• 29 اپریل, 2024

نمازِجمعہ کی رخصت کے لئے میموریل مسلم لیگ کے نام حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کے مکتوب کا انکشاف

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:

’’اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو!جب جمعہ کے دن کے ایک حصہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم جانتے ہو۔‘‘

(سورۃ جمعہ:10)

جمعہ کا دن ایک عظمت رکھتا ہے اور جیسا کہ اس آیت کریمہ سے ظاہر ہے کہ جب جمعہ کی نماز کا وقت ہو تو مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ سب کام چھوڑ کر جمعہ کی نماز کے لئے مسجدمیں حاضر ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں جو مسلمان ملازمت کرتے تھے انہیں جمعہ کی نماز کے لئے رخصت حاصل کرنے میں بہت مسائل کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔

نماز جمعہ کی رخصت کے لئے حضرت مسیح موعودؑ کی کاوشیں

اس مسئلہ کے حل کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یکم جنوری 1896کو ایک اشتہار شائع فرمایا جس میں مسلمانوں سے اپیل کی گئی تھی کہ وہ بڑی تعداد میں وائسرائے ہندوستان کے نام ایک اپیل پر دستخط کریں جس میں لکھا گیا تھا کہ ہندوستان میں کئی صدیوں سے تعطیل کے لئے جمعہ کا دن مقرر تھا۔ اور اب بھی حیدر آباد کی ریاست میں جمعہ کے روز تعطیل ہوتی ہے۔ اس لئے کم از کم مسلمانوں کے لئے تعطیل کے لئے جمعہ کا دن مقرر کیا جائے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جمعہ کی نماز پر نہ جانے کے نقصانات کے بارے میں مسلمانوں کو مخاطب کر کے فرمایا:

’’بھائیو ۔آپ خوب جانتے ہو جمعہ اسلام میں صرف ایک عید کا دن ہی نہیں بلکہ وہ تجدید احکام ِ دین کا بھی ایک خاص روز ہے جس میں مسلمانوں کے کانوں میں اسلام کے پاک وصایا تازہ طور پر پڑتی ہیں اور بھولے ہوئے مسائل نئے سرے سے یاد دلائے جاتے ہیں۔ اس دن ہر ایک مسلمان پر فرض ہے کہ وہ مسجد میں حاضر ہو اور دینی وصایا کو سنے۔ اور اپنے ایمان کو تازہ کرے اور اپنے ایمان کو بڑھاوے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ اس نحوست سے ملازم پیشہ لوگوں کو جمعہ کے لئے فرصت نہیں ملتی بہت سی مسجدیں ویران نظر آتی ہیں۔‘‘

(مجموعہ اشتہارات جلد اول ص549)

اور گورنر جنرل کے نام لکھی گئی درخواست میں، جسے بہت سے مسلمانوں کے دستخطوں کی طرف سے بھجوایا جانا تھا، یہ لکھا گیا:
’’لہٰذا مذہبی حیثیث سے جمعہ کو ترک کرنے میں ہر مسلمان دیندار اپنے تئیں ایک گناہ ِ عظیم کا مرتب خیال کرتا ہے اور ہر ایک بڑے جوش سے اس بات کا خواہاں ہے کہ سرکار انگریزی ضرور یہ تعطیل برٹش انڈیا میں منظور فرماوے۔‘‘

(مجموعہ اشتہارات جلد اول ص 551)

حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی تحریک

اُس وقت مولوی محمد حسین بٹالوی کی بےجا مداخلت کی وجہ سے یہ تحریک رُک گئی۔لیکن خلافت اولیٰ میں اسے تحریک کو از سر نو چلایا گیا۔اور اس کا موقع یوں پیدا ہوا کہ 1911 میں برطانوی جارج پنجم کی دہلی میں تاجپوشی ہو رہی تھی۔ اس موقع پر مختلف گروہ اور مختلف تنظیمیں مراعات کے حصول کے لئے میموریل پیش کر رہے تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح االاولؓ نے اس موقع پر یہ تحریک فرمائی کہ اس موقع پر مسلمان یہ میموریل پیش کریں کہ انہیں جمعہ کے وقت دو گھنٹے کی رخصت دی جائے تا کہ وہ جمعہ میں سہولت سے شریک ہو سکیں۔ اور یہ تجویز مسلمانوں کی مختلف انجمنوں اور تنظیموں کو بھی بھجوائی گئی۔ اور حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ نے یہ اعلان بھی فرمایا کہ اگر کوئی تنظیم اس لئے اس میموریل کا ساتھ دینے میں تامل کرے کہ یہ ہماری طرف سے ہے تو ہم اپنی طرف سے میموریل نہیں بھیجیں گے۔ بہر حال یہ میموریل مختلف تنظیموں کی طرف بھجوایا گیا۔یہ تجویز اپریل 1912 میں ندوۃ العلماء کے اجلاس میں پیش ہوئی اور اس کی تائید کرنے والوں میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمدؓ بھی تھے۔ مسلمانوں کے مختلف اخبارات نے اس تجویز کی بھرپور تائید کی۔

