• 9 جولائی, 2025

حضرت مولانا قاسم نانوتوی کا مناظرہ عجیبہ

بانی دارالعلوم دیوبند حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ ان بزرگان میں سے ایک ہیں جنہیں آنحضرت ﷺ کی ختم نبوت کا حقیقی عرفان حاصل ہوا چنانچہ آپؒ نے اپنی متعدد تحریرات میں اس بات پر زور دیا کہ قرآن شریف میں حضرت رسول اکرم ﷺ کے لئے لفظ خاتم النبیینؐ فی محل مدح استعمال ہوا ہے لہذا سورۃ احزاب کی آیت میں بلحاظ زمانہ آپؐ کے خاتم النبیین سےزیادہ بلحاظ مرتبہ آپؐ کے خاتم النبیین ہونے کا ذکر ہےچنانچہ آپ تحریر فرماتے ہیں:

’’عوام کے خیال میں تو رسول اللہؐ کا خاتم ہونا بایں معنی ہے کہ آپ کا زمانہ انبیاء سابق کے زمانہ کے بعد اور آپ سب میں آخر نبی ہیں مگر اہل فہم پر روشن ہوگا کہ تقدّم یا تاخّر زمانی میں بالذات کچھ فضیلت نہیں پھر مقام مدح میں وَلَـٰكِن رَّسُولَ اللَّـهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ فرمانا اِس صورت میں کیونکر صحیح ہو سکتا ہے۔ ہاں اگر اس وصف کو اوصافِ مدح میں سے نہ کہیے اور اس مقام کو مقام ِ مدح قرار نہ دیجیے تو البتہ خاتمیت باعتبار تاخر زمانی صحیح ہو سکتی ہے مگر میں جانتا ہوں کہ اہل اسلام میں سے کسی کو یہ بات گوارا نہ ہوگی۔‘‘

(تحذیر الناس من انکار اثر ابن عباس مصنفہ
حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ صفحہ 3,2
مطبع صدیقی بریلی باہتمام مولوی محمد منیر)

اسی رسالہ ’’تحذیر الناس‘‘ میں حضرت مولانا صاحبؒ نے یہ وضاحت بھی تحریر فرمائی کہ

’’اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی ﷺ بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدیؐ میں کچھ فرق نہ آئے گا۔‘‘

(تحذیر الناس من انکار اثر ابن عباس مصنفہ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی صاحبؒ صفحہ 33۔ مطبع صدیقی بریلی باہتمام مولوی محمد منیر)

حضرت مولانا صاحبؒ کا یہ بیان قرآن و حدیث سے تائید یافتہ تھا لیکن چونکہ عام طور پر رائج خیال کے مخالف تھا اس لئے عام خیالات والے حضرات نے آپؒ کے بلند علمی مقام کے باوجود بہت شور مچایا، آگرہ کے ایک اخبار ’’تیرھویں صدی‘‘ نے زیر عنوان عجب تماشائیت لکھا:

’’ایک بزرگ عالم عارف عامل مکاشف رفیع المقامات بدیع الکرامات تو وہ تھے کہ تحذیر الناس عن اثر ابن عباس میں خاتم النبیین کی تفسیر میں وہ تاویل بدیع کر گئے ہیں کہ آج تک دیکھی نہ سنی یعنی اس لفظ کے معنی آخر الانبیاء کے نہیں، اس میں تمدح ہی کیا ہے انبیاء تو اور بھی ہو سکتے ہیں اور ہیں و العیاذ باللہ اس کے معنی ہیں مرجع نبوت حقیقتاً کہ جتنے انبیاء ہوئے اور ہیں اور ہوں سب آپ ہی کے ہوکر رہے اور ہیں، گویا آپ اصل ہیں اور وہ سب شاخیں اور اسی معنی کی رو سے حضرت رسالت کے عظمت ثابت ہوتی ہے۔ دیکھیے اظہار عظمت رسالت کی آڑ میں در پردہ کیا اپنی نبوت کی بنا جمائی ہے، خاتمیت کی سد سکندری کیا ادنیٰ حرکتِ قلم سے اٹھائی ہے، غضب ہے بلا ہے نبوت کا دعویٰ نہیں تو کیا ہے۔‘‘

(اخبار تیرھویں صدی، آگرہ جلد 2 نمبر 5 رجب المرجب 1297ھ (1880ء) صفحہ 4 ایڈیٹر خان بہادر میر ناصر علی)

(https://rekhta.org/ebooks/terahwin-sadi-shumara-number-005-magazines)

