• 30 اپریل, 2024

تہران سے ڈھاکہ تک کارریلی

دسمبر1970ء میں تہران سے ڈھاکہ تک کارریلی کا انعقاد کیا گیا۔ملک اعجاز احمدنےاس ریلی میں شرکت کی اور دوسری پوزیشن حاصل کی۔ ان کے والدِ محترم میجر ملک حبیب اللہ خان امیر جماعت ہائے احمدیہ ضلع چکوال جن کو جنرل محمد ضیاء الحق صدرِ پاکستان نے1988ء میں اٹک آرٹلری ری یونین پر آرٹلری شیلڈ دی تھی۔ چونکہ اس ری۔ یونین کے موقع پرمیجر ملک حبیب اللہ خان وہ واحد سینئر آفیسر تھے، جنہوں نے پہلی جنگِ عظیم اور دوسری جنگِ عظیم میں شرکت کی تھی۔ اس لئے آپ کو گنر آف دی ری یونین کے خطاب سے بھی نوازا گیا۔ اس کے بعد وزیر اعظم پاکستان محمد نواز شریف نے بھی اٹک آرٹلری ری یونین میں آرٹلری سوئنیر دیا۔

ملک اعجاز احمد کے دادا کپتان غلام محمد ایک دلیر داعی الی اللہ کو بھی پہلی جنگِ عظیم میں توپ انعام ملی تھی۔ اسی توپ کو جہلم سے وصول کرکے دوالمیال لا کرتالاب کے کنارے قلبِ قریہ میں سجایا گیااور اس گاؤں کو ساری دنیا میں توپ والے گاؤں سے مشہور کروانے والے کپتان غلام محمد تھے۔

ملک اعجاز احمد آپ کے پوتے نے بھی دوالمیال کے گاؤں کوروشن کرنے کی ٹھانی ۔ ملک اعجاز احمد چٹی دند کالری اور الفتح ٹرانسپورٹ کمپنی کے پروپرائیٹر تھے۔

انہوں نےاس ریلی میں شرکت کی تیاری شروع کردی۔ جسمانی ورزشیں اور ڈرائیونگ کی تیاری ،غرض آپ نے اپنے آپ کواس ریلی کے لئے مصمم ارادے سے مکمل تیاری کرلی۔ آپ کے اس کارریلی میں معاون ڈرائیور غلام حسین تھا۔ یہ سب مکمل روداد غلام حسین ڈرائیور ولد فضل خان موضع شاہ پور ضلع چکوال نے سنائی جو آپ کے ہمراہ تھااور ابھی بقید حیات ہے۔

ملک اعجاز احمد کے پاس FIAT124 S اس کار کے ساتھ آپ نے تہران سے ڈھاکہ تک کارریلی میں شامل ہونا تھا۔

گھر والوں کی، گاؤں والی اور علاقہ کہون کے لوگوں کی دعائیں لیتے ہوئے دوالمیال سے آپ کی کار روانہ ہوئی۔ آپ اور آپ کا ڈرائیور پشاور پھر تورخم پہنچے۔ پھر افغانستان میں کابل میں آپ نے رات بسر کی۔ پھر کابل سے روانہ ہو کر تہران پہنچ گئے۔ دو دن تہران میں قیام کیا۔ کار کو چیک اپ (CHECK UP) کے لئے انجینئر کے حوالے کیااور خود ہوٹل میں قیام کیا۔ تیسرے دن کارریلی شروع ہونی تھی۔ اس کارریلی میں کل 64 گاڑیوں نے حصہ لیا۔ ملک اعجاز کی گاڑی کو 24 نمبر الاٹ ہوا۔

تہران سے جب کارریلی کا آغاز ہوا تو تمام گاڑیاں لائن میں کھڑی کردی گئیں اور نمبر وار ایک ایک منٹ کے بعدوہاں سے گاڑی کو نکالا جانا تھا۔ تہران کے بعد پہلا پڑاؤکابل میں دو دن اور ایک رات کے سفر کے بعد تھا۔ کابل میں جس نمبر پرگاڑی وہاں پہنچی اس کا نمبر نوٹ کرلیا جاتا تھا۔ اور ٹائم بھی۔ رات کابل میں ٹھہرے۔ دوسرے دن صبح پھرجس طرح گاڑیاں کابل میں داخل ہوئی تھیں۔ اسی ترتیب سے کھڑی کردی گئیں اور پھر اسی طرح ایک ایک منٹ کے وقفہ کے بعدان کو نکالا گیا۔ کابل سے بھی ملک اعجاز صاحب نے اپنا سفر شروع کردیا۔ اب تھوڑاسا وقفہ اسلام آباد اور اگلا پڑاؤ دہلی تھا۔

