• 9 جولائی, 2025

دعاگو، منکسرالمزاج اور درویش صفت خادم سلسلہ مکرم الحاج مولوی محمد شریف واقف زندگی

خاکسار کے بڑے تایا جان مکرم الحاج مولوی محمد شریف واقف زندگی سابق اکاؤنٹنٹ جامعہ احمدیہ ربوہ منکسر المزاج، سادہلوح، دعاگو اور درویش صفت خادم سلسلہ تھے۔ آپ مورخہ 2مارچ 2001ء کو نیویارک امریکہ میں وفات پا گئے۔ آپ خدا کے فضل سے موصی تھے۔ آپ کی تدفین بہشتی مقبرہ ربوہ میں ہوئی۔

آپ 5۔اکتوبر 1922ء کو مانگٹ اونچا تحصیل وضلع حافظ آباد (سابقہ گوجرانوالہ) میںپیدا ہوئے۔ آپ کے والد میاں پیر محمد صوفی منش درویش بزرگ اور تجارت کے پیشہ سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ سالہاسال تک گاؤں کی مسجد کے امام رہے اور آپ کی اہلیہ محترمہ زینب بی بیؓ بنت حضرت میاں فتح الدین گوندل ساکن پیر کوٹ ثانی صحابیہ حضرت مسیح موعودؑ (مدفون قطعہ صحابہ بہشتی مقبرہ ربوہ) تھیں۔ آپ کی والدہ نے گاؤں کے سینکڑوں بچوں اور بچیوں کو قرآن کریم کی تعلیم سے آراستہ کیا۔ یوں آپ ایک نیک اور مذہبی احمدی گھرانے میں بڑھے پلے۔

خاندان میں احمدیت پیر کوٹ اور مانگٹ اونچے کے صحابہ کے ذریعہ آئی۔ مولوی محمد شریف کے تایا حضرت مولوی فضل الدین آف مانگٹ اونچا نے 1904ء میں بیعت کی اور آپ مبلغ سلسلہ کے طور پر یوپی اور حیدر آباد دکن میں بھی خدمات بجالاتے رہے۔ آپ کے حالات زندگی پر ایک مختصر کتابچہ مکرم سیٹھ عبداللہ الہٰ دین آف حیدر آبادنے شائع کیا تھا۔ آپ کے ایک پوتے مکرم رضوان احمد شاہد مربی سلسلہ ہیں۔

خاکسار کے دادا اور مولوی محمد شریف صاحب کے والد میاں پیر محمد اپنے بھائی صاحب کے قبول احمدیت کے ساتھ ہی ایمان لے آئے لیکن بھائی کے انتظار اور دیگر وجوہ کی وجہ سے قادیان نہ جا سکے اوراس دوران حضرت مسیح موعودؑ کی وفات ہو گئی۔ 1910ء میں آپ گاؤں سے پیدل قادیان کے لئے روانہ ہوئے اور حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی دستی بیعت کی اور قادیان میں کبارصحابہ کی شاگردی اختیار کی اور پھر تعلیم وتربیت کا کام گاؤں آکر ساری عمر بجا لاتے رہے۔ آپ 1989ء میں فوت ہوئے اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہیں۔ آپ نے اپنی ساری اولاد کی تعلیم وتربیت کا خصوصی اہتمام کیا اور آج خدا کے فضل سے آپ کی اولاد در اولاد مختلف علوم وفنون میںاعلیٰ مقام پراور خدمت دین بھی کر رہی ہے۔

مولوی محمد شریف نے ابتدائی تعلیم گاؤں اور حافظآباد سے حاصل کی اور پھر پرائمری کے بعد مدرسہ احمدیہ قادیان میں داخل ہو گئے۔ آپ کے دوسرے بھائی مکرم چوہدری سلطان احمد طاہر آف کراچی اور خا کسار کے والد مکرم چوہدری محمد صادق واقف زندگی بھی قادیان میں تعلیم پاتے رہے۔ 1942ء میں مولوی صاحب نے مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا اور وقف کے لئے پیش کر دیا۔ جب تک وقف کی منظوری نہیں آئی جنگ عظیم دوم کے زمانہ میں فوج میں بھرتی ہو گئے۔ اور چار سال تک ملٹری میں ملازم رہے۔

