قدیم الہامی کتب میں مسیح کی آمد ثانی کی پیشگوئیاں
حضرت مسیح موعودؑ نے چودہویں صدی کے سر پر ظاہر ہو کر تمام مذاہب کے لوگوں کے انتظار کو ختم کر دیا
دنیا کے تمام مذاہب کی کتب میں آخری زمانہ میں ایک عظیم الشان مصلح کے ظہور کا ذکر ملتا ہے ۔ہندو اپنے کرشن کا انتظار کررہے ہیں ، زرتشت ازم والے سوشیانت کا انتظار کررہے ہیں، بدھ ازم والے بدھا، کے انتظار میں ہیں۔ جس کو انہوں نے متیا کا نام دیا ہے ۔ اسی طرح یہود، عیسائی اور مسلمان آخری زمانہ میں مسیح موعود کے آنے کا انتظار کررہے ہیں ۔ ہندووں کی کتاب بھگوت گیتا میں لکھا ہے کہ
’’جب کبھی دھرم کا اناش (بگاڑ) ہونے لگتا ہے اور آدھرم (لامذہبیت) کی زیادتی ہونے لگتی ہے تب میں اوتار دھان (ظہور ) کیا کرتا ہوں نیکیوں کی حفاظت گناہگاروں کی سرکوبی اور دھرم کی امامت کے لئے میں اوتار لیا کرتا ہوں۔‘‘
(بھگوت گیتا صفحہ 30 ادھیائے نمبر 4اشلوک نمبر 8،7)
’’جب ویدوں کی دی گئی تعلیمات اور شریعت ختم ہونے کو ہوگی اور کالکی کے دوبارہ ظہور ہونے کا وقت قریب ہوگا ، تو ایک حصہ پیشگوئی کا اس کی اپنی روحانی تجلی یعنی براہما کے ذریعے ہوگا۔ جو کہ شروع اور آخر ہے جو سب چیزوں پر حاوی ہے۔ وہ زمین پر آئے گا………وہ زمین میں تقویٰ کو دوبارہ پھیلائے گا اور وہ لوگ جو کالکی کے زمانے کا انتظار کررہے ہوں گے انہیں خدا سے متنبہ کرے گا سو جو اس وقت اپنے اعمال ٹھیک کرے گا وہی انسان قدر کے لائق ہوگا۔وہ پاکیزگی کی راہ کو ہموار کرے گا۔‘‘
(وشنو پرانا 4:24 صفحہ498)
اسی طرح زرتشت ازم کی کتب میں ایک مصلح کا ذکر ملتا ہے جس کو Saoshyant کا نام دیا گیا ہے۔چنانچہ لکھا ہے کہ
’’وہ نبی جس کا ظہور سوشانت اور استوت اریتا کے نام سے ہوگا۔ اس کا ظہور اس پوری مادی دنیا کو فائدہ پہنچانے کے لئے ہوگا۔ استوت اریتا کا ظہور اس لئے ہوگا کہ وہ اس مادی دنیا کو زندہ کرے گا جو ہلاک ہوچکی ہے۔‘‘
(Khordeh Avesta Farvardin Yasht:129 page 249)
اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ
’’نبی سوشیانت کا ظہور اس لئے ہوگا تاکہ وہ بُرے لوگوں کا سامنا کرے جن کی فطرت شیطانی ہے اور متقی لوگوں کے خلاف جو بُرائیاں یا نقصان دہ چیزیں جنم لے رہی ہیں ان کا خاتمہ کرسکے۔ تاکہ شیطان اور بُرے لوگوں کی وجہ سے جو بُرائیاں پیدا ہوچکی ہیں ان کو ختم کرسکے۔ مستقبل میں آنے والا نبی روحانی مُردوں کو زندہ کرے گا۔‘‘
(Khordeh Avesta Farvardin Yasht 13:129 page 249)
سوشیانت کامطلب مستقبل کا محسن ہے۔ چنانچہ زرتشت ازم والے آنے والے مسیح کو اس نام سے پکارتے ہیں۔اسی طرح مزید لکھا ہے کہ
یعنی حضرت زرتشت نیکی کے خدا (بقول زرتشت ازم) اہورمزد سے پوچھتے ہیں کہ کب وہ وقت آئے گا جب یہ مادی دنیا ٹھیک ہوگی اور سیدھے راستہ پر آئے گی تو اہورمزد جواب دیتا ہے کہ 3000سال بعد ۔
(The Pahlavi Rivayat Accompanying the Dadestan i Denig volume 2 chapter 25:1,2 page 415)
حضرت زرتشت علیہ السلام کے زمانہ کے بارے میں اختلاف پایا جاتاہے ۔بعض کے نزدیک 10قبل مسیح سے15 قبل مسیح ہے اور بعض کے نزدیک 6قبل مسیح کا زمانہ ہے۔ چنانچہ اگر پہلی والی بات مانی جائے تو حضرت مسیح موعود ؑ 3000 سال بعد ہی آئے ہیں اور اور فارسی النسل بھی ہیں جیسے حضرت زرتشتؑ بھی فارسی تھے۔ اس طرح بدھ ازم والے بھی ایک آنے والے مسیح کے انتظار میں ہیں جس کو متیا کہتے ہیں اور اس کی آمد کے وقت کے حالات کچھ اس طرح بیان ہیں۔
“And in the time of those people this continent of Jambudipa (India) will be powerful and prosperous, and villages, town and cities will be but a cock’s flight one from the next. This Jambudipa, like Avici will be as thick with people the Varanasi of today will be royal city called Ketumati, powerful and prosperous, crowded with people and well-supplied …..And in that time ….. there will arise in the world a Blessed Lord, an Arahant fully-enlightened Buddha named Matteyya, endowed with wisdom and conduct, a Well-Farer, Knower of the world, incomparable Trainer of men to be tamed, Teacher of the gods and humans, enlightened and blessed , just as I am now. He will thoroughly know by his own super-knowledge, and proclaim, this universe with devas and maras and Brahmas,its ascetics and Brahmans, and this generation with its princess and people, just as I do now. He will teach the Dhamma, lovely in its beginning ,lovely in its middle,lovely in its ending , in the spirit and in the letter, and proclaim,just as I do now, the holy life in its fullness and purity.He will be attended by a company of thousands of monks, just as I am attended by a company of hundreds.”
