حضرت چوہدری بدرالدین رضی اللہ عنہ ولد چوہدری کندو خاں صاحب راہوںضلع جالندھر کے رہنے والے تھے۔ 1905ء میں قبول احمدیت کی توفیق پائی۔ ہجرت کر کے قادیان آگئے تھے اور محلہ دار البرکات میں رہائش رکھی۔ قادیان میں بطور کارکن نظارت دعوت و تبلیغ خدمت بجا لاتے رہے۔ آپ کے پوتے مکرم بشیر الدین احمد حال باب الابواب ربوہ بیان کرتے ہیں کہ آپ کا نام پہلے بدر بخش تھا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بدل کر بدر الدین رکھ دیا۔ راہوں کے مضافاتی گاؤں اوڑھ میں آپ کی اچھی خاصی زرعی اراضی تھی۔
احمدیت سے تعارف اور پھر اس کی قبولیت کا حال بیان کرتے ہوئے آپؓ فرماتے ہیں:
’’خاکسار بہت چھوٹی عمر سے صراطِ مستقیم کی تلاش میں ٹھوکریں کھاتا ہوا اہل حدیث اور شیعیّت سے چل کر آریہ اور دہریہ عقائد کے تلاطم میں غوطے کھا رہاتھا۔قریب تھا کہ بحرِ ضلالت وگمراہی میں غرق ہوجائے پیارے رب اکبر نے جس کی صفت وثناء تحریر کرنا میری طاقت اور لیاقت سے بہت ہی بالا ہے۔ اپنے فضل اور رحم کا ہاتھ بڑھا کر ڈوبتے کو تھام لیا۔یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور لیکھرام آریہ کا مباہلہ میرے تک پہنچا دیا۔ قریباً 1903ء ہوگا۔ میں نے جس وقت حضرت مسیح موعودؑ کا مضمون پڑھا میرے مردہ جسم کے اندر بجلی کی طرح زندگی کی روح داخل ہوگئی۔اس روز سے سارے خیالات ترک کرکے حضورؑ کی تحریر وتقریر کا شیدائی بن گیا۔ (جو احباب اس راہ میں میرے ممداور معاون ہوئے اللہ تعالیٰ ان پر بڑے بڑے فضل فرمائے۔) اس کے بعد ایک عرصہ تحصیل میں صَرف کرکے اور اس معاملہ کے ہر پہلو پر غور کرکے صداقت کا قائل ہوگیا۔ عملی قدم اٹھاتے وقت قسم قسم کے خطرات او رمشکلات کا بھیانک منظر سامنے آیا کمزوری سے اپنے دل میں یہ فیصلہ کرلیا کہ صداقت کو تو معلوم کرلیا ہے اب خاموش ہوجانا چاہئے۔ لوگوں کے پاس ظاہر کرکے مشکلات میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے اور خاموش ہوگیا۔ خاموش ہوجانے کے بعد جن کاموں کے خراب ہوجانے سے خاموشی اختیار کی تھی وہ خراب ہی ہونے شروع ہوگئے اورایک کے سوا سب کے سب خراب ہوگئے۔ وہ ایک کام جو ابھی خراب نہیں ہوا تھا وہ میرے والد مرحوم کاسُود درسُود کا قرضہ تھا۔اس کے متعلق یہ ڈر تھا کہ احمدی ہوجانے کے بعد ساہوکارمجھے بہت ذلیل کرے گا۔جب صرف یہی کام خراب ہونے سے باقی رہ گیا تو مجھے یہ یقین ہوگیا کہ عنقریب یہ بھی خراب ہوگا۔میں نے ہرچہ بادا باد کہہ کر اللہ تعالیٰ کے بھروسہ پر بیعت کا خط لکھ دیااور اعلان کردیا۔