1946ء میںآپ کا وقف منظور کر لیا گیا اور ہدایت ہوئی کہ ملٹری سے فارغ ہو کر دفترتحریک جدید میں حاضری دیں۔ آپ نے درخواست دی کہ ملٹری سے فراغت کے لئے دفتر مدد کرے چنانچہ دفتری چٹھی سے فراغت منظور ہوئی۔ آپ کوتحریک جدید میں حاضری دینے کے بعد افریقہ میں مربی کے طور پر بھجوانے کے لئے تقرر ہوا۔دریںاثنا بر صغیر کی تقسیم ہو گئی اور ہجرت کے دور سے گزرنا پڑا۔ پاکستان میں جب دوبارہ تقرری ہوئی تو بیماری کی وجہ سے آپ نہ جا سکے اور آپ کو تحریک جدید کے دفاتر میں تعینات کردیا گیا۔ پہلے وکالت دیوان پھر دفتر آڈیٹر اور پھر 1958ء سے مستقل طور پر اکاؤنٹنٹ جامعہ احمدیہ کے طور پر خدمات پر مامور کیا گیا اور یہاںسے ہی آپ ریٹائر ہوئے۔

مکرم حاجی محمد شریف کی شادی حضرت مسیح موعودؑ کے جلیل القدر اور حضرت مسیح موعودؑ کی دعاؤں سے لمبی زندگی کا اعجاز پانے والے صحابی حضرت میاں فضل محمد ہرسیاں والے (مدفون بہشتی مقبرہ ربوہ) کی چھوٹی بیٹی مکرمہ صادقہ بیگم سے قادیان میں ہوئی۔ آپ کواللہ تعالیٰ نے پانچ بیٹے اور دو بیٹیاں عطا کیں۔ خدا کے فضل سے آپ کی اولاد اعلیٰ تعلیم یافتہ اور خدمت دینیہ کی توفیق پا رہی ہے۔ آپ کے ایک بیٹے مکرم وسیم احمد ظفر مربی سلسلہ ہیں۔ سب سے چھوٹے بیٹے مکرم ڈاکٹر کریم احمد شریف نیویارک میں ہیں۔ آپ کی اولاد امریکہ میں مقیم ہے۔جلسہ سالانہ امریکہ کے موقع پر لنگرخانہ میںآپ کے بیٹوں کو غیر معمولی خدمت کی توفیق آغاز لنگر امریکہ سے مل رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کی اولاد کو اپنے بزرگوں کی نیک روایات کو زندہ رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

آپ کو جنوری 1974ء میں فریضہ حج کی ادائیگی کی سعادت نصیب ہوئی۔ آپ کے ساتھ آپ کی والدہ محترمہ زینب بی بی بھی مقدس فریضہ کی بجا آوری کے لئے تشریف لے گئیں۔

خدا کے فضل سے کئی احمدیوں نے یہ فرض ادا کیا اور جملہ مناسک بجا لائے۔ ایک معاند احمدیت کی رپورٹ پرآپ کو حراست میں لے لیا گیا اور آپ کو قید وبند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔ آپ کی والدہ کو بھی شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑا اور آپ موت وحیات کی کشمکش میں سے گزرے۔ اس دوران آپ عبادت الہٰی، تلاوت قرآن اور قصیدہ یا عین فیض اللّٰہ پڑھنے میں مصروف رہا کرتے۔ اور عدالت کے قاضی کو بڑے دلائل کے ساتھ جواب دیتے۔ آپ نے یہ بھی درخواست عدالت میں کی کہ اگر مجھے سزائے موت دے دی گئی تو میر ی میت کو میرے وطن بھجوا دیا جائے۔
آپ کو بحث ومباحثہ عدالت کے دوران یہ گمان ہو گیا تھا کہ عدالت آپ کو سزائے موت دے دے گی۔ اس کے بعد آپ نے اپنے بیوی بچوں کے نام ایک وصیت نامہ تحریر کیا جو اپنی والدہ محترمہ کو دے دیا۔ آپ نے تحریر کیا:

