پیشگوئیوں کی تمام علامات بڑے زور شور سے حضرت مسیح موعودؑ پر پوری اترتی ہیں
پرانی الہامی کتب، قرآن و حدیث اور حضرت مسیح موعودؑ کی کتب سےمسیح آخرالزمان کے زمانہ میں زلزلہ و آسمانی و زمینی آفات کے ظہور کی پیشگوئیاں
آخری زمانہ کے مصلح کی علامات بعض انبیاء نے بیان کی ہیں۔ ان میں کثرت سے آفات و حادثات کا واقع ہونا بھی شامل ہے۔ حضرت مسیح علیہ السلام فرماتے ہیں۔
’’خبردار کوئی تم کو گمراہ نہ کر دے۔کیونکہ بہتیرے میرے نام سے آئیں گے اور کہیں گے کہ میں مسیح ہوں اور بہت سے لوگوں کو گمراہ کریں گے اور تم لڑائیاں اور لڑائیوں کی افواہ سنوگے۔خبردار گھبرا نہ جانا ۔کیونکہ ان باتوں کا واقعہ ہونا ضرور ہے۔ لیکن اس وقت خاتمہ نہ ہو گا۔کیونکہ قوم پر قوم اور سلطنت پر سلطنت چڑھائی کرے گی اور جگہ جگہ کال پڑیں گے اور بھونچال آئیں گے لیکن یہ سب باتیں مصیبتوں کا شروع ہوں گی۔‘‘
(جدید عہد نامہ متی باب 24 آیت6 تا 9)
پھر ایک اور جگہ حضرت مسیحؑ فرماتے ہیں کہ
’’اور فوراً ان دنوں کی مصیبت کے بعد سورج تاریک ہوجائے گا اور چاند اپنی روشنی نہ دے گا اور ستارے آسمان سے گریں گے اور آسمانوں کی قوتیں ہلائی جائیں گی اور اس وقت ابن آدم کا نشان آسمان پر دکھائی دے گااور اس وقت زمین کی سب قومیں چھاتی پیٹیں گی اور ابن آدم کو بڑی قدرت اور جلال کے ساتھ آسمان کے بادلوں پر آتے دیکھیں گی۔‘‘
(جدید عہد نامہ متی باب 24 آیت30 ،29)
نئے عہد نامہ کی آخری کتاب مکاشفہ میں بھی مستقبل کے متعلق بہت سی پیشگوئیاں بیان کی گئی ہیں ۔باب پانچ اور چھ میں ایک ایسی کتاب کے متعلق کشف درج ہے جس کی سات مہریں ہیں اور اس کشف میں جب سات مہریں کھولی جاتی ہیں تو اس کے ساتھ مستقبل میں ہونے والے واقعات ظاہر ہوتے ہیں ۔چنانچہ جب چوتھی مہر کھولی تو ان میں آخری زمانہ میں رونما ہونے والے حوادث کا ذکر ہے۔ اس کے اصل الفاظ یوں ہیں۔
’’اور جب اس نے چوتھی مہر کھولی تو میں نے چوتھے جاندار کو یہ کہتے سنا کہ آ اور میں نے نگاہ کی تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک زرد سا گھوڑا ہے اور اس کے سوارکا نام موت ہے اور عالم ارواح اس کے پیچھے پیچھے ہیں اور ان کو چوتھائی زمین پر یہ اختیار دیا گیا کہ تلوار اور کال اور وبا اور زمین کے درندوں سے لوگوں کو ہلاک کریں۔‘‘
(جدید عہد نامہ مکاشفہ باب6 آیت8، 7)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں پیشگوئیوں کے مطابق کثرت سے آفات و حوادث کا ظہور ہوا۔بڑے بڑے زلازل آئے۔کہکشاں پہاڑ پھٹے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان آفات کو اپنے لئے نشان قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
’’دسواں نشان طرح طرح کی آفات سے اس زمانہ میں انسانوں کا کثرت سے ہلاک ہونا ہے جیساکہ قرآن شریف کی اس آیت کا مطلب ہے وَاِنْ مِّنْ قَرْیَۃٍ اِلَّا نَحْنُ مُھْلِکُوْھَاقَبْلَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ اَوْ مُعَذَّبُوْھَا ترجمہ۔ کوئی ایسی بستی نہیں جس کو ہم قیامت سے کچھ مدت پہلے ہلاک نہیں کریں گے یا کسی حد تک اس پر عذاب وارد نہیں کریں گے۔
