احمدیہ لٹریچر سے ایسے چند واقعات کا انتخاب یہاں پیش کیا جارہا ہے جن کا مطالعہ احمدی طلباء و طالبات کو تعلیمی میدان میں کارہائے نمایاں انجام دینے کا جذبہ پروان چڑھانے اور نیکی و تقویٰ میں ترقی کرنے،اپنے پیش روؤں کی طرح ’’مثالی طالب علم‘‘ بننے کا سبب ہوگا نیز ان کا مطالعہ اور دہرائی احمدی والدین و بزرگان کے لئے رہنمائی و نگرانی کے لحاظ سے بھی مفید ٹھہرے گی۔
سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ تمام جماعت کوتعلیم و تربیت کے میدان میں نمونہ بننے کی طرف متوجہ فرماتے رہتے ہیں،کیونکہ جماعت احمدیہ عالمگیر جہاں تعلق باللہ، عبادات، مالی قربانی، مخلوق خدا کی ہمدردی اور یگر تمام صفات حسنیٰ میں نمونہ اور بے مثل ہے اسی طرح درس و تدریس اورتعلیم کے میدان بھی مثال ہے۔نیز یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کسی بھی معاشرہ میں تعلیم و تربیت ایک وسیع شعبہ ہے اوراس کے کئی پہلوہیں۔ مگر مشاہدہ بتاتا ہے کہ جو خدام اور اطفال تعلیمی میدان میں درست رفتار ومناسب معیار کے ساتھ محوسفر ہوں وہاں تربیتی مسائل نسبتاً کم پیش آتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ اور جماعت احمدیہ کی بنیاد رکھنے سے لےکر آج تک جماعت احمدیہ کی شہرت اور بحیثیت مجموعی پہچان علم دوست جماعت کی ہے۔
مثلاً حضرت مسیح موعو دعلیہ السلام کی حین حیات میں پادری گرسفورڈ نے The Messiah Of Qadian نامی جماعت کا مختصر تعارف تیار کیا تو لکھا کہ
’’ایسا ارادہ معلوم ہے کہ قادیان تحریک احمدیت کا تعلیمی مرکز ہوگا۔مرزا صاحب کا قادیان کا ہائی سکول ترقی کی منازل طے کرتا ہوا سیکنڈری کالج کے درجہ تک پہنچ چکا ہے اور معیاری تعلیم سے آراستہ کررہا ہے، یہاں اس حقیقت کا اظہار ضروری معلوم ہوتا ہے کہ امسال یونیورسٹی کے امتحان میں عبرانی کا مضمون لینے والا پنجاب کا واحد طالب علم قادیان سے تھا۔ جبکہ مزید ایک طالب علم نے داخلہ کے امتحان کے لئے اور ایک نے انٹرمیڈیٹ کے درجہ کے امتحان کے لئے عبرانی زبان کا انتخاب کیا ہے۔‘‘
(ملخص از کتاب The Messiah of Qadian by Rev. H. D. Grisword M.A.صفحہ 12)
ذیل میں احمدیہ لٹریچر سے ایسے چند واقعات کا انتخاب پیش کیا جارہا ہے جن کا مطالعہ جہاں احمدی طلباء و طالبات کو تعلیمی میدان میں کارہائے نمایاں انجام دینے کا جذبہ پروان چڑھانے اور نیکی و تقویٰ میں ترقی کرنے،اپنے پیش روؤں کی طرح ’’مثالی طالب علم‘‘ بننے کا سبب بنے گا وہاں احمدی والدین و بزرگان کے لئے مشعل راہ اور رہنمائی و نگرانی کے لحاظ سے بھی مفید ٹھہرے گا۔
• بلند ہمت والدین
حضرت حکیم حافظ مولوی نورالدین خلیفۃ المسیح الاولؓ کوعمر بھرتحصیل علم اور فروغ علم کے ساتھ ایک خاص اور غیر معمولی شغف رہا، اس کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کرتے تھے کہ دراصل میرے والد صاحب محترم کی وجہ سےمجھے یہ شوق پیدا ہوا۔ فرمایا:
’’میرے باپ کو اپنی اولاد کی تعلیم کا بہت شوق تھا۔مدن چند ایک ہندو عالم تھا وہ کوڑھی ہوگیا۔ لوگوں نے اسے گاؤں سے باہر مکان بنا دیا۔ میرے باپ نے اس کے پاس میرے بھائی کو پڑھنے کے لئے بھیجا۔ لوگوں نے کہا۔ خوبصورت بچہ ہے کیوں اس کی زندگی کو ہلاکت میں ڈالتے ہو۔ اس پر میرے باپ نے کہا کہ مدن چند جتنا پڑھ کر اگر میرا بیٹا کوڑھی ہوگیا تو کچھ پروا نہیں۔تم بھی اپنے بچوں کے ایسے باپ بنو۔ میرا باپ ایسا بلند ہمت تھا کہ اگر وہ اِس زمانہ میں ہوتا تو مجھے امریکہ بھیج دیتا۔‘‘
(حیات نور صفحہ2)
• غیرمعمولی منزل
حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ جب بغرض تعلیم حکیم علی حسین کے پاس لکھنو تشریف لے گئے تو آپؓ فرماتے ہیں کہ
’’……کچھ عذر معذرت کے بعد حکیم صاحب کی … پیشکش منظور کرلی…پھر حکیم صاحب نے فرمایا۔ طب کہاں تک پڑھنا چاہتے ہو؟ میں نے کہا افلاطون کے برابر۔ حالانکہ مجھے قطعاً خبر نہ تھی کہ افلاطون کوئی حکیم ہے یا طبیب۔ آپ نے ہنس کر فرمایا کچھ تو ضرور ہی پڑھ لو گے۔ اگر کسی چھوٹے کا نا م لیتے تو میرے دل کو بہت صدمہ پہنچتا کیونکہ ہر انسان اپنی غایت مطلوب تک نہیں پہنچتا۔‘‘
(حیات نور صفحہ28)
• انتہائی مشکلات
حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد المصلح موعود ؓ اپنی ظاہری تعلیم کے متعلق فرماتے ہیں کہ
’’میں نے حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ سے جس طرح پڑھا ہے اور کوئی شخص نہیں پڑھ سکتا۔ آدھ آدھ پارہ بخاری کا آپ پڑھاتے تھے اور کہیں کہیں خود بخود ہی کچھ بتادیتے تھے اور بعض اوقات سبق کے انتظار میں سارا سارا دن گزارنا پڑتا تھا اور کھانا بھی بے وقت کھایا جاتا تھا اسی وقت میرا معدہ خراب ہواتھا۔‘‘
(سوانح فضل عمر ، جلد اول صفحہ 111)
• صرف محنت کا صلہ
حضرت حافظ مرزا ناصر احمد خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ گورنمنٹ کالج لاہور کے زمانہ طالب علمی میں آپ کو ایک دلچسپ واقعہ پیش آیا امتحان کے دنوں میں بعض لڑکوں کو اگلےروز ہونے والے امتحانی پرچہ کا علم ہوگیا۔ انہوں نے نصف شب آپ کو جگایا او ر امتحانی پرچہ کی نقل دینا چاہی۔ آپ نے فرمایا۔ ’’میں صرف اصل محنت کا صلہ لینے کا حق دار ہوں جو میں نے کی۔ جو نمبر مفت ملتے ہیں وہ میں کبھی نہ لوں گا۔ تم نے اپنی سمجھ کے مطابق مجھے فائدہ پہنچانے کی کوشش کی اس کے لئے میری طرف سے شکریہ۔ مگر اب مجھے سونے دیجئے۔ یہ سن کر پرچہ بردار دوست شرمندہ ہوکر چلے گئے
(الفضل 2مئی 1971ء)
• بیماری اور امتحان
حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے 14 سال کی عمر میں باوجود مرض آشوب چشم کے، میٹرک کے امتحان میں شمولیت اختیار کی اور فرسٹ ڈویژن میں پاس ہوئے اور اپنے مدرسہ (امریکن مشن ہائی سکول سیالکوٹ) میں اول آئے۔
• شدیدمخالفت
میٹرک کے بعد 15 سال کی عمر میں چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کو گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل کروادیا گیا۔ اس زمانہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا۔
