• 9 جولائی, 2025

اسلامی تعلیمات کی روشنی میں رزق حلال کی اہمیت و برکات

رزق کے لغوی معنی ’’عطا‘‘ کے ہیں خواہ دنیاوی عطا ہو یا اخروی۔ عربی زبان میں رزق اللہ تعالیٰ کی ہر عطا کردہ چیز کو کہا جاتا ہے۔ مال، علم، طاقت، وقت، اناج سب نعمتیں رزق میں شامل ہے۔ غرض ہر وہ چیز جس سے انسان کو کسی نہ کسی رنگ میں فائدہ پہنچتا ہو وہ رزق ہے۔ رزق کے ایک معنی نصیب بھی ہیں۔ جو غذا پیٹ میں جائے اس کو بھی رزق کہتے ہیں۔

دینی اصطلاح میں جائز ذرائع سے روزی کمانا رزقِ حلال کہلاتا ہے ۔ناجائز ذرائع سے حاصل کیا گیا مال دین کی نظر میں حرام ہے۔ ہمارا پیارا دین ہمیں یہ تاکید فرماتا ہے کہ تمہارا کھانا پینا نہ صرف ظاہری طور پر پاک و صاف ہو بلکہ باطنی طور پر بھی طیب و حلال ہو ۔جائز طریقے سے حلال روزی کمانا اور کھا نا اسی طرح فرض ہے جس طرح دوسرے ارکان دین پر عمل کرنا۔

آنحضرت ﷺ نے فرمایا ۔ تم میں سے جو شخص رسی لے کر جنگل میں جاتا اور وہاں سے لکڑیوں کا گٹھا اپنی پیٹھ پر اٹھا کر بازار میں لا کراُسے بیچتا ہے اور اس طرح اپنا گزارہ کرکے اپنی آبرو اور خودداری پر حرف نہیں آنے دیتا ۔وہ بہت ہی معزز ہے اور اس کا یہ طرز عمل لوگوں سے بھیک مانگنے سے ہزار درجہ بہتر ہے۔ نہ معلوم وہ لوگ اس کے مانگنے پر اسے کچھ دیں یا نہ دیں ۔

(بخاری کتاب الزکوٰۃ)

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضور ﷺ نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ فرائض کی طرح محنت کی کمائی بھی فرض ہے۔

(مشکوٰۃ)

حکمتوں کے بادشاہ ہمارے پیارے رسول حضرت محمد ﷺ کا فرمان اَلْکَاسِبُ حَبِیْبُ اللّٰہ یعنی حلال روزی کمانے والا اللہ تعالیٰ کا دوست ہوتا ہے اور طَلَبُ الْحَلَالِ جِھَادٌ حلال رزق طلب کرنا بھی جہاد ہے۔ آپؐ کے اِن فرمو دات عالی شان نے معاشرے میں کسبِ حلال اور محنت مزدوری کرنے والوںکی عظمت کو چار چاند لگا دئیےہیں۔

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پاکیزہ خوراک وہ ہے جو تم خود کما کر کھاؤ اور تمہاری اولاد بھی تمہاری عمدہ کمائی میں شامل ہے۔

(ترمذی ابواب الاحکام باب ان الوالدیاخذ مال والدہ)

حضرت مقداد ؓ بیان کرتے ہیں۔ کہ آنحضرتؐ نے فرمایا۔ اپنے ہاتھ سے کمائی ہوئی روزی سے بہتر کوئی روزی نہیں ۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے نبی حضرت داؤد ؑ اپنے ہاتھ کی کمائی کھایا کرتے تھے۔

(بخاری کتاب البیوع)

حضرت رافع بن خدیج ؓبیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ سے کسی نے پوچھا کون سا ذریعہ معاش بہترہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاتھ کی محنت، دستکاری اور صاف ستھری تجارت بہترین ذریعہ معاش ہیں۔

(مسند احمد بن حنبل جلد4صفحہ 141 نسخہ میمنیہ)

حضرت مصلح موعودؓنے مؤرخہ28 دسمبر 1937ء کو جلسہ سالانہ کے خطاب میں فرمایا:
’’آنحضرت ﷺ رزقِ حلال کے متعلق فرماتے ہیں اَلْعِبَادَۃُ عَشَرَۃُ اَجْزَاء … کہ خدا تعالیٰ کی عبادت کے دس حصے ہیں ایک حصہ عبادت کا تو نماز، روزہ، حج، اور زکوٰۃ ہے مگر عبادت کے نو حصے رزق حلال کھانا ہے۔

