• 30 اپریل, 2024

خدا کی معرفت کی تلاش

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
’’جس شخص کا یہ ایمان نہ ہو کہ اِنَّمَاۤ اَمۡرُہٗۤ اِذَاۤ اَرَادَ شَیۡئًا اَنۡ یَّقُوۡلَ لَہٗ کُنۡ فَیَکُوۡنُ (یٰس:83) میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اس نے خدا تعالیٰ کو نہیں پہچانا اور ایسا ہی اس شخص نے بھی شناخت نہیں کیا جو اس کو علیم بذات الصدور اور حی و قیوم کہ دوسروں کی حیات و قیام اسی سے ہے اور وہ مدبّر بالارادہ ہے مدبّر بالطبع نہیں مانتا جو فلاسفروں کا عقیدہ ہے۔ غرض ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتے ہیں۔ یہ بات قریب بہ کفر ہو جاتی ہے۔ اگر یہ تسلیم کریں کہ کوئی حرکت یا سکون یا ظلمت یا نور بدوں خدا کے ارادے کے ہو جاتا ہے اس پر ثبوت اوّل قانون قدرت ہے۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے دو آنکھیں، دو کان ایک ناک دیئے ہیں۔ اتنے ہی اعضاء لے کر بچّہ پیدا ہوتا ہے۔ پھر اسی طرح عمر ہے اور بہت سے امور ہیں جو ایک دائرہ کے اندر محدود ہیں۔ بعض کے اَولاد نہیں ہوتی۔ بعض کے لڑکے یا لڑکیاں ہی ہوتی ہیں۔ غرض یہ تمام امور خدا تعالیٰ کے قدیر ہونے کو ثابت کرتے ہیں۔

پس ہمارا مذہب یہ ہے کہ خدا کی الوہیت اور ربوبیت ذرہ ذرہ پر محیط ہے؛ اگرچہ احادیث میں آیا ہے کہ بدی شیطان یا نفس کی طرف سے ہوتی ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ وہ بدی جس کو بدی سمجھا جاوے، مگر بعض بدیاں ایسی ہیں کہ اُن کے اسرار اور حکم اور مفہوم سے ہم آگاہ نہیں ہیں جیسے مثلاً آدم کا دانہ کھانا۔ غرض ہزارہا اسرار ہیں جو مستحدثات کا رنگ دکھانے کے لیے کر رکھے ہیں قرآن شریف میں ہے مَا کَانَ لِنَفْسٍ اَنْ تَمُوْتَ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰہِ (آل عمران:146) تموت میں روحانی اور جسمانی دونوں باتیں رکھی ہوئی ہیں۔ ایسے ہی ہدایت اور ضلالت خدا کے ہاتھ میں ہے۔ اس پر اعتراض یہ ہوتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام کا سلسلہ لغو ہو جاتا ہے۔ ہم اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ کوئی ایسی فہرست پیش کرو جس میں لکھا ہو کہ فلاں شقی ہے۔

انبیاء علیہم السلام جب دعوت کرتے تواس کے ساتھ کوئی نہ کوئی اثر مترتب ہوتا ہے۔ اور ایسا ہی دعا کے ساتھ بھی۔ اللہ تعالیٰ قضا و قدر کو بدل دیتا ہے اور قبل از وقت اس تبدیلی کی اطلاع بھی دے دیتا ہے۔ اس وقت ہی دیکھو کہ جو رجوع لوگوں کا اس سلسلہ کی طرف اب ہے براہین احمدیہ کے زمانہ میں کب تھا اس وقت کوئی جانتا بھی نہ تھا۔‘‘

(ملفوظات جلد دوم صفحہ166 ,165)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 فروری 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 فروری 2020