پس اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے فضل کے دامن میں چھپا لیا اور مسیح موعود علیہ السلام کے حضور حاضر ہو کر بیعت کرلی اور مکرمی شیخ عرفانی صاحب کے ذریعہ خاص ملاقات کرکے استقلال کے لئے دعا کی درخواست کی۔ حضرت مسیح موعودؑ نے تبسم فرماتے ہوئے ’’اچھا بھئی دعا کریں گے‘‘۔ بیعت کرنے کے بعد حضرت مولوی نورالدین صاحب رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اور آپ کے خوش ہونے کا کیا ذریعہ ہے تو انہوں نے فرمایا کہ میں تو اپنے خوش ہونے کا ذریعہ پوچھنے سے ہی خوش ہوگیا۔ حضرت صاحبؑ کے خوش ہونے کا ذریعہ یہ ہے کہ بار بار ان کے حضور خط لکھا جائے۔ پس حکیم جسمانی اور روحانی (یعنی خلیفۂ اول رضی اللہ تعالیٰ) کا بتایا ہوا یہ نُسخہ میں نے اس التزام کے ساتھ پکڑا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں بے تعداد خطوط لکھے۔ میری کثرتِ خطوط کو حضرت مفتی محمد صادق صاحب نےؔ اخبار بدر میں بھی ذکر کیا ہے۔ مجھے اس وقت حوالہ یاد نہیں ہے کہ اس کے بعد چند روز کے لئے پھر قادیان میں حاضر ہوکر حضرت صاحبؑ کی زیارت سے دوبارہ مشرف ہوا۔ دونوں دفعہ حاضر ہونے کے وقت کی سُنی ہوئی چند باتیں تحریر کرتا ہوں۔
(1) ایک روز سیر میں جاتے ہوئے حضور نے فرمایا کہ مجھے قَدْ اَفْلَحَ مِنْ زَکّٰہَا وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰھَا کا ترجمہ شعر کے رنگ میں معلوم ہوا ہے۔
کوئی اس پاک سے جو دل لگاوے
کرے پاک آپ کو تب اُس کو پاوے
(2) اُن دنوں میں عبدالحکیم مُرتد نے اپنے خط میں لکھا تھاکہ مجھے بھی اِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ کا الہام ہوا ہے۔ حضرت صاحب اپنی مجلس میں بار بار اس پر زور دیتے تھے۔ دیکھو اس کے لئے کوئی پُر سش نہیں، کوئی مخالفت نہیں، و ہی دعویٰ کرکے میں تو واجب القتل اور وہی دعویٰ کرکے یہ (عبدالحکیم) بھلا مانس۔
(3) فیروز خاں نمبر دار (راہوں نے اُنہوں نے بھی اسی دن میرے ساتھ ہی بیعت کی تھی۔)خاص ملاقات کر کے عرض کیا کہ میں نے تو بیعت کرلی ہے میری دولڑکیوں کا رشتہ غیر احمدی لڑکوں سے مقرر ہوچکا ہے۔ میں اس نسبت کو جو بطور منگنی کے ہے توڑ نہیں سکتا حضور دعا فرمائیں کہ وہ لڑکے احمدی ہوجائیں۔حضور نے فرمایا کہ دعا کریں گے۔ چنانچہ ایک لڑکا تو احمدی ہوکر فوت ہوچکا ہے۔ دوسرا ابھی زندہ مگر سخت مخالف ہے۔ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں انجمن احمدیہ راہوں ضلع جالندھر کا سیکرٹری تھا۔ میں نے کوشش کی تھی کہ قادیان میں حضو ر کے قدموں میں پہنچ جاؤں مگر کامیابی حضورؑ کی حیات میں نہ ہوئی۔
1913ء میں حضرت خلیفہ اول رضی اللہ کے زمانہ میں قادیان میں آکر صدر انجمن احمدیہ کے مختلف شعبوں میں کام کرتا رہا۔زیادہ عرصہ مہتمم مہمان خانہ ولنگر خانہ رہاہوں او راس وقت دعوت تبلیغ میں بطور مبلغ کے دورۂ تبلیغ ساندھن ضلع آگرہ کا انچارج ہوں۔ ایسے موقع اور صورت کی تلاش میں ہوں کہ حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے ارشاد کے ماتحت سلسلہ کے لئے اپنی جان او رمال اور اولاد نثار کرکے جناب الہٰی کی رضا حاصل کروں۔ اللہ تعالیٰ مجھے توفیق عطا فرمائے اور خاتمہ بالخیر فرماوے۔ آمین۔
(رجسٹر روایات صحابہ نمبر 7 صفحہ 99 ,98)
