• 8 جولائی, 2025

آنحضرت ﷺ ۔الله تعالیٰ کی صفتِ شکور کےمظہرِ اتم

ہمارے آقا حضرت محمد مصطفےٰ صلی الله عليہ وسلم کے اخلاقِ حسنہ سے متعلق کسی نے آپؐ کی زوجہ حضرت عائشہ ؓسے دريافت کيا تو آپؓ نے جواب دِيا کہ ’’کَانَ خُلُقُهٗ الْقُرْآن‘‘ کہ آپ ؐکے اخلاق قرانِ کريم کے عین مطابق تھے۔

آنحضرت ﷺ اپنے ربّ کی صفتِ شکور کے مظہرِ اتم تھے۔ چھوٹے سے چھوٹےاحسان کی قدر کرنا اور اُس پر تشکر کےجذبات کا اظہارآپؐ کی سرِشت ميں داخل تھا۔ الله تعالیٰ نے آپ پر اپنے بے شمار انعامات نازل کئے، آپؐ کو بہت بلند مرتبہ پر فائز کيا۔ آپؐ کو دونوں جہانوں کا سردار بنايا۔ تمام انبياء ميں سے سب سےافضل اور خاتم ا لنَبیّین کے لقب سے نوازا۔ آپؐ ہر لحاظ سے الله تعالیٰ کی ان سب نعمتوں پر عبدِ شکور کا حق ادا کرتے تھے۔ساری ساری رات عبادت کے لئے کھڑے رہتے۔ پاؤں سوج جاتے، صحابہؓ عرض کرتے کہ آپ اتنی عبادت کيوں کرتے ہيں۔ آپ اتنی تکليف کيوں اُٹھاتے ہيں جبکہ الله تعالیٰ نے تو آپ کے اگلے پچھلے سارے گناہ معاف کر رکھے ہيں۔ تو آپ صلی الله عليہ وسلم فرماتے کہ ’’کيا ميں الله کا شکر گزار بندہ نہ بنوں۔‘‘

الله تعالیٰ کی محبت اورعبادت کے ذريعہ سے ہی اُس کا شکر ادا کيا جا سکتا ہے۔ قرآنِ کريم ميں الله تعالیٰ آنحضرت صلی الله عليہ وسلم کو مخاطب کر کے فرماتا ہيں بَلِ اللّٰهَ فَاعْبُدْ وَکُن مِّنَ الشَّاکِرِيْن (الزمر: 67) ترجمہ الله کی ہی عبادت کرو اور شکر ادا کرنے والوں ميں شامل ہو جاؤ۔
حضرت محمد مصطفٰے صلی الله عليہ وسلم ہر وقت، اُٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے، کھاتے پيتے، ہمہ وقت اللہ کی يَاد اور اُس کے شکر ميں مصروف رہتے۔ حضرت عائشہؓ بيان فرماتی ہيں کہ ’’ايک رات میری آنکھ کھل گئی تو ميں نے بستر ٹٹولا آپ ﷺ بستر پر نہيں تھے۔ میں آپؐ کی تلاش ميں باہر نکلی تو ديکھا کہ آپؐ سجدہ ميں پڑے ہوئے ہيں اور بڑے تضرّع کے ساتھ دُعا کر رہے ہيں۔‘‘

13 سال تک مکہ میں آپ ﷺ کو قسم قسم کے مظالم کا نشانہ بنايا جاتا رہا۔ مگرآپؐ اُس کام سے پیچھے نہيں ہٹے جو آپؐ کے سپرد کيا گيا تھا۔ دشمنوں نے آپؐ کو قتل کرنے کا منصوبہ بنايا اور آپؐ کو اپنے وطن عزيز سے مجبوراً ہجرت کرنی پڑی۔ ہجرت کے بعد بھی دشمن نے آپؐ کا پیچھا نہيں چھوڑا۔ سارے عرب کو اکسايا اور آپؐ کےخلاف پَے در پَے فوجيں حملہ آور ہوئيں۔ ان حالات ميں بھی ساری مصيبتوں اور ابتلاؤں ميں آپؐ ذرّہ بھر نہيں گھبرائے اور کبھی ناشکری کا کوئی کلمہ زبان پر نہ لائے بلکہ ان مشکل ترين حالات ميں بھی ہميشہ زبان شکر سے تر رہتی۔

