• 27 اپریل, 2024

لجنہ اماءاللہ۔خواتین کی تعلیم و تربیت کیلئے تنظیم

اسلام دنیا کا وہ واحد مذہب ہے جس نے عورت کو ایک اعلیٰو ارفع مقام عطا کیا۔ آنحضرت ﷺ عورتوں کے لئے رحمت بن کر دنیا میں آئے اور آپ ﷺ نے عورت کو عرش کی بلندیوں تک پہنچا دیااور یہ اعلان فرمایاکہ:۔ اَلجَنَّۃُ تَحْتَ اَقدَامِ الْاُمَّھَاتِ کہ اگر جنت ڈھونڈنا چاہتے ہو توماں کے قدموں تلے تلاش کرو۔ پھر Ladies First کا نعرہ اور عورتون کو آبگینوں کے خطاب سے نوازا۔ جہاں آپ ﷺ نے بلند مقام عطا فرمایا وہاں عورت کواولاد کی تربیت کا ذمہدار بھی ٹھہرایا۔

آج ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمیں امام الزماں حضرت مسیح موعودؑ کو قبول کرنے کی توفیق ملی ہوئی ہے اور ہم ایک امام کے پیچھے چل کر اس کی راہنمائی میں دینی تعلیمات کے مطابق اپنی زندگیاں گذارنے کی کوشش کرتی ہیں۔ حضرت مسیح موعودؑ نے عورتوں کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف متعددبار توجہ دلائی اور اپنی تقاریراور تحریرات میں قیمتی نصائح سے نوازا۔

حضرت مصلح موعودؓ نے جماعت کے تنظیمی ڈھانچے کو قائم کرکے ہم سب پر احسانات کئے اور آپ کے احسان کایہ دائرہ صرف مردوں کے لئے نہیں تھا بلکہ آپ نے اپنے دور خلافت کےابتدائی سالوں میں ہی خواتین کی تعلیم وتربیت کے لئے ایک تنظیم قائم کرنے کا ارادہ فرما لیا تھا تا کہ خواتین اپنی تنظیم کے لائحہ عمل کی پیروی کرتے ہوئے اعلیٰ کردار کی حامل ہوں اور دینی و دنیاوی تعلیمات سے آراستہ ہو کر اپنی اولاد کی بہتر رنگ میں پرورش کر سکیں تا احمدیت کا مستقبل روشن اور تابناک ہو۔ جو ہماری پیدائش میں اس نے مد نظر رکھے ہیں اور ان مقاصد کے پورا کرنے کے لئے بہتر سے بہتر ذرائع پر اطلاع اور پھر ان ذرائع کے احسن سے احسن طور پر پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارا خاتمہ بالخیر کرے۔ آئندہ آنے والی نسلوں کی بھی اپنے فضل سے راہنمائی کرے اور اس کام کو اپنی مرضی کے مطابق ہمیشہ کے لئے جاری رکھے۔ یہاں تک کہ اس دنیا کی عمر تمام ہو جائے۔

حضرت مصلح موعودؓ کی ہدایت کے مطابق 25 دسمبر 1922ء کو اس تحریر پر دستخط کرنے والی خواتین حضرت اماں جان ؓ کے گھر جمع ہوئیں۔

حضرت مصلح موعودؓنے خطاب فرمایا اور اس کے ساتھ ہی لجنہ اماءاللہ کی تنظیم کا قیام عمل میں آیا اور خوا تین مبارکہ کی مقدس قیادت میں یہ قافلہ اپنی منزل کی طرف بڑی تیزی سے سفر پر روانی ہوا اور ایک منظم تنظیم کی شکل اختیار کر گیا۔ حضورؓ کی ہدایات کی روشنی میں احمدی خواتین نے اپنے اندر روحانی تبدیلی پیدا کرنے اور دینی تعلیم و تربیت میں پرورش پانے کے لئے مساعی شروع کی اور مختلف دینی مہمات میں صفِ اوّل کی مجاہدات ہونے کا اعزا حاصل کیا۔اس کا اظہار اپنوں نے ہی نہیں بلکہ غیروں نے بھی کیا کہ احمدی عورتوں کی تنظیم اصلاحِ معاشرہ میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ 2 مثالیں تنظیم کے قیام کے ابتدائی ایّام کی پیش کی جا رہی ہیں۔

اب تو خداتعالیٰ کے فضل سے جماعت کی تعداد اور وقار پہلے سے بڑھ چکے ہیں۔ جب ابھی ابتدائی دور تھا اور جماعت ہر لحاظ سے نسبتاً بہت کمزور اور غیر معروف تھی۔ اس وقت بھی جماعتی تنظیموں کا با نظر غور جائزہ لینے والوں نے اس تنظیم میں عظمت کے ایسے آثار دیکھے تھے جن کا نوٹس لئے بغیر وہ نہ رہ سکے۔ تحریکِ سیرت کے مشہور لیڈر مولانا عبدالمجید قریشی نے اپنے اخبار ’’تنظیم‘‘ امرتسر میں لکھا:۔