(البدر 30 جولائی 1911، الحکم 7 تا 14 جولائی 1911، تاریخ احمدیت جلد3 ص379 تا 381)

مسلم لیگ کے ریکارڈ میں حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کا خط

بہر حال اب آل انڈیا مسلم لیگ کا پرانا ریکارڈ استفادہ عام کے لئے مہیا ہو گیا ہے۔ اور 1911کی فائلیں دیکھی گئیں تو حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کا تجویز فرمودہ میمورنڈم اور مسلم لیگ کے نام آپؓ کا خط اور اس خط پر ہونے والی کارروائی اس ریکارڈ میں موجود ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کی طرف سے یہ ٹائپ شدہ خط سیکریٹری آل انڈیا مسلم لیگ کے نام 16 جولائی 1911کو لکھا گیا تھا۔

اس میں لکھا گیا تھا:

ترجمہ: میں آپ کو ایک میموریل کی کاپی بھجوا رہا ہوں۔ میری خواہش ہے کہ یہ میموریل وائسرائے کو پیش کیا جائے۔ اس میں جس امر کی درخواست کی جا رہی ہے، اس کا تعلق تمام مسلمانوں سے ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ آپ اس معاملے کو اپنی لیگ میں پیش کریں گے اور حکومت کو بھجوا ئیں گے۔ اور اس مطالبے کو لیگ کی قراردادوں میں پیش کریں گے۔ میرے مد ِ نظر صرف اس مقصد کو حاصل کرنا ہے جس کا ذکر اس میموریل میں کیا گیا ہے۔ چنانچہ اگر کسی کو اس بات پر کوئی اعتراض ہے کہ یہ میموریل میری طرف سے کیوں پیش کیا جا رہا ہے تو میں خوشی سے اس معاملے کو دوسروں کے حوالے کردوں گا۔

اس فائل میں مکرم خواجہ کمال الدین کا انگریزی میں ٹائپ شدہ خط موجود ہے۔ یہ خط 17 جولائی 1911 کو لکھا ہوا ہے۔ اور اس خواجہ صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ گورنمنٹ کے نام حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کا تجویز فرمودہ ایک میمورنڈم مسلم لیگ کی طرف بھجوایا جا رہا ہے ۔ اور یہ میمورنڈم مسلمانوں کی دوسری انجمنوں اور تنظیموں کی طرف بھی بھجوایا جا رہا ہے۔ میمورنڈم میں گورنمنٹ سے یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ جمعہ کے روز مسلمان ملازمین کو نماز ِ جمعہ کی ادائیگی کے لئے دو گھنٹے کے لئے رخصت دی جائے۔ اس خط میں لکھا ہوا تھا کہ گویا ابھی اس موضوع پر باقاعدہ اجلاس نہیں ہوا مگر پنجاب مسلم لیگ کے نمایاں ممبران نے اس میمورنڈم پر سیر حاصل گفتگو کی ہے اور ان کی رائے ہے کہ یہ میمورنڈم تمام مسلمانوں کی طرف سے مسلم لیگ کی طرف سے حکومت کو جانا چاہیے۔ اور حضرت خلیفۃ المسیح نے اس سے اتفاق فرمایا ہے۔ آخر میں خواجہ صاحب نے تحریر فرمایا کہ اس مطالبے کے لئے آپ کی حمایت درکار ہے۔ اور آپ شہر کے نمایاں مسلمانوں کو جمع کر کے اس بارے میں مشورہ کر لیں۔ اس خط کی پشت پر آل انڈیا مسلم لیگ کے سیکریٹری عزیز مرزا صاحب کا ہاتھ کا لکھا ہوا یہ نوٹ موجود ہے:

Reply that his proposal will be laid before next meeting of the council.