ملک اعجاز احمد بجنوٹ BOJNOOT کے مقام پر پہنچے توآپ کی گاڑی کا ٹائر پنکچر ہوگیا۔ اس وقت ملک اعجاز احمد ہی کار چلا رہے تھے۔ وہاں رکے آپ کے معاون ڈرائیور غلام حسین نے ڈگی کھول کرپانا (چابی) نکالی اور ویل کے نٹ کھولنے شروع کردیئے اور ملک اعجاز احمدنے ٹائر نکال لیا۔ اتنے میں اوپر ہیلی کاپٹر بھی پہنچ گیا جو اس کارریلی کی دیکھ بھال پر مقیم تھا۔ تین منٹ میں ٹائر بدل کرملک اعجاز صاحب نے گاڑی سٹارٹ کرلی۔ دوسرے دن کے اخبارات میں بھی یہ خبر چھپی کہ گاڑی کا ٹائر صرف تین منٹ میں کارریلی کے شرکاء نے بدل دیا کارریلی کے منعقد کرنے والوں کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ کیوں نہ ایسا ہوتا ان کے ساتھ اس کے بزرگوں اور علاقہ کے لوگوں کی دعائیں تھیں۔

اس کے بعد آگے کا سفر جاری ہو گیا،لنڈی کوتل کے قریب ایک سکھ کی کار کھڑی تھی۔ یہ کار بھی ریلی میں شامل تھی۔ جب ملک اعجاز احمد نے اس سکھ کی کار کو دیکھا توقریب جا کر بریک لگائی۔ آپ نے بریک لگا کران سے ٹھہرنے کی وجہ پوچھی۔ تو اُس سکھ نے بتایا کہ میرا پٹرول ختم ہوگیا ہے۔ تو ملک اعجاز احمد نے ڈرائیور کو کہا کہ انہیں ڈگی سے چار گیلن پٹرول کا کین نکال کر دے دو۔ اور یہ پرواہ کئے بغیر کہ ریلی جو اُن کے لئے بہت اہم تھی۔ خدمتِ خلق کو ترجیح دی۔ پھر اس کے بعد آگے چل پڑے۔ اگلا پڑاؤاسلام آباد پاکستان میں تھا۔ اسلام آباد پہنچ گئے ،لوگوں نے تمام ریلی والوں کوخوب جوش و خروش سے خوش آمدید کہا۔ اسلام آباد میں 3 گھنٹے رکنے کے بعد قافلہ آگے کو چلنا تھا۔ وہاں اسلام آباد میں وہ سکھ بھی پہنچ گیا اور بہت شکریہ ادا کرنے کے ساتھ وہ پٹرول واپس کرنے کے لئے ملک اعجاز صاحب کے پاس آیا،لیکن ملک صاحب نے اُسے کہا کہ میں نے آپ کو پٹرول واپس لینے کے لئے نہیں دیا تھا۔ بلکہ اس لئے دیا تھا۔ کہ میری غیرت گوارا نہیں کررہی تھی کہ اس ریلی میں شریک رکن پٹرول کی وجہ سے ریلی سے رہ نہ جائے۔

اسلام آباد میں تین گھنٹے کے بعدپھر گاڑیاں روانہ ہو گئیں۔ جی۔ ٹی روڈ سے گزر کرلوگوں کو والہانہ نعروں اور جوش و خروش میں لاہور پھرواہگہ بارڈر پر پہنچ گئے۔ جب واہگہ بارڈر پر پہنچے تووہاں وہ سکھ کھڑا تھا۔ اُس نے ہماری گاڑی کو روکا۔ ملک صاحب نے گاڑی کو بریک لگائی۔ تو اُس نے ایک کوپن والی کاپی ملک صاحب کو دی اور کہا کہ میں آپ کا شکریہ تو نہیں ادا کرسکتاکیونکہ آپ نے میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا ہے۔ اور میری مدد کی۔ لیکن اب میری گزارش ہے کہ آپ یہ کوپن والی کا پی لے لیں اور بھارت (INDIA)میں جس جگہ بھی پٹرول ڈلوائیں یہ کوپن انہیں دیتے جائیں اور کسی جگہ کوئی پیسہ نہ دیں۔ میں اُمید کرتا ہوں کہ آپ میری اس گزارش کوضرور منظور کریں گے۔ ملک اعجاز احمد نے اس کے خلوص کو دیکھتے ہوئے وہ کوپن والی کاپی لے لی اور رستے میں تمام بھارت میں انہی کوپنوں پر پٹرول ڈلواتے رہے۔ آگے پھرقافلہ رواں دواں اب اگلی منزل دہلی تھی۔ دہلی پہنچے وہاں بھی والہانہ استقبال تمام شرکاء کا کیا گیا۔ راستے میں ملک اعجاز احمد کی گاڑی کے شیشے ٹوٹ گئے تھے۔