سو یہی وہ زمانہ ہے کیونکہ طاعون اور زلزلوں اور طوفان اور آتش فشاں پہاڑوں کے صدمات اور باہمی جنگوں سے لوگ ہلاک ہورہے ہیں اور اس قدر اسباب موت کے اس زمانہ میں جمع ہوئے ہیں اور اس شدت سے وقوع میں آئے ہیں کہ اس مجموعی حالت کی نظیر کسی پہلے زمانہ میں پائی نہیں جاتی۔‘‘
(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد نمبر 22صفحہ نمبر207 ،206)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں بھی کثرت سے طوفان آئے ہیں جو اس پیشگوئی کے پورا ہونے کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ایک بہت بڑی علامت آخری زمانہ کے مصلح کی کتب سابقہ اور قرآن مجید میں یہ بتائی گئی ہے کہ کثرت سے زلزلے آئیں گے۔ انجیل میں حضرت مسیحؑ بیان کرتے ہیں کہ
’’جگہ جگہ کال پڑیں گے اور بھونچال آئیں گے ۔لیکن یہ سب باتیں مصیبتوں کا شروع ہو ں گی‘‘
(جدید عہد نامہ متی باب 24 آیت7)
اسی طرح آخری زمانہ کے بارے میں قرآن مجید میں بھی بہت سی پیشگوئیاں ملتی ہیں،جن سے پتہ چلتا ہے کہ آخری زمانہ میں کثرت آفات وغیرہ کا نزول ہوگا ۔چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ
وَمَا أَرْسَلْنَا فِیْ قَرْیَۃٍ مِّن نَّبِیٍّ إِلاَّ أَخَذْنَا أَہْلَہَا بِالْبَأْسَاء وَالضَّرَّاء لَعَلَّہُمْ یَضَّرَّعُون ثُمَّ بَدَّلْنَا مَکَانَ السَّیِّئَۃِ الْحَسَنَۃَ حَتَّی عَفَواْ وَّقَالُواْ قَدْ مَسَّ آبَائنَا الضَّرَّاء وَالسَّرَّاء فَأَخَذْنَاہُم بَغْتَۃً وَہُمْ لاَ یَشْعُرُون۔
(الاعراف: 96 ،95)
ترجمہ :اور ہم نے کسی شہر کی طرف کوئی رسول نہیں بھیجا (مگریوں بھی ہوا کہ) ہم نے اس میں بسنے والوں کو سختی اور مصیبت سے پکڑ لیا تاکہ وہ عاجزی اور زاری کریں۔ پھر ہم نے تکلیف کی جگہ سہولت کو بدل دیا یہاں تک کہ جب وہ ترقی کرگئے اور کہنے لگے ۔کہ تکلیفیں اور سکھ تو ہمارے باپ دادوں پر بھی آیا کرتے تھے (اگر ہمیں آئے تو کوئی نئی بات نہیں) پس ہم نے ان کو اچانک عذاب سے پکڑ لیا اور وہ سمجھتے نہ تھے (کہ ایسا کیوں ہوا)
اس آیت سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سنت اللہ ہے کہ ہر نبی کے زمانہ میں آفات کا نزول ہوتاہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے تو خاص طور پر سابقہ انبیا ء نے یہ علامت بیان کی ہے۔قرآن کریم میں مذکور انبیاء سابقہ کے ہر قصہ میں ایک پیشگوئی پوشیدہ ہے اور امت مسلمہ کے لئے اس سے عبرت حاصل کرنے کا ذریعہ ہے جیساکہ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں۔
’’قرآن شریف صرف قصہ گو کی طرح نہیں ہے بلکہ اس کے ہر قصہ کے نیچے ایک پیشگوئی ہے۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 119)
قرآن مجید میں جو پرانی اقوام پر عذاب کا ذکر کیا ہے ان میں مستقبل کے لئے ایک پیشگوئی تھی کہ آخری زمانہ میں بھی جو لوگ یہی سلوک آنے والے نبی سے کریں گے ان کو بھی وہی عذاب آپکڑیں گے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے بھی اپنی کتاب ‘‘حوادث طبعی یا عذاب الہٰی میں ان عذابوں کا ذکر کیا ہے۔ چنانچہ ذیل میں بعض آیات کا ذکر کیا جاتا ہے۔ مسلسل شدید بارش اور زمین کے پانی کی سطح کا بلند ہونا جس کے نتیجہ میں ایسا ہولناک سیلاب ظاہر ہو کہ علاقہ کی تمام آبادی غرق ہوجائے۔ اس قسم کے عذاب پہلے بھی آتے رہے ہیں اورآنے والے مسیح کے لئے بھی ان کا آنا علامت تھا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