میرے متعلق میرے کمرے کے ایک غیر احمدی جو ہمارے ساتھ رہتے ہیں۔ حکومت کو رپورٹ کر دی کہ یہ احمدی ہے اور حکومت سعودی عرب نے مجھے رات عشاء کی نماز کے بعد قرآن مجید پڑھتے ہوئے پکڑ لیا۔ قرآن مجید مجھ سے چھین لیا۔(میں قرآن مجید مسجد حرام میں مقام ابراہیم کے پاس بیٹھ کر پڑھ رہا تھا) مجھے حرم کی پولیس میںلے گئے۔ وہاںبیان لیا گیا۔ اور اس کے بعد مجھے جیل پہنچا دیا گیا۔ دوسرے دن والدہ صاحبہ بھی میرے ساتھ شامل ہو گئیں۔ ہمیں عدالت میںلے جایا گیا۔ بیان لیا گیا۔ اس کے بعد قاضی نے کہا کہ یا تو تم احمدیت سے توبہ کر کے مسلمان ہو جاؤ ورنہ تمہاری سزا قتل ہے۔ میں خدا تعالیٰ کے فضل سے اپنے بیان پر قائم ہوں ۔یہاں کا قانون بڑا سخت ہے میر اخیال یہی ہے کہ مجھے قتل کر دیاجائے گا۔ میں آپ کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کرتا ہوں۔

میری رفیقۂ حیات آپ میری تمام خطاؤں کو معاف کر دیں، میری موت پر ماتم نہ کریں۔ یہ میری آپ کو وصیت ہے۔ میری بیٹی کا نکاح کر دینا۔ میری تمام بیٹوں کو وصیت ہے کہ وہ تمام نمازیں باجماعت ادا کرنے کی کوشش کیا کریں اور وہ احمدیت کے بہادر اور جاں باز سپاہی بنیں اور احمدیت کی خاطر اپنی جان کی قربانی دینے سے ہرگز ہرگز گریز نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ سب کا حافظ وناصر ہو۔ تمام رشتہ داروں کو فرداً فرداً سلام پہنچا دیں۔حضور کی خدمت میں بھی میرا سلام پہنچا دیں۔

والسلام
محمد شریف

(بحوالہ عالمگیر برکات مامورزمانہ از مولانا عبدالرحمٰن مبشر ص255)

عدالت میں پیشی کے دوران آپ کوموقع دیا گیا ۔لیکن آپ نے اپنے خدا سے کیا ہوا عہد نبھایا اور اپنے مؤقف پرقائم رہے۔ حضرت مسیح موعودؑ کے خلاف سخت دشنام دہی پر بھی اکسایا گیا اور آپ کے سامنے دشنام دہی کی بھی گئی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو صبر واستقامت کی توفیق بخشی۔
قید کے حالات کا تذکرہ کرتے ہوئے مولوی محمدشریف تحریر کرتے ہیں کہ:

’’جب مجھے مکہ معظمہ کی جیل کے کمرہ میں تنہا بند کر دیا گیا۔ تو میں نے جیل کے کمرہ میں داخل ہوتے ہی جیل والوں سے قرآن مجید طلب کیا۔ چنانچہ مجھے قرآن مجید مہیا کر دیاگیا۔ میں جیل کے کمرہ میں اکیلا ہی تھا۔ اللہ تعالیٰ کی ذات کے سوا میرا اور کوئی ساتھی نہ تھا۔ فرصت کے اوقات میں قرآن مجید کی تلاوت کرکے اپنی گھبراہٹ دور کر لیتا تھا۔ جیل میں مجھے روزانہ تین وقت کھانا دیا جاتا تھا۔ مکہ معظمہ کی جیل میں خوراک اچھی ملتی رہی۔ میں نمازیں نہایت خشوع وخضوع کے ساتھ ادا کرتا تھا۔ اور مجھے سلسلہ احمدیہ کی ترقی اور احباب جماعت نیز اپنے لئے اور رشتہ داروں کے لئے خوب دعائیں کرنے کا موقعہ ملا۔

