو کے لئے حاضرہواتوکمرہ کے باہرنیم پلیٹ لگی تھی جس پرلکھاتھا۔ ’’برگیڈئرجہاں زیب خان‘‘
پہلے تو میں گھبراگیاکہ برگیڈئرکے سامنے پیش ہوناہے۔پھر میں نے خود کوسمجھایا کہ ان دنیاداروں کے عہدوں سے ہم کیوں مرعوب ہوں۔اگر ہم حضرت خلیفۃالمسیحؒ کو بغیرڈراورخوف اور جھجک کے اطمینان کے ساتھ مل سکتے ہیں تو برگیڈئر سے کیوں ڈرنا۔ اس سوچ اورInspiration سے میراڈرجاتا رہا اورمیں انٹرویو میں پاس ہوکرباہرنکلا۔ خداکا شکر ہے کوہاٹ سے ISSB سے Reject ہو گیا ورنہ وقف ِزندگی سے محروم رہ جاتا۔ آرمی میں قبول نہ کیاجانا بھی اللہ تعالیٰ کا فضل تھا۔
ہم ضلع خانیوال کے دیہاتی لوگ ہیں جسے عرفِ عام میں جانگلی کہاجاتا ہے اورہمارے ہاں بچوں کی جلد شادی کردینے کا روا ج آج بھی ہے۔ میں جب 12 سال کا تھا تو میرے ددھیال نے میرے لئے ایک لڑکی خاندان میں تلاش کرلی۔جس نے صرف قاعدہ یسرناالقرآن پڑھا ہوا تھا اور مزید کچھ نہیں۔ میں نے اس کوالیفیکیشن کی لڑکی سے شادی سے انکارکردیا۔ چنانچہ کچھ سال خیریت سے گزرگئے۔
گھروالوں کی طرف سے جب دوبارہ شادی کروانے پراصرار ہواتومیں نے سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی خدمتِ اقدس میں لکھاکہ میری تعلیم ابھی مکمل نہیں ہوئی اوروالدین میری شادی کرنا چاہتے ہیں جس پرحضورانورؒ کا اپنے دستخطوں سے خط آیا کہ“ آپ اپنی والدہ سے کہیں کہ وہ ابھی آپ کی شادی نہ کریں۔” چنانچہ شادی پھرکچھ وقت کیلئے ٹل گئی۔
ابھی میں نے BA کا امتحان نہیں دیاتھا کہ میرے اباجان کے افریقہ کے ساتھی مولانانورالحق انور سابق مبلغ افریقہ وامریکہ کے ذریعہ ککرالی(ضلع گجرات) میں فروری 1969ء میں ہماری مرضی اورپسند کا رشتہ مل گیااورمیں شادی کے لئے مان گیا۔
سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؓؒ نے 30 مارچ 1969ء کو مسجدالمبارک میں بعدنمازِ مغرب ہمارے نکاح کا اعلان فرمایا۔ اس دن 3مزیدنکاحوں کابھی اعلان ہوا۔ کل 4 نکاح ہوئے۔ خطبہ نکاح حضورنے دیا اوربہت دعائیں دیں۔
میری اہلیہ،نکاح (30مارچ1969ء) اورشادی (27۔اپریل 1969ء) کے وقت لالہ موسیٰ میں ٹیچرٹریننگ کاکورس کررہی تھیں۔ شادی کے بعد میں ان سے ملنے لالہ موسیٰ گیاتوان کی پرنسپل صاحبہ سے بھی ملاقات ہوئی۔ پرنسپل صاحبہ نے میری اہلیہ کی بڑی تعریف کی اور انگریزی میں کہا۔
’’I hope she will prove to be a good wife‘‘
الحمدللہ کہ بات سچ ثابت ہوئی اورمیری شریکہ حیات یقیناً ’’Best wife‘‘ ہیں۔
حضورانورؒ جب 1965ء میں خلیفۃ المسیح منتخب ہوئے تو ان دنوں حضورانورکی ملاقات کیلئے ہفتہ میں 2 دن مقرر تھے اور میں اکثر حاضرِ خدمت ہوتا رہتا۔ملاقات کی وجہ صرف ‘‘زیارت’’ لکھواتا اورحضورملاقات کیلئے وقت عطافرما دیتے۔میرے والد مولانا محمد منور قادیان میں حضور انورؒ کے شاگرد رہے تھے۔ اور ابا جان کی یادتازہ رکھنے کے لئے حضورؒ مجھے ’’ابن ِمنور‘‘ کہہ کربلاتے تھے۔
