روزنامہ الفضل ۔میری محبت ،میرا مخدوم
بچپن سے بڑھاپے تک الفضل کی برکات ، خدمات اور ذاتی مشاہدات
الفضل کل عالمِ انسانیت اور خصوصاً عالم اسلام کے لئے نہایت بابرکت اور نفع مند اخبار تھا اور ہے ۔یہ حقیقت میں حضرت مسیح موعود ؑ کے ذریعہ جاری ہونے والے علوم کی نہر تھی جس نے علم ، اخلاق اور روحانیت کی ترویج کرتے ہوئے صحافت کے ایک نئےدور کی بنیاد ڈالی۔ گو یہ ایک اسلامی اور مذہبی اخبار تھا مگر جیسا کہ جماعت احمدیہ کا عقیدہ اور طرزِ عمل ہے کہ ہم اسلامی تعلیمات کو تمام شعبہ ہائے زندگی پر محیط سمجھتے ہیں اس لئے اس اخبار نے نے عام دنیاوی معاملات بلکہ سیاسی پہلوؤں سے بھی ملت کی ہمیشہ رہنمائی کی اسی لئے جماعت کے ایک شدید مخالف نے اقرار کیا کہ قادیان کے ایک تانگہ بان کی سیاسی بصیرت ہندوستان کے سیاسی لیڈروں سے بھی زیادہ ہے۔
مگر افسوس ابنائے آدم نے اپنے طریق کے مطابق اس کی ناقدری کی اور بارہا یہ اخبار حکومت اور عوام کی چیرہ دستیوں کا شکار ہوتا رہا مگر خدا کی تائید و نصرت اور حضرت خلیفۃ المسیح کی دعاؤں کی وجہ سے اس کا راستہ نہ روکا جا سکا۔
الفضل ربوہ کو 1984٫ میں حکومت پاکستان کی طرف سے سے بند کردیا گیا تو یہ خیال اُبھرنے لگا کہ لندن میں جہاں خلیفۃ المسیح موجود ہیں وہاں سے اس کا متبادل اخبار جاری کر دیا جائے یہ خواب ٫1994 میں شرمندہ تعبیر ہوا جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے 7 جنوری ٫1994 سے ہفت روزہ الفضل انٹرنیشنل کا آغاز فرمایا اور 27 مئی 2019٫ سے ہفتہ میں دو بار شائع ہو رہا ہے اور اب اللہ تعالی کے فضل سے روزنامہ الفضل لندن کا آن لائن ایڈیشن 13 دسمبر 2019ء سے شروع ہو گیا ہے۔
الفضل کی ایک عظیم الشان علمی تاریخ ہے سر تا بہ فلک اور ہر دریائے علم ومعرفت کا شناور۔اس کی ہلکی سی جھلک کے لیے صرف خلفائے سلسلہ کے خطبات ہی کافی ہیں۔ خاکسار اس مضمون میں اس کی تاریخ اور برکات اور دشمن کے حملوں کی کہانی ذاتی مشاہدات کے حوالے سے بیان کرنے کا ارادہ رکھتا ہے ورنہ تو یہ بحر ناپیدا کنار ہے۔
پہلا تعارف
میں بچہ تھا جب خوشاب کے ایک محلہ آہیرانوالہ کے احمدی گھرانے میں الفضل کا ذکر سنا اور اسے دیکھا۔ میرے دادا محترم حافظ مولوی عبدالکریم جماعت احمدیہ خوشاب کے صدر اور امام الصلوٰۃ بھی تھے وہ جمعہ کے دن حضرت خلیفۃالمسیح کا خطبہ جمعہ جو الفضل میں اردو میں شائع ہوتا تھا اسے رواں پنجابی میں سناتے تھے۔ الفضل مسجد میں ہمہ وقت میسر رہتا تھا اس کے علاوہ بھی گھروں میں اس کے مضامین اور اعلانات کا چرچارہتا تھا ہر مہینے کے الفضل اکٹھے کرکے ترتیب دے کر جلد بندی کرائی جاتی اور انہیں ادب کے ساتھ الماری میں محفوظ کر لیا جاتا ۔کتب اور پمفلٹ ملا کر ایک مختصر سی لائبریری وجود میں آ گئی تھی جو بعد میں ایک الماری کی شکل میں ظاہر ہوئی جو مسجد کے ساتھ ایک ڈیوڑھی میں ہوتی تھی تھوڑے احباب پڑھے لکھے تھے لیکن پھر بھی فائدہ اٹھاتے۔ہم بچوں کو اس الماری کی صفائی کا موقع بھی وقار عمل کے دن مل جاتا تھا۔