الله تعالیٰ کے شکر کا ايک يہ بھی طريق ہے کہ اُس کی مخلوق کے ساتھ نيکی اور بھلائی کا سلوک کيا جائے۔ الله تعالیٰ فرماتا ہے۔

وَأَحْسِن كَمَآ أَحْسَنَ اللّٰهُ إِلَيْكَ

(القصص:18)

اور احسان کا سلوک کر جيسا کہ الله نے تجھ سے احسان کا سلوک کيا

آپ صلی الله عليہ وسلم ہر ايک شخص کے ساتھ احسان کا سلوک فرماتے اور خاص طور پر غرباء اور مساکين کا بہت خيال رکھتےتھے۔ الله تعالیٰ کی محبت ميں آپؐ کا دِل اس قدر گُداز تھا کہ جب کوئی نعمت ملتی توآپ کا رُواں رُواں شکر کے جذبات سے لبريز ہو جاتا اور خُدا کا شکر ادا کرنے کے لئے سجدہ ميں گر جاتے۔

(ابو داؤد کتاب الجہاد)

قبیلہ ہمدان کے اسلام قبول کرنےکی خبر جب آپ صلی الله عليہ وسلم تک پہنچی تو آپؐ نے سجدۂ شکر اداکيا۔ جب آپؐ پر دُرود بھیجنے کی آیت نازل ہوئی تو الله کی اس نوازشِ خاص پر آپؐ کا دِل شکر سے لبريز ہوگيا اور آپؐ سجدہ ميں گر گئے۔

ايک دفعہ آپ صلی الله عليہ وسلم سفر ميں تھے کہ ايک جگہ آپؐ سواری سے اُتر گئے اور ہاتھ اُٹھا کر دير تک دُعا کی اور پھر سجدہ ميں گر گئے پھر سر اُٹھايا اور دُعا کی اور پھر سجدہ ميں گر گئے۔ پھر سر اُٹھايا اور دُعا کی اور پھر سجدہ کیا۔ دير تک سجدہ ميں رہے۔ پھر اُٹھے اور بڑے تضّرع کے ساتھ دُعا کی اور اس کے بعد پھر لمبا سجدہ کيا۔ دُعا سے فارغ ہوکر حضور ﷺ نے فرمايا۔ ’’ميں نے اُمّت کے لئےتين دُعائيں مانگی تھيں، وہ قبول ہوئيں۔ جب دُعا قبول ہوتی تو مَيں شکر ادا کرنے کے لئے سجدہ کرتا تھا۔‘‘

(ابوداؤد کتاب السَّجود)

مکّہ کی عظيم الشَّان فتح کے موقعہ پرجب آپؐ کو اطلاع ملی کہ قريشِ مکّہ کی مزاحمت بالکل دَم توڑ چکی ہے تب الله تعالیٰ کی نصرت کے وعدوں کو پورا ہوتے ديکھ کر آپؐ کا دِل شکر کے جذبات سے بھر گيا۔ آپؐ نے وہيں سواری پر بیٹھے بیٹھے ہی سجدہ کيا۔ يہاں تک کہ آپؐ کا سر کجاوہ کے ساتھ جالگا۔

آنحضرت ﷺ نے فرمايا۔ مَنْ لَّا يَشْکُرُ النَّاسَ لَا يَشْکُرُ اللّٰهَ یعنی جو شخص لوگوں کا شکريہ ادا نہيں کرتا وہ الله کا شکريہ بھی ادا نہيں کرتا۔
ہمارے پيارے آقا حضرت محمد صلی الله عليہ وسلم کے ساتھ جس نے کبھی بھی کوئی ذرّہ بھر نيکی يا بھلائی کی تھی۔ آپؐ نے ہميشہ اُس کا شکريہ ادا کيا اور اُسے بھلائی کا بہترين صلہ دِيا۔