فَدَعَا رَبَّہُ أَنِّیْ مَغْلُوبٌ فَانتَصِرْ فَفَتَحْنَا أَبْوَابَ السَّمَاء بِمَاء مُّنْہَمِرٍ وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُیُوناً فَالْتَقَی الْمَاء عَلَی أَمْرٍ قَدْ قُدِر۔
(القمر:13 ،11)
ترجمہ:۔ آخر اس (نوحؑ) نے اپنے ربّ سے دعا کی اور کہا مجھے دشمن نے مغلوب کرلیا پس تو میرا بدلہ لے ۔جس پر ہم نے بادل کے دروازے ایک جوش سے بہنے والے پانی کے ذریعے کھول دئیے اور زمین میں بھی ہم نے چشمے پھوڑ دئیے۔پس (آسمان کا) پانی (زمین کے پانی کے ساتھ) ایک ایسی بات کے لئے اکٹھا ہوگیا جس کا فیصلہ ہوچکا تھا۔
اللہ تعالیٰ ایک اور جگہ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ
کَذَّبَتْ عَادٌ فَکَیْفَ کَانَ عَذَابِیْ وَنُذُرِإِنَّا أَرْسَلْنَا عَلَیْہِمْ رِیْحاً صَرْصَراً فِیْ یَوْمِ نَحْسٍ مُّسْتَمِرٍّ تَنزِعُ النَّاسَ کَأَنَّہُمْ أَعْجَازُ نَخْلٍ مُّنقَعِر۔
(القمر: 21-19)
ترجمہ:۔ عاد قوم نے بھی اپنے رسول کا انکار کیا تھا پھر دیکھو میرا عذاب اور میرا ڈرانا کیسا تھاہم نے ان پر ایک ایسی ہوا بھیجی جو تیز چلنے والی تھی اور ایک دیر تک رہنے والے منحوس وقت میں چلائی گئی تھی وہ لوگوں کو اس طرح اکھیڑپھینکتی تھی گویا وہ کھجور کے ایسے تنے ہیں جن کے اندر کا گودا کھایا ہوا تھا۔
اسی طرح ایک اور آیت میں پیشگوئی کی کہ اس زمانہ میں خوفناک آتش فشاں پہاڑ پھٹیں گے جس کے نتیجہ میں زمین یا آسمان سے ایسی خوفناک گرج یا دھماکے ہوں گے جن سے آسمان پتھر برسائیں گے۔چنانچہ فرمایا۔
فَأَخَذَتْہُمُ الصَّیْحَۃُ مُشْرِقِیْنَ فَجَعَلْنَا عَالِیَہَا سَافِلَہَا وَأَمْطَرْنَا عَلَیْہِمْ حِجَارَۃً مِّن سِجِّیْل۔
(الحجر: 75-74)
ترجمہ:۔ اس پر اس موعود عذاب نے انہیں دن چڑھتے ہی پکڑلیا جس پر ہم نے اس بستی کی اوپر والی سطح کو اس کی نچلی سطح کردیا اوران پر سنگریزوں سے بنے ہوئے پتھروں کی بارش برسائی۔
پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں بھی آتش فشاں پہاڑ پھٹے جس کے نتیجہ میں چند منٹوں میں تیس تیس ہزار افراد ہلاک ہوگئے۔ قرآن کریم میں آخری زمانہ میں قحط سالی کے بارے میں بھی پیشگوئیاں پائی جاتی ہیں۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ:
قُلْ أَرَأَیْتُمْ إِنْ أَصْبَحَ مَاؤُکُمْ غَوْراً فَمَنْ یَأْتِیْکُم بِمَاءٍ مَّعِیْنٍ۔
(الملک: 31)
ترجمہ:۔ تُو کہہ دے کہ اگر تمہارا پانی گہرائی میں اتر جائے تو کون ہے جو تمہارے پاس چشموں کا پانی لائے گا؟
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ہندوستان میں اور چین میں بہت سخت قحط پڑ اجس کی وجہ سے کروڑوں افراد ہلاک ہوگئے۔ پھر آخری زمانہ کے بارے میں ایک یہ بھی پیشگوئی کی گئی کہ کثرت سے طوفان آئیں گے۔ چنانچہ اس بارے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قصہ میں پیشگوئی مضمر ہے۔ فرمایا کہ