سکول اور جامعہ احمدیہ میں الفضل
پھر ہم ٫1972 میں ہجرت کر کے ربوہ آگئے اور دارالعلوم وسطی میں اپنے مکان میں شفٹ ہوگئے الفضل یہاں بھی آتا رہا۔ میں اس وقت تعلیم الاسلام ہائی سکول میں آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ کا خطبہ جمعہ مسجد اقصیٰ میں سنتے اور الفضل میں علماء سلسلہ کے مضامین اور مبلغین کی رپورٹیں اور اعلانات شوق سے پڑھتے۔ الفضل میں جامعہ احمدیہ ربوہ کے طلبہ کے امتحانی نتائج بھی شائع ہوتے تھے جو ہم دلچسپی سے پڑھتے تھے۔ اسی اخبار میں 1975ء میں پہلے صفحے پر میری میٹرک میں کامیابی اور سکول میں اول آنے کا اعلان بھی شائع ہوا جو میں نے کاٹ کر محفوظ کر لیا۔ میرے وقف کرنے اور جامعہ احمدیہ میں میں داخل ہونے کا ایک سبب یقیناً الفضل بھی ہے جس سے محبت بڑھتی رہی۔
جامعہ میں ایک علمی مقابلہ الفضل کے شماروں پر مشتمل ہوتا تھا جس میں جماعتی اور عالمی خبروں کے حوالہ سے سوالات ہوتے تھے اس مقابلہ میں بھی کئی دفعہ حصہ لیا اور انعام حاصل کیا۔ ہر سال ہمارے نتائج الفضل میں شائع ہوتے اور میں وہ شمارے محفوظ کرتا رہتا۔ اللہ کے فضل سے جامعہ کے سالوں میں ہر سمسٹر میں اول آنے کا اعزاز حاصل ہوتا رہا اس لئے میرے محفوظ شدہ پرچوں کی تعداد بھی بڑھتی رہی۔
پھر بزرگوں نے مضمون نویسی کی تحریک کی میں نے الفضل کے لیے کئی مضامین لکھے جو الفضل نے اپنے دامن میں سمیٹ لئے۔ جامعہ میں اشاعت مضامین کے مقابلہ میں بھی انعام حاصل کیا اور یہ بےانتہا خوشی کا لمحہ ہوتا تھا۔
صرف الفضل کے ایڈیٹر کو دیکھنے کے لئے دارالرحمت غربی میں واقع دفتر الفضل گیا جہاں محترم مسعود احمد صاحب دہلوی سے ملاقات کی٫1984 میں حکومتی پابندیوں کے بعد الفضل 1988ء میں دوبارہ جاری ہوا تو اس کا دفتر دارالنصر غربی میں منتقل ہوگیا وہاں محترم نسیم سیفی اور محترم یوسف سہیل شوق سے ملاقات کے لیے حاضر ہوتا اور مضامین لکھنے کی توفیق پائی۔
الفضل کی ادارت
پھر ایک وقت وہ بھی آیا جب حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ نے خاکسارکو اس گاڑی کا ڈرائیور مقرر فرمایا۔ یہ ایک بہت مشکل ذمہ داری تھی جب پہلا پیغام ملا تو خاکسار نے گھر میں ہی مصلّٰی بچھایا اور خدا سے مدد مانگی حضور اقدس سے دعا کی درخواست کی اور حضرت مرزا مسرور احمد ناظر اعلیٰ کی رہنمائی میں کچھ نمونہ بنا کر حضور سے منظوری حاصل کی اور الحمدللہ کہ 11مارچ ٫1998 سے لے کر 14 نومبر 2017 ٫ تک اس کی خدمت کی توفیق پائی گو کہ اخبار 5 دسمبر 2016 ٫ کو حکومت کی طرف سے بند کر دیا گیا تھا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ اور حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیزکی مسلسل شفقت اور رہنمائی میں جماعت کے اس روزنامہ نے ترقی کے نئے سنگ میل قائم کئے۔