’’اس زمانہ میں سلسلہ احمدیہ کی سخت مخالفت ہورہی تھی۔ میں ڈارمیٹری روم میں اکیلا احمدی تھا۔ ہم کل آٹھ طالب علم اس کمرہ میں رہتے تھے۔ دو تین ان میں سے کبھی شرارت پراتر آتے تھے مجھ دق کرتے۔ پہلے سال گرمیوں کی تعطیلوں میں جب میں گھر گیاتو میں نے والد صاحب کی خدمت میں گزارش کی کہ میری رہائش کا انتظام ہوسٹل کے باہر کردیا جائے۔ وجہ معلوم ہونے پر انہوں نے فرمایا تم ابھی سے گھبرا گئے ہو، زندگی میں تمہیں اس سے بھی بہت بڑی مشکلوں کا سامنا ہوگا۔ اگرا بھی برداشت کی عادت نہیں ڈالو گے توآگے چل کر کیا کروگے۔ میں خاموش ہوگیا۔
انٹرمیڈیٹ کے دونوں سالوں میں گرمیوں میں مجھے آشوب چشم کی بڑی سخت تکلیف رہی اور آزمائشی امتحانات میں سے اکثر میں تو شمولیت ہی اختیار نہ کرسکا اور بعض میں بہترین کارکردگی نہ دکھاسکا۔
یونیورسٹی کے امتحانات کی تیاری کے لئے سردیوں کے تین چار مہینے میسر آگئے ان آخری مہینوں میں اوسطاً دس بارہ گھنٹے توجہ سے مطالعہ کرلیتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے کمال فضل اور رحم سے مجھے یونیورسٹی کے امتحان میں کامیابی عطافرمائی۔
(تحدیث نعمت ص7)
• درسی کتب بھی جلادیں
سیدناامیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بروح القدس نے محترم ڈاکٹر مہدی علی قمر صاحب شہید کا ذکر خیر کرتے ہوئے فرمایا۔
’’ڈاکٹر صاحب شہید نے ابتدائی تعلیم ربوہ میں ہی تعلیم الاسلام سکول اور کالج میں لی۔ نہایت ذہین اور ہونہار طلباء میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ پھر پنجاب میڈیکل کالج فیصل آباد میں میڈیکل کی تعلیم شروع کی۔ وہاں پڑھائی کے دوران احمدیت کی وجہ سے طلباء نے کافی مخالفت کی۔ کتابیں اور سامان وغیرہ جلادیا۔ جس کی وجہ سے کچھ عرصہ کے لئے ربوہ واپس آگئے۔ پھر حالات بہتر ہوئے توپھر دوبارہ جا کر تعلیم شروع کی۔ ایم بی بی ایس کا امتحان پاس کیا‘‘
(الفضل انٹرنیشنل لندن، 20جون 2014ء)
• ایک مثالی طالب علم
محترم ڈاکٹر عبدالسلام کی ہمشیرہ مکرمہ حمیدہ بشیر صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ بھائی جان کی زندگی کا محور تعلیم سے شغف ہوتا تھا اس لئے بیکار باتوں میں وقت ضائع نہیں کرتے تھے۔ اور تعلیم کی طرف توجہ ہوتی تھی۔
گھر میں ان کا ٹائم ٹیبل کچھ یوں ہوتا تھا صبح اٹھے، نماز، قرآن کریم کی تلاوت کے بعد ناشتہ کرنا، گھر کے دھلے استری سے بےنیاز کپڑے پہنے، بستہ بغل میں دبانا اور سب کو خداحافظ السلام علیکم کہہ کر (جب تک سائیکل نہیں خریدا تھا) پیدل سکول جاتے تھے۔ رستہ میں کوئی ہم کلاس مل گیا تو پہاڑے یاد کرتے ہوئے سکول جاپہنچے۔ سادگی، عاجزی اور اطاعت کا دخل ان کی زندگی میں بہت تھا۔ لکھنے اور پڑھنے میں ان کا اپنا ہی انداز تھا۔ ایک طرف میز پر کتابیں ایک طرف کاپیاں، پنسل، سلیٹ، سلیٹی، ہمارے بچپن میں سکول میں ہولڈر اور نب، قلم، دوات، اور تختی ہوا کرتی تھی۔ جس سے سب بچے لکھا کرتے تھے قلم سے ہی تختی پر خوشخطی کی مشق کرائی جاتی تھی۔
ذہن میں یہ عادت ڈال دی گئی تھی کہ رات کوجلدی سو جانا ہے اور صبح اذان کے ساتھ ہی اٹھنا ہے۔ لیکن بھائی جان تو سب سے پہلے جاگ کر اپنے کمرے میں پڑھ رہے ہوتے تھے۔ یہ ان کا معمول ہی دیکھا ، چھٹی کے دن بھی نہیں سویا کرتے تھے۔