اس شور شرابے اور مخالفت کے باوجود حضرت مولانا نانوتوی صاحبؒ اپنے مؤقف پر ڈٹے رہے اور مخالفت کی ذرہ پرواہ نہ کی۔ گو کہ حضرت مولانا نانوتویؒ نے تو صاف لکھا تھا کہ آیت خاتم النبییّن سے آنحضور ﷺ کو زمانے کے لحاظ سے آخری نبی ماننا مقام مدح میں درست نہیں ہو سکتا لیکن مسلمانوں نے آپؒ کی امید کے خلاف فی محل مدح معنوں کو بالکل ترک کر کے صرف دوسرے معنی پر زور دیا حالانکہ حضرت مولانا صاحبؒ نے ان معنوں کے متعلق فرمایا تھا کہ ’’اہل اسلام میں سے کسی کو یہ بات گوارا نہ ہوگی۔‘‘ اور تو اور خود دیوبندیوں نے بھی وہ معنی گوارا نہیں کئے جس پر کہ بانی دارالعلوم دیوبند زور دے رہے تھے اور اُن کے بیان فرمودہ معنوں کو اپنے لئے موجب خفت سمجھنے لگے یہی وجہ ہے کہ دیوبندی حضرات نے رسالہ ’’تحذیر الناس‘‘ کی بعد کی اشاعتوں میں ساتھ ہی مقدمہ، حاشیہ اور توضیح بعض عبارات کے تحت وضاحتی جملے ڈال کر قارئین کو یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ گویا حضرت مولانا قاسم نانوتوی صاحبؒ نے حضور اکرم ﷺ بلحاظ زمانہ آخری نبی بیان کئے ہیں نہ کہ کچھ اور، اس کے ثبوت میں دیوبندی حضرات حضرت مولانا صاحبؓ کی ایک اور کتاب ’’مناظرہ عجیبہ‘‘ کے چند حوالے پیش کرتے ہیں: (نوٹ: یہ تمام حوالے مناظرہ عجیبہ ناشر سید محمد معروف۔ مکتبہ قاسم العلوم جے ون 140، کورنگی کراچی۔ اشاعت اول جولائی 1978ء سے لئے گئے ہیں۔)

1۔حضرت خاتم المرسلین ﷺ کی خاتمیت زمانی تو سب کے نزدیک مسلّم ہے اور یہ بات بھی سب کے نزدیک مسلّم ہے کہ آپ اوّل المخلوقات ہیں۔‘‘

(صفحہ9)

2۔’’خاتمیتِ زمانی اپنا دین و ایمان ہے، ناحق کی تہمت کا البتہ کچھ علاج نہیں۔‘‘

(صفحہ 56)

3۔’’خاتمیتِ زمانی سے مجھے انکار نہیں بلکہ یوں کہیے کہ منکروں کے لئے گنجائشِ انکار نہ چھوڑی۔ افضلیت کا اقرار ہے بلکہ اقرار کرنے والوں کے پاؤں جما دئیے اور نبیوں کی نبوت پر ایمان ہے پر رسول اللہ ﷺ کے برابر کسی کو نہیں سمجھتا۔‘‘

(صفحہ71)

4۔’’ہاں یہ مسلّم ہے کہ خاتمیتِ زمانی اجماعی عقیدہ ہے۔‘‘

(صفحہ 96)

5۔ ’’بعد رسول اللہ ﷺ کسی اور نبی کے ہونے کا احتمال نہیں، جو اس میں تأمل کرے اُس کو کافر سمجھتا ہوں۔‘‘

(صفحہ 144)

جیسا کہ اوپر بیان ہوچکا ہے کہ یہ سب ’’مناظرہ عجیبہ‘‘ کی عبارات ہیں۔ ’’مناظرہ عجیبہ‘‘ اس خط و کتابت پر مبنی کتاب کا نام ہے جو رسالہ ’’تحذیر الناس‘‘ کی اشاعت کے بعد حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی صاحبؒ اور مولانا عبدالعزیز صاحب کے درمیان ہوئی اور اس خط و کتابت کا اصل موضوع رسالہ تحذیر الناس کے مندرجات بالخصوص ختم نبوت پر بحث تھا۔ جیسا کہ ذکر ہوا حضرت مولانا نانوتوی صاحبؒ اپنے معنوں سے پیچھے نہیں ہٹے یہاں تک کہ مولانا عبدالعزیز صاحب نے یہ انتباہ بھی کیا :

’’ایسے واہیات سے زبان و قلم بند کیجیے پھر ہماری آپ کی صلح ہے‘‘

(صفحہ 127)