(The Long Discourse of Buddha translation of Digha Nikaya chapter cakkavatti-sihanada sutta: 23,25,26page 403-404)
21جون 1945ء کے الفضل کے شمارہ میں اس پیشگوئی کا ترجمہ کچھ یوں لکھا ہوا ہے کہ
’’اس موعود کے آنے کے وقت ہندوستان پورا مہذب اور آباد ہوگا۔چھوٹے بڑے گاؤں اور شہر اس میں بکثرت آباد ہوچکے ہوں گے۔حتّٰی کہ ان کی آبادی اتنی گنجان ہوگی کہ مرغا ایک گھر سے دوسرے گھر چھلانگ لگا کر پہنچ جائے گا۔ نرکت(درخت) اور سرکنڈے کے بن کی طرح ہندوستان انسانوں کی آبادی سے بھر جائے گا۔ یعنی اس کے ویران مقامات بھی آبادہوجائیں گے ۔ اس زمانے میں ہندوستان میں ایک ایسارہبر آئے گا، جو کہ میتریا بدھ ہوگا۔ یعنی وہ مختلف اقوام میں حقیقی دوستی اور سچی معرفت الہٰی قائم کرے گا۔وہ ملہم روحانیت کے اعلیٰ اور ارفع مقام کا مالک اور دوسروں کو روحانیت و معرفت الہٰی حاصل کرانے والا ہوگا۔ جیساکہ آج میں ہوں۔وہ موعود دیو،برہما،برہمن وغیرہ سب قسم کے انسانوں سے بھرے ہوئے سارے جہان کی حقیقت خود سمجھ کر ان سب اقوام کو تبلیغ کرے گا۔جیساکہ میں آج اپنی قوم کو تبلیغ کررہاہوں ۔ وہ ایک ایسے واضح صاف اور آسان مذہب کو پیش کرے گا جو کہ خالص روحانیت اور توحید خالص کا حامل ہوگا اور وہ اپنے کئی لاکھ مریدوں کے ساتھ رہے گا ۔جیساکہ اس وقت میں کئی سو مریدوں کے ساتھ رہتا ہوں اور وہ ایسی بستی میں پیدا ہوگا جو کہ اپنے علاقے میں بطور نشان یا جھنڈے کے ہوگی۔
اس پیشگوئی میں مندرجہ ذیل باتیں قابل ذکر ہیں کہ
(1) وہ موعود ہندوستان میں پیدا ہوگا۔
(2) وہ آخری زمانے میں پیدا ہوگا۔
(3) اس وقت ہندوستان کی آبادی بہت بڑھی ہوگی۔
(4) اس وقت ہندوستان کے ویران علاقے بھی آباد ہو جائیں گے۔
(5) وہ ایک نہایت آسان اور توحید خالص کو پیش کرنے والا اور روحانیت کے اعلیٰ مقام تک پہنچنے والے مذہب کو پیش کرے گا۔
(6) اس پر اس کی زندگی میں ہی بہت سے انسان ایمان لے آئیں گے۔
(7) اس کے بہت سے متبعین اس کے پاس آ کر رہیں گے۔
اب اگر غور کیا جائے تو تمام علامات بڑے زوروشور سے حضرت مسیح موعود ؑ پر پوری اتر رہی ہیں۔
اسی طرح عیسائی بھی مسیح کی آمد ثانی کے انتظار میں تھے۔
چنانچہ نئے عہد نامہ میں لکھا ہے۔
’’جیسے بجلی پورب سے کوند کر پچھم تک دکھائی دیتی ہے ویسے ہی ابن آدم کا آنا ہوگا…اور فوراً ان دنوں کی مصیبت کے بعد سورج تاریک ہوجائے گا اور چاند اپنی روشنی نہ دے گا اور ستارے آسمان سے گریں گے اور آسمانوں کی قوتیں ہلائی جائیں گی اور اس وقت ابن آدم کا نشان آسمان پر دکھائی دے گا۔اور اس وقت زمین کی سب قوتیں چھاتی پیٹیں گی اور ابن آدم کو بڑی قدرت اور جلال کے ساتھ آسمان کے بادلوں پر آتے دیکھیں گی۔‘‘
(جدید عہد نامہ متی باب24 آیت 27،29،30)