سردی ہویا گرمی ایک بڑا سا کوٹ زیب تن ہوتا تھا۔ اس کے اندر کی جیب میں چھوٹے سائز کا ترجمہ قرآن کریم، دعاؤں کی کتاب، پاسپورٹ، کاغذات، اوپر سامنے کی جیب میں لاتعداد پن موجود ہوتے۔ غالباً ان کے وزن کے برابر کوٹ تھا۔ ایک بار جانے لگے تو وہ کوٹ میں نے ہی ان کو پہنایا اور بے تکلفی سے پوچھا کہ آپ اتنا وزن کیوں اٹھاتے ہیں ۔ فالتو چیزیں بکس میں رکھ لیں۔ فرمایایہ ضرورت کا سامان ہوتا ہے۔ میرے پاس وقت نہیں ہوتا کہ بار بار بکس سے نکالوں۔
پاکستان میں آمد پر ایک ضروری امر یہ ہوتاتھا کہ وہ تقریباً جہاں بھی جاتے مختلف کتابیں ضرور خریدتے۔اگر خود نہ لے جا سکتے تھے توبعد میں پارسل کے ذریعہ پہنچ جاتیں۔ کسی پر بار نہیں ہوتا تھا کہ کوئی آئے تو لیتا آئے۔ کسی پر بوجھ ڈالنا تو عادت نہ تھی۔ بک سیلرز خود ہی پارسل کرتے تھے۔ اکثر کتابیں اٹلی لے جاتے تھے۔ لندن میں آپ کا گھر حقیقتاً کتابوں سے ہی سجا ہوا ہے۔ کمرہ میں کئی شیلف نہایت سلیقہ سے کتابوں سے ترتیب سے بھرے ہوئے ہیں۔جن میں ایک بہت بڑا حصہ مختلف ممالک سے لائے ہوئے قرآن کریم سے بھی مزین کیا ہوا ہے۔
جھنگ شہر میں ایک ہمارا آبائی مکان ہے جسے بھائی جان نے نوبیل انعام ملنے کے بعد 1979ء میں حکومت پاکستان کے محکمہ آثار قدیمہ کو ’’ان ہاؤس‘‘ میوزیم بنانے کے لئے دے دیاتھا۔ دوسرا مکان ہمارے والد صاحب نے تعمیر کرایا تھا۔ جس میں تین کمرے، ایک بیٹھک، ایک سٹور اور ایک برآمدہ ہے۔ کمروں کے سامنے ایک کشادہ صحن ہے۔ ایک کمرہ میں ٹرنک اور دوسرا گھریلو سامان رکھا ہوتا تھا۔ بھائی جان اسی کمرہ میں پڑھائی کرتے اور سوتے بھی تھے۔ ان کی چارپائی کے ساتھ ایک میز رکھی ہوتی تھی جس پر وہ اپنی کتابیں وغیرہ رکھتے تھے۔
(ماہنامہ خالد، ڈاکٹر عبدالسلام نمبر، صفحہ 56-57ستمبر 2004ء)
• طالب علم اور دعوت الی اللہ
حضرت حافظ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین ؓ کے زمانہ طالب علمی کا ذکر کرتے ہوئے حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی ؓ لکھتے ہیں۔
طالب علمی کے ایام میں میں نے اس امر کا بغور مطالعہ کیا کہ حافظ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین ؓ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کے متعدد نسخے منگواکر رکھتے تھے۔ اور نہایت ہی فراخ دلی سے ان لوگوں کودیتے تھے جو ذرہ بھی شوق ظاہر کریں۔ معمولی قیمت کی کتابیں نہیں براہین احمدیہ جیسی قیمتی کتاب……‘‘
(سیرت و سوانح حضرت حافظ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین ۔ صفحہ209)
• تعلیم کے ساتھ کھیل بھی ضروری
رسالہ ریویو آ ف ریلجنز، اردو میں رپورٹ بابت کارکردگی مدرسہ احمدیہ شائع ہوئی۔لکھا۔
’’ہمارا مدرسہ ضلع میں خاص شہرت رکھتا ہے۔ چنانچہ گزشتہ ٹورنامنٹ کے موقع پر کل انعامات میں سے قریباً نصف تعلیم الاسلام ہائی سکول نے حاصل کئے حالانکہ ضلع میں دو سرکاری اور دو مشنریوں کے اعلیٰ درجہ کے ہائی سکول ہیں۔ بچوں کی جسمانی ورزش کی طرف ماسٹر عبدالرحیم خاص توجہ رکھنے کے باعث خاص شکریہ کے مستحق ہیں۔ فجزاہ اللّٰہ ‘‘
(ریویو آف ریلجنز اردو۔ فروری 1910ء صفحہ 80)
• آغاز سے ہی محنت کی عادت
حضرت چوہدری سر ظفر اللہ خاں سکول کے ابتدائی درجوں میں اپنے والد محترم کے مقرر کردہ ٹائم ٹیبل کے مطابق اس طرح دن گزارتے تھے۔ فرمایا:
’’تجویز کردہ پروگرام کے مطابق مدرسے کے ابتدائی درجوں میں ہی ملازم صبح ہوتے ہی مجھے ٹیوٹر کے پاس چھوڑ آتا، وہاں سے میں مدرسے چلا جاتا، میرا کھانا مدرسے بھیج دیا جاتا، مدرسے سے میں پھر ٹیوٹر کے پاس چلا جاتا ۔ وہیں میرے لئے گھر سے دودھ آجاتا۔شام کو میں کھانے کے لئے گھر آتا۔ کھانا ختم ہوتے ہی ملازم مجھے ٹیوٹر کے پاس چھوڑ آتا اور رات کو مجھے واپس گھر لے آتا۔‘‘
(تحدیث نعمت، صفحہ 14)
• قرآن کریم مقدم رہے
حضرت چوہدری سر ظفر اللہ خاں کے والد صاحب کی بڑی خواہش تھی کہ ان کے بیٹے کو قرآن کریم کا ترجمہ آجائے۔ پہلے انہوں نے حضرت چوہدری سر ظفر اللہ خاں کو مولوی عبدالکریم صاحب اور پھر مولوی فیض الدین صاحب کے پاس بھجوایا۔ آشوب چشم کی وجہ سے باقاعدہ حاضر نہ ہوسکتے تھے ، لہذا رفتار سست رہی۔
آپ روایت کرتے ہیں۔
’’جب میٹریکیولیشن کے امتحان میں صرف6 ماہ باقی رہ گئے تو والد صاحب نے دریافت فرمایا کہ قرآن کریم کا ترجمہ کہاں تک پڑھ لیا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ ساڑھے سات پارے ختم کئے ہیں۔ اس پر انہوں نے فرمایا کہ اس رفتار سے تو تم شائد کالج جانے تک دس پارے بھی نہ مکمل کرسکو اور میری بڑی خواہش ہے کہ کالج جانے سے پہلے تم سارے قرآن کا سادہ ترجمہ ضرور سیکھ لو۔ اس سے آگے تمہارے ذوق اور اخلاص پر منحصر ہے مگر اس قدر سیکھادینا میرا فرض ہے۔ اب وقت تھوڑا رہ گیا ہے تم دن میں فراغت کے وقت دو تین رکوع کا ترجمہ دیکھ لیا کرو اور شام کو مجھے سنا دیا کرو چنانچہ اس طریقہ پر انہوں نے امتحان تک مجھ سے قرآن کا ترجمہ سن لیا۔‘‘
(تحدیث نعمت ص6)
• مثالی والدین
حضرت خلیفہ المسیح الاول رضی اللہ عنہ نے ایک موقع پراپنے والد محترم کے ذکر میں فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ میرے باپ پر رحم فرمائے۔ انہوں نے مجھ کو اس وقت جب کہ میں تحصیل علم کے لئے پردیس جانے لگا۔ فرمایا اتنی دور جاکر پڑھو کہ ہم میں سے کسی کے مرنے جینے سے ذرا بھی تعلق نہ رہے اور تم اس بات کی اپنی والدہ کو خبر نہ کرنا۔‘‘
(حیات نور از مکرم عبدالقادر سابق سوداگرمل، صفحہ19)
• کتب بینی کی عادت
حضرت حکیم مولوی نور الدین صاحب خلیفہ المسیح الاول رضی اللہ عنہ نے ایک موقع پر فرمایا۔
’’مجھ کو اپنے سن تمیز سے بھی پہلے کتابوں کا شوق تھا بچپنے میں جلد کی خوبصورتی کے سبب کتابیں جمع کرتا تھا۔ سن تمیز کے وقت میں نے کتابوں کابڑا انتخاب کیا اور مفید کتابوں کے جمع کرنے میں بڑی کوشش کی۔‘‘
(حیات نور از مکرم عبدالقادر سابق سوداگرمل، صفحہ9)
• محنت کی عادت
حضرت حافظ مرزا ناصر احمد خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے متعلق آپ کے بچپن کے دوست اور کلاس فیلو شیخ محبوب عالم خالدگورنمنٹ کالج لاہور کے زمانہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپ روزانہ کالج کے علاوہ چھ سات گھنٹے پڑھتے تھے اور چھٹی والے دن بارہ بارہ، تیرہ تیرہ گھنٹے پڑھتے تھے۔
(حیات ناصر صفحہ:65)
• شادی کے فوراً بعد اعلیٰ تعلیم کے لئے لندن روانگی