فَأَرْسَلْنَا عَلَیْہِمُ الطُّوفَانَ وَالْجَرَادَ وَالْقُمَّلَ وَالضَّفَادِعَ وَالدَّمَ آیَاتٍ مُّفَصَّلاَت۔
(الاعراف: 134)
ترجمہ :۔ جب ہم نے ان پر طوفان اور ٹڈیاں اور جوئیں اور مینڈک اور خون بھیجا۔ یہ الگ الگ نشان تھے۔
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے ۔
اِذَا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزَالَہَا وَأَخْرَجَتِ الْأَرْضُ أَثْقَالَہَا وَقَالَ الْإِنسَانُ مَا لَہَایَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ أَخْبَارَہَا بِأَنَّ رَبَّکَ أَوْحَی لَہَا یَوْمَئِذٍ یَصْدُرُ النَّاسُ أَشْتَاتاً لِّیُرَوْا أَعْمَالَہُمْ فَمَن یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْراً یَرَہُ وَمَن یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرّاً یَرَہُ۔
(الزلزال:2 تا 9)
ترجمہ:۔ جب زمین اپنے بھونچال سے جنبش دی جائے گی اور زمین اپنے بوجھ نکال پھینکے گی۔ اور انسان کہے گا کہ اسے کیا ہوگیا ہے۔ اُس دن وہ اپنی خبریں بیان کرے گی۔ کیونکہ تیرے ربّ نے اسے وحی کی ہوگی۔ اس دن لوگ پراگندہ حال نکل کھڑے ہوں گے تاکہ اُنہیں اُن کے اعمال دکھا دیئے جائیں۔ پس جو کوئی ذرّہ بھر بھی نیکی کرے گا وہ اُسے دیکھ لے گا اور جو کوئی ذرّہ بھر بھی بدی کرے گا وہ اُسے دیکھ لے گا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔
’’سورۃ اِذَا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ میں زلزلہ کے واسطے صاف پیشگوئی ہے کہ زمین پر سخت زلزلہ آئے گا۔ اور زمین اندر کی چیزیں باہر نکال پھینکے گی۔‘‘
(ملفوظات جلدچہارم صفحہ281)
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام ایک اعتراض کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں۔
اعتراض: پہلی کتابوں میں ازالہ اوہام وغیرہ میں لکھا ہے کہ یہ بھی کوئی پیشگوئیاں ہیں کہ زلزلے آئیں گے۔ مری پڑے گی۔ لڑائیاں ہوں گی قحط پڑیں گے لیکن اب کئی تحریروں میں دیکھ لیا گیا ہے کہ انہیں پیشگوئیوں کو جناب والا نے عظیم الشان پیشگوئیاں قرار دیا ہے۔
حاشیہ: یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ حضرت مسیح کی پیشگوئیوں میں جو انجیلوں میں پائی جاتی ہیں صرف معمولی اور نرم لفظ میں کسی شدید اور ہیبت ناک زلزلہ یا ہیبت ناک طاعون کا ان میں ذکر نہیں ہے مگر میری پیشگوئیوں میں ان دونوں واقعات کی نسبت ایسے لفظ ہیں جو ان کو خارق عادت قرار دیتے ہیں۔
الجواب: یہ بات صحیح نہیں ہے کہ میں نے انہیں پیشگوئیوں کو عظیم الشان قرار دیا ہے ہر ایک چیز کی عظمت یا عدم عظمت اس کی مقدار اور کیفیت سے اور نیز اس کے حالات خاصہ یا معمولی حالات سے ظاہر ہوتی ہیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے جس ملک میں طاعون اور زلزلوں کی خبر دی تھی وہ ملک ایسا ہے کہ اکثر اس میں طاعون کا دورہ رہتا ہے اور کشمیر کی طرح اس میں زلزلے بھی آتے رہتے ہیں قحط بھی پڑتے ہیں اور لڑائیوں کا سلسلہ بھی جاری رہا ہے اور حضرت مسیح کی پیشگوئی میں نہ کسی خارق عادت زلزلہ کا ذکر ہے اور نہ کسی خارق عادت مری یا طاعون کا۔ اس صورت میں کوئی عقلمند ایسی پیشگوئیوں کو عظمت اور وقعت کی نظر سے نہیں دیکھ سکتا۔(حاشیہ: ہاں ممکن ہے کہ اصل پیشگوئیوں میں تحریف ہو گئی ہو جبکہ ایک انجیل کی بیسیوں انجیلیں بن گئی ہیں تو کسی عبارت میں تحریف ہونا کون سا ایسا امر ہے جو بعید از عقل ہوسکتا ہے مگر ہمارا موجودہ انجیلوں پر اعتراض ہے اور خدا نے ان انجیلوں کو محرف مبدل قرار دے کر ہمیں ان اعتراضوں کا موقعہ دیا ہے۔)
مگر جس ملک کے لئے میں نے طاعون کی خبر دی اور شدید زلزلوں سے اطلاع دی ہے وہ اس ملک میں حالت کے لحاظ سے درحقیقت عظیم الشان پیشگوئیاں ہیں۔ کیونکہ اگر اس ملک کے صدہا سال کی تاریخ دیکھی جائے تب بھی ثابت نہیں ہوتا کہ کبھی اس ملک میں طاعون پڑی ہے چہ جائیکہ ایسی طاعون جس نے تھوڑے ہی عرصہ میں لاکھوں انسانوں کو ہلاک کر دیا۔ چنانچہ طاعون کی نسبت میری پیشگوئی کے الفاظ یہ ہیں کہ ملک کا کوئی حصہ طاعون سے خالی نہیں رہے گا اور سخت تباہی آئے گی اور وہ تباہی زمانہ دراز تک رہے گی۔ اب کیا کوئی ثابت کر سکتا ہے کہ جیسا کہ اب پیشگوئی کے مطابق یہ سخت تباہیاں طاعون سے ظہور میں آئیں پہلے اس ملک میں کبھی ظہور میں آیا تھا۔ ہرگز نہیں۔ رہا زلزلہ وہ بھی میری طرف سے کوئی معمولی پیشگوئی نہیں تھی بلکہ پیشگوئی میں یہ الفاظ تھے کہ ایک حصہ ملک کا اس سے تباہ ہو جائے گا جیسا کہ ظاہر ہے کہ وہ تباہی جو اس زلزلہ سے کانگڑہ اور بھاگسو خاص جوالا مکھی پر آئی۔ دو ہزار برس تک اس کی نظیر نہیں ملتی کہ کبھی زلزلہ سے ایسا نقصان ہوا چنانچہ انگریز محققوں نے بھی یہی گواہی دی ہے۔ پس اس صورت میں میرے پر اعتراض کرنا محض جلد بازی ہے۔
(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22صفحہ 163۔167)
حضرت مسیح موعودؑ کو اللہ تعالی ٰنے زلزلوں کے بارے میں الہامات کئے جن کا آپ نے اپنی کتاب حقیقۃ الوحی میں ذکر کیا ہے۔ چنانچہ آپؑ فرماتے ہیں کہ
ھَلْ اَتَاکَ حَدِیْثُ الزَلْزَلَۃِ۔ اِذَا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزَالَہَا۔ وَأَخْرَجَتِ الْأَرْضُ أَثْقَالَہَا ۔ وَقَالَ الْإِنسَانُ مَا لَہَا۔ یَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ أَخْبَارَہَا۔ بِأَنَّ رَبَّکَ أَوْحَی لَہَا۔ اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْا۔ وَمَا یَاْتِیْھِمْ اِلَّابَغْتَۃً یَسْئَلُوْنَکَ اَحَقٌ ھُوَ۔ قُلْ اِیْ وَرَبِّی اِنَّہُ لَحَقْ۔ وَلَا یُرد عَنْ قَوْمٍ یعرضون۔ اَلرَّحَی یَدُوْرُ وَیَنْزِلُ الْقَضَا۔ لَمْ یَکُنِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ اَھْلِ الْکِتَابِ وَالْمُشْرِکِیْنَ مُنْفَکِّیْنَ حَتَّی تَاْتِیَھُمُ الْبَیِّنَۃ۔