پورے ایک ماہ کے بعد مجھے مکہ معظمہ کی جیل سے رہا کر کے جدہ پہنچا دیا گیا۔ اور وہاں کی جیل میں انفرادی کمرے میں بند کر دیا گیا۔ یعنی میرے ساتھ کوئی اور قیدی نہیں تھا۔ وہاں بھی میں نے جاتے ہی قرآن مجید حاصل کر لیا۔ اور روزانہ قرآن مجید کی تلاوت کر کے اپنا دل بہلا لیتا تھا جدہ کی جیل کا انتظام نہایت ناقص تھا۔ اور خوراک بھی نہایت ناقص تھی۔ زیادہ تر مسور کی دال کھانے کو دی جاتی تھی۔ جس کی وجہ سے میرے ناک سے خون جاری ہو گیا۔

25۔اپریل کو مجھے جیل سے جدہ کے تھانے میں لے جایا گیا۔ مجھے ہتھکٹری لگائی ہوئی تھی۔ تھانہ پہنچ کر میرے شناختیکارڈ کے چھ فارموں پر دونوں ہاتھوں کی تمام انگلیوں کے نشان ثبت کئے گئے ۔ اس کے بعد لکڑی کی ایک تختی پر میر انام لکھ کر تختی میرے دونوں ہاتھوں میں پکڑا دی گئیں اور فوٹو لیا گیا۔

والدہ صاحبہ کو مکہ معظمہ کی عورتوں کی جیل میں رکھا گیا تھا۔ مجھے والدہ صاحبہ کے حالات کا کوئی علم نہیں تھا اور والدہ صاحبہ کو میرے متعلق کچھ علم نہ تھا۔ آخر 2مئی کو قریباً ڈیڑھ ماہ کے بعد جدہ میں میری اور والدہ صاحبہ کی آپس میں ملاقات ہوئی تھی۔ اس دن مجھے اور والدہ صاحبہ کو جیل سے رہا کر کے مکہ معظمہ بھجوادیا گیا کیونکہ ہمارے پاسپورٹ مکہ معظمہ میں تھے۔ جیل سے رہائی کے بعد ہمیں ایک شخص سے معلوم ہوا کہ آخری جہاز جدہ سے 13مئی کو پاکستان جانے کے لئے روانہ ہو رہا ہے۔

(عالمگیر برکات مامور زمانہ ص257)

اپنی واپسی پاکستان کی روئیداد لکھتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ:

’’جیل سے ہمیں سیدھا جدہ کی بندرگاہ پاکستان جانے کے لئے حکم ہوا۔ ہم نے کہا کہ ہمارا سامان جیل کے باہر پڑا ہے چنانچہ وہاں سے سامان لیا گیا اور ہمیں بندرہ گاہ پہنچایا گیا۔ وہ آخری جہاز تھا جو 14مئی کو جدہ سے چلا اور اس جہاز میں ہم واپس پاکستان پہنچ گئے۔ ہمارا ترجمان بہت اچھا آدمی تھا۔ اس نے مجھے کہا کہ مجھے آپ کے استقلال پر رشک آتا ہے۔ آپ نے دین کی خاطر قید ہو کر بزرگوں کی سنت تازہ کر دی ہے۔

اللہ کے فضل سے مجھے خدام الاحمدیہ کا عہد نبھانے کی توفیق ملی۔ وہ عہد یہ ہے کہ میں اقرار کرتا ہوں کہ دینی اور ملی مفاد کی خاطر میں اپنی جان، مال، وقت اور عزت کو قربان کرنے کے لئے ہر دم تیار رہوں گا۔

میرا جو فوٹو لیا گیا تھا وہ ماہ اکتوبر کے رسالہ چٹان میں جس کے ایڈیٹر شورش کاشمیری تھے شائع کیا گیا۔ فوٹو میں حرم کے سپاہی نے میری ہتھکڑی پکڑی ہوئی ہے۔ فوٹو کے نیچے لکھا ہے ’’جامعہ احمدیہ کا اکاؤنٹنٹ محمد شریف جنہیں مکہ مکرمہ کی عدالت نے کافر قرار دے کر جیل بھجوادیا‘‘۔

(الفضل انٹرنیشنل 26۔اپریل 1996ء)