اسی طرح مسلمان بھی مسیح ابن مریم ؑ کے نزول کے منتظر تھے جیسا کہ قرآن اور احادیث میں آخری زمانہ میں مسیح محمدی کے بارے میں پیشگوئیاں پائی جاتی ہیں۔ ان سب مذاہب کا دعویٰ ہے کہ جب ان کا روحانی مصلح آ ئے گا تو دنیا کو امن سے بھر دے گا نور ساری دنیا میں پھیل جائے گا اور ظلمت کے اندھیرے مٹ جائیں گے۔ اس روحانی مصلح کے آنے سے دنیا میں فساد ختم ہوجائے گا اور شیر اور بکری ایک ہی جگہ سے پانی پئیں گے۔لیکن یہاں سوچنے کی بات ہے کہ اگر ایک ہی وقت میں تمام مذاہب کے روحانی مصلح آگئے تودنیا میں امن کی بجائے فساد عظیم برپا ہوجائے گا۔اس طرح تو لوگ اور فتنوں میں مبتلاء ہوجائیں گے۔چنانچہ اس کا حل ایک ہی ہے کہ آخری زمانہ میں ایک ایسا مصلح آئے جو پہلے تمام انبیاء کا بروز ہو اور وہ تمام اقوام کو ایک ہاتھ پر جمع کرے۔ رسول اللہ ﷺ کی آمد کے بعد تو اور بھی ضروری ہو جاتا ہے کہ ایک مصلح آئے۔ کیونکہ پہلی امتوں کی تعلیمات تو ایک خاص وقت اور ایک خاص قوم کے لئے تھیں لیکن صرف اسلام ایسا عظیم الشان مذہب ہے جس کی تعلیمات تمام دنیاکے لئے ہیں۔چنانچہ اسلام اور رسول اللہ ﷺ کی امت میں ہی ایک ایسا عظیم الشان مصلح پیدا ہوسکتا ہے جو تمام امتوں کو اسلام کے جھنڈے تلے لا سکے۔ چنانچہ اس آنے والے مصلح کے دو کام ہیں ایک تو امت مسلمہ کی اصلاح اور دوسری تمام اقوام کی اصلاح کرنا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے چودھویں صدی کے سر پر ظاہر ہوکر تمام مذاہب کے لوگوں کے انتظار کو ختم کردیا۔ چنانچہ آپؑ فرماتے ہیں۔
’’دنیا میں کوئی نبی نہیں گزرا جس کا نام مجھے نہیں دیا گیا ۔سو جیساکہ براہین احمدیہ میں خدا نے فرمایا ہے۔ میں آدمؑ ہوں، میں ابراہیمؑ ہوں، میں اسحاقؑ ہوں، میں یعقوبؑ ہوں، میں اسمٰعیلؑ ہوں، میں موسیٰؑ ہوں، میں داؤدؑ ہوں، میں عیسیٰ ابن مریم ؑ ہوں، میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہوں۔ یعنی بروزی طور پر جیسا کہ خدا نے اسی کتاب میں یہ سب نام مجھے دئیے اور میری نسبت جری اللہ فی حلل الانبیاء فرمایا یعنی خدا کا رسول نبیوں کے پیرایوں میں۔ سو ضرور ہے کہ ہر ایک نبی کی شان مجھ میں پائی جاوے اور ہر ایک نبی کی ایک صفت کا میرے ذریعہ سے ظہور ہو۔‘‘
(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد22 صفحہ521)
پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں ۔
’’جو ملک ہند میں کرشن نام ایک نبی گزرا ہے جس کو رُدرگوپال بھی کہتے ہیں (یعنی فنا کرنے والا اور پرورش کرنے والا) اس کا نام بھی مجھے دیا گیا ہے پس جیسا کہ آریہ قوم کے لوگ کرشن کے ظہور کا ان دنوں میں انتظار کرتے ہیں وہ کرشن میں ہی ہوں اور یہ دعویٰ صرف میری طرف سے نہیں بلکہ خداتعالیٰ نے باربار میرے پر ظاہر کیا ہے کہ جو کرشن آخری زمانہ میں ظاہر ہونے والا تھا وہ تو ہی ہے آریوں کا بادشاہ۔‘‘
(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد22 صفحہ521)
(مبارک احمد منیر۔ برکینا فاسو)