ترجمہ:کیا تجھے آنے و الے زلزلہ کی خبر نہیں ملی۔جب زمین زلزلوں سے سخت ہلائی جائے گی۔زمین اپنے بوجھوں کو باہر پھینک دے گی اور انسان پکار اٹھے گا۔ یہ کہ سچ مچ تیرے رب نے اس کے لئے وحی کی۔ کیا لوگ خیال کرتے ہیں کہ ان کو یوں ہی چھوڑ دیا جائے گا اور زلزلہ نہیں آئے گا۔ ضرور آئے گااور ایسے وقت آئے گا کہ وہ غفلت میں ہوں گے۔ ہر ایک اپنے کام میں مشغول ہوگا۔ کہ زلزلہ ان کو یکایک پکڑے گا۔تجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا ایسے زلزلہ کا آنا سچ ہے اور خدا سے برگشتہ ہونے والے کسی مقام سے بچ نہیں سکتے۔ ایک چکی گردش میں آئے گی اور قضا نازل ہو گی۔ جو لوگ اہل کتاب اور مشرکوں میں سے حق سے منکر ہو گئے۔وہ بجز اس نشان عظیم کے باز آنے والے نہیں۔
(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد22 صفحہ96 ،95)
پھر قرآن شریف میں طاعون کے بارے میں بھی پیشگوئی ملتی ہے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
وَإِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَیْہِمْ أَخْرَجْنَا لَہُمْ دَابَّۃً مِّنَ الْأَرْضِ تُکَلِّمُہُمْ أَنَّ النَّاسَ کَانُوا بِآیَاتِنَا لَا یُوقِنُوْنَ۔
(النمل:83)
ترجمہ: اور جب ان پر فرمان صادق آ جائے گا تو ہم ان کے لئے سطح زمین میں سے ایک جاندار نکالیں گے جو ان کو کاٹے گا (اس وجہ سے) کہ لوگ ہماری آیات پر یقین نہیں لاتے تھے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
’’خدا تعالیٰ فرماتاہے……کہ جب قرب قیامت ہوگا ہم زمین میں سے ایک کیڑا نکالیں گے جو لوگوں کو کاٹے گا اس لئے کہ انہوں نے ہمارے نشانوں کو قبول نہیں کیا…اور یہ صریح طور پر طاعون کی نسبت پیشگوئی ہے کہ کیونکہ طاعون بھی ایک کیڑا ہے۔ اگرچہ پہلے طبیبوں نے اس کیڑے پر اطلاع نہیں پائی لیکن خدا جو عالم الغیب ہے وہ جانتا تھا کہ طاعون کی جڑ اصل میں کیڑا ہی ہے جو زمین میں سے نکلتاہے اس لئے اس کا نام دابۃ الارض رکھا یعنی زمین کا کیڑا۔‘‘
(تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلدسوم صفحہ581)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک اور جگہ فرماتے ہیں۔
’’نئی تحقیق نے دابۃ الارض کی بہت تائید کی ہے اور اس کے معنے کھول دئیے ہیں کہ وہ ایک کیڑا ہی ہے اور پھر یہ بھی کہ بہت باریک ہے جیسے کہ سلیمان علیہ السلام کے قصہ میں تَاْکُلُ مَنْسَاَتَہُ (السبا:15) باریک ہی تھا تو اندر اندر کھا تا رہا اور پتہ نہ لگا اور تُکَلِّمُھُمْ (النمل:83)سے مراد بھی یہی ہے کہ طاعون ہو کیونکہ ایک اور مقام پر قرآن شریف میں ہے کہ ہم ہر ایک قریہ کو قیامت سے پہلے ہلاک کریں گے یا عذاب میں مبتلا کریں گے‘‘
(ملفوظات جلددوم صفحہ419)
پس یہ تمام آیات آخری زمانہ کی علامات صاف اور بین طور پر بتا رہی ہیں۔
کتب احادیث میں بھی اس بارہ میں بڑی واضح احادیث مل جاتی ہیں بلکہ بخاری میں حدیث ملتی ہے کہ حضور ﷺ نے صحابہ کے سامنے قیامت تک کے تمام حالات بیان کردئیے۔ چنانچہ ذیل میں خاکسار بعض احادیث پیش کرتا ہے جن میں آخری زمانہ کے بارے میں پیشگوئیاں کی گئی ہیں۔
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ لَا تَقُوْمُ السَّاعَۃُ حَتَّی یَکْثُرُ الْھَرَجُ قَالُوْا وَمَا الْھَرَجُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ الْقَتْلُ اَلْقَتْلُ
(صحیح المسلم کتاب الفتن)