ترجمہ : انہیں جواب دیا جائے کہ ان کی تجویز کو کونسل کے اگلے اجلاس میں پیش کیا جائے گا۔

حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کا تجویز فرمودہ میموریل

حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی طرف سے تجویز فرمودہ میموریل بھی اس فائل میں موجود ہے۔ یہ میموریل انگریزی میں چھپے ہوئے چار صفحات پر مشتمل ہے۔اس کے اوپر جلّی حروف میں لکھا ہوا ہے کہ یہ میموریل چارلس ہارڈنگ وائسرائے و گورنر جنرل ہندوستان کے نام ہے۔ اس کے شروع میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ گو یہ میموریل جماعت ِ احمدیہ کے سربراہ کی طرف سے ہے لیکن یہ ایک ایسے معاملے سے تعلق رکھتا ہے جس کا تعلق تمام مسلمانوں سے ہے۔ پھر اس بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ شروع ہی سے برطانوی حکومت کی یہ پالیسی رہی ہے کہ اپنے ماتحت علاقوں میں مذہبی آزادی دی جائے اور مذہبی معاملات میں کسی قسم کی مداخلت نہ کی جائے۔ لیکن سرکاری ملازمتوں میں اور کالجوں اور سکولوں میں مسلمانوں کو ایک اہم مذہبی عبادت سے روکا جا رہا ہے۔ اور وہ عبادت جمعہ کی عبادت ہے۔ چنانچہ بادشاہ کو ان کی تاجپوشی کے موقع پر اس بارے میں درخواست پیش کی جائے تا کہ اس اہم مذہبی فریضہ کی ادائیگی کی راہ میں روک ختم کردی جائے۔ پھر قرآن ِ کریم کی آیت کی روشنی میں نماز ِ جمعہ کی اہمیت واضح کی گئی ہے اور اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ مسلمان سرکاری ملازمین کو اس اہم مذہبی فریضہ کی اجازت ملے اور تقریباََ ہمیشہ ہی مسلمان طلباء کو یہ مذہبی فریضہ چھوڑنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ جمعہ اسی لئے جاری فرمایا تھا تاکہ مسلمانوں کی اخلاقی تعمیر کی جائے۔ کالجوں اور سکولوں میں اخلاقی تعلیم کم دی جاتی ہے۔ خطبہ جمعہ سننے سے یہ کمی دور ہو گی۔ پھر مصر کی مثال پیش کی گئی جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں اور جمعہ کے روز تعطیل ہوتی ہے۔ لیکن عیسائی برطانوی افسران نے اس بات پر اعتراض کیا کہ وہ اتوار کے روز کام کریں تو انہیں اس شرط پر اتوار کے روز چھٹی کرنے کی اجازت دی گئی کہ وہ باقی روز زائد کام کریں گے۔ جبکہ مسلمانوں کا مطالبہ صرف یہ ہے کہ جمعہ کے روز ساڑھے بارہ سے ڈھائی بجے تک کی رخصت دی جائے۔ اگر حکومت یہ محسوس کرے کہ اس طرح دفتر کا کام متاثر ہوگا تو وہ مسلمانوں کو جمعہ کے روز دو گھنٹے زائد کام کرنے کا پابند کیا جا سکتا ہے۔

خلیفۃ المسیح الاولؓ کی تجویز مسلم لیگ کی شاخوں کی طرف بھجوائی گئی:

مختلف اہم امور پر فیصلے کرنے کے لئے آل انڈیا مسلم لیگ کی مرکزی کونسل کا اجلاس ہوتا تھا۔ اس میموریل کی تجویز ملنے کے بعد مسلم لیگ کی کونسل کا اجلاس 18 اگست 1911 کو ہونا تھا۔ اس میٹنگ کا ایجنڈا اس فائل میں موجود ہے۔ ایجنڈے کے چار نکات ہیں۔ ان میں سے تیسرا نکتہ یہ ہے

ترجمہ : مولوی حکیم نورالدین آف قادیان کی تجویز کہ گورنمنٹ کے تمام مسلمان ملازمین کو جمعہ کی نماز کے لئے دو گھنٹے کی رخصت دینی چاہیے۔