پس حضرت نانوتویؒ صاحب کی کتاب ’’مناظرہ عجیبہ‘‘ خود ایک اور تائید ہے اس مؤقف کی جو جماعت احمدیہ پیش کرتی ہےیعنی خاتم النبیین (نبیوں کی مہر) لقب میں آنحضرت ﷺ کی افضلیت ہی اعلان کی گئی ہے، اگر ختم سے مراد آخری لئے جائیں تو پھر مراد شریعت والی نبوت ہوگی کیونکہ غیر شرعی نبوت کا دروازہ خود قرآن و حدیث اور اکثر بزرگان سلف نے کھلا بتلایا ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

’’یہ خوب یاد رکھنا چاہئے کہ نبوتِ تشریعی کا دروازہ بعد آنحضرت ﷺ کے بالکل مسدود ہے اور قرآنِ مجید کے بعد اور کوئی کتاب نہیں جو نئے احکام سکھائے یا قرآن شریف کا حکم منسوخ کرے یا اس کی پیروی معطّل کرے بلکہ اس کا عمل قیامت تک ہے۔‘‘

(الوصیت صفحہ 11 حاشیہ، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ311 حاشیہ)

حضرت مولانا قاسم نانوتویؒ صاحب بھی فرماتے ہیں:
’’غرض خاتمیت زمانی سے یہ ہے کہ دین محمدیؐ بعد ظہور منسوخ نہ ہو،‘‘

(مناظرہ عجیبہ صفحہ 58)

بہرکیف ذیل میں کتاب ’’مناظرہ عجیبہ‘‘ کے چند دلچسپ اقتباسات پیش کئے جاتے ہیں:

تحذیر الناس کی تالیف

جو اپنا ما فی الضمیر تھا لکھ بھیجا …. بلکہ وہ افضلیت ثابت کی کہ بعد خدائے تعالیٰ اور کسی کو ثابت ہی نہیں…. مگر جس پر یہ شور اٹھا کہ خدا کی پناہ! یہ ناکارہ تو سب چھک پَو بھول گیا الٹی ازار گلے میں آگئی، احسان کے بدلے الزام نقصان لگانے لگے۔ مولانا! جائے انصاف ہے میں نے کون سے عقیدۂ مسلمہ کو توڑ دیا، رسول اللہ ﷺ کی شان میں میری تحریر سے کیا نقصان آگیا ہاں اثبات افضلیت کا دم بھروں تو آپ ہی فرمائیں کیا جھوٹ ہوگا۔

(صفحہ 67،66)

تقدّم و تاخّر زمانی وجہ فضیلت نہیں

’’علیٰ ھذا لقیاس تاخر زمانی میں کچھ فضیلت نہیں، تاخر زمانی اور تقدم زمانی اور ہے، اور تقدم بالشرف اور تقدم و تاخر کے لئے یہ دونوں نوعین جدا جدا ہیں، ایک کو دوسرے سے کچھ علاقہ نہیں البتہ خاتمیت بمعنی اتصاف ذاتی کو تقدم بالشرف ضروری ہے ورنہ آپ ہی فرمائیں کہ تاخر زمانی میں بالذات کیا فضیلت ہے؟‘‘

(صفحہ 32)

قرآن میں افضلیت محمدؐ کی سب سے بڑی دلیل آیت خاتم النبیین ہے۔

’’اور ظاہر ہے کہ مسئلہ افضلیت عمدہ عقائد اسلام میں سے ہے اور ہر کلام اللہ کی شان کلام اللہ ہی میں تبیانًا لکل شی فرماتے ہیں، پھر جب یہی رکن اسلام کلام اللہ میں نہ ہو تو تبیانًا لکل شی کہنے کے کیا معنے ہوں گے۔ اس لئے آپ سے اور نیز اور معترضان تحذؔیر کی خدمت میں یہ التماس ہے کہ خاتمیت معروضہ احقر کو نہ مانیے پر سب کے سب رل مل کر ہفتہ دو ہفتہ، مہینے دو مہینے میں، برس دو برس ہی میں اس مسئلہ کو کلام اللہ سے ثابت کر دیجیے۔ پر بطور پیش بندی اتنا معروض ہے کہ آیت ’’وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ‘‘ اور آیت ’’لِيَكُونَ لِلْعَالَمِينَ نَذِيرًا‘‘ اور آیت ’’فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ‘‘ اور آیت ’’وَرَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجَاتٍ‘‘ وغیرہ سے استدلال نہ فرمائیں کیونکہ مضمون رحمۃ اس بات کا خواستگار نہیں کہ مرحوم سے مصداق رحمت افضل ہو۔علی ھذا القیاس مفہوم انداز اس بات کو مقتضی نہیں منذر و نذیر منذَرین بفتح الذال سے افضل ہو … ایسے ہی وَرَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجَاتٍ سے نہ خصوصیت محمدی ﷺ ثابت ہوتی ہےنہ عموم درجات۔ سوا اِن کے اور آیات سے بھی امید اثبات افضلیت نہ رکھیے گا اور اگر کسی آیت میں سوا خاتم النبیین افضلیت کی طرف بوسیلہ دلالت التزامی اشارہ بھی ہے تو مجھ کو اتنی امید نہیں کہ وہیں سے اثباتِ مدعا مذکور کوئی صاحب کر دیں…..‘‘

