• 7 جولائی, 2025

افضال و انعامات خداوندی پر اظہار تشکر

ایک محترم عزیز جو بحیثیت واقف زندگی علمی و ادبی امور کی مہارت کا مالک اور اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے صحافت میں پوسٹ گریجویشن کا ڈگری ہولڈر ہے کی تجویز پر ’’افضال و انعامات خداوندی پر اظہار تشکر‘‘ کے عنوان سے تحریر کررہا ہوں۔

خاکسار اپنی زندگی کو دو حصوں میں تقسیم کر رہا ہے۔پہلا سنِ بلوغت سے شروع ہو کر بحیثیت مدرس دیہاتی مدارس میں پڑھانا اور اپنے گاؤں میں رہنا۔دوسرا یہ قریباً30سال کی عمر میں سلسلہ احمدیہ کے مرکز ربوہ میں آن بسیرا کرنے کے بعد کا دور۔میری پیدائش میری سندات میں7جولائی 1929ء لکھی ہوئی ہے۔اور ہمارے گھریلو کاغذات میں میرے والد صاحب کے ہاتھ سے 18ستمبر1929ء ہے۔

خاکسار ابھی چار سال کا تھا کہ والد صاحب کا سایہ سر سے اُٹھ گیا۔ ہمارے گاؤں کے امام الصلوٰۃ اور دینی مسائل اور قرآن مجید پڑھانے والے استاد میاں عبدالمجید صاحب فوت ہوگئے تواس خلا کو پر کرنے کی ذمہ داری میں نے سنبھالی۔صبح کے وقت مسجد میں بچوں کو قرآن مجید پڑھانا شروع کر دیا اور باوجود بھر پور جوانی کے اپنے طرز عمل میں نرمی، نیک دلی اور غرباء کے ساتھ حسن سلوک، بڑوں کا احترام ، غضِ بصر اختیار کر لیا تو سارے گاؤں میں عزت افزائی اور محبت اور پیار کا سلوک شروع تھا۔

گورنمنٹ کی طرف سے جب ہمارے گاؤں ادرحماں میں پنچایت قائم کی گئی اور پنچایت کے سرپنچ ہمارے ایک چچا، تایا میاں اللہ دین کو باقاعدہ مقرر کر کے کچھ ضروری ہدایات اور بعض اہم پیپر اور کارروائی کے لئے ایک رجسٹر ضلعی گورنمنٹ کی طرف سے سپر د کئے گئے اور تین اور ہمارے ہی گاؤں کے سرکردہ افراد پنچایت کے ممبر مقرر کئے گئے۔ اس دور میں حکومت گاؤں (بڑے بڑے گاؤں )میں مقامی طور پر جھگڑے اور تنازع لوکل سطح پر طے کرنے کا انتظام کیا تو سرپنچ چچا اللہ دین صاحب نے مجھے اپنا سیکرٹری بنا لیا۔مسجد میں پڑھانے اور دیگر عام معاشرتی رویہ میں بھی میری بڑی قدر کی جاتی تھی۔پنچایت میں بطور سیکرٹری مدعی اور مدعاعلیہ کے بیان تحریر میں لانے میں میں دلچسپی لیتا تھا۔تنازعات میں درست اور معقول رائے دینا بہت پسند کیا جانے لگا۔ میری قدر ومنزلت نہ صرف اپنے گاؤں بلکہ قرب و جوار کے دیہات میں بھی بڑھ گئی گویا معاشرہ کا ایک معروف فرد بن چکا تھا اور جب یہ سب کچھ تج کر کے ربوہ شفٹ ہونے کا فیصلہ کر لیا تو ہمارے بزرگوں نے بہت پیار اور محبت سے ربوہ منتقل ہونے میں دامے،درمے،سخنے،قدمے میری مدد فرمائی۔

