تبرکات
حضرت مرزا بشیر احمدؓ
جب حضرت عثمانؓ نے خلافت سے دستبرداری سے انکار کیا تو حضرت امام حسنؓ کیوں اس پر رضا مند ہو گئے؟
(کراچی کے ایک نوجوان میاں عبدالمجید ناصر نے اپنے ایک خط میں دو سوال لکھ کر بھجوائے ہیں۔ ان سوالوں کا مختصر سا اصولی جواب دوسرے دوستوں کے فائدہ کے لئے ذیل میں شائع کیا جاتا ہے۔)
مکرم و محترم عبدالمجید صاحب ناصر۔کراچی
اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَۃُ اللّٰہ وَ بَرکَاتُہٗ
آپ کا خط موصول ہوا۔ اگر آپ سوچنے کی عادت ڈالیں تو آپ کو ان چھوٹے چھوٹے مسائل میں پوچھنے کی ضرورت محسوس نہ ہو بلکہ آپ خود ہی انہیں حل کر لیا کریں اور آپ کے علم میں بھی اضافہ ہو۔ ہم اپنے نوجوانوں سے یہی توقع رکھتے ہیں۔ بہرحال بہت مختصر طور پر بلکہ صرف اشارہ کے رنگ میں لکھتا ہوں۔
(1) پہلا سوال آپ کا یہ ہے کہ جب ابوجہل کا اصل نام اور تھا تو پھر لَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ (الحجرات:12) کے قرآنی حکم کے خلاف اس کا نام ابوجہل کیوں رکھا گیا ؟ سو اس کے متعلق یہ جاننا چاہئے کہ ابوجہل کیونکہ ایک عظیم الشان رسول بلکہ خاتم النبیّین صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت میں کھڑا ہوا تھا اور اس نے آپؐ کی مخالفت کو انتہا تک پہنچا دیا تھا۔ اور یہ مخالفت بھی حد درجہ مکروہ قسم کی نہایت جاہلانہ طریق کی تھی۔ اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور صحابہؓ نے خدائی منشاء کے ماتحت اس کا نام ابوجہل رکھا۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ گویا جہالت کا باپ ہے۔ یعنی جہالت میں انتہا تک پہنچا ہوا ہے اور اس میدان میں گویا ناپاک بچے پیدا کر رہا ہے۔ اور یہ نام کوئی طعنہ نہیں تھا بلکہ اس کی حالت کے عین مطابق تھا۔ کیونکہ وہ اپنی ناپاک مخالفت اور جہالت اور فسادی کارروائیوں میں تمام اخلاقی اور انسانی حدود سے تجاوز کر گیا تھا اور اسے امن اور انصاف اور دیانتداری کا کوئی پاس نہیں رہا تھا۔
آنحضرت ﷺ چونکہ خدا کے عظیم الشان رسول تھے اور تمام صحابہ ؓ آپ کے ساتھ اور آپ کے ہم نوا اور تابع تھے اس لئے آپ کا یہ فیصلہ گویا ایک خدائی جج کا فیصلہ تھا اور بالکل حقیقت پر مبنی تھا۔ طعن نہیں تھا۔
باقی رہا یہ قرآنی ارشاد کہ وَلَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ (الحجرات:12) سو یہ بالکل درست ہے۔ مگر یہ ایسے لوگوں کے متعلق ہے جو بلا سوچے سمجھے دوسرے لوگوں کا بلاوجہ یا عادتاً کوئی نام رکھ دیتے ہیں۔ اور اس میں طعن اور استہزاء کا طریق اختیار کرتے ہیں۔ پس فرق ظاہر ہے۔
یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ابوجہل آنحضرت ﷺ کو محمدؐ کی بجائے نعوذباللہ مذمّم کہہ کر پکارا کرتا تھا۔ سو ابوجہل کا نام خدا کی طرف سے اس کے اس ناپاک طعن کا جواب تھا اسے عام لوگوں کے القاب دینے سے کوئی دور کی بھی نسبت نہیں۔
(2) دوسرا سوال آپ کا یہ ہے کہ جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے خلافت سے دستبرداری کو خدائی منشاء اور ارشادِ نبوی کے خلاف جانا اور سختی سے انکار کیا۔ بلکہ اس کی وجہ سے مرنا تک قبول کیا تو حضرت امام حسنؓ نے کیوں خلافت سے دستبرداری دے دی؟
سو اس کے متعلق یہ یاد رکھناچا ہئے کہ اول تو حضرت عثمانؓ نے اپنے متعلق خدا اور رسولؐ کے اس ارشاد کی تعمیل کی کہ ’’خدا تمہیں ایک قمیص پہنائے گا اور لوگ اسے اتارنا چاہیں گے مگر تم اسے نہ اتارنا‘‘ اور اس کے مقابل پر حضرت امام حسنؓ نے اپنے متعلق رسولؐ کے ارشاد کو پورا کیا جو یہ تھا کہ ’’میرا یہ بیٹا دو مسلمان گروہوں میں صلح کرائے گا‘‘۔ پس دونوں سرخرو ہوگئے اور کوئی اعترا ض نہ رہا۔
علاوہ ازیں حضرت امام حسن ؓ کی خلافت سے دستبرداری اپنی خلافت کے استحکام سے پہلے تھی۔ اور استحکام سے پہلے کی دستبرداری جو ایک نیک غرض سے کی گئی ہو اور اس میں اعلیٰ جماعتی مفاد مقصود ہوں اور خلیفہ برضائے خود اس پر اتفاق کر جائے قابلِ اعتراض نہیں۔ قرآن شریف نے وَلَیُمَکِّنَنَّ لَھُمْ دِیْنَھُمْ (النور:56) کے الفاظ میں یہی ارشاد فرمایا ہے کہ تمکنت کے بعد خلافت کا استحکام ہوتا ہے۔ اور چونکہ حضرت امام حسنؓ کا یہ فعل تمکنت سے پہلے تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق تھا اس لئے اس پر اعتراض نہیں ہو سکتا۔
مزید وضاحت کے لئے آپ اس بارے میں میری کتاب ’’سیرت خاتم النبیّینؐ حصہ دوم‘‘ کا آخری باب بھی جو خلافت کے متعلق ہے ضرور ملاحظہ کریں۔ اس سے ظاہر ہوگا کہ حضرت امام حسنؓ کی دستبرداری خلافت کے استحکام اور تمکنت سے پہلے تھی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے عین مطابق تھی۔ مگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے دستبرداری کا مطالبہ آپ کی خلافت کے استحکام اور تمکنت کے بعد تھا اور باغیوں کی طرف سے تھا۔ اور پھر یہ مطالبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے صریح خلاف تھا۔ پس فرق ظاہر ہے۔ فَافْھُمْ وَ تَدَبَّرْ وَلَا تَکُنْ مِنَ الْمُمْتَرِیْنَ۔ فقط والسلام
خاکسار مرزا بشیر احمد
11جولائی 1960ء
(روزنامہ الفضل27 جولائی 1960ء)