(صفحہ 34,33)

تفسیر بالرائے پر تکفیر کا چھینٹا! بڑے بڑے اکابر تک بوچھاڑجائے گی

’’مولانا! اگر یہی تفسیر بالرائے ہے تو بالضرور آپ مفسرین کبار کو بھی داخل وعید مذکور سمجھتے ہوں گے کیونکہ ایک ایک آیت میں اقوال متعددہ موجود سب تو مرفوع الیٰ رسول اللہ ﷺ ہو ہی نہیں سکتے اگر ہوگا تو ان اقوال متخالفہ میں سے کوئی ایک ہی مرفوع ہوگا، باقی سب منجملہ تفسیر بالرائے ہوں گے۔ سو یہ تکفیر کا چھینٹا فقط اسی گنہگار پر نہ پڑے گا بڑے بڑے اکابر تک یہ بوچھاڑ جائے گی۔ سو ہم تو یوں بھی سمجھ کر چپ ہو رہیں گےکہ ہم کیا اور ہمارا ایمان کیا، ایسے ایمان کو ننگِ کفر کہیے تو بجا ہے پر اکابرین دین کو آپ کیا منہ دکھلائیں گے۔‘‘

(صفحہ 52،51)

’’اگر فقط نئے مضامین کا نکالنا مخالفت جمہور ہے تو میں کیا تمام مفسرین کی جانب یہ الزام عائد ہوگا ایسا کون سا مفسّر ہے جس نے کوئی نہ کوئی نئی بات نہیں کہی اور کوئی نہ کوئی نکتہ نہیں نکالا۔‘‘

(صفحہ 52)

حجیت اجماع حجیت قرآن سے کم ہے

’’حجیت اجماع بہر حال حجیت قرآن شریف سے کم ہے اس لئے قرآن شریف کا عام اجماع کے عام سے اثبات عموم میں زیادہ نہ ہوگا تو کم بھی نہ ہوگا۔‘‘

(صفحہ 58)

خاتمیت زمانی سے غرض

’’غرض خاتمیت زمانی سے یہ ہے کہ دین محمدیؐ بعد ظہور منسوخ نہ ہو، علوم نبوت اپنی انتہا کو پہونچ جائیں، کسی اور نبی کے دین یا علم کی طرف پھر بنی آدم کو یہ احتیاج باقی نہ رہے۔ سو ظاہر ہے کہ یہ احتمال اگر ہے تو جب ہی ہے جب کہ انبیاء مفروض الوجود بعد زمان محمدی ﷺ یا فی زمان محمدی ﷺ اس زمین میں پیدا ہوں کیونکہ ان کی گنجائش ہے۔‘‘

(صفحہ 58)

توحیدی خداوندی سے بڑھ کر توحید محمدی پر زور

’’اپنے زمرہ میں سے تو آپ کسی کو بتلائیں کہ یہ افضلیت اس نے ثابت کی ہو، ہاں بے وجہ کا شور و دعویٰ افضلیت اگر دعویٰ مدلل سے بڑھ سکتا ہے تو البتہ وہ لوگ جن کو نہ خدا کی خدائی سے مطلب نہ اس کی قدرت پر کچھ نظر۔ اگر ہے تو دعوے امتناع نظیر محمدی ﷺ ہی ورد زبان ہے، توحید خداوندی کو منسوخ کر کے توحید محمدی پر ایمان ہے، بالیقین ہم سے بڑھے ہوئے ہیں مگر اہل انصاف اور فہم کے نزدیک یہ بڑھ جانا اگر ہے تو اسی قبیل کا ہے جس طرح نصاریٰ محبت حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے اہل اسلام سے بڑھے ہوئے ہیں۔‘‘

(صفحہ 67)

