آنکھ پُر نم ہے دل ہے حزیں آج کل
تیرے در پر جھکی ہے جبیں آج کل
وہ جو دن رات کاموں میں مصروف ہے
دیں کی خدمت پہ ہر وقت معمور ہے
فکر جس کو محمدؐ کے پیغام کا
وقت جس کو نہیں کچھ بھی آرام کا
وقف تیرے لئے جس کے شام و سحر
رحمتیں رب کی ہوں میرے مسرور پر
پاس جس کے نہیں وقت اپنے لئے
بوجھ کاندھوں پہ اپنے اٹھائے ہوئے
قوم و ملت کا غم ہے ستائے ہوئے
درد سینے میں سب کے چھپائے ہوئے
درد ہے اور اینٹھن سے دو چار ہے
دیں کی خدمت کو پھر بھی وہ تیار ہے
تیری الفت میں ہر دم وہ سرشار ہے
تیرے دیں کا جفاکش وہ سالار ہے
دوست انسانیت کا ہے دمساز ہے
کچھ طبیعت پیاروں کی ناساز ہے
ہم تو کمزور ہیں سخت لاچار ہیں
تُو تو شافی ہے قادر ہے مختار ہے
اپنے فضلوں سے کامل شفا کر عطا
اپنی تائید و نصرت اُسے کر عطا
دکھ سے تسکین و راحت عطا ہو اسے
منزلوں کی طرف آگے بڑھتا رہے
دشمنِ دین جلتا ہے جلتا رہے
نازؔ ! کے ہاتھ اُٹھے ہیں دعا کے لئے
لب پہ بھی التجا ہے اُسی کے لئے
عمر و صحت کی دولت عطا کر اسے
اپنی تائید و نصرت عطا کر اسے
(طاہرہ زرتشت نازؔ۔ناروے)