فرمایا: پھر کما کر گزارہ کرنا بھی اسلام کا جزو ہے۔ چنانچہ رسول کریم ﷺ کی خدمت میں ایک دفعہ صحابہ ؓ آئے اور انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ایک شخص رات دن عبادت میں لگا ہوا ہے فرمائیے وہ سب سے اچھا ہوا یا نہیں؟ انبیاء کا بھی کیسا لطیف جواب ہوتا ہے آپ ؐ نے فرمایا جب وہ رات دن عبادت میں لگا رہتا ہے تو کھاتا کہاں سے ہے؟ انہوں نے عرض کیا لوگ دیتے ہیں آپ ؐ نے فرمایا تو پھر جتنے اُسے کھانے پینے کے لئے دیتے ہیں وہ سب اس سے بہتر ہیں۔

اسی طرح حدیثوں میں آتا ہے کہ ایک دفعہ رسول کریم ﷺ مجلس میں بیٹھے تھے کہ پاس سے ایک نوجوان گزرا جو نہایت لمبا، مضبوط اور قوی الجثہ تھا اور بڑی تیزی سے اپنے کسی کام کے لئے دوڑتا ہوا جارہا تھا۔ بعض صحابہ ؓ نے اسے دیکھ کر تحقیر کے طور پر کوئی ایسا لفظ کہا جس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ “جا تیرا برا ہو ‘‘اور کہا کہ اگر اس کی جوانی اللہ کے رستہ میں کام آتی تو کیسا اچھا تھا۔ رسول کریم ﷺ نے یہ سنا تو فرمایایہ کہنے کا کیا مطلب ہوا کہ تیرا برا ہو۔ جو شخص اس لئے تیزی سے کوئی کام کرتا ہے کہ اس سے اپنی بیوی کو فائدہ پہنچائے تو وہ خدا کی ہی راہ میں کام کررہا ہے اور جو شخص اس لئے دوڑتا اور پھرتی سے کام کرتا ہے کہ اپنے بچوں کے کھلانے پلانے کا بندوبست کرے تو وہ خد اہی کی راہ میں کام کررہا ہے۔ ہاں جو شخص اس لئے دوڑتا ہے کہ لوگ اس کی تعریف کریں اور اس کی طاقتوں کی داد دیں تو وہ شیطان کی راہ میں کام کرتا ہے مگر حلال روزی کے لئے کو شش کرنا اور کما کر گزارا کرنا توجہاد فی سبیل اللہ میں شامل ہے۔‘‘

قبولیتِ دعا کا بھی رزقِ حلال سے تعلق ہے۔ آنحضرت ؐ نے فرمایا ۔ ایک شخص جو آسمان کی طرف اپنے دونوں ہاتھ پھیلاکر یارب یارب پکار کر دعا کرتا ہے اور حال یہ ہے کہ اس کا کھانا پینا حرام، پہننا حرام اور حرام کھا کر وہ پلا ہے ۔پس اس صورت میں اس کی دعا کیسے قبول ہو سکتی ہے۔

(مسلم و ترمذی)

رزقِ حلال کمانے والے کو حضور نبی کریم ﷺ نے ان الفاظ میں خوشخبری دی۔ فرمایا: صادق اور امانت دار تاجر قیامت کے روز انبیاء، صدیقین اور شھداء کے ساتھ ہو گا۔

(ترمذی کتاب البیوع)

حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا۔ حرام اور حلال اشیاء واضح ہیں اور ان کے درمیان کچھ مشتبہ امور ہیں جن کو اکثر لوگ نہیں جانتے- پس جو لوگ مشتبہات سے بچتے رہتے ہیں وہ اپنے دین کو اور اپنی آبرو کو محفوظ کر لیتے ہیں اور جو شخص شبہات میں گرفتار رہتا ہے بہت ممکن ہے کہ وہ حرام میں جا پھنسے یا کسی جرم کا ارتکاب کر بیٹھے- ایسے شخص کی مثال بالکل اس چرواہے کی سی ہے جو ممنوعہ علاقے کے قریب قریب اپنے جانور چراتا ہے بالکل ممکن ہے کہ اس کے جانور اس علاقہ میں گھس جائیں- دیکھو ہر بادشاہ کا ایک محفوظ علاقہ ہوتا ہے جس میں کسی کو جانے کی اجازت نہیں ہوتی یاد رکھو اللہ تعالیٰ کا محفوظ علاقہ اس کے مَحَارِم ہیں اور سنو!انسان کے جسم میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے۔ جب تک وہ تندرست اور ٹھیک رہے تو سارا جسم تندرست اور ٹھیک رہتا ہے اور جب وہ خراب اور بیمار ہو جائے تو سارا جسم بیمار اور لاچار ہو جاتا ہے اور اچھی طرح یاد رکھو کہ یہ گوشت کا ٹکڑا انسان کا دل ہے۔