’’توہین والے آج کل سر خرو ہو بیٹھے تعظیم والوں کی جان کو بن گئی‘‘

’’باوجود یہ کہ میں نے کوئی بات موجب توہین شان نبوی ﷺ نہ کہی تھی، کہی تھی تو وہ بات کہی تھی کہ دربارہ اثبات افضلیت کسی ایک دو ہی نے کہی ہوگی جس پر ابناء روز نے یہ لتاڑ بتلائی ہے کہ ساری تن آسانیاں بھول گیا، دامن چھوڑانا مشکل پڑ گیا۔ خدانخواستہ اگر کوئی کلمہ موہم توہین بھی میرے منہ سے نکل جاتا تو خدا جانے کیا حال بناتے، میں نے غلط کہا توہین والے آج کل سرخ رو ہو بیٹھے تعظیم والوں کی جان کو بن گئی۔‘‘

(صفحہ 69)

خاتمیت مرتبی کی بجائے خاتمیت زمانی سے افضلیت ثابت کرنے کے متعلق دلچسپ لطیفہ

’’مجھ کو اس وقت ایک حکایت یاد آئی۔ کسی امیر جاہل کے کچھ ایسے ہی نیم ملّا سے منشی تھےاس امیر کے نام کے ساتھ بہادر تو نہ لکھا بحادر لکھ گئے، دوسرے منشی جو اتفاق سے آئے تو اپنی فروغ کے لئے اس منشی کی یہ غلطی نکال کر لائے۔ وہ امیر منشی اوّل پر بہت خفا ہوئے تو وہ منشی کیا کہتا ہے جناب عالی! کمترین تو بغرض تعظیم آپ کو بحادر بڑی ’’حے‘‘ سے لکھتا ہے، یہ منشی چاہتا ہے کہ آپ کی قدر گھٹ جاوے، بڑی ’’حے‘‘ کی جا چھوٹی ’’ہے‘‘ جائے۔ امیر صاحب کو یہ جواب پسند آیا اور منشی ثانی ہی کو نکلوا دیا۔‘‘

(صفحہ 69)

حق بات کہیں تو مخالفت، نہ کہیں تو دین میں رخنہ

’’….ایسے اختلافات کے زمانہ میں جس میں ایک طرف رسول اللہ ﷺ کی افضلیت ہاتھ سے جاتی ہے اور ایک طرف خدا کی اعجوبہ کاری کے سوا صحابہ کرامؓ اور محدثین عظام بلکہ خود حضرت خاتم عالی مقام ﷺ کی تکذیب نظر آتی ہے اگر ایسے فیصلہ کی نہ کہیے تو دین میں رخنہ اہل دین کا نقصان اور اگر کہیے تو آپ سے عنایت فرما یوں سیدھی الٹی سنانے کو تیار ہیں جس سے عوام اہل اسلام کے نزدیک بات کا اعتبار گیا سو گیا اور ایک نزاع عظیم کھڑا ہوگیا جس سے کفار و اہل بدعت کو ہنسنے کا موقع ملا اور آپس میں بجائے محبت ایمانی اور عداوت نفسانی اور خلش شیطانی کھڑی ہوگئی۔ خیر بجز اس کے اور کیا کہیے۔ واللّٰہ المستعان علی ما تصفون۔‘‘

(صفحہ74)

آپ کا خدا ایسا عاجز ہوگا ہمارا تو ایسے خدا کو سلام ہے

’’ہمارا بھی یہی مطلب ہے کہ رسول اللہ ﷺ دربارۂ کمالات اگرچہ بمقابلہ کائنات لا ثانی ہیں اور بلحاظ وعدہ کوئی آپ کا ثانی نہ ہوا ہے نہ ہو مگر خدائے قدیر کو ایسے صاحب کمال کا ثانی بنا دینا کچھ دشوار نہیں بلکہ اس کی قدرت لا انتہا کے سامنے ایسے ایسے افراد غیر متناہی کا بنا دینا ایسا ہی آسان ہے جیسا خود رسول اللہ ﷺ کا پیدا کرنا۔ ولا یمسہٗ لغوب۔‘‘

(صفحہ 87،86)

’’اور اگر نظیر بمعنی اصلی مطلوب ہے تو سنیے بعد لحاظ خاتمیت زمانی بھی نظیر خاتم النبیین ﷺ ممکن ہے اور اگر اب بھی ممتنع ہے تو یوں کہو خدا تعالیٰ ایسا عالم اور کوئی نہیں بنا سکتا تو ہمارا تو ایسے خدا کو سلام ہے ، آپ کا خدا ایسا عاجز خدا ہوگا۔‘‘

(صفحہ 89)