حصول تعلیم کی ابتداء

ہمارے گاؤں ادرحماں تحصیل بھلوال میں پرائمری سکول تھا۔ اس میں چوتھی جماعت تک تعلیم حاصل کر چکا تو پانچویں جماعت میں اپنے گاؤں سے تین میل دور ورنیکلر مڈل سکول بھابھڑا میں داخل ہوگیا تھا۔ اس دور میں پرائمری چوتھی جماعت تک ہوتی تھی۔ پانچویں مڈل کی پہلی جماعت ہوا کرتی تھی۔ پانچویں میں میرے استاد پنڈت امر ناتھ تھے۔ بہت قابل اور محنتی ٹیچر تھے۔چھٹی کلاس بھی اُنہی سے پڑھی تھی۔ ساتویں میں ہمیں اردو و فارسی اور ریاضی شیخ فضل احمد شائق صاحب پڑھاتے تھے۔ وہ بھی بہت قابل اور محنتی ٹیچر تھے اردو اور فارسی سے تو ان کو گہرا لگاؤ تھا۔ خود بھی شعر کہتے تھے اور ہمیں بھی بیت بازی کے مقابلے کروا کے اردو، فارسی زبان سے ذوق شوق کرا دیا۔ ان کی کلاس کے طلباء نے اپنے ناموں کے ساتھ تخلص رکھ لئے تھے۔استاد صاحب نے میرا تخلص طالب رکھا تھا۔میں اپنا نام احمد علی طالب لکھا بھی کرتا تھا۔

1945، 46ء میں مڈل سکول تخت ہزارہ میں جا داخل ہوا وہاں مجھے آٹھویں جماعت میں پڑھانے والے ایک نابغہ روزگار استاد اخوند زادہ مرزا خادم حسین مرجانؔ نصیب ہوئے۔ انگریزی اور ہندی زبانوں میں بھی خاصی دسترس کے مالک تھے۔ تاریخ اور جغرافیہ پڑھانے میں بھی مہارت تھی۔ اگر یہ لکھوں کہ مکرمی ومحترمی مرزا خادم حسین مرجانؔا ایک ادارہ تھے تو ہرگز مبالغہ نہیں ہے۔ بہت خوش خط تھے۔اس زمانہ میں ورنیکلر مڈل سکول تخت ہزارہ کی آٹھویں جماعت میں صرف آٹھ طالب علم تھے پانچ ہندو اور ہم تین مسلمان۔

فروری، مارچ 1946ء میں ہم نے آٹھویں کا امتحان دیا۔ ماہ اپریل میں نتیجہ آیا تو اچھی سیکنڈ ڈویژن میں پاس تھا۔مرزا صاحب نے پیغام بھجوایا کہ اپنی سند لے جاؤ۔تو میں اپنی مڈل پاس سند پنجاب یونیورسٹی لاہور سے لے آیا۔ اس دور میں47 ۔1946ء میں سند یافتہ مڈل پاس بن گیا۔ سند حاصل کرکے اپنے ماموں جی مراد بخش رانجھا کو نصیر پور خود جا کر بتایا وہ بہت خوش ہوئے۔

بحیثیت استاد

1949ء میں مڈل پاس کی بنیاد پر کچھ افراد کو نارمل سکول شاہ پور صدر میں ٹیچر ٹریننگ کلاس (جے وی)میں داخلہ کا اعلان ہوا تو اللہ پاک نے مجھے داخل ہونے میں مدد فرمائی۔قریباًایک سال بعد ٹرینڈ ٹیچر (جے وی )پاس کر لینے کی سند بھی مل گئی اور بحیثیت پرائمری مدرس ملازمت کا آغاز اپریل 1951ءمیں مجھے ایک گورنمنٹ پرائمری سکول میں ضلع سرگودھا کے محکمہ تعلیم کے آفس سے تعیناتی کا آرڈر مل گیا۔ تو اپنے گاؤں سے تیرہ میل کے فاصلہ پر کوٹ مومن کے قریب چک نمبر 20 میں نائب مدرس بن کر پڑھانا شروع کر دیا۔اس زمانہ میں جے وی ٹیچر کا گریڈ 60روپے تھا معہ الاؤنس 64 روپے میری تنخواہ تھی جو ہمارے لئے بصورت ماہوار نقد آمدنی نعمتِ غیر مترقبہ تھی۔میں نے سکول میں نہایت محنت اور دل لگی سے پڑھانا شروع کیا۔اسی چک میں ہی رہائش بھی رکھی۔ چک کے باشندے خصوصاً نمبردار میرے چال چلن اور پڑھانے سے بہت مطمٔن تھے۔