(بخاری کتاب الایمان باب فضل استبرا لدینہ- مسلم کتاب البیوع باب اخذ الحلال)

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔ اے رسولو! پاکیزہ چیزوں میں سے کھایا کرو اور نیک اعمال بجا لاؤ ۔جو کچھ تم کرتے ہو اس کا میں یقیناً دائماً علم رکھتا ہوں۔

(المؤمنون:52)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضور ﷺ نے فرمایا: ہر نبی نے قبل ازبعثت بکریاں چرائی ہیں۔ صحابہ رضوان اللہ نے عرض کیا کہ کیا رسول اللہؐ نے بھی؟ آپ ؐ نے فرمایا ہاں چند قیراط کے معاوضے پر میں مکے والوں کی بکریاں چرایا کرتا تھا۔

(بخاری کتاب ا لاجارۃ باب رعی الغنم علی قراریط)

حضرت آدم علیہ السلام کھیتی باڑی، حضرت ادریس علیہ السلام درزی کا کام اورحضرت موسیٰ علیہ السلام بکریاں چرانے کاکام کرتے تھے۔ حضرت صالح علیہ السلام اور حضرت ہود علیہ السلام تجارت کر کے گزارا کرتے تھے۔ ہمارے سیدومولیٰ حضرت محمد ﷺ نے بھی تجارت کا پیشہ اختیار فرمایا تھا۔

رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ لوگوں پر ایک ایسا زمانہ بھی آئے گا جبکہ آدمی یہ پرواہ نہیں کرے گا کہ وہ جو کچھ حاصل کررہا ہے آیا کہ وہ حلال ہے یا حرام ہے۔

(صحیح بخاری‘ سنن نسائی)

اللہ تعالیٰ کے نیک بندے رزق کے حصول میں بھی ہمیشہ تقویٰ کی راہوں پر قدم مارتے ہیں۔ آنحضرت ﷺ ہر لحظہ اپنے پروردگار کی خشیت میں بسر کرتے تھے۔ فرماتے ہیں کہ میں بسا اوقات گھر میں ایک کھجور پڑی ہوئی پاتا ہوں، بھوک کی وجہ سے اٹھا کر کھانے لگتا ہوں پھر خیال آتا ہے کہ صدقہ کی نہ ہو اور وہیں رکھ دیتا ہوں۔

(صحیح بخاری کتاب اللقطۃ باب اذا وجد تمرۃ فی الطریق)

ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ ابوبکر ؓ کا ایک غلام تھا جو ان کی کمائی ان کو دیا کرتاتھا اور ابوبکر وہ کمائی اپنے استعمال میں لاتے تھے۔ ایک دن وہ کوئی چیز لایا تو ابوبکر ؓ نے اس میں سے کھایا۔ بعد میں غلام نے کہا آپ کو معلوم ہے یہ کیا تھا؟ اس پر ابوبکر نے کہا بتائیں کیا تھا۔ اس پر اس نے بتایا کہ زمانۂ جاہلیت میں مَیں نے ایک شخص کو اپنے آپ کو کاہن ظاہر کرتے ہوئے دم وغیرہ کیا تھا حالانکہ مجھے یہ فن آتا نہ تھا صرف میری طرف سے یہ ایک دھوکہ دہی تھی۔ آج وہ مجھے ملا تھا اور اس نے اس دم کا مجھے معاوضہ دیا تھا جو یہ تھا جو ابھی آپ نے کھایاہے۔ اس پر ابوبکر ؓنے اپنا ہاتھ منہ میں ڈالا اور جو کچھ کھایا پیا تھا اس سب کی قے کر د۔

(بخاری کتاب فضائل الصحابۃ ۔ باب ایام الجاھلیۃ)