بعض نئے سلسلے
اس عرصہ میں سب سے اہم سلسلہ احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے مطابق ارشادات حضرت مسیح موعود ؑ کی اشاعت تھی جس کی طرف رہنمائی حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے فرمائی تھی۔ میرے ساتھی ایک طریقہ کار کے مطابق منتخب موضوعات پر حضرت مسیح موعود ؑ کے ارشادات تیار کرتے تھے جس کے لیے حدیث کی تلاش میرے لئے ایک مشکل مگر دلچسپ کام تھا کیوں کہ اس سے قبل جامعہ میں 16 سال حدیث نبویؐ پڑھانے کی توفیق ملی تھی ۔کوشش کی گئی کہ مستند احادیث مکمل حوالوں کے ساتھ شائع کی جائیں اور تکرار بھی نہ ہو اس عرصہ میں لگ بھگ 6 ہزار احادیث کا ترجمہ شائع کیا گیا جو تقریباً ہر اسلامی موضوع پر مشتمل ہیں۔
دوسرا سلسلہ حضرت خلیفۃ المسیح کے خطبات کی تسلسل سے اشاعت تھی۔ پہلے ہم ہر سوموار اور پھر بعد میں ہر منگل کے دن حضورانور کے تازہ ترین خطبہ کا خلاصہ ٹائٹل پر اور اندر ایک گزشتہ خطبہ جمعہ کا متن شائع کرتے رہے اس طرح تمام عرصہ میں حضور انورکے تمام خطبات شائع کرنے کی توفیق ملی اسی طرح حضور انورکے دوروں کی تمام رپورٹس بھی شائع کی گئیں اور دیگر خطابات اور تقاریر بھی شائع کرنے کی توفیق ملی۔
پہلے حضور انورکے خطبات کی تدوین کے لئے ادارہ زود نویسی قائم تھا بعد میں حضور انورنے فرمایا کہ روزنامہ الفضل خطبہ لکھ کر بھجوائے یہ ڈیوٹی خاکسار نے مکرم فخر الحق شمس نائب ایڈیٹر الفضل کے سپرد کی اور انہوں نے اسے عمدگی سے دیر تک نبھایا۔خطبہ پاکستان میں عصر کے بعد یا رات کو سنا جاتا ہے اس لئے وہ لائیو خطبہ کے ساتھ اس کو ریکارڈ کر لیتے اور ٹیپ ریکارڈر کی مدد سے کئی گھنٹے لگا کر اسے کاغذ پر منتقل کرتے۔ ہفتہ کی صبح خاکسار اسے ایک نظر دیکھ کر کمپوزر کو دیتا۔ایک کمپوزر اسی کام کے لئے وقف تھا پروف ریڈنگ وغیرہ کے بعد دوپہر ایک بجے تک یعنی لندن میں صبح دفتر کھلنے سے پہلے وہ خطبہ مکرم پرائیویٹ سیکرٹری لندن کو ای میل کر دیا جاتا ۔الحمدللہ کئی سال اس خدمت کی توفیق ملتی رہی۔ یہی خطبہ جو مکمل لکھا جاتا تھا حضور انورکی نظر ثانی کے بعد اسی کو پاکستان میں اشاعت کے لئے بعض خاص وجوہات کی بنا پر کاٹنا اور بریکٹیں لگانا ایک دلخراش کام تھا مگر الہی جماعتوں کے مقدر میں یہی لکھا گیا ہے۔
خاص نمبرز
ہر سال دسمبر میں جلسہ سالانہ نمبر شائع کرنا الفضل کی پرانی روایت تھی پہلا با قاعدہ نمبر 1954٫ میں شائع ہوا۔ ہم نے اس میں یہ جدت پیدا کی کہ ہر سال کے لیے ایک عنوان مقرر کر لیا جاتا تھا تا کہ اس پر یکجائی مواد قارئین کو مل جائے اور اسی کی مناسبت سے خوبصورت ڈیزائن کر کے رنگین تصاویر بھی شائع کی جاتی تھیں چند نمبروں کے عناوین درج ذیل ہیں۔
