• 27 اپریل, 2024

تزکیہ نفس کے امور

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’میں سچ کہتا ہوں کہ تم کسی کو اپنا ذاتی دشمن نہ سمجھو اور اس کینہ توزی کی عادت کو بالکل ترک کر دو۔ اگر خدا تعالیٰ تمہارے ساتھ ہے اور تم خدا تعالیٰ کے ہو جاؤ تو وہ دشمنوں کو بھی تمہارے خادموں میں داخل کر سکتا ہے۔ لیکن اگر تم خدا ہی سے قطع تعلق کئے بیٹھے ہو اور اس کے ساتھ ہی کوئی رشتہ دوستی کا باقی نہیں، اس کی خلاف مرضی تمہارا چال چلن ہے۔پھر خدا سے بڑھ کر تمہارا دشمن کون ہو گا؟ مخلوق کی دشمنی سے انسان بچ سکتا ہے لیکن جب خدا دشمن ہو تو پھر اگر ساری مخلوق دوست ہو تو کچھ نہیں ہو سکتا۔ اس لئے تمہارا طریق انبیاء ؐ کا سا طریق ہو۔ خدا تعالیٰ کا منشاء یہی ہے کہ ذاتی اعداءکوئی نہ ہوں۔

خوب یاد رکھو کہ انسان کو شرف اور سعادت تب ملتی ہے جب وہ ذاتی طور پر کسی کا دشمن نہ ہو۔ ہاں اللہ اور اس کے رسول کی عزت کے لیے الگ امر ہے۔ یعنی جو شخص خدا اور اس کےرسُول کی عزت نہیں کرتا بلکہ ان کا دشمن ہے اسے تم اپنا دشمن سمجھو۔ اس دشمنی سمجھنے کے یہ معنے نہیں ہیں کہ تم اس پر افتراء کرو اور بلا وجہ اس کو دکھ دینے کے منصوبے کرو۔ نہیں۔ بلکہ اس سے الگ ہو جاؤ اور خدا تعالیٰ کے سپرد کرو۔ ممکن ہو تو اس کی اصلاح کے لئے دعا کرو۔

یہ امور ہیں جو تز کیہ نفس سے متعلق ہیں۔ کہتے ہیں حضرت علی کرم اللہ وجہہ ایک دشمن سے لڑتے تھے اور محض خدا کے لئے لڑتے تھے۔ آخر حضرت علیؓ نے اس کو اپنے نیچے گِرا لیا اور اس کے سینہ پر چڑھ بیٹھے۔ اُس نے جھٹ حضرت علیؓ کے منہ پر تھوک دیا۔ آپ فوراً اس کی چھاتی پر سے اُتر آئے اور اسے چھوڑ دیا۔ اس لیے کہ اب تک تو میں محض خدا تعالیٰ کے لئے تیرے ساتھ لڑتا تھا لیکن اب جبکہ تو نے میرے منہ پر تھوک دیا ہے۔ تو میرے اپنے نفس کا بھی کچھ حصہ اس میں شریک ہو جاتا ہے۔ پس میں نہیں چاہتا کہ اپنے نفس کے لیے تمہیں قتل کروں۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اپنے نفس کے دشمن کو دشمن نہیں سمجھا۔ ایسی فطرت اور عادت اپنے اندر پیدا کرنی چاہئے۔ اگر نفسانی لالچ اور اغراض کے لئے کسی کو دُکھ دیتے اور عداوت کے سلسلوں کو وسیع کرتے ہیں تو اس سے بڑھ کر خدا تعالیٰ کو ناراض کرنے والی کیا بات ہو گی؟‘‘

(ملفوظات جلد 8 صفحہ105)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 13 مارچ 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 14 مارچ 2020