آپؐ کی رضائی والدہ حضرت حليمہ سعديہ تھيں۔ حضرت خديجہ ؓسے شادی کے بعد وہ آپؐ سے ملنے آئيں اور اُنہوں نے بتايا کہ خشک سالی کے باعث اُن کے مويشی مر گئے ہيں۔ آپؐ نے اُنہيں چاليس بکرياں اور سامان سے لدا ہوا اونٹ عنایت فرماديا۔

ہجرت کے بعد وہ ايک دفعہ آپؐ سے ملنے کے لئے تشريف لائيں تو آپؐ بے قرار ہو کر ’’ميری ماں! ميری ماں!‘‘ کہتے ہوئے اُٹھ کھڑے ہوئےاور اپنی چادر اُن کے لئے فرش پر بچھا دی۔

حضرت حليمہ کی ايک لڑکی تھی جو بچپن ميں آپؐ کو کھلايا کرتی تھی۔ غزوۂ حنین کے موقعہ پر جو لوگ قيد ہوئے اُن ميں وہ بھی قيد ہو کر آئی۔حضورؐنے اُنہيں پہچان ليا اور بڑی عزت اور احترام کاسلوک فرمايا اور اُن کی خاطر اُن کے قبیلے کے 6 ہزار قيدی رہا کر دیئے۔

آنحضرت ﷺ کے گھر ايک نوجوان غلام تھے۔ جن کا نام ’’زيد بن حارثہ‘‘ تھا۔ حضرت خديجہؓ کے ساتھ شادی کے بعد حضور نے سب غلاموں کو آزاد کر دياتھا۔ اُن ميں حضرت زيد ؓ بھی شامل تھے۔

مگر اُنہوں نے آنحضرت صلی الله عليہ وسلم کے پاس رہنے کو ترجيح دی اور اپنے والد اور چچا کے ساتھ جانے سے انکار کرديا۔ حضرت زيد کی اس وَفا کا آنحضرت صلی الله عليہ وسلم پر بے حد اثر تھا۔ چنانچہ آپ نے زيد ؓ کو وہ مقام دِيا جو اور کسی کو حاصل نہ ہوا تھا۔ حضرت زيد ؓ بھی حضور کے ايک اشارے پر اپنی جان قربان کرنے کے لئے تيار رہتے تھے۔

ايک دن آنحضرت صلی الله عليہ وسلم نے فرمايا کہ اگر کوئی شخص کسی جنتی عورت سے شادی کرنا چاہتا ہےتو اُسے چاہئے کہ اُمّ ايمن سے شادی کر لے حضرت زيد نے آپ کا اشارہ سمجھ ليا اور شادی کے لئے تيار ہوگئے اُس وقت اُمّ ایمن کی عمر حضرت زيد ؓسے دوگنی تھی وہ حبشی الاصل تھيں، سياہ رنگ، ناک پیچھے سے دبا ہوا۔ جس سے ناک کے نتھنے کے سوراخ نظر آتے تھے۔ الغرض اُن میں کوئی ايسی کشش نہ تھی کہ کوئی اُن سے شادی کے لئے تيار ہوتا۔ زيدؓ کی اس نيکی کا صلہ آنحضور صلی الله عليہ وسلم نے اس طرح دِيا کہ ہجرت کے بعد اُس غلام کی شادی اپنی پھوپھی زاد بہن کے ساتھ کردی۔ يہ عقد زيدؓ کے لئے باعثِ افتخار تھا گو کہ بعد میں يہ شادی کامياب نہ ہو سکی اور طلاق ہوگئی۔