کالج کے زمانہ میں ایک دفعہ میں نے آٹوگراف بُک خریدی اوراس کا افتتاح کروانے دربارِ خلافت میں حاضرہوگیا۔ کمال شفقت سے حضور نے اس پر تحریر فرمایا
“ہمیشہ دین کودنیا پر مقدم رکھنے کی کوشش کرتے رہیں۔ اللہ تعالیٰ توفیق عطافرمائے۔”
بی اے تعلیم الاسلام کالج ربوہ سے پاس کرنے کے بعدمیں نے تعلیم الاسلام ہائی سکو ل ربوہ بطور Untrained Teacher ملازمت شروع کردی تنخواہ 90 روپے ماہوارملتی تھی۔ انہی دنوں میں جب حکومت نے سکول Nationalise کرلئے تومجھے فارغ کر دیاگیاکیونکہ میں جس ٹیچر کی جگہ ملازم ہوا تھا وہ B.Ed کرکے واپس آگئے تھے۔
خاکسار حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ کی خدمت میں حاضرہوا اوربتایاکہ فارغ کر دیا گیا ہوں۔
پیارے آقانے فرمایا ’’تم ایم اے کرلومیں تمہیں افریقہ بھجوادوں گا‘‘۔ میں نے عرض کیا حضورایم اے اسلامیات کرلوں۔ فرمایا۔
’’اں اس کی تو ہمیں بہت ضرورت ہے۔‘‘
چنانچہ میں نے 1971ء میں ایم اے اسلامیات کرکے مجلس نصرت جہاں کے تحت وقف کردیا۔ اس وقت کے سیکرٹری مجلس نصرت جہاں مکرم مسعود احمد جہلمی نے میرا تقرر احمدیہ سیکنڈری سکول، روکوپر، سیرالیون کے لئے تجویز کیا جو حضورپُرنورنے منظورفرمایا اوریوں مستقبل کاراستہ معین اورواضح ہوگیا۔ پہلے 6 سال کا وقفِ عارضی تھا پھرخلافت رابعہ میں زندگی وقف کردی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے جوراہ دکھائی تھی وہ میں نے مستقل Adopt کرلی اور آج تک اس کی برکات سے فائدہ اُٹھارہاہوں۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کا قول ہے۔
’’Waqfe Zindgi is the best profession‘‘
سیرالیون کے لئے روانہ ہونے سے پہلے خاکسار حضورانورؒسے الوداعی ملاقات کیلئے حاضرہوا مختصر گفتگو کے بعد حضورؒ نے مجھے گلے لگالیااورراحت وسکون کی ایک لہرسی سارے جسم میں دوڑ گئی۔دل چاہا کہ گردشِ لیلونہار یہیں رک جائے اورمیں ہمیشہ کے لئے پیارے آقا کے ساتھ پیوست ہوجاؤں۔
حضور نے اپنی جیب سے سفیدرنگ کارومال نکالا اورمجھے تبرک کے طور پر عطافرمایا۔ اس کے ایک کونہ پر کڑھائی کے ساتھ ’’N‘‘ لکھا ہواتھایعنی حضور کے نام ’’ناصر‘‘ کا پہلا حرف۔
ربوہ سے سیرالیون پہنچ کر جس چیزسے محرومی کا احساس سب سے زیادہ ہوا وہ حضورانورؒ کے خطبات جمعہ تھے۔ جو خلافت ثالثہ کی ابتداء سے لےکر ربوہ سے روانگی تک 10سال باقاعدہ سنا کرتا تھا۔ حضور سے ملاقاتوں کاسلسلہ بھی منقطع ہوگیا۔ اب اس کا حل آدھی ملاقات ہی تھا یعنی بذریعہ خط خدمتِ اقدس میں حاضری دینی۔ سیرالیون میں میرا معمول رہا کہ میں ہر جمعہ کے روز نمازِ جمعہ سے واپس آ کر سب سے پہلے حضوراقدسؒ کی خدمت میں دعا کا عریضہ لکھتا۔