حالت اسیری کی داستان پڑھنے کے بعد مولوی محمدشریف کے اوصاف حمیدہ اور ایمانی قوت اور استقامت کا واضح اظہار ہو جاتا ہے کہ قید تنہائی اور وطن و اہل و عیال سے دور کس طرح آپ کو اس جانکاہ قید سے گزرنا پڑا۔ آپ کی دعاؤں اور استقامت کے نتیجہ میں آپ کی رہائی ہوئی اور آپ اپنے اہل وعیال کے پاس پہنچے۔

آپ خدا کے فضل سے واقف زندگی تھے اور وقف کے عہد کو نبھانا جانتے تھے اس کا ایک موقع تو آپ کی زندگی میں اسیری کی حالت میں آیا اور پھر ساری زندگی اپنے عہد کو نبھاتے رہے اور اپنے کام کو خلوص دل اور محنت شاقہ کے ساتھ کرتے رہے۔

آپ کی نماز باجماعت کی عادت اور اس میں دوام آپ کی شخصیت کا ایک نمایاں پہلو تھا۔ یہ سلسلہ آپ کی زندگی کے آخری لمحات میں بھی جاری رہا۔ ربوہ میں ہم دیکھا کرتے تھے کہ انتہائی اہتمام کے ساتھ نمازوں پر بروقت پہنچا کرتے ۔ اپنے اردگرد کی تمام بیوت الذکر کے اوقات معلوم تھے تا جس جگہ جانا ہو وہاں وقت نماز کابھی علم ہو۔ کسی کے ہاں جاتے یا کسی تقریب میں شریک ہوتے۔ نماز کی ادائیگی کا ہر وقت فکر کے ساتھ اہتمام کرتے۔سردیوں میں ہر نماز سے قبل پانی کو گرم کرنا اور پھر التزام اور انتظام کے ساتھ وضو کی تمام شرائط کے ساتھ وضو کرتے اور نماز پر تشریف لے جاتے۔ جب آپ نیویارک اپنے بچوں کے پاس تشریف لے گئے تو آپ نے نماز باجماعت کا اہتمام وہاں بھی جاری رکھا اور اپنے قریبی سنٹر میں جاتے اور اکثر نماز کی امامت بھی کرواتے اور یوں دنیا کے مصروف ترین شہر میں عبادت الہٰی کے اہتمام کو جاری رکھا اور اس میں کوئی ناغہ کا سوال نہیں ہو سکتا تھا۔ سفروں پر جاتے تو جس جگہ جاناہوتا یا مسجد کی تلاش ہوتی یا پھر گھر میں نماز باجماعت کا انتظام کرتے۔ یہ آپ کی سیرت کا ایک نمایاں پہلوہے۔

اپنے تمام قریب اور دور کے رشتہ داروں کے ساتھ میلملاقات اور ان کی غمی خوشی میں شمولیت آپ کا ایک نمایاں خلق تھا۔ ربوہ میں رہنے والے عزیزوں کے ہاں آپ باقاعدگی کے ساتھ ملنے کے لئے جایا کرتے تھے اور تمام رشتہ داروں کے حالات سے واقف رہتے تھے۔ آپ کی وجہ سے تمام عزیزوں کی خبریں بھی ایک دوسرے کومل جایا کرتیں اور ان کی خیریت کا سب کو علم ہو جاتا۔ ربوہ کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک آپ سائیکل پر رواں رہتے ہوئے اپنے عزیزوں اور جاننے والوں سے ملاقات رکھتے۔ امریکہ جانے کے بعد بھی یہ سلسلہ وہاں کے عزیزوں اور اقرباء سے میل ملاقات کے ذریعہ آپ نے قائم رکھا۔ کسی عزیز کے ہاں غمی یا خوشی کے موقع پر بعد مکانی کی وجہ سے آپ شرکت نہ کر پاتے تو خط کے ذریعہ آپ اس موقع پر شامل ہو جاتے۔