ترجمہ:۔ ابوہریرۃ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت نہ قائم ہوگی یہاں تک کہ ہرج بہت ہوگا۔ لوگوں نے عرض کیا ہرج کیا ہے یارسول اللہ۔ آپ ﷺ نے فرمایا قتل قتل (یعنی خون بہت ہوں گے)
یہ حدیث کثرت سے پوری ہورہی ہے حضرت مسیح موعودؑ کے زمانہ میں کثرت سے آفات آئیں ہیں اور اموات کی کثرت کو حضرت مسیح موعود ؑنے اپنی صداقت کا نشان قرار دیا ہے۔ فرمایا کہ
’’وَإِن مَّن قَرْیَۃٍ إِلاَّ نَحْنُ مُہْلِکُوہَا قَبْلَ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ أَوْ مُعَذِّبُوہَا عَذَاباً شَدِیْداً یہ اسی زمانہ کے لئے ہے کیونکہ اس میں ہلاکت اور عذاب مختلف پیرایوں میں ہے ۔کہیں طوفان ہے کہیں زلزلوں سے کہیں آگ کے لگنے سے۔ اگرچہ اس سے پیشتر بھی یہ سب باتیں دنیا میں ہوتی رہی ہیں مگر آج کل ان کی کثرت خارق عادت کے طور پر ہورہی ہے جس کی وجہ سے یہ ایک نشان ہے اس آیت میں طاعون کا نام نہیں ہے۔صرف ہلاکت کا ذکر ہے خواہ کسی قسم کی ہو۔‘‘
(ملفوظات جلد سوم صفحہ549)
پھر ایک اور حدیث میں فرمایا کہ
حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت نہ قائم ہوگی یہاں تک کہ حجاز کے ملک سے ایک آگ نکلے جو بصریٰ کے اونٹوں کی گردنوں کو روشن کردے گی یعنی اس کی روشنی ایسی تیز ہوگی کہ عرب سے شام تک پہنچے گی۔حجاز مکہ اور مدینہ کا ملک ہے اور بصریٰ ایک شہر کا نام ہے۔
یہ پیشگوئی بھی پوری ہوچکی ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں کثرت سے آگیں لگیں جن سے پورے پورے شہر نیست نابود ہوگئے جن کی تفصیل آگے آئے گی۔ ایک اور حدیث میں فرمایا کہ
قَالَ اِنَّھَا لَنْ تَقُوْمُ حَتَّی تَرَوْا قَبْلَھَا عَشْرَآیَاتٍ فَذَکَرَالدُّخَانَ وَالدَّجَّالَ وَالدَّآبَّۃَ وَطَلُوْعَ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِھَا وَنُزُوْلَ عِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ وَیَاجُوْجَ وَمَاجُوْجَ وَثَلَاثَۃَ خُسُوْفٍ خُسِفَ بِالْمَشْرِقِ وَخُسِفَ بِالْمَغْرِبِ وَخُسِفَ بِجَزِیْرَۃِ الْعَرْبِ وَآخِرُ ذَالِکَ نَارٌ تَخْرُجُ مِنَ الْیَمْنِ تَطْرُدِ النَّاسَ اِلیٰ مَحْشَرِھِمْ۔
(مسلم کتاب الفتن باب فی الاٰیات التی تکون قبل الساعۃ)
ترجمہ:۔ رسول اللہ نے فرمایا قیامت نہیں قائم ہوگی جب تک 10نشانیاں اس سے پہلے نہیں دیکھ لیتے۔پھرذکر کیا دھوئیں کا اور دجال کا اور زمین کے جانور کا اور آفتاب کے نکلنے کا پچھم سے، حضرت عیسٰی ؑکے نزول کا اور یاجوج ماجوج کے نکلنے کا اور3جگہ خسف ہونا یعنی زمین دھنسنا ایک مشرق میں اور دوسرے مغرب میں تیسرے جزیرہ عرب میں اور ان سب نشانیوں کے بعد ایک آگ پیدا ہوگی جو لوگوں کو یمن سے نکالے گی اور ہانکتی ہوئی محشر کی طرف لے جائے گی۔
ان میں سے بھی اکثر پیشگوئیاں پوری ہوچکی ہیں اور حضرت مسیح موعود ؑ نے اپنی کتب میں دلائل کے ساتھ ثابت کیا ہے۔ایک اور حدیث میں فرمایا۔
عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عُمَرَ قَالَ کُنَّا قُعُودًا عِنْدَ النَّبِی فَذَکَرَ الْفِتَنَ فَاَکْثَرَ فِیْ ذِکْرٍحَتَّی ذَکَرَ فِتْنَۃَ الْاَحْلَاصِ فَقَالَ قَائِلٌ وَمَا فِتْنَۃُ الْاَحْلَاصِ قَالَ ھِیَ ھَرْبٌ وَحَرْبٌ۔
