• 29 اپریل, 2024

متقی کو آئنده زندگی یہیں دکھلائی جاتی ہے

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
’’سویہ ایک نعمت ہے کہ ولیوں کو خدا کے فرشتے نظر آتے ہیں آئندہ کی زندگی محض ایمانی ہے لیکن ایک متقی کو آئندہ کی زندگی یہیں دکھلائی جاتی ہے۔ انہیں اسی زندگی میں خدا ملتا ہے۔ نظر آتا ہے۔ ان سے باتیں کرتا ہے سو اگر ایسی صورت کسی کو نصیب نہیں تو اس کا مرنا اور یہاں سے چلے جانا نہایت خراب ہے۔ ایک ولی کا قول ہے کہ جس کو ایک خواب سچا عمر میں نصیب نہیں ہوا اس کا خاتمہ خطرناک ہے جیسے کہ قرآن مومن کے یہ نشان ٹھہراتا ہے۔ سنو! جس میں یہ نشان نہیں اس میں تقویٰ نہیں۔ سو ہم سب کی یہ دعا چاہیے کہ یہ شرط ہم میں پوری ہو۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہام، خواب، مکاشفات کا فیضان ہو کیونکہ یہ مومن کا خاصہ ہے۔سو یہ ہونا چاہیے۔

بہت سی اور بھی برکات ہیں جو متقی کوملتی ہیں مثلاً سورۂ فاتحہ میں جو قرآن کے شروع میں ہی ہے اللہ تعالیٰ مومن کو ہدایت کرتا ہے کہ وہ دعا مانگیں اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ ﴿۷﴾ (الفاتحہ:7 ,6) یعنی ہمیں وہ راہ سیدھی بتلا ان لوگوں کی جن پر تیرا انعام وفضل ہے۔ یہ اس لئے سکھلائی گئی کہ انسان عالی ہمت ہو کر اس سے خالق کا منشاء سمجھے اور وہ یہ ہے کہ یہ امت بہائم کی طرح زندگی بسر نہ کرے بلکہ اس کے تمام پردے کھل جاویں جیسے کہ شیعوں کا عقیدہ ہے کہ ولایت بارہ اماموں کے بعد ختم ہوگئی ۔ برخلاف اس کے اس دعا سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ خدا نے پہلے سے ارادہ کر رکھا ہے کہ جو متقی ہو اور خدا کی منشاء کے مطابق ہے تو وہ ان مراتب کو حاصل کر سکے جو انبیاء اور اصفیاء کو حاصل ہوتے ہیں ۔ اس سے یہ بھی پایا جاتا ہے کہ انسان کو بہت سے قویٰ ملے ہیں جنہوں نے نشوونما پانا ہے اور بہت ترقی کرنا ہے۔ ہاں ایک بکرا چونکہ انسان نہیں اس کے قویٰ ترقی نہیں کر سکتے ۔ عالی ہمت انسان جب رسولوں اور انبیاء کے حالات سنتا ہے تو چاہتا ہے کہ وہ انعامات جو اس پاک جماعت کو حاصل ہوئے اس پر نہ صرف ایمان ہی ہو بلکہ اسے بتدریج ان نعماء کاعلم الیقین، عین الیقین اوحق الیقین ہو جاوے۔‘‘

(ملفوظات جلداوّل نیوایڈیشن ص17)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 فروری 2020

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