جب محکمہ تعلیم کی طرف سے اے ڈی آئی صاحب سالانہ معائنہ کے لئے آئے تو میرا تعلیم میں دلچسپی لینا اور پڑھانا (نتیجہ) پسند کر کے بہت اچھا تاثر لیا۔ اور سند Satisfactory (اطمینان بخش) رائے کا اظہار لکھ بھی دیا۔

کم و بیش دو سال بعد وہاں سے مجھے تبدیل کر کے مڈل سکول بھابڑا میں لگا دیا۔

دسمبر 1958ء کے آخری ایام میں میری شادی میرے چچا محمد الدین عادل صاحب کی بڑی بیٹی ذکیہ بیگم سے ہوگئی۔اور اللہ خالق و باری تعالیٰ نے ستمبر 1960ء میں ہمیں پہلے بیٹے سے نوازا۔حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے نصیر احمد نام عطا فرمایا۔

1961ء میں مرکز سلسلہ احمدیہ ربوہ سے تشریف لانے والے ایک مربی صاحب نے نماز مغرب کے بعد اعلان کیا کہ مجھے خلیفۃ المسیح نے یہاں آپ کے گاؤں ادرحماں میں بھیجا ہے کہ ادرحماں جاؤ وہاں کثرت سے زمیندار گھرانے احمدیوں کے بستے ہیں ان سے کہو کہ گردونواح اضلاع جھنگ،سرگودھا،لائلپور(فیصل آباد) اور شیخوپورہ وغیرہ کے دیہات میں دیہاتی تمدن و معاشرت کے مطابق اسلام کی تبلیغ کا فریضہ جرأت اور ہمت سے بجا لائیں اور یہ خدمت کرنے کے لئے نام پیش کریں۔تو صرف ایک میں نے کھڑے ہو کر اپنے بیٹے نصیر احمد کا نام مربی صاحب موصوف کو لکھوایا۔اور گھر آکر بیٹے کی ماں اپنی اہلیہ ذکیہ بیگم سے ذکر کیا تو وہ خوشی سے گویا اُچھل ہی پڑی اور کہنے لگی ’’میری دلی مراد آپ نے پوری کر دی ہے جزاکم اللّٰہ‘‘

اللہ تعالیٰ برادران اللہ بخش اور محمد بخش سے راضی رہے۔دونوں کا پیغام میرے نام آیا کہ 31۔اگست 1961ء ربوہ پہنچو۔ہم دونوں میاں بیوی نے غوروفکر اور سوچ بچار کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ بیٹے کی وقفِ زندگی کے معیار پر تعلیم و تربیت سلسلہ احمدیہ کے مرکز ربوہ میں ہی بیٹھ کر ہو سکتی ہے۔میں نے 29۔اگست1961ءمیں مڈل سکول بھابڑا میں حاضری دی اور ہیڈ ماسٹر صاحب کو اپنا استعفیٰ لکھ کر پیش کر دیا۔ انہوں نے مجھے اس فیصلے سے روکنے کی کوشش کی لیکن میرا فیصلہ اٹل تھا۔