کیونکہ راستے میں لوگ آگےآ آکرگاڑی پر ہاتھ مار مار کرپوچھتے تھے کہ کس ملک کی گاڑی ہے۔ یہ شیشے ٹوٹنے کا واقعہ کاہن پور کے مقام پر پیش آیا۔

واہگہ سے دہلی جاتے ہوئے ایک جاپانی ڈرائیور کی گاڑی آگےتھی۔ راستے میں ایک بہت ہی تنگ پل سے گزرتے ہوئے وہ گاڑی پل کے ساتھ ٹکرائی اور ڈرائیور سمیت دریا میں گر گئی اور ڈوب گئی کابل سے دہلی تک کا سفر دو دن اور ایک رات کا تھا۔

دہلی سے اگلی منزل کھٹمنڈو (نیپال) تھی۔ دہلی سے روانگی کے بعددودن ایک رات کاسفر تھا۔ اوربہت ہی مہم جوسفر تھا۔ اورآپ بخیرو خوبی کٹھمنڈو پہنچ گئے۔

کھٹمنڈو رکنے کے بعد آگے پھر گاڑی کی روانگی تھی۔اب تمام گاڑیوں نے خوب زور لگایا۔ وہاں آگے ہمارے ایک پاکستانی زاہد جاوید جو سیالکوٹ کا رہنے والا تھا۔ اور ڈھاکہ میں اس کے والدین اور رشتہ دار کاروبار کرتے تھے۔ اس کو ملک اعجاز احمد نے پاس کیااور دوسری گاڑیوں کو بھی اور آگے اب سمندر آگیاوہاں گاڑی کو روکا۔ آگے پہلے نمبر پرملک اعجاز احمداور دوسرے نمبر پر زاہد جاوید کی گاڑی تھی۔

وہاں گاڑی فیری میں ڈال دی گئی اور اس کو چلنے کے لئے کہا گیا توپتہ چلا کہ 6 گاڑیاں آجائیں گی تو پھر یہ جہاز چلے گا۔ 6 گاڑیاں آگئیں تو جہاز چل پڑا۔

عرشے پر جا کرتمام ڈرائیور بیٹھ گئے۔وہاں غلام حسین کو ملک اعجاز احمد نے بتایا کہ زاہد جاوید بھی پاکستانی ہیں اور ان کے والدین اور رشتے داروں کاڈھاکہ میں کاروبار ہے۔ باتوں باتوں میں زاہد جاوید نے ملک اعجاز احمد کی منتیں کرنی شروع کردیں کہ آپ مجھے پہلے آگے نکلنے دیں۔ غلام حسین نے تو ملک اعجاز احمد کوکہا کہ یہ ریس ہے دونوں زور لگائیں، دیکھیں کون جیتتا ہے۔ لیکن زاہد جاوید نے کہا کہ میرے توتمام رشتے دارڈھاکہ میں ہوں گے تو اس طرح میری عزت کی خاطرآپ بات مان لیں ۔ ملک اعجاز احمد کا دل پسیج گیااور انہوں نے اس سے وعدہ کرلیا کہ اگر تو پہلے نمبر پر رہا تومیں تمہارے پیچھے دوسرے نمبر پررہوں گالیکن اگر کسی اور ملک کی گاڑی تم سے آگے نکل گئی تو پھرمیرا یہ وعدہ نہیں کہ میں تمہارے پیچھے رہوں گا۔ کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ پاکستان کاہی ڈرائیور پہلی پوزیشن حاصل کرے۔ آپ اب خوب زور لگائیں تا کہ آپ پہلے نمبر پر ہوں۔ اور پاکستان کا نام روشن ہواور میرا وعدہ ہے کہ اگر تم پہلے نمبر پرہوئے تو میں تمہیں کراس کرکے یا زور لگا کرپہلے نمبر پر آنے کی کوشش نہیں کروں گا۔ اور تم سے آگے کوئی اور نکلا توپھر میں اُس کا مقابلہ ضرور کروں گاتا کہ پاکستان کا جھنڈا بلند رہے۔