6ستمبر 1934ء کو حضرت مصلح موعودؓ نے حضرت مرزا ناصر احمدؒ کو اعلیٰ تعلیم کے لئے انگلستان بھجوایا۔ آپ کی شادی کو ابھی ایک ماہ ہی گزرا تھا کہ آپ اعلیٰ تعلیم کیلئے پردیس کو رخت سفر باندھ کر روانہ ہوگئے۔
(حیات ناصر صفحہ: 79)
• 12 گھنٹے پڑھائی
حضرت مرزا ناصر احمدؒ نے اپنے زمانہ قیام انگلستان میں ساتھی طلبہ کو بطور خاص دیکھا کہ وہ کتنا مطالعہ کرتے ہیں۔ ایک موقع پر فرمایا،
’’آکسفورڈ میں اچھا طالب علم وہ سمجھا جاتا ہے جو کلاس ورک کے علاوہ بارہ بارہ گھنٹے سٹڈی کرتا ہے، یعنی کلاس روم کے علاوہ بارہ گھنٹے سٹڈی کرنے والا اچھا طالب علم اور آٹھ گھنٹے سٹڈی کرنے والا درمیانہ طالب علم اور جو کلاس روم کے علاوہ پانچ گھنٹے سٹڈی کرتا تھا اس کے متعلق وہ کہتے تھے کہ پتہ نہیں یہ یہاں کیوں آگیا ہے؟ اسے پڑھائی سے کوئی دلچسپی نہیں ہے مگر ہمارے ہاں اچھا طالب علم شائد اسے سمجھا جاتا ہے جو روزانہ پانچ گھنٹے اوسط پڑھتا ہے لیکن وہاں انہوں نے وقت مقرر کیا ہوتا ہے کہ آٹھ یا دس گھنٹے یا بارہ گھنٹے ضرور پڑھائی کرنی ہے۔‘‘
(حیات ناصر صفحہ101)
• سعادت مند بیٹا
مکرم زکریا ورک اپنے تعزیتی مضمون میں ڈاکٹر اعجاز قمر صاحب مرحوم کے سعادت مند بیٹے ڈاکٹر طاہر اعجاز کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’آپ کا لخت جگر ڈاکٹر طاہر اعجاز (ایم ڈی) اس وقت سان تیاگو ، کیلی فورنیا میں برسر روزگار ہے۔ نہایت سعادت مند بیٹا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ آج سے سترہ یا اٹھارہ سال قبل جب وہ کنگسٹن کے جنرل ہسپتال میں ٹریننگ کے لئے آیا تھا تو میں نے اس کی رہائش کا انتظام کیا تھا۔ جب ہوٹل میں میں اس کو چھوڑنے گیا تو دیکھا کہ سوٹ کیس میں سب سے اوپر جائے نماز رکھا تھا جس کو اس نے سب سے پہلے باہر نکالا۔ میرے استفسارپرجو یادگار جواب دیا وہ آج بھی میرے ذہن پر ثبت ہے۔ کہنے لگا کہ میری والدہ نے نصیحت کی تھی Don’t leave home without it یعنی جائے نماز کے بغیر سفرکے لئے نہ نکلنا۔ اس زمانے میں ٹیلی ویژن پر اشتہار آتا تھا کہ امیریکن ایکسپریس کارڈ کے بغیر گھر سے باہر مت جاؤ۔ تو اس مناسبت سے والدہ کی نصیحت بہت ہی موزوں اور اچھی تھی۔ نیک ماں نے بچے کی کتنی اچھی تربیت کی تھی اور بچہ بھی کتنا تابعدار کہ والدہ کی نصیحت کو حرز جاں بنالیا۔‘‘
(روزنامہ الفضل ربوہ، یکم دسمبر 2014ء)
• غیرمعمولی جذبہ
حضرت صاجزادہ مرزا بشیر احمدؓ لاہور میں بی اے کی تعلیم پارہے تھے کہ اچانک آپ نے کالج چھوڑدیا اور قادیان آکر حضرت خلیفہ المسیح الاولؓ سے قرآن و حدیث پڑھنے میں مشغول ہوگئے۔ مکرم میر محمود احمد ناصر کی روایت ہے کہ کالج چھوڑنے کی وجہ یہ ہوئی کہ کسی طالب علم نے …احمدیت کے متعلق کوئی ایسا سوال کیا جس کا آپ فوری جواب نہ دے سکے۔ اس کا آپ کی طبیعت پر ایسا اثر ہوا کہ آپ نے کالج چھوڑ دیا اور یہ فیصلہ کیا کہ جب تک میں قرآن پورے طور پر نہ پڑھ لوں گا میں کالج نہیں آؤں گا۔
(حیات بشیر، صفحہ 27)