(مشکوٰۃ باب الفتن فصل دوم)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ ہم نبی ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ ﷺ نے فتنوں کا ذکر کیا اور بہت زیادہ فتنوں کا ذکر کیا۔یہاں تک کہ آپ ﷺ نے فتنہ احلاص کا ذکر کیا ایک کہنے والے نے کہا احلاص کا فتنہ کیا ہے۔فرمایا بھاگنا اور جنگ کرنا ہے۔
حضرت مسیح موعود ؑ کے زمانہ میں دنیا کی حکومتوں میں عظیم الشان انقلاب آئے اور ان میں سے بعض کے بارے میں تو حضور علیہ السلام نے خود پیشگوئی بھی کی ہے۔جیسے زار کے بارہ میں پیشگوئی کی اور روس کی حکومت پارہ پارہ ہوگئی۔ ایسے ہی جنگ عظیم کے بارہ میں پیشگوئیاں کیں اور وہ بھی پوری ہوگئیں۔ اس طرح اس زمانہ میں اس حدیث کا حرف حرف پوراہوا ہے۔
ایک اور حدیث میں فرمایا۔
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ اَنَّ رَسُوْلَ اللہِ قَالَ لَا تَقُوْمُ السَّاعَۃُ حَتَّی … یَکْثُرُ الْزَلَازِلُ وَیَتَقَارَبَ الزَّمَانُ وَیُظْھِرُ الْفِتَنُ وَیَکْثُرُ الْھَرَجُ وَھُوَ الْقَتْلُ۔
(مشکوٰۃ باب الملاحم فصل اول)
ترجمہ:حضرت ابوہریرۃ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا قیامت اس اس وقت تک قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ……زلزلے بہت زیادہ آئیں گے، زمانہ قریب قریب ہوجائے گا، فتنے ظاہر ہوں گے،ہرج یعنی قتل بہت ہوں گے۔
یہ حدیث بھی پوری ہوگئی ہے کیونکہ جو زلزلے اس زمانہ میں آئے ہیں ان کی مثال اس سے پہلے نہیں ملتی۔ آگے اس کی لسٹ پیش کی جائے گی جس سے صاف ظاہر ہوجائے گا کتنی کثرت سے زلازل آئے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔
’’یاد رہے کہ خدا نے مجھے عام طور پر زلزلوں کی خبر دی ہے۔ پس یقیناً سمجھو کہ جیسا کہ پیشگوئی کے مطابق امریکہ میں زلزلے آئے ایسا ہی یورپ میں بھی آئے اور نیز ایشیا کے مختلف مقامات میں آئیں گے اور بعض اُن میں قیامت کا نمونہ ہوں گے اور اس قدر موت ہوگی کہ خُون کی نہریں چلیں گی۔ اس موت سے پرند چرند بھی باہر نہیں ہوں گے اور زمین پر اس قدر سخت تباہی آئے گی کہ اُس روز سے کہ انسان پیدا ہوا ایسی تباہی کبھی نہیں آئی ہوگی اور اکثر مقامات زیر و زبر ہو جائیں گے کہ گویا اُن میں کبھی آبادی نہ تھی اور اس کے ساتھ اور بھی آفات زمین و آسمان میں ہولناک صورت میں پیدا ہوں گی یہاں تک کہ ہر ایک عقلمند کی نظر میں وہ باتیں غیر معمولی ہو جائیں گی‘‘
(حقیقہ الوحی، روحانی خزائن جلد22صفحہ269 ،268)
قَالَ (رسول اللّٰہ) یَا ابْنَ حَوَالَۃَ اِذَا رَاَیْتَ الْخِلَافَۃَ قَدْ نَزَلَتِ الْاَرْضِ الْمُقَدَّسَۃِ قَدْ دَنَتِ الزَّلَازِلُ وَالْبَلَابِلُ وَالْاُمُوْرُ الْعِظَامِ فَالسَّاعَۃُ یَوْمَئِذٍ اَقْرَبُ مِنَ النَّاسِ مِنْ یَدِیْ ھٰذِہِ اِلیٰ رَاْسِکَ۔
(مشکوٰۃ باب اشراط الساعۃ فصل دوم)
ترجمہ: فرمایا اے ابن حوالہ جس وقت تو دیکھے کہ خلافت مقدس زمین پر اتر چکی ہے اس وقت زلزلے فکروغم اور بڑے بڑے امور قریب آجائیں گے۔قیامت اس وقت اس قدر قریب ہوگی ۔جیسا کہ میرا ہاتھ تیرے سر کے قریب ہے۔
(مبارک احمد منیر۔برکینا فاسو)