سیرت النبی ﷺ نمبر۔ صحابہ ؓرسول نمبر۔ نماز نمبر۔قران نمبر۔ خلافت نمبر۔ سیدنا طاہر نمبر۔ ایم ٹی اے نمبر۔ صبرو استقامت نمبر۔ صفائی نمبر ۔خدمت خلق نمبر۔ حضورانور کا دورہ افریقہ ومشرق بعید نمبر۔ جلسہ جرمنی نمبر 2001٫ اور صدسالہ جوبلی سونیئر۔ یہ گویا ہر موضوع پر ایک کتاب مرتب ہوگئی۔
ہم سال کے دوران کئی مواقع پر مختلف نمبریا خصوصی مضامین شائع کرتے رہے مثلا سیرۃ النبی ﷺ۔ یوم مسیح موعودؑ۔یوم مصلح موعودؓ ۔یوم خلافت ۔ یوم پاکستان۔ رمضان۔ عیدین ۔حج۔الفضل کا یوم تاسیس (18 جون)۔ جلسہ سالانہ قادیان و یوکے و جرمنی۔ ماہمحرم اور امام حسین ؓ
2009٫ سے کوشش کی گئی کہ تمام خاص نمبروں کو باتصویر کر دیا جائے۔ چنانچہ اللہ کے فضل سے ٹائیٹل کے علاوہ اندر بھی تصاویر شامل کی جاتی رہیں اور اگر رقم کی کمی ہوتی یا تصویر مخالفین کے لحاظ سے مناسب نہ ہوتی تو اسے صرف آن لائن ایڈیشن میں شائع کر دیا جاتا۔
اسی عرصہ میں ایک بہت اہم کام کتب حضرت مسیح موعود ؑ کے متعلق شروع کیا گیا۔حضور کی ایک کتاب ہر سال احباب جماعت کے مطالعہ کے لئے مقرر کی جاتی ہے۔اس کتاب کا تعارف سوال و جواب اور مشکل الفاظ کے معانی شائع کئے گئے اسی طرح حضرت خلیفۃ المسیح کے خطبات کے سوال و جواب اور مجلس مشاورت کے منظور شدہ فیصلوں کے حوالہ سے تفصیلی مضامین اور مختصر اقتباسات بھی شائع ہوتے رہے۔
الفضل کا ایک مستقل کالم احباب جماعت کے ذاتی اعلانات کی اشاعت تھی۔ہم نے اس کو مزید بہتر کر دیا اور اخبار کا ایک صفحہ مختص کر دیا جس میں ولادت ۔نکاح۔۔شادی۔امتحان میں کامیابی۔تقریب آمین ۔بیماری اور وفات کے اعلان شائع ہوتے رہے۔
بزرگان سلسلہ کا ایک ریکارڈ بھی تیار کیا گیا تاکہ ان کے بارہ میں کوئی خبر دینی پڑے تو معلومات مستند ہوں۔اکثر نے اپنے ہاتھ سے ہمارا فارم پر کیا۔اور اس کا بڑا فائدہ ہوا بر وقت اور صحیح معلومات مل جاتیں اور جماعت کے دیگر اداروں کو بھی فائدہ ہوتا۔ مجھے یادہے محترم صاحبزادہ مرزا وسیم احمدناظر اعلی ٰقادیان کا انٹرویو میں نے ان کی وفات سے چند سال پہلے جلسہ سالانہ قادیان پر کیا تھا بعد میں قادیان والوں نے بھی اس سے استفادہ کیا۔
انڈیکسز کی تیاری
100سال کا الفضل بے شمار نادر مضامین اور خبروں کا مجموعہ تھا مگر انڈیکس نہ ہونے کی وجہ سے استفادہ ممکن نہ تھا اس لئے انڈیکس شائع کرنے شروع کئے گئے۔ 1998ء سے لے کر 2016ء تک ہر سال کا انڈیکس الگ الگ تفصیلی طور پر شائع کیا گیا۔بعد میں جامعہ کے طلباءکی مدد سے 1913٫ تا 1965 ء کا انڈیکس بھی شائع کیا گیا۔
2002ءمیں الفضل کو الاسلام کی ویب سائٹ پر اپلوڈ upload کرنا شروع کیا گیا جس کے لئے مکرم عطا٫الرحمان نے ابتدائی خدمات فراہم کیں ۔جس کی تفصیل ایک الگ مضمون کی متقاضی ہے۔
عالم روحانی کے لعل وجواہر
