• 28 اپریل, 2024

ویلنٹائن ڈے Valentine Day

ہم سب اللہ میاں کی بنائی ہوئی دنیا میں مختلف ملکوں خطوں اور ریاستوں ضلعوں اور شہروں میں رہتے ہوئے بھی اپنی کچھ الگ پہچان بھی رکھتے ہیں جہاں رنگ و روپ کے علاوہ عادات اور رسم و رواج بھی دوسرے سے الگ ہوتے ہیں اور پھر چھٹیوں کے دن اور تہواربھی الگ وقتوں پر اور موسموں پر منائے جاتے ہیں۔یہ آپ کو معلوم ہو جا تا ہے جب آپ کسی ملک میں کچھ عرصہ رہ کر دوسرے ملک جا کر رہیں تو ضرور جانے پہچانے جاتے ہیں۔کچھ ایسا سے ہی دیکھ دیکھ کر ایک غیرملکی باشندہ اپنے آپ کو ذراٹٹولتا ضرور ہے کہ میری کیا پہچان ہے؟ میں انڈین نہ پا کستانی اور نہ ہی سندھی، بلوچی کہلاتا ہوں۔ کنیڈین، امریکن یا انگلش دیکھنے میں تو نہیں لگتا مگر کیا کریں مجبور ہیں کہ کبھی سال شروع ہوتے ہی New year نئے سال کی چھٹیوں کا انتظار اور پھر روشنیوں کی بے انتہا سجاوٹ بے انتہا Sales کا چرچا کہ آؤ اور سامان خریدو اور تحفے تحائف دینے لینے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ کچھ لوگ غرباء اور بیماروں کو بھی یاد رکھتے ہیں کیونکہ کرسمس کے ساتھ ساتھ ہی یعنی سال کا آخیر اور آغاز کے دونوں تہوار چھٹیاں شاپنگ تحائف اور سجاوٹ میں گزرنےہیں گویا یورپ امریکہ کے لوگوں کولاز ماًیہ چھٹیوں کے دن کسی نہ کی طرح تو گزارنے ہی ہیں۔

ہمارے لوگ اپنے ملک بھی چلے جاتے ہیں جہاں سردی قدرے کم ہوتی ہے اور بزرگوں عزیزوں سے ملنے کا ایک بہانہ اور موقع بھی میسر آجا تا ہے خیر دو ہفتے کی بجائے تین ہفتے کٹ ہی جاتے ہیں اور اپریل میں ایسٹر کا تہوار منایا جاتا ہے مگر میں چھلانگ لگا کر اس کو زیادہ تفصیل سے بتانے کی بجائے آج کے اوپر لکھے ہوئے ہیڈ نگ کو لیتی ہوں۔ یہ نہ ہو کہ لکھتے لکھتے پٹڑی سے اتر جاؤں اور ہمارا Valentine Dayرہ ہی جائے۔ باقی پھر لکھوں گی۔

چونکہ یہ فروری کا مہینہ آج کل جارہا ہے اور ہر طرف ہر گھر میں TV کے چینل پر اس تہوار کا ذکر اور دو کانوں اور بڑے بڑے سٹوروں، پلک سیر گاہوں، ریلوے سٹیشنوں اور سکولوں کالجوں، یونیورسٹیوں میں اس دن کا ذکر ہورہا ہے۔ کارڈ تو رنگارنگ کے بہترین ہر سائز میں دل کی شکل میں اور ہر ایک کےلئے اس کے چاہنے والے کے نام کے زیور،پوسٹراور نہ معلوم کیا کچھ آپ کو ان ملکوں میں نظر آئے گااور یوں لگتا ہے کہ ہر ایک ایک قسم کی دوڑکےلئے تیاری کر رہا ہے۔ گلاب کے پھولوں کو فرانس اور روم سے منگایا جاتا ہے۔سردیوں کی وجہ سے ان ملکوں میں پھولوں کے بڑے بڑے سٹوربیش بہا قیمت سے باغبانوں کو آرڈر دےکر منگواتے اور وقت پر حاصل کرنے کیلئے گراں قدر رقم ادا کرتے ہیں کہ ہر نوجوان لڑکے یا بوڑھے جوڑوں تک نے بھی پھول خرید کراُس دن ضرور ایک دوسرے کو پیش کرنا ہے۔ بھلا ایسی کون سی بات ہے ضرور خیال آتا ہے کہ میں بھی تو پتہ چلے۔

