نہ ذکرِ دورئ منزل، نہ فکرِ جادہ کریں
یہ راہِ عشق ہے، طے اس کو پا پیادہ کریں
بفیضِ ساقئ کوثر مئے طہور پئیں
نہ شیخِ شہر سے اُلجھیں، نہ ترکِ بادہ کریں
سفر طویل ہے، اہلِ سفر نہ گھبرائیں
نظر بلند، قدم تیز، دل کشادہ کریں
یہ درس جس نے دیا تھا ’شہید زندہ ہیں‘
اسی مدرّسِ اعلیٰ سے استفادہ کریں
سلام بھیجا ہے کشمیر کے اسیروں نے
قدم بڑھائیں، توقُّف نہ اب زیادہ کریں
نہ ہاتھ اٹھانے کی جرأت ہو پھر کبھی اس کو
کچھ اس ارادے سے دشمن کو بے ارادہ کریں
بیادِ اہلِ وفائے چونڈہ و لاہور
قدم قدم پہ لڑیں، رقص جادہ جادہ کریں
(چودھری محمد علی مضطر ؔ)