پنجاب مسلم لیگ کے لیڈر محمد شفیع کا ایک خط موجود ہے جس میں لکھا ہوا ہے کہ وہ اس تجویز سے پوری طرح متفق ہیں اور یہ میموریل آل انڈیا مسلم لیگ کی طرف سے جانا چاہیے۔ اور ان کا ایک سرکلر بھی موجود ہے جس میں پنجاب کے اضلاع میں مسلم لیگ کی شاخون کے نام لکھا ہوا ہے کہ وہ اس تجویز کی تائید میں قرارداد منظور کر کے بھجوائیں تاکہ آل انڈیا مسلم لیگ اس میموریل کو پیش کرے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلم لیگ کا یہی ارادہ تھا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی بیان فرمادہ تجویز مسلم لیگ کی طرف سے حکومت کو پیش کی جائے۔ ایک خط میں یہ سوال بھی اُٹھایا گیا ہے کہ یہ میموریل تخت نشینی کے وقت پیش کیا جائے یا علیحدہ پیش کیا جائے۔ایک رپورٹ کوہاٹ سے ہے کہ 6 اگست کو کوہاٹ کے مسلمانوں کا ایک جلسہ ہوا جس میں آل انڈیا مسلم لیگ کی اس تجویز کی بھرپور تائید کی گئی کہ مسلمان ملازمین کو نماز جمعہ کے لئے دو گھنٹے کے لئے رخصت دی جائے۔ اسی طرح پنجاب مسلم لیگ کی رپورٹ ہے پنجاب مسلم لیگ کی مجلس انتظامیہ میں یہ معاملہ پیش کیا گیا ہے اور اسے اس تجویز سے اتفاق ہے۔ پھر مسلم لیگ کیمبلپور کی رپورٹ ہے کہ ان کا اجلاس ہوا اور انہیں مولوی نورالدین قادیان کی تجویز سے اتفاق ہے۔ اسی طرح مسلم لیگ فیروز پور کی رپورٹ ہے کہ فیروز پور کے مسلمانوں نے ایک جلسہ کیا اور اس میں قرارداد پیش کی کہ جو میموریل مولوی نورالدین صاحب نے شہنشاہ جارج پنجم کی طرف بھجوانے کے لئے لکھا ہے، وہ درست ہے اور ہمیں اس سے اتفاق ہے۔ مسلم لیگ کی کلکتہ، لکھنئو اور راولپنڈی کی شاخوں کی رپورٹیں اور بعض لوگوں کے تائیدی خطوط بھی محفوظ ہیں۔ ان قراردادوں کے موصول ہونے کے بعد پنجاب اور یو پی مسلم لیگ کا اجلاس ہوا جس میں خلیفہ اول کی تجویز پیش ہوئی۔ اس کاغذ کے اوپر تاریخ نہیں موجود۔ سب سے اوپر لکھا ہوا ہے

The proposal of Maulvi Hakim Nooruddin of Kadian for leave on Friday

اس کے نیچے لکھا ہوا ہے کہ سب ممبران نے اس تجویز سے اتفاق کیا۔ان ممبران میں میاں محمد شفیع صاحب اور میاں فضل ِ حسین صاحب کے نام بھی شامل ہیں۔

آل انڈیا مسلم لیگ کی کونسل کے اجلاس میں حضرت خلیفہ اولؓ کی تجویز پیش کی گئی:

جب آل انڈیا مسلم لیگ کی کونسل کے اجلاس میں خلیفۃ المسیح الاولؓ کی تجویز پیش ہوئی تو اس اجلاس کے ایجنڈے میں اس کا نمبر 3 تھا۔

اس کے بارے میں رپورٹ میں لکھا ہے۔

ترجمہ: اس کے بعد مولوی حکیم نورالدین صاحب آف قادیان کی تجویز کہ حکومت کے مسلمان ملازمین کو جمعہ کی نماز کے لئے دو گھنٹے کی رخصت دی جائے بحث کے لئے پیش کی گئی۔ نواب وقار الملک نے کہا کہ اگر کوئی میموریل پیش کیا جانا ہے تو اس میں یہ درخواست کرنی چاہیے کہ نماز ِ ظہر کے لئے آدھے گھنٹے کی رخصت ملے۔۔۔۔۔(آگے کچھ لفظ مٹے ہوئے ہیں)۔ یہ قرارداد پیش ہوئی اور متفقہ طور پر منظور کر لی گئی۔

بہر حال آل انڈیا مسلم لیگ نے اس سلسلہ میں قرارداد یں منظور کیں اور کوشش بھی کی تو بنگال اور کئی دوسرے صوبوں میں مسلمانوں کے لئے نماز ِ جمعہ کی غرض سے رخصت ملنے لگی۔ جماعتی لٹریچر میں تو اس میموریل کا ذکر موجود تھا لیکن مسلم لیگ کے ریکارڈ سے کئی نئی تفصیلات معلوم ہوئی ہیں۔ اب تک کے جائزے کے مطابق یہ پہلی مرتبہ تھا کہ مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر مسلمانوں کی مذہبی آزادی کے حوالے سے آواز اُٹھائی گئی ہو۔

(مرزا سلطان احمد)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 فروری 2020

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