ہم اپنے اردگرد اس قدر گہما گہمی کئی سالوں سے ہوتی دیکھ رہے ہیں مگرکبھی اس کی وجہ، اس کی تاریخ اور اہمیت جانے کی کوشش نہیں کی۔

یہی وہ خیال تھا جس نے مجھے یہ معلومات حاصل کر کے لفظوں میں ڈھالنے کی کوشش کرنے پر مجبور کیا اور میں لکھ رہی ہوں۔

ویلنٹائن کے متعلق دومختلف بیان ہیں ۔ کہتے ہیں کہ ایک خدا رسیده ویلنٹائن نامی بزرگ انسان تھا جو روم میں رہتا تھا۔ یہ تیسری صدی کی بات ہے جبکہ عرصہ گزراوہاں ایک جابر شہنشاہ کلاڈیسClaudius نامی حکومت کرتا تھا۔اگر چہ حکمران تھا مگر اس کو اس کے ملک کی اکثریت پسند نہ کرتی تھی جن میں ایک ویلنٹائن بھی تھا۔ یہ جابر شہنشاہ اپنے ملک روم کےلئے بہت بڑی فوج بنانا چاہتا تھا اور حکم دیا کہ مرد شادیاں نہ کریں بلکہ پا بند کر دیا گیا تا کہ مرد اکیلے ہوں اور ان پر بیوی بچوں کی محبت اور ذمہ داری نہ ہو اور سب مرداس جذ بہ خدمت کولے کر شامل ہوں اور واپس نہ لوٹنے کا مطالبہ کریں اور جنگلوں میں اگر مارے بھی جائیں تو پیچھے رہنے والوں کا نہ کوئی مطالبہ ہو اور غم بھی کرنے والے کم ہوں۔

کچھ لوگوں نے تو حب الوطنی کے جذبہ سے سرشار ہو کر شادی نہ کرنے کی قسم کھا کر فوج میں بھرتی ہونا قبول کرلیا مگر آخر انسانی جذبات ضرورت اور محبت کی بھی بات ہوتی ہے مگر اس ظالم بادشاہ کی مرضی کے خلاف تھاکہ کوئی بھی جوڑاشادی کے بندھن میں باندھا جائےجبکہ ویلنٹائن جوکہ نہ صرف ایک نیک دل اور خدا کا پیارا انسان تھا اور یہ بھی یادرہے کہ بے چارہ بدقسمتی سے ایک پادری بھی تھا جس کا کام ہی شادی کی تقریب میں ایجاب و قبول کروانا اور نوجوان لڑکا اورلڑکی کو اس اہم رشتہ میں شامل ہونے کےلئے دعائیں دینا اور اقرار بطر ز قول و قرار کے کروانا اس کا کام تھا۔ اب یہ بے چارہ ایک تو تھا بھی نیک دل دوسرے اس پر بھی کڑی نظر رکھی جانے لگی کہ کہیں یہ پادری ہی نوجوانوں کےلئے راستہ نہ بناتارہے اور کلاڈیس نامی حاکم کی سکیم فیل ہو جائے۔ مرتا کیا نہ کرتا بے چارہ شش وپنج میں رہنے لگا۔ اپنی مذہبی ڈیوٹی بھی نہ ادا کر سکے اور فوج میں نہ جا سکے کرے تو کیا کرے۔ یہی نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہنے والی بات تھی۔