میں نے گھر آکر اپنی اہلیہ کو سارا معاملہ سنا کر مشورہ مانگا تو اس نیک بخت نے جواب دیا لعنت بھیجو افسری پر اور بےشک تنخواہ ضبط ہو جائےاور کہا بہت اچھا کیا ہے اللہ کے ہاتھ روزی ہے جیسے حالات پیش آئے ان میں گزربسر کرتے رہیں گے اگر اس موقعہ کو ہاتھ سے گنوا دیا تو جماعت احمدیہ کے بہت سے مدرسین ربوہ میں پڑھانے کے خواہشمند پہنچ جائیں گے۔پھر یاقسمت یانصیب۔ آپ کل 31۔اگست کو اللہ کا نام لے کر ربوہ روانہ ہو جائیں۔چنانچہ میں 31۔اگست 1961ء کو تعلیم الاسلام ہائی سکول کے ہیڈ ماسٹر میاں محمد ابراہیم جمونی صاحب کے پاس حاضر ہوا۔برادرم محمد بخش صاحب نے مجھے دفتر میں جا ملایا اور عرض کیا یہ ہے احمد علی۔

چھٹی کے بعد بورڈنگ ہاؤس میں حاضری دینا بھی ایک کام تھا اور سکول کے احاطہ ہی میں ایک کوارٹر کی چابی دے کر کہا وہاں رہائش رکھو۔اس طرح اس کے قواعد کے مطابق بورڈنگ ہاؤس میں حاضری دینے کا الاؤنس تنخواہ کے علاوہ غالباً20 روپے بھی ملتا تھا۔کھانا بھی وہیں کھاناہوتا تھا۔

ایک مہینہ کے بعد مجھے کہا جاؤ اور اب اپنے گھر والوں کو بھی لے آؤ۔سو میں دو دن کی چھٹی لے کر آیا اور اپنی اہلیہ اور بیٹے نصیر احمد کو بھی لے آیا جس کی عمر ابھی ایک ڈیڑھ سال تھی ۔ چچی جی (ساس) اور ذکیہ بیگم کی دونوں بہنیں نسیم اختر اور رضیہ بیگم کو بھی گاؤں سے لے آیا تھا۔

ہیڈ ماسٹر میاں ابراہیم صاحب کا یہ دستور تھا کہ جب کلاسز کمروں میں اساتذہ پڑھا رہے ہوتے دفتر سے اٹھ کر راؤنڈ کرتے اور کھڑکیوں سے ٹیچروں کو چیک کرتے تھے کہ کیسے پڑھا رہا ہے اور کلاس پر کنٹرول کیسا ہے۔میری نظر اتفاقاً ان پر پڑی تھی۔اگلے دن یا اسی دن اردلی بھیج کر مجھے بلوالیا اور کہا اب آپ حصہ ہائی میں پڑھایا کریں گے۔آج صدر انجمن احمدیہ سے آپ کو بحیثیت مدرس ملازم رکھنے کا باقاعدہ ریزولیوشن کیا گیا۔اس کی ایک کاپی (ریزولیوشن ) کی مجھے بھی دی اور میراٹائم ٹیبل بھی دیا۔ ساتویں اور آٹھویں میں اور دینیات پڑھانا اور نویں اور دسویں میں اردو پڑھانا تھا۔

اپنے گھر کا سنگ بنیاد رکھنے کے لئے میں نے اس وقت کے مرکزی صدر مجالس خدام الاحمدیہ سے درخواست کی۔ چنانچہ میں نے صاحبزادہ صاحب موصوف سے درخواست کی سنگ بنیاد بھی رکھیں اور دعا بھی کرائیں۔پس ستمبر اکتوبر 1963ء میں انہوں نے میرے گھر کی بنیادی اینٹ اپنے دست مبارک سے رکھی اور دعا کرائی۔

میں سکول سے اپنی کلاس کے چند طلباء کو ساتھ لا کر اس دعائیہ تقریب میں شامل ہوا۔ صدر محلہ چوہدری عبدالطیف خان کاٹھگڑھی اپنی عاملہ ماسٹر محمد اعظم ، ملک احسان کے چھوٹے بھائی محمد اکرم مربی سلسلہ اور محمد حنیف صاحب ابن باباحسین بخش صاحب منیب صاحب سیکرٹری مال کے علاوہ چند احباب بھی دعائیہ تقریب میں تشریف لائے تھے۔

پانی اللہ کے فضل سے میرے گھر کے پلاٹ سے میٹھا پینے کے لائق نکلا اور میں نے ہینڈ پمپ لگا کر اس سے پانی نکال کر استعمال کرنا شروع کر دیا۔