جب ساحل پر اُ ترے ،پہلے چونکہ ہم آئے تھے۔ اس لئے آگے ہم نے گاڑی لگائی۔ اور پیچھے دوسرے نمبر پرزاہد جاوید نے۔ ملک اعجاز احمد صاحب نے وعدہ کے مطابق گاڑی ایک سائیڈپر کھڑی کرلی اور زاہد جاوید کو آگے جانے کااشارہ کردیا۔ وہ آگےچلے گئے اور کچھ وقت کے بعد ملک اعجاز احمد صاحب روانہ ہوئے۔

کچھ آگے پہنچے تھے کہ دیکھا کہ زاہد جاوید کی گاڑی خراب ہوگئی۔ ملک اعجاز احمد نے گاڑی کو اس کی گاڑی کے پیچھے کھڑا کردیا۔ غلام حسین ڈرائیور نے کہا کہ صاحب چلو لیکن آپ نے کہا کہ میں وعدہ نہیں توڑوں گا۔ اور زاہد جاوید کی گاڑی کو دیکھا اور اس کو ٹھیک کیا 2 منٹ کے بعد وہ چل پڑی۔ وہ آگے آگے اورہم پیچھے پیچھے۔ الغرض ڈھاکہ میں پہلی گاڑی زاہد جاوید کی اور دوسرے نمبر پرملک اعجاز احمد کی گاڑی داخل ہوئی اور لوگوں نے ہمیں کاندھوں پر اُٹھا لیا۔ اور پاکستان زندہ باد کے نعرے بلند ہونے لگے۔

زاہد جاوید ملک اعجاز احمد کومبارک باد دینے لگے۔ ایسے لوگ دنیا میں شازو نادر ہی پیدا ہوتے ہیں۔ جو اپنے وعدہ کا پاس ہر حالت میں کرتے ہیں۔ ان کو دنیاوی باتوں سے کوئی مطلب نہیں ہوتا۔ وہ تو اپنی روح کی تسکین کوسب سے اہم فریضہ گردانتے ہیں۔

غلام حسین نے بتایا کہ مجھے افسوس ہورہا تھا کہ ہم دوسرے نمبر پر آئے ہیں لیکن ملک اعجاز احمد نے بتایا بھائی کیا ہواپہلے نمبر پر پاکستان ہی آیا ہے نا۔ لیکن دیکھو زاہد جاویدکے کتنے رشتے دار خوش ہیں،میرے دل میں ٹھنڈک پڑ گئی ہےاور مجھے حقیقی خوشی نصیب ہوئی۔ کیونکہ آپ کہنےلگے کہ میرے پیر نے کہا تھا کہ ’’سچے ہو کر جھوٹے کی طرح تذلل اختیار کرو‘‘ اس لئے مجھے حقیقی خوشی نصیب ہوئی ہے۔ وہاں پر فوٹو گرافروں نے فوٹو بنائے۔ رات کو خبروں میں بھی بتایا گیا کہ پہلے نمبر پر بھی پاکستان کے زاہد جاوید اور دوسرے نمبر پر بھی پاکستان کے ملک اعجاز احمد ڈھاکہ پہنچے۔ملک اعجاز احمد کے بھائی ملک ممتاز احمد جو ڈیرہ دون اکیڈمی میں جنرل نصیراللہ بابرسابقہ وزیرِ داخلہ پاکستان کے ساتھ اکیڈمی میں رہے ہیں وہ بھی پہنچے ہوئے تھے۔ جن کی ایک حادثہ کے باعث ایک ہاتھ اور دوسرے ہاتھ کی دو اُنگلیاں کٹ گئی تھیں اور اکیڈمی میں سے بھی کورس مکمل کرنے میں کچھ ہی عرصہ رہ گیا تھا کہ واپس آنا پڑا وہ بھی وہاں ڈھاکہ پہنچے ہوئے تھے۔ وہاں انٹر کانٹینٹل میں رہے۔