حضرت ابوعبیدۃ بن الجراح رضی اللہ عنہ مسلم فوج کے سپہ سالار تھے۔ آپ نے حمص وغیرہ کے کئی علاقے فتح کئے۔ یہودیوں اور عیسائیوں سے جزیہ اور خراج وصول کر کے انہیں مثالی عدل وانصاف مہیا کیا جس سے وہ بے حد خوش تھے اوردینی سلطنت کی خوبیوں کے گیت گاتے تھے۔ لیکن بوجوہ مسلم کمانڈر کو مفتوحہ علاقے خالی کرکے دمشق واپس جانا پڑا۔ حضرت ابوعبیدۃ بن الجراح رضی اللہ عنہ کا یہ تقویٰ ہی تو تھا کہ واپس جانے سے قبل آپ نے وصول شدہ جزیہ اور خراج کی ایک ایک پائی کا حساب کر کے لاکھوں کی رقم غیر مسلموں کو واپس کردی کہ اب ہم آپ کی حفاظت اور خدمت نہیں کر سکیں گے اس لئے اس ٹیکس پر ہمارا کوئی حق نہیں ہے۔ مسلمانوں کی وہاں سے رخصتی کے وقت مقامی غیر مسلم روتے ہوئے یہ دعائیں دے رہے تھے کہ خدا تم کو پھر واپس لائے کہ آپ جیسا انصاف ہمیں اپنے بھی نہ دے سکے۔

(فتوح البلدان اردوص 144-143 از:ابو الحسن احمد بن یحیٰی)

حضرت حاجی غلام احمد صاحب آف کریام فرماتے ہیں کہ: ان ہی دنوں کا ذکر ہے کہ ایک احمدی اور ایک غیر ازجماعت نمبردار ایک گاؤں کو جا رہے تھے۔ یہ پرانی بات ہے۔ موسم بہار تھا۔ چنے کے کھیت پکے تھے۔ احمدی نے راستے میں ایک ٹہنی توڑ کر منہ میں چنا ڈالا۔ پھرمعاً یہ خیال آنے پر تھوک دیا اور توبہ توبہ پکارنے لگا کہ پرایا مال منہ میں کیوں ڈال لیا۔ اس کے اس فعل سے نمبردار مذکور پر بہت اثر ہوا۔ و جہ اس کی یہ تھی کہ وہ احمدی احمدیت سے پہلے ایک مشہور مقدمے باز، جھوٹی گواہیاں دینے والا، رشوت خور تھا۔ بیعت کے بعد اس کے اندر اتنی جلدی تبدیلی دیکھ کر کہ وہ پابند نماز، قرآن کی تلاوت کرنے والا اور جھوٹ سے مجتنب رہنے والا بن گیا ہے، نمبردار مذکور نے بیعت کر لی اور اس کے خاندان کے لوگ بھی احمدی ہو گئے۔

حضرت منشی برکت علی خاں صاحب صحابی حضرت مسیح موعودؑ شملہ میں ملازم تھے۔ احمدی ہونے سے پہلے انہوں نے ایک لاٹری ڈالی ہوئی تھی وہ لاٹری نکلی تو ساڑھے سات ہزار کی رقم ان کے حصے میں آئی۔(اس زمانہ میں)۔ انہوں نے حضورؑ سے پوچھا تو حضورؑ نے اسے جؤا قرار دیا اور فرمایا اپنی ذات میں ایک پیسہ بھی خرچ نہ کریں۔ حضرت منشی صاحب نے وہ ساری رقم غرباء اور مساکین میں تقسیم کردی۔

اسلام میں رزق حلال اختیار کرنے پر بہت زور دیا گیا ہے۔ رزق حلال سے عبادت میں خشو ع و خضوع دعاؤں میں قبولیت پیدا ہوتی ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر ہ العزیز فرماتے ہیں۔
اس بات کو کوئی معمولی بات نہ سمجھیں۔ عزت اور وقار اسی میں ہے کہ خود محنت کرکے کمایا جائے۔ اور امدادوں یا وظیفوں کو کبھی مستقل آمدنی کا ذریعہ نہیں بنانا چاہئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بات کو ہمیشہ مدنظر رکھیں کہ خداتعالیٰ کے مقرر کردہ فرائض کی طرح محنت کی کمائی بھی فرض ہے۔آپؐ نے فرمایا کہ جہاں اللہ تعالیٰ کے اور بہت سے فرائض ہیں ان میں یہ بھی فرض ہے کہ محنت کرکے کماؤ اورکھاؤ۔

(حافظ عبدالحمید)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 20 مارچ 2020

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