1968ء کے جلسہ سالانہ سے دو تین دن پہلے مکان میں رہائش رکھ لی۔تاکہ جلسہ سالانہ کے مہمان اپنے ساتھ ٹھہرا کر برکت حاصل کروں۔ گو ابھی کمروں کی دیواریں اسی طرح گارے لگا کر چنائی والی تھیں اور فرش بھی کچے تھے اور فرشوں پر پرالی بچھا کر مہمانوں نے بستر لگا لئے اور سب رشتہ دار ہمارے ادرحماں والے اور ذکیہ بیگم کے ننھیال مونگ اور کوٹ افغاناں سے گولیکی وغیرہ سبھی نے خوشی خوشی ہمارے نئے گھر میں جلسہ سالانہ کے ایام گزارے۔

اللہ خالق و مالک نے 17 ستمبر 1965ء کی تاریخ ہمیں دوسرا بیٹا عطا فرمایا ہم نے اس بیٹے کا نام انیس الرحمٰن رکھا۔پہلے بیٹے نصیر احمد کے پانچ سال بعد اس کی پیدائش ہوئی تھی۔

اس کے بعد اکتوبر 1966ء میں اللہ سائیں نے تیسرا بیٹا عطا فرمایا اس کا نام حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ سے درخواست کی تو حضور نے حفیظ الرحمٰن نام عطا فرمایا۔اس طرح اپنے گھر دارالعلوم غربی میں افضال و انعامات کا سلسلہ شروع رہا۔ جو میرے شمار سے باہر ہے اور اوپر نیچے دو اور بیٹے مولا کریم کی عطا ہے۔چوتھے بیٹے کا نام بڑے بیٹے نصیر احمد نام کے ہموزن لئیق احمد رکھا۔اور پانچویں بیٹے کا نام ہم نے خود عطا الرحمٰن رکھا۔ کون کون سا انعام خداوندی تحریر میں لاؤں کسی نے کیا خوب کہا ہے ؎

اگر ہر اک بال ہو جائے سخن ور
تو پھر بھی ہے شکر سے باہر

چونکہ حکمتِ الٰہی سے ہمیں بیٹی عطا نہ ہوئی اور فطرتِ انسانی کے تقاضے سے بیٹی کی خواہش ہمارے دلوں میں ضرور تھی۔جو اللہ تعالیٰ نے بڑے بیٹے کی دلہن سے پوری فرمائی۔ہاں ایک فضل الٰہی کا تذکرہ جو مجھے اولاد کے عطا ہونے سے بھی پہلے تحریر کرنا چاہئے تھا وہ ماں کی خدمت ہے۔