حضرت زيدؓ کی وَفا شعاری اور خدمت گزاری کی وجہ سے آپ صلی الله عليہ وسلم نے اُن کے بیٹے اُسامہ سے بھی ہميشہ بہت محبت و شفقت کا سلوک فرمايا۔ حضرت اُسامہ بتاتے ہيں کہ حضور مجھے ايک زانو پر بٹھا ليتےتھے اور حضرت حسن ؓ کو دوسرے پراور ہم دونوں کو چمٹا کر پيار کرتے۔
فتح مکہ کے موقعہ پر آپؐ نے اُن کے بیٹے اُسامہ کو يہ اعزاز بخشاکہ اُن کو اپنی سواری پر اپنے پیچھے بٹھا ليا۔

حضرت زيد ؓ کی وَفا شعاری کی شکرگزاری کے طور پرآپ صلی الله عليہ وسلم نے حضرت اُسامہ کو ايک لشکر کا سپہ سالار مقرر فرمايا۔ اُس وقت حضرت اُسامہ ؓ کی عمر صرف17 سال تھی۔ بڑے بڑے جرنيل صحابہؓ اُن کے ماتحت تھے۔

منافقين نے چہ ميگوئياں کيں کہ ايک کم عمر نا تجربہ کار لڑکے کو امارت سونپ دی گئی۔ جب آنحضرت صلی الله عليہ وسلم تک يہ بات پہنچی تو آپ مسجد ميں تشريف لائےاورخطبہ ارشاد فرمايا۔

آپؐ نے فرمايا۔ ’’ پہلے اُس کے باپ کی سرداری پر بھی تُم معترض تھے۔ خُدا کی قسم وہ مجھ کو سب سے زيادہ محبوب تھا اور اُس کے بعد اُسامہ مجھے سب سے زيادہ محبوب ہے۔‘‘

آنحضرت صلی الله عليہ وسلم سب کے لئے سراپا شکر تھے جس نے بھی کبھی آپ کےساتھ ذرّہ بھر بھی نيکی کی، حضورؐ نے اُس کی قدرافزائی کی اور اُس کی نيکی سے بڑھ کر اُسے صلہ ديا۔

مُطعَم بن عدی مکہ کا رئيس تھا اُس نے آپ کے ساتھ يہ نيکی کی تھی کہ جب آپؐ طائف سے اوباشوں کے ہاتھوں بے حد تکليف اور دُکھ اُٹھا کر واپس آئے اور مکہ ميں داخل ہونا چاہا تو مکہ والوں نے اجازت نہ دی۔ اُس وقت يہ سردار مُطعَم بن عدی سامنے آيا اور اپنی حفاظت ميں لے کر مکہ ميں داخل کيا۔ اُس سردار نے کفر کی حالت میں ہی وفات پائی تھی ليکن اُس کے اس احسان کو حضور نے ہميشہ ياد رکھا۔ چنانچہ جنگِ بدر کے موقعہ پر جب مکہ کے قيدی آنحضرت صلی الله عليہ وسلم کی خدمت ميں پيش کئے گئے، حضورؐ کو مُطعَم بن عدی ياد آگئے۔ آپؐ نے فرمايا کہ اگر مُطعَم بن عدی آج زندہ ہوتا اور مجھ سے ان لوگوں کی سفارش کرتا تو میں ان سب کو يونہی آزاد کر ديتا۔

(صحیح بخاری)

آج ہميں اپنے جائزے لينے کی ضرورت ہے کہ کيا ہم خُدا تعالیٰ کی عبادت اور اُس کے شکر کا حق ادا کرنے والے ہیں؟ اس زمانہ میں جبکہ ہمیں اور ہمارے بچوں کو ایسی سہولتیں اور ایسی نعمتیں میّسر ہیں جو آج سے پہلے ہر کسی کو میسر نہ تھیں مگر مشاہدے میں یہ بات اکثر آتی ہے کہ شکر کا حق ادا کرنے کی بجائے اکثر ناشکری کی جاتی ہے۔ جبکہ اللہ تعالیٰ شکر کرنے والوں کو پہلے سے بڑھا کر نوازتا ہے۔ اس لئےضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لائیں اور بچوں کو بھی اس کی عادت ڈالیں۔ ہمیں غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے کہ جس خاتم الانبياء کی محبت کا ہم دعویٰ کرتے ہيں۔ کيا ہماری زندگياں اُن کے بتائے ہوئے اُصولوں اور اُن کے اُسوۂ کے مطابق ہيں۔