حالات اس قدر خراب ہوتے نظر آرہے تھے کہ لوگ پریشان، نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم، ہوکر رہ گئے۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کی زندگیاں ایک موڑ پر آکر رکتی ہوئی نظر آنے لگیں۔والدین کو بھی کچھ سمجھ نہ آرہی تھی کہ کیا کریں۔انہی حالات میں اس نیک دل پادری نے اپنے خدا کے کام کو بھی شادی کے بندھن میں لڑکے اور لڑکی کو اجازت دے کر ایجاب و قبول کروا کررجسٹر ی آفس کے کمرہ سے رخصت کرنے کا کام جاری رکھا مگر انتہائی خاموشی اور چھپ چھپا کر کر نے والی بات سمجھئے کہ رات کو دیر سے شادی کی اجازت لینے والے جوڑےکو کمره میں آنے کو کہتا۔ بڑی روشنی بجھا دی جاتی۔ صرف موم بتی جلا کر دونوں کو عہد و پیمان لےکر دستخط کر وا تا اور رخصتی کی دعائیں دیتا ہوااپنے فرض اور ڈیوٹی سے سبکدوش ہوتا رہا اور دل ہی دل میں خوشی محسوس کرتا کہ میں نے دو پیار کرنے والوں کو ان کی دلی خواہش کے مطابق ایک محبت کے بندھن میں باندھ دیا ہے اور خوش ہو کر ان کےلئے دعا کیا کرتا تھا ۔شومئی قسمت ہیں کہ فروری کی چودہ تاریخ ہی کو کسی ایک نوبیاہتا جوڑے کو ایجاب وقبول کروا رہا تھا آواز بھی بے حد مدہم ہوتی تھی اور روشنی بھی مدہم مگر جب کچھ ہونا ہو تو ہو کر ہی رہتا ہے۔

ویلنٹائن پادری صاحب کی کڑی نگرانی والوں میں سے کسی نے ان کو آن پکڑا جبکہ خوش قسمتی سے وہ جوڑا تو اندھیرے میں چوکیدار کو دکھائی نہ دیااور وہ بچ کر بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گئے مگر اس پادری کو اس پاداش میں پڑ کر جیل میں بند کر دیا گیا اور بتایا گیا کہ ملک کے حکمران کے حکم کی خلاف ورزی کر کے تم اب جیل کی سزا بھگتو۔پھر جلدتمہیں سزائے موت سنائی جائے گی۔اکثر نوجوان لڑ کے اورلڑکیاں میر ے جیل کے کمرہ کی کھڑکی کے پاس آ کر مجھ سے محبت کے الفاظ کہتے۔ ان سے پیار کی باتیں اور حوصلہ بڑھانے کی باتیں سن کر دل خوش تو ہوتا مگر مجھے اپنی موت بھی قریب آتی دکھائی دیتی تھی۔یہ بات پادری ویلنٹائن نے ان نوجوانوں کو کہی اور اکثر نوجوان لڑ کے اور لڑکیاں صرف خاموش رہ کر مجھے کھڑکی میں سے دیکھتے اور اپنے ساتھ لائے ہوئے پھول میرےکمرہ میں پھینکتے اور کئی خوبصورت کارڈ اور خوبصورت نوٹ لکھ کر لاتے اور ان کوشادی کے پیار بھرے بندھن میں باندھنے پر خوشی اور شکر گزاری کے الفاظ لکھ کر پھینک جاتے۔ یہاں تک کہ اس قدرپھولوں کا ڈھیر لگ جاتا اورکبھی کبھی میں اس ڈھیر میں چھپ جاتا۔ یہ تھی وہ بات جواس پادری نے درد بھری آواز میں کہی تھی اپنے ملنے والوں کو۔آخر جابر بادشاہ روم نے اس کو سزائے موت سنا دی اور اب اس کی یاد میں یہ دن مختلف طریقوں سے 14 فروری کو منایا جاتا ہے۔

