آنحضرت ﷺ کے مبعوث ہونے سے پہلے مکہ مکرمہ و مدینہ منورہ کے گردو نواح میں انصاف بالکل نابود ہو کر رہ گیا تھا۔ لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے ۔اگر کوئی سردار کے گھوڑے سے آگے نکل جاتا تو اس کو قتل کر دیا جاتا تھا۔ کسی کو اشیاء صرف بیچتے تو اس میں خیانت کرتے۔ اشیاء کی قیمت تو پوری لیتے لیکن اشیاء پوری تول کر نہیں دیتے۔ چھوٹی سی بات کا بتنگڑ بنا کر ان کی لڑائیاں نسل در نسل چلتی رہتیں۔ آنحضور ؐ نے آ کر ان کو امانت، درگزر، انصاف کی تعلیم دی۔ ان کے معاملات کے فیصلے انصاف کے ساتھ طے کرتے۔ حضرت محمد ﷺ نے ان کی ہر طرح مدد کی حتیٰ کہ وہ آپؐ کو ہر قسم کی تکالیف پہنچاتے۔ کبھی آپؐ کی راہ میں کانٹے بچھاتے، کبھی نماز کی حالت میں آپؐ پر کوڑا کرکٹ پھینکتے، کبھی آپؐ کو قتل کرنے کی کوشش کرتے غرض کہ آپؐ کو اور آپؐ کے ساتھیوں کو ہر طرح سے ستاتے۔ لیکن آپؐ ہر ایک کے فیصلے انصاف کے ساتھ کرتے، کسی کو ضرر نہ پہنچاتے۔ کسی کو ضرر پہنچانے کی تلقین بھی نہ کرتے۔ آپؐ کے انصاف کی ہی وجہ سے آپؐ کو صادق و امین کہہ کر پکارتے۔ آپؐ نے کعبہ والے مسئلے کا کس عمدگی سے فیصلہ کیا کہ آپؐ کو تمام صادق و امین کہنے پر مجبور ہوگئے۔
اس ضمن میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں انصاف کے متعلق فرمایا ہے کہ ’’حق اور انصاف پر قائم ہو جاؤ اور چاہئے کہ ہر ایک گواہی تمہاری خدا کے لئے ہو، جھوٹ مت بولو اگرچہ سچ بولنے سے تمہاری جانوں کو نقصان پہنچے یا اس سے تمہارے ماں باپ کو ضرر پہنچے اور قریبیوں کو جیسے بیٹے کو‘‘
اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں انسان کو انصاف پر قائم رہنے کی تلقین کی ہے اور فرمایا ہے کہ تمہاری ہر اک گواہی خدا کے لئے ہو۔ یعنی جب گواہی دینے کے لئے کھڑے ہو تو یاد رکھو کہ تمہاری گواہی خدا کے لئے ہو۔ ساتھ ہی یہ بھی یاد رکھو کہ جھوٹ مت بولو۔ گواہی کے دوران جو بات بھی کہو وہ جھوٹ پر مبنی نہ ہو کیونکہ جھوٹ برائیوں کی جڑ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اگر انسان ایک جھوٹ بولتا ہے تو اس کو چھپانے کے لئے ہزار جھوٹ بولتا ہے۔ جس کی وجہ سے کسی سچے بندے کو تکلیف ہو گی اور خدا تعالیٰ بھی ناراض ہو گا۔ آگے چل کر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ سچی گواہی دینے سے کبھی نہ رکنا چاہے اس سے تمہاری جان کو نقصان پہنچے یا تمہارے والدین کو یا تمہارے قریبیوں کو جیسے بیٹے کو۔اگر ایسی تکلیف برداشت کر کے تم سچ بولو گے تو خدا بھی تم سے راضی ہو گا اور وہ اپنا فضل بھی تم پر کرے گا۔ جس کی خاطر تم نے تکلیف اٹھائی ہوگی وہ بھی تمہیں دعائیں دے گا۔ اس آیت میں یہ اشارہ بھی ہے کہ جب قاضی انصاف کے لئے بیٹھے تو وہ بھی کسی لالچ میں آ کر کسی حق والے کے ساتھ زیادتی نہ کرے اور اس کے خلاف فیصلہ نہ دے۔ چاہے اس فیصلہ سے تمہیں کسی کی طرف سے کوئی ضرر پہنچنے کا اندیشہ ہو۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ حق و انصاف پر قائم ہو جاؤ اور چاہئے کہ ہر ایک گواہی تمہاری خدا کے لئے ہو اور چاہئے کہ کسی قسم کی دشمنی تمہیں سچائی سے نہ روکے ’’یعنی جب تم انصاف کی کرسی پر بیٹھو تو انصاف کرنے کے لئے حقائق اور ثبوت کو مدنظر رکھو۔ اگرچہ حقائق تمہارے دشمن کے حق میں ہوں مگر تم انصاف کے ساتھ اسی کے حق میں فیصلہ دو۔ اس میں یہ بات بھی نظر آتی ہے کہ جب تم انصاف کی کرسی پر بیٹھو تو تمہارا دشمن نہیں ہونا چاہئے اور دوست بھی ۔ تم صرف خدا کے نمائندے ہو۔ جس کا کام انصاف کے ساتھ دو گروپوں میں فیصلہ کرنا ہے۔ اگر قاضی انصاف کی آڑ میں ظلم کا ساتھ دے گا تو اللہ تعالیٰ کبھی اس کو معاف نہیں کرے گا۔