روایات میں آپ نے حضرت مفتی محمد صادق ؓ کی طرف سے آپ کے کثرت خطوط کا ذکر کیا ہے، یہ ذکر حضرت مفتی محمد صادقؓ نے دورہ راہوں ضلع جالندھر کا احوال درج کرتے ہوئے کیا ہے، حضرت مفتی صاحبؓ لکھتے ہیں:
’’یہاں پر منشی بدر بخش صاحب محرر چونگی سے بھی ملاقات ہوئی جو اُن صاحبان میں سے ہیں جو حضرت اقدسؑ مسیح موعود کی خدمت اقدس میں دعاؤں کے واسطے خطوط لکھنے میں بہت ہی چست تھے۔ منشی صاحب ایک جوشیلے نوجوان ہیں۔‘‘
(بدر 17جون 1909ء)
آپ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی (وصیت نمبر 352) تھے اور 1/8 حصہ کی وصیت کی ہوئی تھی۔ مورخہ 9؍مارچ 1945ء کو بعمر 72 سال وفات پائی اور بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہوئے، اخبار الفضل نے خبر وفات دیتے ہوئے لکھا:
’’افسوس چودھری بدر الدین صاحب محلہ دار البرکات قادیان جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے، آج بعمر 72 سال وفات پاگئے، انا للّٰہ و انا الیہ راجعون۔ بعد نماز جمعہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے نماز جنازہ پڑھائی اور مرحوم کو بہشتی مقبرہ میں دفن کیا گیا۔ احباب بلندیٔ درجات کے لیے دعا فرمائیں۔‘‘
(الفضل 10مارچ 1945ء)
آپ کی اہلیہ کا نام محترمہ عطر بی بی تھا جنہوں نے مورخہ 26ستمبر 1952ء کو بعمر قریبًا 77 سال چنیوٹ میں وفات پائی اور بوجہ موصیہ (وصیت نمبر 913) ہونے کے بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئیں۔
(الفضل 10؍اکتوبر 1952ء صفحہ 2)
اولاد میں تین بیٹے تھے:
- مکرم چوہدری عطاء اللہ خان ٹیچر تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ (ان کے آگے دو بیٹے اور پانچ بیٹیاں)
- مکرم چوہدری قمر الدین محلہ دار الرحمت ربوہ سابق مینجر اشتہارات اخبار الفضل (ان کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں)
- مکرم چوہدری جمال الدین (ولادت: 1926ء۔ وفات:18مئی 1987ء مدفون بہشتی مقبرہ ربوہ) آپ نے جوانی میں قدم رکھتے ہی سلسلہ کے کاموں میں سرگرمی سے حصہ لینا شروع کر دیا۔ اپنے آپ کو رضاکارانہ طور پر حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی حفاظت پر معمور کر رکھا تھا، آپ کے خاندان میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی بعض ایسی نایاب تصاویر محفوظ ہیں جن میں آپ ڈیوٹی پر کھڑے نظر آرہے ہیں۔ تحریک وقف جدید کے آغاز پر حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے آپ کو زندگی وقف کر کے اس تحریک میں شامل ہونے کا ارشاد فرمایا چنانچہ آپ نے تمام زندگی وقف جدید کے تحت بطور مبلغ و معلم مختلف جماعتوں میں گزاری۔ لاٹھیانوالہ ضلع فیصل آباد میں وفات پائی اور بوجہ موصی ہونے کے بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئے۔وصیت نمبر 11291۔ ان کی اولاد میں تین بیٹے اور ایک بیٹی حیات ہیں۔
(غلام مصباح بلوچ ۔ کینیڈا)