ملک بھر میں چھٹی ہوتی ہے،بچے بوڑھے اور نوجوان خاص طور پر اپنی اپنی محبت جتانے کیلئے اپنے محبت کرنے والے کوتحائف،پھول اور کارڈ دیتے ہیں۔رات کو ڈنر پر جانا بھی لازمی سمجھا جانے لگا ہے مگر بات تو بے چارے خدا رسیدہ ویلنٹائن پادری کی نیکی کی بات ہے جو کہ اسلام کی بھی تعلیم ہے۔شادی کرنا یا کروانا ثواب ہی کا کام ہے مگر ان لوگوں کو خدا کے حکموں کی سمجھ دیر سے آتی ہے۔بس بھیڑ چال کی طرح اندھادھند چل پڑتے ہیں اور کبھی یہ جاننے کی کوشش نہیں کرتے کہ آخر اس دن کی اہمیت اور ضرورت اور صورت اور قابل ذکر بات کیا ہے؟ قارئین اس نوٹ کے لکھنے کے بعد مجھے بھی کچھ تو پتہ چلا ہے کہ اگر صرف پیار کا ہی اظہار کرنا مقصود ہوتا تو صرف ایک ہی دن کو کیوں اتنا اہم بنایا گیا ہے جبکہ خدا کے پیار کے لئے تو ہر دن،ہرلمحہ اور ہر سانس اور ہر دل دھڑک دھڑک کر یاد اور فریاد کیا کرے جو کہ قدرت نے ہمیں خودسکھائی ہے۔ الحمدعلی ذالک۔

اب رہے ان لوگوں کے اس دن ،یا تہوار کہہ لیجئے اس کو منانے کے دلچسپ اور عجیب و غریب طریقے ۔ چونکہ وہ محبت کا خیر خواہ، پیار کا پیکر اور قدر دان جس دن پھانسی پرلٹکایا گیا وہی وسط فروری کا دن تھا،14 تاریخ تھی اور انسان ہونے کے ناطے جیل میں قید کا عرصہ کا ٹنا مشکل بلکہ ناممکن تھا۔ایک اچھے انسان،با اخلاق اور ہمدرد ہونے کی وجہ سے اس کو ملنے جیل آتے تھے اور یہ روزانہ کا معمول بن گیا تھا کہ ویلنٹائن پھولوں کے ڈھیر کے پیچھے سے، جب اٹھ کر پیار کے پروانے جو اس سے پیار کرنے والوں نے اس کی محبت میں لکھے تھے گرا گئےتھے ، پڑ ھتا تو اس کا بھی دل بھر آتا مگر کیا کرتا اسے ایک دن اپنی موت کی خبر سننا ہی تھی۔انہی لوگوں میں سے یا نو جوانوں میں سے جن کے ملاپ اس عظیم محبت کے قدردان انسان پادری نے کرائے تھے ان میں سے ایک جیل کے یعنی قید خانے کے افسر کی بیٹی بھی تھی جو نو جوان بھی تھی اور خوبصورت بھی تھی۔جب ویلنٹائن کو اپنی زندگی کا آخری پیغام ملا کہ کل تمہیں پھانسی کے پھندے پر لٹکایا جائے گا اور تمہارا جرم محبت ہی ہے جس کی سزاتم پارہے ہو تو یہ بہت اداس اور رنجیدہ ہوا اور اپنی کال کوٹھڑی میں ایک محبت بھرا آخری خط اس لڑکی کے نام لکھ کر چھوڑ آیا جو قید خانے کے افسر کی بیٹی تھی اور لکھا تھا کہ’’مجھے تم سے محبت ہے اور میں اب دنیا سے جارہا ہوں خدا حافظ‘‘اور اسی یاد میں یہ دن منایا جا تا ہے کہ محبت کی قدر کرنی چاہئے اور جس سے محبت و پیار ہواس شخص کو بتا بھی دینا چاہے لہذا میں تمہیں یہ بتا کر اپنی سزاپانے جارہاہوں۔