اس آیت کی تشریح ہم اس طرح بھی کر سکتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے عدل کے بارے میں جو بغیر سچائی پر پورا قدم مارنے کے حاصل نہیں ہو سکتی۔ فرمایا ہے ولاَ یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَی أَلاَّ تَعْدِلُواْ اعْدِلُواْ ہُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَیٰ یعنی دشمن قوموں کی دشمنی تمہیں انصاف سے مانع نہ ہو۔ انصاف پر قائم رہو کہ تقویٰ اسی میں ہے۔ اب آپ کو معلوم ہے کہ جو قومیں ناحق ستاویں اور دکھ دیویں اور خون ریز بات کریں اور تعاقب کریں اور بچوں اور عورتوں کو قتل کریں ۔ جیسا کہ مکہ والے کافروں نے کیا تھا۔ اور پھر لڑائیوں میں باز نہ آویں ایسے لوگوں کے معاملات میں انصاف کے ساتھ برتاؤکرنا کس قدر مشکل ہوتا ہے۔ مگر قرآنی تعلیم نے ایسے جانی دشمنی کے حقوق کو بھی ضائع نہیں کیا اور انصاف اور راستی کے لئے وصیت کی ( حکم دیا )… اکثر لوگ اپنے شریک دشمنوں سے محبت تو کرتے ہیں اور میٹھی میٹھی باتوں سے پیش آتے ہیں۔ مگر ان کے حقوق دبا لیتے ہیں۔ ایک بھائی دوسرے بھائی سے محبت کرتا ہے اور محبت کے پردہ میں دھوکہ دے کر اس کے حقوق دبا لیتا ہے مثلاً ایک زمیندار ہے تو چالاکی سے اس کا نام کاغذات بندوبست میں نہیں لکھواتا اور یوں اتنی محبت کہ اس پر قربان ہو ا جاتا ہے پس خدا تعالیٰ نے اس آیت میں محبت کا ذکر نہ کیا بلکہ معیار محبت کا ذکر کیا کیونکہ جو شخص اپنے جانی دشمن سے عدل کرے گا اور سچائی او رانصاف سے درگزر نہیں کرے گا جو سچی محبت بھی کرتا ہے۔
اب آئیے ہم موجودہ زمانے میں دیکھیں کہ آیا انصاف کے جو تقاضے قرآن بیان کرتا ہے کیا وہ تقاضے ہم پورا کرتے ہیں۔ آج عوام کے ذہنوں میں قاضی کا وہ مقام نہیں ہے۔ جو تقریباً چودہ سو سال قبل تھا۔ دنیا کے موجودہ حالات بھی اس طرح ہوچکے ہیں جو آنحضور ؐ کے مبعوث ہونے سے پہلے کے تھے۔ آج بھی لوگ ایک دوسرے سے چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑتے ہیں۔ کوئی بہن کا قتل کرتا ہے شک کی بناء پر، کبھی کوئی شخص اپنے بھتیجے کو اس لئے قتل کر دیتا ہے کہ اس کی دولت ہتھیا لے۔ آج باپ اور چچا کے درمیان تلخ کلامی ہوئی ہے تو کل ان کی نسلیں اس کا پھل کھائیں گی۔ ہم روزانہ اخباروں میں پڑھتے ہیں کہ زمین کے تنازعے پر ایک شخص نے دوسرے کو قتل کر دیا اور یوں یہ قتل نسل در نسل چلتے رہتے ہیں۔ آج بھی ہمیں اسی طرح انصاف کی ضرورت ہے جس طرح آنحضورؐ کے زمانے میں انصاف کی ضرورت تھی۔ آج ہم عدالتوں میں انصاف کے لئے دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں تو ہمارے ساتھ ناانصافی ہی ہوتی ہے۔ اس لئے ہمیں آج عدالتوں میں سوئے ہوئے انصاف کو جگانا ہو گا۔ انصاف کو ان عدالتوں کی زینت بنانا ہو گا۔ اس کوشش کے بغیر ہمارا معاشرہ کبھی اچھا معاشرہ تشکیل پا نہیں سکتا۔
اس ساری بحث و مباحثے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ انصاف کے بغیر ایک اچھا معاشرہ تشکیل نہیں دیا جاسکتا بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ معاشرے کی بنیاد ہی انصاف پر ہے۔ جب انصاف ہی نہ ہو گا تو معاشرہ کی تخلیق کیا ہو گی ۔ یعنی جب ایک دوسرے کی عزت وا حترام کریں گے اور ایک دوسرے کی سنیں گے۔ چھوٹے چھوٹے جھگڑوں میں جب انصاف کو مدنظر رکھا جائے گا تو افراتفری ، بدنظمی کا خاتمہ ہو جائے گا۔
آخر پر دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ سب کو انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ ہم ایک اچھا معاشرہ تشکیل دینے میں کامیاب ہو جائیں۔