ہرخط کاباقاعدہ جواب آتا اورحضور کے اپنے دستخطوں سے آتا۔ حضورانور اور دیگر دوستوں کے خطوط اس تواترسے آتے کہ میرے پرنسپل مکرم انوراحمدگھمن مرحوم نے میرا نام ’’بھائی ڈاک خانہ‘‘ کھ دیا۔
ایک بار مجھے ربوہ سے ہماری بیٹی عزیزہ عابدہ صدیقہ نے اطلاع دی کہ میرے والد مولانا محمدمنور بیمارہیں۔ میں نے حضورؒ کی خدمت میں دعاکے لئے خط لکھا۔ جواب میں حضورؒ نے تحریرفرمایا کہ آپ کے اباجان اب ٹھیک ہیں۔ میں نے مسجد اقصیٰ میں انہیں جمعہ پر آئے دیکھا ہے۔
جب 1975ء میں میرے سیرالیون جانے کا وقت آیا تومیں بالکل خالی ہاتھ تھا۔ تیاری کیلئے پیسے نہیں تھے۔ میں نے حضورانورکی خدمت میں ایک ہزار روپے بطور قرض عطا فرمانے کی درخواست کردی۔ جسے پیارے آقانے ازراہِ احسان منظور فرمایا جس سے میں تین چار جوڑے پینٹ شرٹ بنواکر ساتھ لے گیا۔ بعد میں یہ قرض واپس کردیا۔
3ستمبر 1972ء کو ہماری پہلی بیٹی عزیزہ عابدہ صدیقہ کی پیدائش ربوہ میں ہوئی۔ میں نے حضورؒ کی خدمت میں نومولودہ کانام عطا فرمانے کی درخواست کی تو حضورؒ نے خود اپنے قلم مبارک سے لکھا۔ ’’عابدہ صدیقہ‘‘ بعد میں دفترپرائیویٹ سیکرٹری سے اس کی تحریری اطلاع بھی مل گئی۔
سیرالیون سے ماہانہ کارگزاری کی رپورٹ بھجوانے کا سلسلہ میں نے ہمیشہ باقاعدہ رکھا۔ میری رپورٹ کے تین حصے ہوتے تھے۔ سکول میں خدمت ،مشن سے تعاون اوردعوت الی اللہ۔ میرے ہفتہ وارخطوط اورماہانہ رپورٹ کے بہت باقاعدہ جواب ملتے۔ یہ جواب مکرم محمد اصغر قمر کارکن دفتر پرائیویٹ سیکرٹری کی خوبصورت تحریر میں ہوتے اور ہمارے آقا کے دستخطوں سے مزین ہوتے۔ بعد میں 2003ء میں یہی اصغر قمر ہمارے سمدھی بن گئے۔ ہماری سب سے چھوٹی بیٹی عزیزہ فرح وحید اُن کی بہو ہے۔
زندگی بھر سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے میری قدم قدم پررہنمائی فرمائی اور خود وقف کی بابرکت راہ میرے لئے معین کی اورہمیشہ حضورکی دعاؤں کا سہارا مجھے اور میری فیملی کو حاصل رہا۔دیس پردیس جہاں سے بھی دعاکا خط لکھا، ہرخط کا جواب ڈھیروں دعاؤں کے ساتھ ملا۔یہی میری زندگی کاقیمتی سرمایہ ہے اورجسم کا ذرہ ذر ہ خلافت ِ حقہ احمدیہ پرقربان اور اس کے زیرِ احسان ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے میرا وقفِ عارضی قبول فرمایا، حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے میرا زندگی بھر کا وقف قبول فرمایا اورحضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے میری تمام کمزوریوں اور بیماریوں کے باوجود مجھے خدمت میں رکھاہوا ہے اور مجھے بھی اسی خدمت کرنے والی زندگی میں مزہ آرہا ہے۔
آخرمیں قارئین سے پردہ پوشی اورانجام بخیر کی دعا کی عاجزانہ التجاء ہے۔
(مبارک احمد طاہر)