لوگ اسی وجہ سے اپنے پیاروں کو یاد کرتے اور کہتے ہیں I Love You۔ نوجوان لڑکی اپنے نام ایک کاغذ کے پرزے پر لکھ کر ایک بڑے منہ کی بوتل یعنی جار میں ڈال دے گی اورایک نوجوان لڑکا بھی ایسے ہی کرے گا اور دونوں ایک ایک نام کی چٹ نکال کر ملیں گے باتیں کریں گے اورکبھی اس دن کی ملاقات دائمی خوشی اور زندگی کے ساتھی بننے میں بھی ممد ہو جاتی ہے۔ توہمات کے پجاری بھی کچھ ایسی ہی باتیں کرتے ہیں جن سے پیار کی لڑی بنا کر اپنی محبت کو خیالات سے ہٹا کر زندگی کے لئے ساتھی چننے میں آزماتے ہیں۔مثلاً اگر ویلنٹائن کے دن یعنی 14 فروری کوکسی نو جوان لڑکی نے کسی Robin Blue Bird چڑیا کو سر پر سے اڑ کر گزرتے ہوئے دیکھ لیا تویقین کرنے لگے گی کہ اس کی شادی کسی ملاح سے ہوگی۔

اگر کسی لڑکی نے چڑیا براؤن رنگ میں گزرتے ہوئے دیکھ لی تو یہ سمجھے گی کہ اس کی شادی کسی غریب آدی سے ہوگی کیونکہ چڑیا کو غریب مزاج پرندہ خیال کیا جاتا ہے اور خوش رکھنے والالڑکا بیاہ کر لے جائے گا۔

اسی طرح اگر گولڈفش سنہری مچھلی کو دیکھ پائے تو یہ اس کے نزدیک بڑی ہی خوش قسمتی ہوگی کہ وہ عنقریب کی لکھ پتی سے شادی کر پائے گی۔

پھر اسی طرح دن جو کہ چھٹی کا دن ہے پیار کو بڑھانے جتلانے اور کرنے میں ہی گزارنا چاہتے ہیں۔ کوئی نہ کوئی خوش گپیاں بھی کرتے ہیں۔

مثلاً اگر اس روز کسی نے سیب کا ٹا اور آدھا کاٹ کر دوسرے سے کہا کہ بھلا جلدی سے بتاؤ کہ اس میں کتنے بیج ہیں۔اگر گن کر بتا دو تو گویا تمہارے اتنے ہی بچے ہوں گے۔ کچھ اپنی دلچسپی اور یقین کومحکم کرنے کے لئے Dandelion ایک پھول ہوتا ہے اگر اس کو آپ ایک لمبا سانس روک کر پھونک اس قدر زور سے ماریں اور جب اکثر پنکھڑیاں اڑ کر گر جائیں گی جو باقی رہ جائیں گی اور صرف چند گنتی کی ہوتی ہیں تو کہنے لگ جاتے ہیں کہ اسی تعداد میں تمہارے بچے ہوں گے۔

اس طرح کی اور بات بنا کر خوش طبعی کا کھیل رچالیتے ہیں کہ تم سیب کو ہاتھ میں لواور اس کی ڈنڈی جو ساتھ لگی ہے گھما کر اتارنے کی کوشش کرو اور اس دوران اپنی پسند کے لڑکوں کے نام یالڑکیوں کے نام لو اور جب ڈنڈی سے سیب الگ ہو جائے اور تم جس نام پر اس کو الگ کر لوتوسمجھو کہ جو نام تمہارے منہ پر تھا اس سے شادی ہوگی ۔المخصتر کہ ایک نیک دل محبت کے فرستاده پادری ویلنٹائن نے رشتوں کو جوڑنے پیار کرنے والوں کو ملانے اور نبھانے کی اچھی بات بتائی جوان ملکوں میں رہنے والوں کو اپنانے میں یہ دن زیادہ ہی شور وغل مچا کر اور کچھ مختلف طریقوں سے اظہار کرنے کی عادت بڑھ گئی ہے۔ بات اچھی ہو تو سبھی کو کرنی اورسننی چاہئے کوئی مضائقہ تو نہیں مگر خدا سے محبت کا رشتہ بنالیں تو کبھی کوئی نہ تنہا ہوگا یا اداس ہوگا یا بھی بے رخی اور بے مروتی کے حادثات کا شکار ہوگا۔دعا کرتی ہوں کہ

