• 29 اپریل, 2024

اللہ کو قرض دینے کا مفہوم

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
’’ایک نادان کہتا ہے کہ مَنۡ ذَا الَّذِیۡ یُقۡرِضُ اللّٰہَ قَرۡضًا حَسَنًا (البقرہ:246) کون شخص ہے جو اللہ کو قرض دے۔اس کا مفہوم یہ ہے کہ گویا معاذ اللہ خدا بھوکا ہے ۔احمق نہیں سمجھتا کہ اس سے بھوک ہونا کہاں سے نکلتا ہے؟ یہاں قرض کا مفہوم تو اصل یہ ہے کہ ایسی چیزیں جن کے واپس کرنے کا وعدہ ہوتا ہے۔اس کے ساتھ افلاس اپنے سے لگا لیتاہے۔ یہاں قرض سے مرادہے کہ کون ہے جو خداتعالیٰ کو اعمال صالحہ دے۔ اللہ تعالیٰ اس کی جزا اسے کئی گناہ کر کے دیتا ہے۔ یہ خدا کی شان کے لائق ہے جو سلسلہ عبودیت کاربوبیت کے ساتھ ہے۔ اس پر غور کرنے سے اس کا یہ مفہوم صاف سمجھ میں آجاتا ہے۔ کیونکہ خدا تعالیٰ بدوں کسی کی نیکی، دعا اور التجا اور بدوں تفرقہ کا فر مومن کے ہر ایک کی پرورش فرما رہا ہے اور اپنی ربوبیت اور رحمانیت کے فیض سے سب کو فیض پہنچا رہا ہے۔ پھر وہ کسی کی نیکیوں کو کیوں ضائع کرے گا؟ اس کی شان تو یہ ہے۔ مَنۡ یَّعۡمَلۡ مِثۡقَالَ ذَرَّۃٍ خَیۡرًا یَّرَہٗ (الزلزال:8) جو ذرہ بھی نیکی کرے اس کا بھی اجر دیتا ہے اور جو ذرہ بدی کرے گا۔اس کی پاداش بھی ملے گی۔یہ ہے قرض کا اصل مفہوم جو اس آیت سے پایا جاتا ہے،چونکہ اصل مفہوم قرض کا اس سے پایا جاتا ہے۔اس لئے یہی کہہ دیا مَنۡ ذَا الَّذِیۡ یُقۡرِضُ اللّٰہَ قَرۡضًا حَسَنًا (البقرہ:246) اور اس کی تفسیر اس آیت میں موجود ہے مَنۡ یَّعۡمَلۡ مِثۡقَالَ ذَرَّۃٍ خَیۡرًا یَّرَہٗ (الزلزال:8)۔‘‘

(ملفوظات جلداوّل صفحہ209)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 مارچ 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 مارچ 2020