اسی حوالہ سےمحترم قاضی ظہور الدین اکمل رسالہ تشحیذالاذہان میں لکھتے ہیں کہ مجھ سے حضرت مرزا بشیر احمدؓ نے فرمایا وہ کالج تو پھر مل جائے گا مگر زندگی کا کچھ اعتبار نہیں۔ ممکن ہے کہ قرآن مجید اور حدیث پڑھنے کا اور پھر وہ بھی نورالدین ایسے پاک انسان سے پھر موقع نہ مل سکے اس لئے میں نے یہی بہتر جانا۔
آپ کے کالج چھوڑنے کا پرنسپل کو خاص افسوس ہوا، اس نے یہ الفاظ لکھے
.(An Excellent Student. His leaving is a loss to the college G. A. W)
یقینا آپ ایک لائق طالب علم تھے اور آپ کا کالج کو چھوڑ جانا کالج کے لئے ایک نقصان دہ امر ہے۔
(رسالہ تشحیذ الاذہان ، ماہ مارچ 1913ء)
• سینئرز اور جونیئرز
مکرم ڈاکٹر مہدی علی قمر صاحب کی شہادت کے بعد خطبہ جمعہ میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا۔
’’ان کے ایک دوست ڈاکٹر محمود کہتے ہیں کہ ہم میڈیکل کالج میں روم میٹ تھے،وہاں دیکھنے کا موقع ملا، صوم و صلاۃ کے پابند تھے اور میرے سے سینئر تھے اس لئے کوئی غلط کام دیکھتے تو بڑے پیار سے رہنمائی بھی فرماتے تھے۔ خدمت خلق کا جذبہ ہمیشہ غالب رہا۔‘‘
(الفضل انٹرنیشنل لندن، 20جون 2014ء)
• ایام طالب علمی میں بیعت اور مخالفت پر صبرو استقامت
حضرت حافظ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین ؓ کے متعلق لکھا ہے کہ
’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خبر جب آپ کو ملی اس وقت آپ میڈیکل کالج لاہور کے طالب علم تھے۔ ایام طالب علمی میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسی بصیرت دی کہ آپ نے اپنے والد محترم سے ذکر کیا اور اجازت حاصل کرکے فوراً بیعت کرلی۔ ایک روایت ہے کہ آپ کے والد نے استفسار فرمایا کہ اگر یہ وہی مسیح ہے جس کی آنحضرت ﷺ نے پیش گوئی فرمائی تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔
اس بیعت کے بعد آپ کے گھر اور باہر دونوں اطراف سے سخت مخالفت ہوئی گھر میں بھائیوں نے بائیکاٹ کیا اور موچی دروازہ کی حویلیوں اور تاج پورہ اور شیخوپورہ روڈ پر آبائی زمین سے حصہ دینے سے انکار کردیا۔‘‘
(سیرت و سوانح حضرت حافظ خلیفہ ڈاکٹر رشید الدین ۔صفحہ:61)
• درسی کتب میں ایثار
ڈاکٹر مہدی علی قمر صاحب شہید کے بارہ میں ان کے کلاس فیلو مکرم مبارک صدیقی بتاتے ہیں۔
’’سکول کے زمانے میں بعض اوقات کورس کی ساری کتابیں میرے پاس نہیں ہوتی تھیں تویہ مجھے کہتے کہ آدھا دن کتاب میں نے پڑھ لی ہے اب آدھا دن کتاب تم پڑھ لو، حتی کہ بعض اوقات عین اس وقت جب اگلے روز امتحان ہوتا تھا آپ جلدی جلدی کتاب پڑھ کر مجھے پکڑا جاتے کہ اب باقی دن تم پڑھ لو، اس کے باوجود بھی آپ زیادہ تر اول پوزیشن ہی حاصل کرتے تھے۔‘‘
(الفضل انٹرنیشنل ، لندن، 20جون 2014ء)
• ریاضی کا علم تمہاری میراث ہے
پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب اپنے بارے میں لکھتے ہیں کہ
