• 28 اپریل, 2024

رسول اللہ ﷺ کے صحابہؓ کے اخلاق

حضرت بلالؓ کو بھی مدینہ ہجرت کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ آپؓ ابتدائی ہجرت کرنے والوں میں حضر ت عمارؓ اور حضرت سعدؓ کے ساتھ مدینہ پہنچے۔ ابتدائی زمانے میں مدینہ کی آبوہوا انہیں راس نہیں آئی اور مکہ کی یادبھی بہت ستاتی تھی۔ اس زمانہ کے متعلق حضرت عائشہؓ بیان فرماتی ہیں کہ میں اپنے والد حضرت z اور حضرت بلالؓ کی بیماری کا سن کررسول اللہ ﷺ کی اجازت سے ان کی خبرگیری کے لئے گئی۔ دیکھا کہ وہ بیمار ہونے کی حالت میں پڑے ہیں۔ بلالؓ سے ان کا حال پوچھا تو انہوں نے یہ اشعارپڑھے۔

اَلَا لَیْتَ شعْرِیْ ھَلْ اَبِیْتَنَّ لَیْلَۃً

بِوَادٍ وَ حَوْلِیْ اِذْخِرٌ وَ جَلِیْلٗ

وَ ھَلْ اَرِدَنْ یَوْمًا مِّیَاہَ مَجِنَّۃٍ

وَھَلْ یَبْدُوَنْ لِیْ شَامَۃٌ وَطَفِیْلٗ

اے کاش! کیا کبھی وہ دن بھی آئے گا جب میں پھر اس وادی(اپنے پیارے وطن مکہ) میں کوئی رات گزارسکوں گااور میرے آس پاس اذخراورجلیل گھاس ہوگی اور کیا کبھی وہ دن بھی آئے گا جب میں مجنّہ کے چشموں پر وارد ہوں گا اورشامہ اور طفیل کے علاقے پھر میرے سامنے ہوں گے۔
آنحضرتﷺکو جب بلالؓ کی یہ حالت حضرت عائشہ ؓ نے جاکر بتائی تو رسول اللہﷺکی طبیعت میں دعا کی طرف توجہ ہوئی۔آپؐ نے آسمان کی طرف دیکھ کردُعا کی کہ ’’اے اللہ! مدینہ کو ہماری نگاہوں میں اسی طرح محبوب بنا دے جیسے مکہ کو بنایا تھا۔بلکہ اس سے بھی زیادہ۔اے اللہ!مدینہ کے صاع اور مد میں برکتیں عطا فرما اور اس کی بیماری اور وباء کو جحفہ کی طرف منتقل فرما۔

(بخاری کتاب المرضیٰ باب من دعا برفع الوباء۔مسند احمد جلد 6 ص 221 قاہرہ)

مدینہ میں حضرت بلالؓ کی بڑی سعادت اسلام کا پہلا مؤذن ہونے کی خدمت ہے۔

(اسدالغابہ جلد 1 ص 130)

اس سے قبل مسلمان نماز کے لئے وقت کا اندازہ کیا کرتے تھے۔ مدینہ میں جب زیادہ لوگ جمع ہوگئے تو تجویزیں ہونے لگیں کہ نماز کے وقت میں ناقوس بجایا جائے یا قرنا(سینگ) پھونکا جائے۔

(ترمذی کتاب الصلاۃ باب بدء الاذان)

یہ مشورے ہورہے تھے کہ حضرت عبداللہ ؓبن زید نے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضرہوکر عرض کیا کہ میں نے رؤیا میں دیکھا ہے کہ ایک شخص اذان کے کلمات مجھے سناتا ہے۔ابن ہشام اس حوالے سے ایک روایت درج کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے وہ رؤیا سن کر حضرت بلالؓ کو یادکیا۔ اورعبداللہؓ سے فرمایا کہ بلال کے ساتھ کھڑے ہوکر یہ کلمات بتاتے جائیں کیونکہ بلال کی آواز بہت اونچی ہے اور لمبی سانس کے ساتھ یہ آواز کو لمبا بھی کرلیتے ہیں۔

(ابن ہشام جلد 1 ص 508۔اسد الغابہ جلد 1 ص 612)

یوں بلالؓ اسلام کے پہلے مؤذن ٹھہرے اور اپنی بلند،خوبصورت آواز کی وجہ سے آنحضرت ﷺ کی زندگی میں اذان کی یہ سعادت سفروحضر میں انہیں کو نصیب ہوتی رہی۔

رسول اللہ ﷺ کے اس قرب اور صحبت کے نتیجہ میں بلالؓ نے اعلیٰ تربیت کے بہت مواقع پائے۔ رسول اللہؐ انہیں سمجھاتے تھے کہ بلال! جب اذان کہو تو ذرا آواز کو لمبا کرکے کلمات دہرا کر کہا کرو تاکہ دُور تک آواز پہنچے اور اقامت ذرا تیزی سے کہا کرو۔ اذان کے کلمے دو دو دفعہ دہراؤ اور اقامت کے کلمات ایک دفعہ دہرایا کرو۔

(بخاری کتاب الاذان باب اقامۃ الصلاۃ،باب بدء الاذان۔مسلم کتاب الصلاۃ باب صفۃ الاذان)

حضرت بلالؓ اوقات نماز کے بھی منتظم تھے۔ آنحضرت ﷺ کو نمازوں کے اوقات میں اطلاع کرتے اور نمازوں کے لئے بلاتے تھے۔ ایک موقع پروہ فجر کی اذان کے بعد جب آنحضرت ﷺ کو بلانے کے لئے گئے تو رسول اللہ ﷺ نوافل ادا کرنے کے بعد آرام فرمارہے تھے بلالؓ نے آواز دی ’’اَلصَّلٰوۃُ خَیْرٌمِّنَ النَّوْمِ‘‘ نماز نیندسے بہترہے۔ آنحضرت ﷺ کو اپنے اس غلام کے یہ کلمے اتنے پسند آئے کہ آپؐ نے فجر کی اذان میں ان کو شامل کرنے کا ارشاد فرمایا۔

(ابن ماجہ کتاب الاذان باب بدء الاذان۔ مسند احمد جلد4ص42مطبوعہ قاہرہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 فروری 2020

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