الفضل کے لیے کئی بزرگان سلسلہ تعاون فرماتے رہے مگر میں محترم مولانا دوست محمد شاہد مؤرخ احمدیت کا خصوصیت سے ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ خاکسار نے ادارت سنبھالنے کے چند دن بعد ہی مولانا صاحب سے درخواست کی کہ کالم کا کوئی مستقل سلسلہ شرو ع فرمائیں۔ تین دن کے بعد محترم مولانا نے عالم روحانی کے لعل و جواہر کے نام سے نصف صفحہ کا ایک کالم شروع کیا جو واقعی اسلامی تاریخ۔ سیرت صلحاء و بزرگان اور الحکم اور بدر میں بکھری ہوئی سیرت مسیح موعودؑ اور صحابہؓ کا ایک دلآویز مجموعہ تھا۔ جس کی 600 کے قریب قسطیں شائع ہوئیں ابھی کچھ مواد باقی ہوتا کہ مولوی صاحب باقاعدگی سے مزید بھجوا دیتے اور کبھی بھی یاددہانی کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی مولوی صاحب کی وفات کے بعد بھی یہ قسطیں شائع ہوتی رہیں ان کو ترتیب دیا جائے تو ایک ضخیم اور دلکش کتاب بن سکتی ہے مولوی صاحب کے دوسرے علمی و تحقیقی مضامین جو کئی قسطوں پر مشتمل تھے جو اس کے علاوہ ہیں۔
صد سالہ جوبلی نمبر کی کہانی
2013 ٫ میں الفضل کی صدسالہ جوبلی منانے کا وقت آگیا اس کے لئے 2011ء میں تیاری شروع کردی گئی تھی تفصیلی سکیم کی حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ للہ سے منظوری لی گئی۔ روزانہ اخبار نکالنے کے ساتھ ساتھ اس کا کام شروع کیا گیا یہ ایک طویل اور صبر آزما کام تھا اسی محدود عملہ کے ساتھ جوبلی کے شایان شان ضخیم رسالہ تیار کرنا آسان مرحلہ نہ تھا مگر سب نے بھرپور شوق اور محبت سے اپنا اپنا کردار ادا کیا۔الفضل کی تاریخ اور خدمات کا ہر پہلو سے احاطہ کرنا،جگہ جگہ سے مختلف ملکوں سے اہلِ علم وقلم حضرات اور شاعروں سے رابطہ کرنا ،مواد کی نوک پلک سنوارنا بہت اہم کا م تھا پھر یہ احتیاط کہ مضامین میں تکرار نہ ہو۔ کمپوزنگ پروف ریڈنگ پھر اس کی ترتیب یہ سب مراحل خدا تعالیٰ کے خاص فضل سے طے ہوئے اور بہترین اور تاریخی تصاویر بھی میسر آگئیں۔ مکرم منور علی شاہد صاحب کی مدد سے مکرم فخرالحق شمس نائب ایڈیٹر الفضل نے لاہور کے بعض ادیبوں اور شاعروں کے اس حوالہ سے انٹرویوز بھی کئے جو اس جوبلی نمبر میں موجود ہیں۔ جب ہم نے جوبلی شمارہ کی سکیم بنائی تو الفضل کے حوالہ سے ایک انعامی تحریری مقابلہ کا انعقاد بھی کرایا گیا جس میں احباب و خواتین نے ذوق و شوق سے حصہ لیا اور بعد میں محترم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد ناظر اعلی سے انعامات وصول کئے۔
اس موقع پر جہاں علماء و بزرگان اور مصنفین سے الفضل کے لیے مضمون لکھنے کی درخواست کی گئی وہاں عام احباب جماعت کو بھی یہ عنوان دیا گیا “میری زندگی میں الفضل کا کردار” اس عنوان سے ہر عمر اور ہر طبقہ کے لوگوں کو جذبات کے اظہار کا موقع دیا گیا اور انہوں نے الفضل کی برکات کا برملا اعلان کیا یہ سب مضامین خصوصی شمارہ کی زینت ہیں ۔اس میں احباب نے بیان کیا کہ وہ کس طرح بچپن سے الفضل سے منسلک ہیں۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ الفضل شروع سے ہر احمدی گھر میں ایک مربی اور معلم کا کردار ادا کر رہا تھا کسی نے اس سے اردو سیکھی ۔کسی نے دینی معلومات بڑھائیں۔ کسی نے حضور کے خطابات پڑھ کر زندگی وقف کی،کسی نے تحریک جدید میں حصہ لیا ۔کسی نے وقف عارضی کی کسی نے اختلافی مسائل سیکھے کسی نےجھگڑے سے توبہ کی ، کسی نے سگریٹ نوشی چھوڑدی تو کسی نے نماز شروع کر دی۔