اگر فضیلت محمدی ثابت کرنا بدعت ہے تو ہاں میں بدعتی ہوں

’’اگر امر مجمع علیہ کو تسلیم کر کے کوئی نکتہ زائد کہنا بدعت ہے تو میں کیا تمام مفسرین اور حضرات صوفیہ کرام مبتدع ہوں گے۔ خیر مرگ انبوہ جشنے دارد غنیمت ہے آپ نے تنہا ہمیں پر عنایت نہیں فرمائی دور دور تک آپ کے ارادے ہیں…. اگر آپ مخالفت اجماع ثابت کرتے ہیں تو کسی کتاب میں یہ بات نکال کر لائیے کہ اہل اجماع یہ فرما گئے ہیں کہ خاتمیت زمانی سے زیادہ مراد لینا نہ چاہئے جو خاتمیت مرتبی مراد لی وہ مبتدع ہے بلکہ اتنا ہی دکھلا دیجیے کہ خاتم النبییّن کے یہی معنے ہیں ہاں یہ مسلم کہ خاتمیۃ زمانی اجماعی عقیدہ ہے …..اب گزارش قابل یہ ہے کہ فضیلت نبوی ﷺ کا ثابت کرنے والا اگر مبتدع ہے اور آپ کے نزدیک بدعت کے یہی معنے ہیں تو البتہ یہ کمترین مبتدع ہے ورنہ پھر فرمائیے کون ہوتا ہے؟‘‘

(صفحہ 96)

زمین و زمان اور کون و مکان کو آپؐ سے شرف ہے آپؐ کو اُن سے شرف نہیں

’’سو خاتمیت یا اوّلیت زمانی کچھ کمال نہیں ورنہ زمانہ سے افضلیت کا استفاضہ ماننا پڑے گا، یہ معنی ہوں گے زمانۂ اوّل آپ پیدا ہوئے، وہ اشرف تھا آپ بھی اشرف ہوں گے، سو یہ غلط۔

ہمارا تو یہ اعتقاد ہے کہ زمین و زمان اور کو ن و مکان کو آپ سے شرف ہے، آپ کو اُن سے شرف نہیں۔‘‘

(صفحہ 137)

کتاب ’’مناظرہ عجیبہ‘‘ کے یہ اقتباسات حضرت مولانا قاسم نانوتوی صاحبؒ کے عقیدۂ ختم نبوت کے فہم کو ظاہر کرتے ہیں کہ آپ خاتمیت زمانی کی بجائے خاتمیت مرتبی میں آنحضور ﷺ کو خاتم النبیینؐ مانتے تھےاور یہ معنے کرنے پر اپنے لئے لفظ ’’مبتدع‘‘ قبول کرنے کو تیار ہوگئے لیکن وہ معنے قبول نہ کئے جو سطحی علماء آپ سے کروانا چاہتے تھے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے بھی ان سطحی مولویوں کو یہی جواب دیا تھا کہ ‘‘گر کفر ایں بود بخدا سخت کافرم۔ ’’خاتم النبییّن‘‘ کے معنوں کا اظہار حضرت نانوتوی صاحبؒ نے اپنی بعض دیگر تحریرات میں بھی کیا ہے جن کا اضافہ بھی اس مضمون میں موزوں ہوگا۔ آپ فرماتے ہیں:

’’حسب اشارہ مثال خاتمیۃ بادشاہ خاتم وہی ہوگا جو سارے جہاں کا سردار ہو۔ اس وجہ سے ہم رسول اللہ ﷺ کو سب میں افضل سمجھتے ہیں۔ پھر یہ آپ کا خاتم ہونا آپ کے سردار ہونے پر دلالت کرتا ہےاور بقرینہ دعویٰ خاتمیۃ جو رسول اللہ ﷺ سے منقول ہے یہ بات یقینی سمجھتے ہیں کہ وہ جہان کے سردار جن کی خبر حضرت عیسیٰؑ دیتے ہیں حضرت محمد رسول اللہ ﷺ ہی ہیں۔‘‘

(حجۃ الاسلام از حضرت مولانا قاسم نانوتوی صاحبؒ۔ صفحہ 54 ۔ مدرسہ اسلامیہ دیوبند)

’’حضرت رسول اللہ ﷺ پر تمام مراتب کمال ایسی طرح ختم ہوگئے جیسے بادشاہ پر مراتب حکومت ختم ہو جاتے ہیں، اس لئے جیسے بادشاہ کو خاتم الحکام کہہ سکتے ہیں رسول اللہ ﷺ کو خاتم الکاملین اور خاتم النبیین کہہ سکتے ہیں۔‘‘

(حجۃ الاسلام صفحہ 53)