’’لجنہ اماءاللہ قادیان احمدیہ خواتین کی انجمن کا نام ہے ۔اس انجمن کے ماتحت ہر جگہ عورتوں کی اصلاحی مجالس قائم کی گئی ہیں۔ اور اس طرح پر ہر وہ تحریک جو مردوں کی طرف سے اٹھتی ہے خواتین کی مدد سے کامیاب بنائی جاتی ہے۔ اس انجمن نے تمام خواتین کو سلسلہ کےمقاصد کے ساتھ عملی طور پر وابستہ کر دیا ہے۔ عورتوں کا ایمان مردوں کی نسبت زیادہ مخلص اور مربوط ہوتا ہے۔ عورتیں مذہبی جوش کو مردوں کی نسبت زیادہ محفوظ رکھ سکتی ہیں۔ لجنہ اماء اللہ کی جس قدر کارگزاریاں اخبار میں چھپ رہی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ احمدیوں کی آئندہ نسلیں موجودہ کی نسبت ذیادہ مظبوط اور پُر جوش ہوں گی اور احمدی خواتین اس چمن کو تازہ دم رکھیں گی۔‘‘

اسی طرح لجنہ کے ماہنامہ ’’مصباح‘‘ کو پڑھ کر ایک آریہ سماجی اخبار ’’تیج‘‘ کے ایڈیٹر نے یہ لکھا:۔

’’میرے خیال مین یہ اخبار اس قابل ہےکہ ایک آریہ سماجی کو دیکھئے۔ اس کے مطالعہ سے انہیں احمدی عورتوں کے متعلق جو یہ غلط فہمی ہے کہ وہ پردہ کے اندر بند رہتی ہیں اس لئے کچھ کام نہیں کرتیں فی الفور دور ہو جائے گی اور انہیں معلوم ہو جائے گا کہ یہ عورتیں باوجود اسلام کے (نعوذباللہ۔ناقل) ظالمانہ حکم کے طفیل پردہ کی قید میں رہنے کے کس قدر کام کر رہی ہیں۔ اور ان میں مذہبی اخلاص اور تبلیغی جوش کس قدر ہے۔ ہم استری سماج قائم کر کے مطمئن ہو چکے ہیں۔ لیکن ہم کو معلوم ہونا چاہئے کہ احمدی عورتوں کی ہر جگہ باقاعدہ انجمنیں ہیں اور جو وہ کام کر رہی ہیں اس کے آگے ہمارہ استری سماجوں کا کام بالکل بے حقیقیت ہے۔ مصباح کو دیکھنے سے معلوم ہوگا کہ احمدی خواتین ہندوستان، افریقہ، عرب، مصر، یورپ اور امریکہ میں کس طرح اور کس قدر کام کر رہی ہیں۔ ان کا مذہبی احساس اس قدر قابلِ تعریف ہے کہ ہم کو شرم آنی چاہئے۔ چندسال ہوئے ان کے امیر نے ایک مسجد کے لئے 50،000 روپے کی اپیل کی اور یہ قید لگا دی کہ یہ رقم صرف عورتوں کے چندہ سے پوری کی جائے۔ چنانچہ پندرہ روز کی قلیل مدت میں ان عورتوں نے 50،000 کی بجائے ایک لاکھ روپیہ جمع کر دیا۔‘‘

اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں لجنہ اماءاللہ کے ایک عظیم محسن اپنے روحانی باپ سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کا ذکر کرنا چاہوں گی۔

آپ نے ذیلی تنظیموں کے سلسلہ میں عظیم الشان خدمات سر انجام دیں۔ آپ نے ذیلی تنظیموں کو 1989ء میں وسعت دی اور ہر ملک میں اس کا قیام عمل لایا گیا جو براہ راست خلیفۃ المسیح کو جواب دہ ہوں گے۔ آپ نے اسلام میں عورت کے مقام کو اپنی تقاریر کا موضوع بنایا۔ آپ نے تربیت اولاد کی عظیم ذمہ داری کی طرف احمدی ماؤں کو توجہ دلائی۔ دعوت الی اللہ کی عالمگیر تحریک میں عورتوں کو جھونک دینے کی تلقین فرمائی۔

آج ہم آپ کے احسانات کا بدلہ اسی صورت میں اتار سکتے ہیں کہ ہم خواتین اپنی تنظیم کے اغراض و مقاصد کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے اپنے گھروں میں قیام نماز کے لئے فعّال مساعی کریں، اپنے بچوں کی حقیقی اسلامی رنگ میں تربیت کریں اور اپنے گھروں کے ماحول کو جنت نظیر بنا دیں اور دعوۃ الی اللہ کے فریضہ میں لگ کر دنیا کو اس روشنی سے منور اور خوشبو سے معطر کر دیں۔ تبھی ہم اپنی تنظیم کی اغراض اور مقاصد کو پورا کرنے والی بن سکیں گی۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اس کے تو فیق عطا فرمائے۔

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 19 فروری 2020

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