بچوں کے ساتھ انتہائی مشفقانہ سلوک فرمایا کرتے تھے۔ اور ڈانٹ ڈپٹ کے قائل نہ تھے۔ بلکہ پیار کے ساتھ سمجھایا کرتے۔ بچوں کے ساتھ گھل مل جانا اور ان کو دینی تعلیم سے آراستہ کرتے۔ نیویارک قیام کے دوران آپ نے یہ سلسلہ جاری رکھا اور بچوں کو دینی تعلیم دینے کا فریضہ ادا کیا۔
آپ کی طبیعت میں سادہ مزاج اور قناعت دونوں پہلو اجاگر تھے۔ بحیثیت واقف زندگی آپ نے عمر گزاری اور مختصر گزارہ الاؤنس میں بیشتر عمر گزری۔ کسی قسم کی نمود ونمائش اور تکلف کا شائبہ بھی نہ پایا جاتا تھا۔ جو مل جاتا اس پر شکر کرتے اور نہ ملنے کی حسرت یا خواہش دل میںپیدا نہیںہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے آپ کی اولاد کو دنیاوی آسائشوں سے بھی نوازا ہے اور وہ خوشحال زندگی گزار رہے ہیں۔

آپ مسواک کا استعمال باقاعدگی سے اہتمام کے ساتھ کرتے۔ آپ نے ربوہ میں تازہ مسواک حاصل کرنے کے لئے ایک ہتھیار بنایا ہوا تھا جسے عرف عام میں ’’ٹانگا‘‘ کہتے ہیں۔ روزانہ کیکر، نیم یا ٹاہلی کی مسواک حاصل کرتے تھے۔ اس عادت کے نتیجہ میں آپ کے دانت خدا کے فضل سے انتہائی مضبوط تھے۔ اور سخت سے سخت چیز بھی آپ توڑ لیا کرتے تھے۔ دانتوں کی یہ مضبوطی آخری وقت تک برقرار رہی۔

روزانہ سیر کی عادت تھی اور قیام امریکہ کے دوران یہ عادت مزید بڑھ گئی۔ ربوہ کے بعد نیویارک ایک بالکل نئی دنیا تھی۔ آپ روزانہ کئی کئی میل پیدل چلا کرتے اور نیویارک کا شاید ہی کوئی علاقہ ہو گا جس کو آپ نے سیر کے ذریعہ نہ دیکھا ہو۔ سِیرُوا فی الاَرض کے قرآنی حکم پر خوب عمل کیا اور جہاں آپ اپنے جسم کو چست و توانا رکھتے وہاں معلومات عامہ میں بھی اضافہ کرتے۔ اور اپنے سیر اور معلومات کے تجربات دوسروں تک بھی پہنچاتے تھے۔

اللہ تعالیٰ آپ کی مغفرت فرمائے، اعلیٰ علیین میں مقام عطا فرمائے۔ آپ کی نیک یادوں اور اعلیٰ اقدار کی حفاظت کرے آپ کی اولاد در اولاد کو حفاظت کرنے کی توفیق عطا کرے اور اللہ تعالیٰ جماعت کو نیک اور درویش صفت بزرگ عطاکرتا چلا جائے۔ آمین۔

آپ کی وفات پر آپ کے بیٹے ڈاکٹر کریم احمد شریف آف نیویارک نے ایک نظم لکھی جس کے اشعار پیش ہیں:۔

پیڑ کا سایہ بھی سنتے ہیں گھنا ہوتا ہے
باپ کا سایہ مگر اس سے سوا ہوتا ہے
وہ مناجاتِ شب و روز تو اب ختم ہوئیں
جن کے ہونے سے دفع شّرِ بلا ہوتا ہے
آج وہ شفقتیں وہ پیار وہ جنت ہے کہاں
یہ ملیں جس کو اسی کا تو خدا ہوتا ہے
زندگی وقف رہی دین محمدؐ کے لئے
اور سکھلایا عبادت میں مزا ہوتا ہے
راہِ مولیٰ میں سہی قید بہ ارض کعبہ
سب کو دکھلایا کہ حق یوں بھی ادا ہوتا ہے
موت سے ڈرنا ہے کیا حکمِ الہٰی مانو
جان سے بڑھ کر بھی ایمان بڑا ہوتا ہے
اپنی خاموش طریقت سے سکھایا مجھ کو
’’جس کا کوئی بھی نہیں اس کا خدا ہوتا ہے‘‘
تیرا محبوب تھا بندہ سو تجھی کو سونپا
حق کہاں ہم سے امانت کا ادا ہوتا ہے

(محمد محمود طاہر)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 مارچ 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 19 مارچ 2020