’’سو جس میں اس صفت کا زیادہ ظہور ہو جو خاتم الصفات ہو یعنی اس سے اوپر اور صفت ممکن الظہور یعنی لائق انتقال و عطائے مخلوقات نہ ہو، وہ شخص مخلوقات میں خاتم المراتب ہوگا اور وہی شخص سب کا سردار اور سب سے افضل ہوگا، ایسے شخص سے البتہ بالاجماع عجز و نیاز کامل ادا ہو سکتا ہے…. ہم اسی کو عبد کامل اور سید الکونین اور خاتم النبیین کہتے ہیں۔‘‘

(انتصار الاسلام مصنفہ مولانا قاسم نانوتوی صفحہ 49,48 میر محمد کتب خانہ آرام باغ کراچی)

’’دین خاتم النبیین کو دیکھا تو تمام عالم کے لئے دیکھا۔ وجہ اس کی یہ ہوئی کہ بنی آدم میں حضرت خاتم اس صورت میں بمنزلہ بادشاہ اعظم ہوئے جیسا اس کا حکم تمام اقالیم میں جاری ہوتا ہے ایسا ہی حکم خاتم یعنی دین خاتم تمام عالم میں جاری ہونا چاہئے ورنہ اس دین کو لے کر آنا بیکار ہے۔ الغرض حضرت خاتم جیسے بمقابلہ معبود عبد کامل ہیں ایسے ہی بمقابلہ دیگر بنی آدم حاکم کامل ہیں اور کیوں نہ ہوں سب سے افضل ہوئے تو سب پر حاکم بھی ہوں گے اور اس لئے یہ ضرور ہے کہ ان کا حکم سب حکموں کے بعد صادر ہو کیونکہ ترتیب مرافعات سے ظاہر ہے کہ حکم حاکم اعلیٰ سب کے بعد ہوتا ہے۔‘‘

(انتصار الاسلام صفحہ 50,49)

’’….. علم سے اول اور کوئی صفت نہیں بلکہ علم ہی پر مراتب صفات متعلقہ بالغیر ختم ہو جاتے ہیں اس لئے وہ نبی جو صفت العلم سے مستفید ہو اور بارگاہ علمی تک باریاب ہو تمام انبیاء سے مراتب میں زیادہ اور رتبہ میں اول اور سب کا سردار اور سب کا مخدوم مکرم ہوگا اور سب اُس کے تابع و محتاج ہوں گے اُس پر مراتب کمالات ختم ہوجائیں گے اس لئے وہ نبی خاتم الانبیاء بھی ضرور ہی ہوگا وجہ اس کی یہ ہے کہ انبیاء بوجہ احکام رسانی مثل گورنر وغیرہ نُوّاب خداوندی ہوتے ہیں اس لئے اُن کا حاکم ہونا ضرور ہے چنانچہ ظاہر ہے اس لئے جیسے عہدہ ہائے ماتحت میں سب میں اوپر عہدہ گورنری یا وزارت ہے اور سوا اس کے اور سب عہدے اُس کے ماتحت ہوتے ہیں، اوروں کے احکام کو وہ توڑ سکتا ہے اُس کے احکام کو اور کوئی نہیں توڑ نہیں سکتا اور وجہ اس کی یہی ہوتی ہے کہ اُس پر مراتب عہدجات ختم ہو جاتے ہیں ایسے ہی خاتم مراتب نبوت کے اوپر اور کوئی عہدہ یا مرتبہ ہوتا ہی نہیں، جو ہوتا ہے اُس کے ماتحت ہوتا ہے اس لئے اُس کے احکام اوروں کے احکام کے ناسخ ہوں گے اَوروں کے احکام اُس کے احکام کے ناسخ نہ ہوں گے اور اس لئے یہ ضرور ہے کہ وہ خاتم زمانی بھی ہو کیونکہ اوپر کے حاکم تک نوبت سب حکام ماتحت کے بعد میں آتی ہے اور اس لئے اُس کا حکم اخیر حکم ہوتا ہے۔‘‘

(مباحثہ شاجہانپور صفحہ 24،25 ۔مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی جنوری 1891ء) (یہ مباحثہ 1878ء میں شاہجہانپور میں ہوا تھا)

’’جو شخص بذات خود صفت علمی خداوندی سے مستفید ہو اور سوا اُس کے اور سب علم میں اُس کے سامنے ایسے ہوں جیسے آفتاب کے سامنے قمر و کواکب و آئینہ و ذرات، جیسے یہ سب نور میں آفتاب سے مستفید ہیں گو منوّرات سب کے جدے جدے ہوں ایسے ہی اور سب علم میں اُس سے مستفید ہوں گو معلومات میں اُس سے علاقہ نہ ہو وہ شخص خاتم النبیین ہوگا اور سوا اُس کے اور انبیاء اُس کے تابع اور رتبہ میں اُس سے کم۔‘‘