بیرون ملک مبلغین نے لکھا ان کے پاس سلسلہ کی خبروں اور حضور کے پیغامات کا واحد ذریعہ الفضل ہی تھا وہ اس کا ترجمہ کرکے مقامی جماعتوں کو سناتے تھے مضامین سے یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ الفضل کا حصول آسان نہ تھا کہیں ڈاک خانے والے رکاوٹیں ڈالتے کہیں پھاڑ دیتے کہیں احمدی بچے سکول ٹیچر سے اخبار لیکر گھر جاتے جو ڈاک کا کام بھی کرتا تھا بعض لوگ کئی کئی میل دور سے اخبار وصول کرتے تھے ۔
بعض غیر احمدی شرفا ٫اخبار پڑھ کر احمدیوں کو دیا کرتے تھے ایم ٹی اے کے قیام سے پہلے الفضل ہی اس کا کردار ادا کر رہا تھا کسی کی میز پر الفضل دیکھ کر اس کے احمدی ہونے کا پتہ لگا اور کئی رشتے صرف اس لیے طے پاگئے کہ اس گھر میں الفضل آتا ہے۔کئی غیر احمدیوں نے اتفاق سے الفضل دیکھا اور اس کا شکار ہوگئے کئی لوگوں نے مخالفت پر کمر باندھی اور دشمنی میں بڑھ گئے کئی احراریوں نے حضرت مصلح موعودؓ کے خطبات پڑھے اور حضورؓ کو تحسین کے خطوط لکھے ایک بار حضور ؓ نے فرمایا کہ میرے پاس جماعتوں تک اپنا پیغام پہنچانے کا واحد ذریعہ الفضل ہے اسی لئے حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے ہر جماعت میں کم از کم الفضل کا ایک پرچہ پہنچنے کی تحریک فرمائی۔
الفضل کی تقسیم کے لئے ایجنسیاں کس طرح بنیں ربوہ کی پہلی ایجنسی کس کے پاس تھی ۔کتنے خریدار تھے کتنا چندہ اکٹھا ہوتا تھایہ سب باتیں ان میں موجود ہیں۔ الفضل اس زمانہ میں ملکی اور غیر ملکی سیاسی خبریں بھی دیتا تھا اور دوسرے اخبارات سے بےنیاز کر دیتا تھا ان خبروں پر حضرت مصلح موعود ؓ کے تبصرے اور ہدایات بھی جاری ہوتی تھیں۔
الحکم اور بدر کو حضرت مسیح موعودؑ کے بازو ہونے کی سعادت حاصل ہے تو الفضل خلافت احمدیہ کی آواز ہےاور اسی کے ساتھ اس کی زندگی وابستہ ہے ۔میرے خیال میں تمام دنیا سے نکلنے والے احمدی رسائل اسی کی مختلف شکلیں ہیں۔ حضرت نواب مبارکہ بیگمؓ نے ایک رؤیا دیکھا تھا کہ الفضل کا عربی ایڈیشن شروع ہو گیا ہے (الفضل 14 مارچ 1945٫)۔ یہ خواب بھی پورا ہو گا اور اس وقت تو عربی رسالہ التقویٰ کی شکل میں نظر آ رہا ہے ۔اس کے مقدر میں آگے بڑھنا ہی ہے۔قادیان سے ہوتا ہوا لاہور پہنچا اور پھر ربوہ کو اپنا مسکن بنایا اور اب لندن سے آن لائن کی اڑان بھر رہا ہے۔ کیونکہ یہ مصلح موعود ؓکے ہاتھ کا لگایا ہوا پودا ہے اور ترقی کی منازل طے کرتا چلا آ رہا ہے اور جس سے دنیا کی تمام قومیں برکت پا رہی ہیں ۔
(عبدالسمیع خان۔غانا)