وہاں پر تقسیمِ انعامات کی تقریب ہوئی۔ اور انعام حاصل کیا۔ لیکن ملک اعجاز احمد نے وہ انعام حاصل کرنے کے بعدوہ پاکستان دفاعی فنڈ میں دے دیا۔ یہ ہوتے ہیں عالی ظرف لوگ۔ یہ ہوتے ہیں ملک و قوم پرجان نچھاور کرنے والے کہ انعام جو ملاوہ دفاعی فنڈ میں دے دیا اور روحانی تسکین حاصل کی۔

اسی ہوٹل میں وہ سکھ جس کی گاڑی کو آپ نے پٹرول دیاتھا موجود تھا۔ اس کا ہوٹل کانٹیننٹل کا بل بھی تمام ملک عجاز احمد نے دیا۔ اور پھر فیصلہ ہوا کہ گاڑی بذریعہ بحری جہاز پاکستان بھیج دی جائے۔ اور خود ہم سب بذریعہ ہوائی جہاز واپس چلے جائیں۔

لیکن وہ سکھ وہاں آگیا اس نے ملک اعجاز احمد کوکہا کہ بالکل نہیں آپ لوگ میرے ساتھ ہندوستان (بھارت) جائیں گے اور وہاں کچھ دن رہنے کے بعدپھر آپ کو میں خود پاکستان کے بارڈر تک چھوڑ کے آؤں گا۔

وہ سکھ امرت سر کا تھا اور بیدی خاندان سے اُن کا تعلق تھا۔ چنانچہ ملک اعجاز احمد اُن کی بات مان گئے اور پھر ملک صاحب اُن کے ساتھ انڈیا گئے وہاں انہوں نے15دن ملک صاحب اور غلام حسین کوخوب انڈیا کے تمام شہروں کی سیر کروائی۔ اور خوب پارٹیاں کھلائیں۔

آخری پارٹی جوہدپور میں ہوئی۔ اس کے بعد وہ ہمیں واہگہ بارڈر پرالوداع کرنے کے لئے آئے اور وہاں سے ہم پاکستان میں داخل ہوگئے۔

غلام حسین ڈرائیور نے مزید بتایا کہ میں نے ملک اعجاز احمد کے پاس 1956ء سے 1971ء تک ڈرائیوری کی۔ ملک اعجاز احمد جیسا خوش طبع، غریبوں کا محسن و غمخوارمیں نے اور کوئی نہیں دیکھا۔

دوالمیال گاؤں میں ایک آدمی تیتر کا شکار کرتا تھا اور زندہ پکڑا کرتا تھا۔ تو اُس کو ملک اعجاز احمد صاحب نے کہاہوا تھا۔ کہ جتنے تیتروہ پکڑے کسی اور کو نہیں دیناوہ تمام مجھے دینے ہیں اور اس سے معاہدہ تھا کہ کسی اور کوبھی نہیں دینااور نہ اپنے پاس کوئی رکھنا ہے۔ وہ روزانہ اس سے تیتر لیتے اور اپنی گاڑی میں ایک پنجرے میں اوپر کپڑا چڑھا ہوا اس میں رکھتے پھرچوآسیدن شاہ کے پاس ایک چڑھائی ہے جسے پونگرے والی چڑھائی کہتے ہیں۔ وہاں جنگل میں جاکران تیتروں کو اُڑا دیتے۔

غلام حسین نے بتایا کہ ایک دن میں ان کے ساتھ ان کی کار میں تھا۔ وہاں کھڑا کیا اور پنجرہ اُٹھایا اور چلے گئے۔ پھر جب واپس آئے تو میں نے پوچھا کہ اس پنجرے میں کیا تھا؟تو انہوں نے بتایا کہ اس میں ایک بلی تھی جو بہت تنگ کرتی تھی اس کو ادھر چھوڑا ہے۔

غلام حسین نے بتایا کہ اس چیز کا علم مجھے اپنی سروس کے دوران نہیں ہوااور نہ ہی کسی اور کو پتہ تھا۔ ان کی وفات کے بعدتیتر پکڑنے والے شخص نے یہ سب ماجرہ سنایا۔

غلام حسین پہلے میجراحمد سرتاج (سابق ناظم انصاراللہ ضلع چکوال) کی آرمی یونٹ میں ڈرائیور تھا۔ اور میجر صاحب کی کار چلاتا تھا۔ بعد میں وہی اُسے چٹی دند کالری میں لائے تھے۔


(ریاض احمد ملک)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 فروری 2020

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