(قبلہ نما صفحہ 61 مطبع مجتبائی واقع دہلی)

’’….چونکہ خدا تک بے واسطہ کسی کو رسائی نہیں، جو نبی رتبہ میں سب میں اول ہوگا اُس کا دین یعنی اُس کے احکام اعتبار زمانہ سب میں آخر رہیں گے کیونکہ ہنگام مرافعہ جو موقع نسخ حکم حاکم ماتحت ہوتا ہے حاکم بالا دست کے حکم کی نوبت آخر میں آتی ہے۔ غرض اس وجہ سے مصدر علوم کے احکام اور علوم تک نوبت بعد میں آئے گی اور اس طور اُس کے دین کا بہ نسبت اور ادیان ناسخ ہونا ظہور میں آئے گا۔‘‘

(قبلہ نما صفحہ 62 ۔ مطبع مجتبائی واقع دہلی)

’’…. لا جرم دین خاتم الانبیاء ناسخ ادیان باقیہ اور خود خاتم الانبیاء سرور انبیاء اور افضل الانبیاء ہوگا۔’’

(قبلہ نما صفحہ 63)

حضرت مولانا نانوتوی کے یہ بیانات اور اقتباسات خود اتنے واضح ہیں کہ ان کے لئے کسی وضاحتی نوٹ کی ضرورت نہیں، دیوبندی علماء کو اپنے بانی دارالعلوم کے ساتھ کھڑا ہونا چاہئے تھا لیکن انہوں نے مخالفت احمدیت میں اپنے بانی کا ساتھ بھی چھوڑ دیا اور لیت و لعل کر کے اپنے آپ کو پھر اسی جگہ لے آئے جہاں سے کہ حضرت نانوتوی نکالنا چاہتے تھے، بہرحال حضرت مولانا صاحبؒ نے اپنا فرض ادا کیا۔ در اصل وہ زمانہ ہی ایسا تھا کہ ’’یسوع یا محمدؐ‘‘ پیغام کی یلغار تھی اور مسیحی پادری بڑی شدّ و مدّ سے یسوع کی افضلیت ثابت کر کے عقیدت کے جذبات یسوع کی طرف پھیرنا چاہ رہے تھے چنانچہ اُن کے پیغام کو غلط ثابت کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے مسیح محمدیؐ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوٰۃ و السلام کو بھیجا جنھوں نے ثابت کر دکھایا کہ ’’زندہ نبی‘‘ صرف اور صرف حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ ہیں اور حضرت خاتم النبییؐن کے ساتھ عقیدت و محبت کا عظیم سبق دیا۔ دیوبندی علامہ ڈاکٹر خالد محمود ڈائریکٹر اسلامک اکیڈمی مانچسٹر لکھتے ہیں:

’’ختمِ نبوت زمانی کتنا پختہ عقیدہ کیوں نہ ہو ختمِ نبوت مرتبی میں عقیدت بہر حال زیادہ ہے اور وہ ظاہر میں لوگوں کو زیادہ کھینچتی ہے۔‘‘

(تحذیر الناس صفحہ 17۔ ناشر ادارہ العزیز گوجرانوالہ ۔ بار سوم جنوری 2001ء)

ختم نبوت مرتبی میں عقیدت بہرحال زیادہ ہے تو پھر رسول مقبول ﷺ کے ساتھ عقیدت میں پیچھے کیوں رہتے ہو آؤ آپ بھی اس تبلیغ میں شامل ہو جاؤ جس سے ہمارے پیارے نبی ﷺ کے ساتھ عقیدت و محبت میں اضافہ ہو اور حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا کی روش کو چھوڑ دو اور ان لوگوں کو کافر مت کہو جنہوں نے حضرت نبی اکرم ﷺ کی عقیدت دنیا میں پھیلانے کا عزم کر رکھا ہے۔حضرت مولانا قاسم نانوتوی اپنی کتاب ’’تحذیر الناس‘‘ کے آخر پر فرماتے ہیں:

’’الغرض ناظرانِ اوراق کی خدمت میں یہ عرض ہے کہ بے وجہ فوّارہ کفر نہ بنیں کہ جو سامنے آیا، ایک کفر کا چھینٹا جڑا۔ مولویوں کا کام یہ نہیں کہ مسلمانوں کو کافر بنائیں، ان کا کام یہ ہے کہ کافروں کو مسلمان کریں، اعتبار نہ ہو تو پہلے علماء کے افسانے یاد کرو۔‘‘

(غلام مصباح بلوچ۔ کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 27 مارچ 2020

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