• 30 اپریل, 2024

نَحْنُ اَنْصَارُاللّٰهِ کا دعویٰ عمل سے ثابت ہو

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’عہدیداروں کو، ہر سطح کے عہدیداروں کو، ایک حلقے کے عہدیدار سے لے کے، ریجن کے عہدیداروں سے لے کے مرکزی عہدیداروں تک اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ کیا جو انصار اللہ کا نام ہے ہم حقیقت میں اس نام کا پاس رکھ رہے ہیں؟ حقیقت میں اس کے مطابق اپنی زندگیاں گزار رہے ہیں؟ پس ہر ناصر خود اپنے یہ جائزے لے سکتا ہے۔ اب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے کچھ اقتباسات پیش کرتا ہوں جو مزید ہمیں اس طرف توجہ دلاتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ

’’میں کھول کر کہتا ہوں کہ جب تک ہر بات پر اللہ تعالیٰ مقدم نہ ہو جاوے اور دل پر نظر ڈال کر وہ نہ دیکھ سکے کہ یہ میرا ہی ہے۔‘‘ یعنی ایسا مقدم ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ خود یہ ذکر کرے کہ یہ بندہ جو ہے یہ میرا ہی ہے اور میرے احکام کی پیروی کر رہا ہے۔ آپؑ نے فرمایا ’’اس وقت تک کوئی سچا مومن نہیں کہلا سکتا۔ ایسا آدمی تو آل (عُرف ِعام) کے طور پر مومن یا مسلمان ہے۔ جیسے چوہڑے کو بھی مصلی یا مومن کہہ دیتے ہیں۔‘‘ فرماتے ہیں ’’مسلمان وہی ہے جو اَسْلَمَ وَجْهَهٗ لِلّٰهِ کا مصدا ق ہو گیا ہو۔ وَجْه منہ کو کہتے ہیں مگر اس کا اطلاق ذات اور وجودپر بھی ہوتا ہے۔ پس جس نے ساری طاقتیں اللہ کے حضور رکھ دیں ہوں وہی سچا مسلمان کہلانے کا مستحق ہے۔‘‘ آپؑ فرماتے ہیں کہ مجھے یاد آیا کہ ایک مسلمان نے کسی یہودی کو دعوت اسلام کی کہ تو مسلمان ہو جا۔ مسلمان جو تھا وہ فرمایا کہ ’’مسلمان خود فسق وفجور میں مبتلا تھا۔‘‘ برائیوں میں مبتلا تھا۔ ’’یہودی نے اس فاسق مسلمان کو کہا کہ تو پہلے اپنے آپ کو دیکھ‘‘ مجھے جو تبلیغ کر رہا ہے ’’اور تو اس بات پر مغرور نہ ہو کہ تو مسلمان کہلاتا ہے۔ خدا تعالیٰ اسلام کا مفہوم چاہتا ہے نہ نام اور لفظ۔ یہودی نے اپنا قصہ بیان کیا‘‘ اس مسلمان کو ’’کہ میں نے اپنے لڑکے کا نام خالد رکھا تھا مگر دوسرے دن مجھے اسے قبر میں گاڑنا پڑا۔‘‘ دوسرے دن فوت ہو گیا۔ خالد کا مطلب ہمیشہ رہنے والا ہے۔ کہنے لگا کہ ’’اگر صرف نام ہی میں برکت ہوتی تو وہ کیوں مرتا۔ اگر کوئی مسلمان سے پوچھتا ہے کہ کیا تو مسلمان ہے؟ تو وہ جواب دیتا ہے۔الحمد للّٰہ۔‘‘ لیکن صرف نام کے مسلمان۔ پس آپؑ نے اپنی جماعت کو فرمایا کہ تم نام کے مسلمان نہ بنو۔

پھر اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہ لفّاظی کہیں کام نہیں آتی، باتیں کام نہیں آتیں بلکہ عمل ہیں جو کام آتے ہیں۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’پس یاد رکھو کہ صرف لفّاظی اور لَسّانی کام نہیں آسکتی جب تک کہ عمل نہ ہو۔ محض باتیں عندا للہ کچھ بھی وقعت نہیں رکھتیں چنانچہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے

كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰهِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ (الصف:4)

کہ اللہ کے نزدیک اس بات کا دعویٰ کرنا جو تم کرتے نہیں بہت ناپسندیدہ بات ہے۔

پس ہمیں اس بات کے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ کیا ہمارے قول و فعل برابر ہیں، نَحْنُ اَنْصَارُاللّٰهِ یعنی ہم اللہ کے انصار ہیں کا دعویٰ ہمارے عمل سے ثابت ہے یا نہیں؟ ہم اسلام کو دنیا میں پھیلانے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اس کو پورا کرنے کے لیے ہماری اپنی کوشش اور حالت کیا ہے یہ دیکھنے کی ضرورت ہے۔… اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نصائح پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آپؑ کی خواہشات کے مطابق آپؑ کی بیعت میں آنے کا حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے حکموں پر عمل کرتے ہوئے ہم اپنی دنیا و آخرت سنوارنے والے ہوں۔ حقیقی انصار اللہ بننے کی توفیق اللہ تعالیٰ ہمیں عطا فرمائے اور اپنی نسلوں کے لیے نیک نمونے چھوڑ کر جانے کی توفیق ہمیں اللہ تعالیٰ عطا فرمائے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کو ہم حاصل کرنے والے ہوں۔

(خطاب اجتماع انصار اللہ یوکے 15ستمبر2019ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 20 فروری 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 فروری 2020