’’گورنمنٹ کالج لاہور میں ایم اے کرنے کے بعد 1946ء میں کیمبرج پہنچا۔ کیمبرج کے کلاس روم میں طالبعلم اس اندازمیں بیٹھتے ہیں جس طرح نماز پہلے نمازی مسجد میں آکر بیٹھتے ہیں۔ لیکچرار کے آنے سے پیشتر ایک سناٹا ہوتا ہے ۔ لیکچرکے درمیان میں انگریز طالب علم چار چار قسم کی سیاہیوں والا قلم اور صحیح لکیریں ڈالنے کے لئے رولر استعمال کررہا ہوگا۔ اس کی نوٹس لینے والی کاپیاں ایسی احتیاط سے لکھی گئی ہوں گی جیسے پروفیشنل خوش نویس لکھ رہا ہو۔ میرے ساتھ والے طالب علم براہ راست سکولوں سے آئے تھے۔ عمر میں مجھ سے سب کم تھے لیکن ان کی خود اعتمادیوں اور امنگوں کا وہ عالم تھا جسے تحصیل کرنے کے لئے مجھے کم از کم دو سال درکار ہوئے۔ وہ ایسے ماحول سے آئے تھے جس میں ان کے سکولوں کا ہر استاد اچھے پڑھنے والے بچوں کو یہ سمجھا کر کیمبرج روانہ کرتا تھا کہ عزیز تم اس قوم کے فرزند ہو جس میں نیوٹن پیدا ہوا تھا۔ سائنس اور ریاضی کاعلم تمہاری میراث ہے اگر تم چاہو تو تم بھی نیوٹن بن سکتے ہو۔
کیمبرج یونیورسٹی کا ڈسپلن
کیمبرج میں ڈسپلن کا انداز بھی میرے لئے نیا تھا کیمبرج میں بی اے کا امتحان آپ زندگی میں صرف ایک بار دے سکتے ہیں۔آپ خدا نخواستہ فیل ہوجائیں تو پھر دوسری بار امتحان دینا ممکن نہیں۔ ہاسٹل کے ڈسپلن کا یہ عالم تھا کہ دس بجے رات تک آپ بلااجازت باہر رہ سکتے ہیں۔ دس سے بارہ بجے تک ایک پینی جرمانہ لیکن اگر آپ بارہ بجے کے بعد آئے تو 7 دن کی Gating ہوگی اور اگر سال کے دوران تین بار ایسا ہوا تو آپ کو کیمبرج سے نکال دیا جائے گا۔
کیمبرج میں ہر طالب علم Adult تصور کیا جاتا ہے۔ اپنے سب کاموں کا ذمہ دار گنا جاتا ہے۔ اس سے بے جا تعرض نہیں ہوتا لیکن اس کی سزائیں بھی وحشیانہ تھیں۔جنہیں وہ طالب علم مردانہ وار قبول کرتے تھے۔
کیمبرج میں یہ سختیاں 1968ء کے بعد سے ہٹ گئیں۔کیمبرج کا طالب علم ہاتھ سے کام کرنے کا عادی ہوتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ پہلے دن جب میں St. John College پہنچا ،میرا 30 سیر کا بکس لے کر ریلوے اسٹیشن سے ٹیکسی پر چلا آیا لیکن جب کالج پہنچ کر میں نے پورٹر کو بلایا اور کہا کہ یہ میرا بکس ہے تو اس نے کہا کہ ٹھیک ہے یہ Wheel Borrow ہے آپ اسے اٹھایئے اور باقیوں کے ساتھ اپنے کمرے میں لے جائیے۔‘‘
(ماہنامہ خالد، ڈاکٹر عبدالسلام نمبر، صفحہ 56-57)
• شوق
مکرم زبیر احمد نے اپنے تایا چوہدری منظور احمد کے بارہ میں تعزیتی مضمون میں لکھا کہ
’’آپ میٹرک تک سکول جاتے رہے لیکن ساری عمر زمیندارہ کیا، اس کے باوجود اپنے تمام بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ ہمارے سب سے بڑے تایا زاد کرنل مشہود احمد صاحب کو فزکس میں Ph.D کی اجازت ملی تو ہمیں یاد ہے کہ ہم والد صاحب کے ساتھ نماز پڑھنے گئے تو تایا جان بہت خوش تھے۔……دو بیٹوں نے قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے M.Scتک تعلیم حاصل کی۔‘‘
(روزنامہ الفضل ۔ ربوہ۔ 25جون 2014ء)
• گھریلوملازم کو تلقین
مکرم احمد سعید اختر ابن محترم ماسٹر فضل الرحمن بسمل سابق امیر جماعت احمدیہ بھیرہ کے متعلق ان کی اہلیہ نے لکھا۔
’’سب بچوں کو بہترین دینی اور دنیاوی تعلیم دلوائی اور خود بھی اپنے علم میں اضافہ کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ اپنے آخری دنوں میں بڑے بیٹے میجر احمد نعیم اختر کے گھریلو ملازم کو تلقین کرتے کہ ساتھ ساتھ پڑھائی بھی کرو۔علم انسان کو دین و دنیا میں اچھا مقام دیتا ہے۔‘‘
(روزنامہ الفضل۔6 مئی 2014ء)
(طارق حیات)
حصہ دوم