ماں کی خدمت

میری والدہ محترمہ ابھی ہمارے تیسرے چھوٹے بیٹے کے ساتھ گاؤں میں رہتی تھیں۔ جب ہمارا دوسرا بیٹا پیدا ہوا تو میری ماں کے دل میں رحم پیدا ہوا کہ میری بڑی بہو ذکیہ بیگم معلمہ کی حیثیت میں سکول پڑھانے جاتی ہے۔اُسے چھوٹے بچے کے لئے اب مجھے ضرورت ہے اور ممتا کا جذبہ انہیں ہمارے گھر ربوہ لے آیا گویادعاؤں کا ایک خزانہ ہمارے پاس آبیٹھا۔اس کے بعد تو افضال و انعامات الٰہی کا لامتناہی سلسلہ شروع رہا میں جو بنیادی طور پر صرف ورنیکلر مڈل سکول تک تعلیم حاصل کر سکا تھا اور محکمانہ (ایس وی)تھی۔ انگریزی لکھنا پڑھنا شروع کردیا۔یاد رہے اس دور میں ورنیکلر مڈل سکول بھابڑا اور ورنیکلر مڈل تخت ہزارہ جہاں سے میں نے آٹھویں جماعت تک تعلیم حاصل کی تھی وہاں ابھی انگلش کی تعلیم شروع نہیں ہوئی تھی۔ انگلش پڑھنے لکھنے میں مکرمی محترمی ماسٹر بشارت احمد کا ذکر نہ کرنا سخت ناانصافی بلکہ ناقدر شناسی ہوگی۔موصوف نے مجھے نہایت توجہ اور محنت سے انگلش پڑھنا لکھنا سکھا کر پہلے میٹرک اور دوسرے نمبر پر ایف اے تک پڑھایا۔چونکہ اسی دوران میں نے فاضل اردو کا امتحان پاس کر لیا تو میٹرک اور ایف اے میں صرف انگلش سے پاس کرنے کی رعایت سےگویا صرف ایک مضمون انگلش سے رکھ کر ایم اے (پوسٹ گریجوایٹ)کرنے کی رعایت تھی۔چونکہ میری ماں کا اور میرا ساتھ میری چار سال کی عمر میں والد صاحب کی وفات کے بعد سے شروع تھا۔ میں ان کا بیٹا اور بیٹی بھی تھا۔ماں نے نہایت توجہ اور ہمت سے مجھے تعلیم دلا کر باعزت روزی کمانے کے قابل بنایا تھا اور شادی بھی کی تھی ان کی دلی دعائیں خصوصاً ہر لمحہ میرے لئے وقف تھیں۔

تعلیم الاسلام ہائی سکول میں پڑھانے کے دوران حضرت مرزا ناصر احمد پرنسپل تعلیم الاسلام کالج کے صاحبزادہ مرزافریداحمد مڈل کا امتحان بورڈ کے زیر انتظام دینا چاہتا تھا تو ہیڈ ماسٹر نے مجھے مرزا فرید احمد کو تیاری کرانا سونپا تھا۔یہیں سے خلافت کی مسند پر سرفراز ہونے سے قبل میرا آپ سے تعارف ہو چکا تھا اور آپ کی نظر شفقت مجھ دیہاتی کے شامل حال رہی اور ٹی آئی ہائی سکول کے ہیڈ ماسٹر کا قابل اعتماد مدرس بن کر سارے سٹاف میں مقبول رہا۔حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے فرمان کی تعمیل میں حضور کی پوتی صاحبزادہ مرزا انس احمد کی بڑی بیٹی کو مڈل کا امتحان بورڈ کے معیار پر دینے کے لئے تیاری کرانے صاحبزادہ صاحب کے گھر جایا کرتا تھا اورصاحبزادہ مرزا انس کی چھوٹی بیٹی کو پانچویں جماعت سکالر شپ کا امتحان دینے کے لئے بھی تیاری کراتا رہا یوں خاندان خلافت میں ایک بااعتماد مدرس سمجھا جانے لگا۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ (خلافت سے پہلے) کے صدر مجلس انصاراللہ ہونے کے دور میں طاہر کبڈی کے پہلے ٹورنامنٹ میں موصوف کے پہلو میں کرسی پر بیٹھ کر کبڈی کی رننگ کمنٹری کرتا رہا اور یہ رننگ کمنٹری 84-1983ء تک گھوڑا دوڑ ٹورنامنٹ میں بھی جاری رہی تو ماسٹر احمد علی ساری جماعت میں خصوصاً ربوہ کے چھوٹوں، بڑوں، مردوزن میں ایک جانا پہچانا فرد بن گیا۔

کون کون سے انعام تحریر میں لاؤں۔اللہ تعالیٰ کا فضل ساری زندگی میرے شاملِ حال رہا۔آج کل میری رہائش کینیڈا میں ہے۔ لیکن اپنے پانچوں بیٹوں کے پاس مختلف ملکوں اور جگہوں کی سیر کرتے ہوئے آتا جاتا رہتا ہوں اور مختلف ممالک کے جلسہ ہائے سالانہ میں شرکت کی سعادت بھی ملتی رہتی ہے۔ الحمدللّٰہ

(ماسٹر احمد علی۔کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 فروری 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 5 فروری 2020