الله تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر يہ ہے کہ اُس کی سچے دِل سے عبادت کريں اُس کی نعمتو ں کا ہر حال ميں شکر بجا لائيں۔ کامل فرمانبرداری اختيار کريں اُس کی رضا کو ہر کام پر ہميشہ مقدّم رکھيں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔

والدين کے احسانات کا ہم بدلہ نہيں چُکا سکتے، اُن کی خدمت اور اطاعت ہم پر واجب ہے۔ اُن کا شکر يہ ہے کہ اُن سے حُسنِ سلوک سے پيش آئيں۔ کسی طرح بھی اُن کے لئے دُکھ کا باعث نہ بنيں۔ خلافت الله تعالیٰ کی ايک عظيم نعمت ہے اُس کی قدر کرنا ہم پر لازم ہے۔ خلافت کے ہر حکم پر لبیک کہيں۔ خطبات توجہ سے سُنيں اور اُس پرعمل کريں۔

نظامِ خلافت کے ساتھ ايک پورا نظام ہے جو کہ ہمہ وقت بغير کسی معاوضہ کے دن رات خدمت پر معمور ہے۔ اس نعمت پر شکر يہ ہے کہ اُن کادستِ راست بنيں اور اُن کے لئے ہميشہ اپنے دلوں ميں محبت کے جذبات رکھيں ۔ خواہ کسی نے کوئی چھوٹی سی ہی خدمت کی ہو ،اُس کی قدر کريں اور چھوٹی چھوٹی نيکی کو بھی ياد رکھيں، اُن کےساتھ عزّت سے پيش آئيں نیز اُن کے لئے دُعا کريں۔

جن ممالک میں ہم رہتے ہیں اُن ممالک کے بھی ہم پر بہت احسانات ہيں ۔ انہوں نے اُس وقت ہميں پناہ دی اور ہمارے ساتھ رحم کا سلوک کيا جب ہم اپنے وطن سے نکلنے پر مجبور کئے گئے۔ اس پر شکر يہ ہے کہ ملکی قوانين کے خلاف کبھی کوئی کام نہ کريں اور ملک و ملّت کی بہتری کے لئے کوشاں رہيں۔ ان کے لئے دُعائيں کريں کہ وہ اپنے رب کو پہچان ليں اور اس کا قُرب پاليں۔

اپنے گھروں ميں تمام افراد میں شکر کی عادت ڈاليں اور بچوں کو بھی بچپن سے شکر کرنا سکھائيں۔ الله نے جو دِيا ہے اُس پر قناعت کريں اور شکر بجا لائيں اور گھروں کو جنّت نظير بنائيں۔ ياد رکھيں خوبيوں کو ديکھنے اور گننے سے شکر کی توفيق ملتی ہے مگر عيبوں کو گننے سے نہيں۔ الله تعالیٰ شکر کرنے والوں کو مزيد نعمتیں عطا کرتا ہے ناشکری کرنے سے گھر تو گھر ملکوں سےبھی برکت اُٹھ جاتی ہے۔

الله تعالیٰ کرے کہ ہمارا شمار اُس کے شکر گزار بندوں ميں ہو۔ہم آنحضرت ﷺ کے اُسؤہ پر عمل کر کے دوسری قوموں کےلئے بھی نمونہ ٹھہريں۔ آمين


(طاہرہ زرتشت منیر۔ ناروے)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 مارچ 2020

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