بڑھتی رہے خدا کی محبت خدا کرے
حاصل ہوتم کود یدکی لذت خدا کرے

ایک دوسرے کو اس دن کارڈ بھجوانے کےلئے کارڈ ایسوسی ایشن والوں کو ایک لاکھ کارڈ اندازا ًتیار کرنے پڑتے ہیں اور جبکہ سال کے دوران ہونے والے سب سے بڑے تہوار کرسمس پر تقریبا 2.6لاکھ کارڈ تیار کرنے پڑتے ہیں۔یہ بڑی رقم اور وقت جو لوگ ان موقعوں پر خرچ کرتے اور اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں جبکہ سب کو صرف اور صرف خداسے پیار کےلئے اتنا کچھ کرنا چاہئے اورسچا پیارتو کارڈ یا پارٹیاں اور تحفے بھی نہیں چاہتا۔ دلوں کوسمجھا کررکھیں اور نیکی پر قائم رہیں اور اپنی طاقت سے بڑھ کر خرچ بھی نہ کریں۔اپنے ساتھی کوبھی ایسے ہی پیار کریں جس طرح آپ کا دل چاہتا ہے کہ آپ کو پیار ملے ۔ خدا تعالی سب نفرت کرنے والوں کو بھی پیار بھرے دل عطا فرمائے ۔

Love For All Hatred For None کا ہارگلے میں ڈال کریہ اعلان کرنا چاہئے کہ کیا اور پرخلوص پیار اور سکون خداسے پیار کرنے سے ضرور جاتا ہے۔ بے چارے ویلنٹائن بھائی نے اچھا سبق دیا جو اس دن یعنی 14 فروری کو منایا جاتا ہے۔

یہ دن کافی اہم بنتا جارہا ہے اس لئے میں نے سوچا کہ اس پر قدرے تفصیل سے روشنی ڈالنے کی کوشش کروں جودلچسپی سے خالی نہ ہو۔ یہ 270 عیسوی کی بات ہے اورابھی تک اس کی داستا نیں دہرائی جاتی ہیں گویا سبق ملا کہ نیکی کا کام بھی اگر جان جوکھوں میں ڈال کر کرنا پڑے توبھی دریغ نہ کرو۔پیار کا تعلق بڑھانے، اس کا اظہار کرنے اور اقرار کرنے کے انداز اور حد بھی تو ہوتی ہے مگر یہ دن منانے والے جو کبھی پیار کے بندھن میں انسانوں سے نہ بندھے ہوں یعنی کبھی شادی نہ کی ہو، والدین الله کو پیارے ہو گئے ہوں، بھائی بہنوں سے بھی دور کا تعلق ہوتو لے دے کے ان کے گھر میں اپنے پالتو جانوروں جن میں کتے،بلے ،کبوتر،چڑیاں اور مچھلیاں ہی ہوتی ہیں ان سے یہ لوگ بہت ہی پیار کرتے ہیں۔یہاں تک کہ کئی مرنے والے اپنی جائیداد بھی ان پالتو جانوروں کے نام لکھ جاتے ہیں اور اسی طرح ویلنٹائن ڈے پر بھی ان جانوروں کو سیر کےلئے لے کر جاتے ہیں۔ خاص کھانا کھلاتے ہیں، بہت پیار کرتے اور تصویر ان کے ساتھ یا ان کو گود میں لےکر کھنچواتے ہیں اور اس طرح سے ان لوگوں کے گھر جانوروں سے پیار کرتے ہوئے تصاویر سے بھرے نظر آتے ہیں اور ساری عمر کی تیار کردہ البم بھی ایسی ہی تصاویر سے اَٹی پڑی ہوتی ہیں۔

(زجاجۃ صفحہ 318۔ 326)


پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 12 فروری 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 14 فروری 2020