• 7 جون, 2025

تحریرات حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور وبائی امراض

بیماریاں اور بلائیں نازل ہونے کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ

’’بہت سے لوگ اس امر سے غافل ہیں کہ انسان پر جو بلائیں آتی ہیں وہ بلاوجہ یونہی آ جاتی ہیں یا ان کے نزول کو انسان کے اعمال سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ایسا خیال بالکل غلط ہے ۔یہ خوب یاد رکھو کہ ہر بلا جو اس زندگی میں آتی ہے یا جو مرنے کے بعد آئے گی جس کا ہمیں یقین ہے ۔اس کی اصل جڑ گناہ ہی ہے ۔‘‘

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ نمبر 116)

مزید فرمایا کہ

’’اسی واسطے اللہ کریم نے مسلمانوں کو غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ والی دعا سکھائی ہے کہ جو لوگ اسی دنیا کے کیڑے ہوتے ہیں اوراسی دنیا کی خاطر رسولوں اور نبیوں کا انکار کر دیتے ہیں اور پھر اسی دنیا میں ہی ان پر عذاب نازل ہوتا ہے ان میں شامل ہونے سے بچا ۔یہ بڑے خطرے کا مقام ہے۔ دیکھو اب تو مرنے کے لئے نئے نئے سامان پیدا ہوگئے ہیں بہت سے ایسی بیماریاں نکل آئی ہیں جو بالکل نئی ہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ نمبر 347)

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ

وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ

(البقرۃ :196)

اور اپنے ہاتھوں (اپنے تئیں) ہلاکت میں نہ ڈالو۔

ظاہری زندگی کے قیام کے لیے قرآن نے جوبنیادی اصول بیان فرمائے ہیں ان کو فراموش کر دینا بھی اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا ہے ۔امراض کے پھیلنے کے ظاہری اسباب کے پیچھے روحانی اسباب ہیں۔اللہ تعالیٰ کی تعلیمات سے پہلو تہی کی جاتی ہے جس کے نتیجہ میں انسان مشکلات کا شکار ہوتا ہے۔شریعت اسلامی میں مذکور تعلیمات کا نہ ماننے سے انسانیت کو نقصان ہی ہوتا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس فلسفہ کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ

’’شریعت اسلام نے جو نہایت درجے پر ان صفائیوں کا تقیّد کیا ہے جیسا کہ اﷲ تعالیٰ نے قرآن شریف میں فرمایا۔ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ (المدثر: 6) یعنی ہر ایک پلیدی سے جُدا رہ ۔یہ احکام اِسی لئے ہیں کہ تا انسان حفظانِ صحت کے اسباب کی رعایت رکھ کر اپنے تئیں جسمانی بلاؤں سے بچاوے۔

عیسائیوں کا یہ اعتراض ہے کہ یہ کیسے احکام ہیں جو ہمیں سمجھ نہیں آتے کہ قرآن کہتا ہے کہ تم غسل کر کے اپنے بدنوں کو پاک رکھو اور مسواک کرو ،خلال کرو اور ہر ایک جسمانی پلیدی سے اپنے تئیں اور اپنے گھر کو بچاؤ۔ اور بدبوؤں سے دُور رہو اور مردار اور گندی چیزوں کو مت کھاؤ۔

اِس کا جواب یہی ہے کہ قرآن نے اُس زمانہ میں عرب کے لوگوں کو ایسا ہی پایا تھا اور وہ لوگ نہ صرف رُوحانی پہلو کے رُو سے خطرناک حالت میں تھے بلکہ جسمانی پہلو کے رُو سے بھی اُن کی صحت نہایت خطرہ میں تھی۔ سو یہ خدا تعالیٰ کا اُن پر اور تمام دنیا پر احسان تھا کہ حفظانِ صحت کے قواعد مقرر فرمائے۔ یہاں تک کہ یہ بھی فرما دیا کہ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا (الأعراف:32) یعنی بے شک کھاؤ پیئو مگر کھانے پینے میں بے جا طور پر کوئی زیادت کیفیت یا کمیّت کی مت کرو۔ افسوس پادری اِس بات کو نہیں جانتے کہ جو شخص جسمانی پاکیزگی کی رعایت کو بالکل چھوڑ دیتا ہے وہ رفتہ رفتہ وحشیانہ حالت میں گر کر رُوحانی پاکیزگی سے بھی بے نصیب رہ جاتا ہے۔ مثلاً چند روز دانتوں کا خلال کرنا چھوڑ دو جو ایک ادنیٰ صفائی کے درجہ پر ہے تو وہ فضلات جو دانتوں میں پھنسے رہیں گے اُن میں سے مُردار کی بُو آئے گی۔ آخر دانت خراب ہو جائیں گے اور اُن کا زہریلا اثر معدہ پر گِر کر معدہ بھی فاسد ہو جائے گا۔ خود غور کر کے دیکھو کہ جب دانتوں کے اندر کسی بوٹی کا رگ و ریشہ یا کوئی جُز پھنسا رہ جاتا ہے اور اُسی وقت خلال کے ساتھ نکالا نہیں جاتا تو ایک رات بھی اگر رہ جائے تو سخت بدبو اُس میں پیدا ہو جاتی ہے اور ایسی بد بُو آتی ہے جیسا کہ چُوہا مرا ہوا ہوتا ہے۔ پس یہ کیسی نادانی ہے کہ ظاہری اور جسمانی پاکیزگی پر اعتراض کیا جائے اور یہ تعلیم دی جائے کہ تم جسمانی پاکیزگی کی کچھ پرواہ نہ رکھو نہ خلال کرو اور نہ مسواک کرو اور نہ کبھی غسل کر کے بدن پر سے میل اتارو اور نہ پاخانہ پھر کر طہارت کرو اور تمہارے لئے صرف روحانی پاکیزگی کافی ہے۔ ہمارے ہی تجارب ہمیں بتلا رہے ہیں کہ ہمیں جیسا کہ روحانی پاکیزگی کی روحانی صحت کے لئے ضرورت ہے ایسا ہی ہمیں جسمانی صحت کے لئے جسمانی پاکیزگی کی ضرورت ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ہماری جسمانی پاکیزگی کو ہماری روحانی پاکیزگی میں بہت کچھ دخل ہے۔ کیونکہ جب ہم جسمانی پاکیزگی کو چھوڑ کر اُس کے بد نتائج یعنی خطرناک بیماریوں کو بھگتنے لگتے ہیں تو اُس وقت ہمارے دینی فرائض میں بھی بہت حرج ہو جاتا ہے اور ہم بیمار ہو کر ایسے نکمے ہو جاتے ہیں کہ کوئی خدمت دینی بجا نہیں لاسکتے اور یاچند روز دکھ اٹھا کر دنیا سے کوچ کر جاتے ہیں بلکہ بجائے اس کے کہ بنی نوع کی خدمت کرسکیں اپنی جسمانی ناپاکیوں اور ترکِ قواعدِ حفظان صحت سے اوروں کے لئے وبالِ جان ہو جاتے ہیں اور آخر ان ناپاکیوں کا ذخیرہ جس کو ہم اپنے ہاتھ سے اکٹھا کرتے ہیں وبا کی صورت میں مشتعل ہو کر تمام ملک کو کھاتا ہے۔ اور اس تمام مصیبت کا موجب ہم ہی ہوتے ہیں کیونکہ ہم ظاہری پاکی کے اصولوں کی رعایت نہیں رکھتے۔

پس دیکھو کہ قرآنی اصولوں کو چھوڑ کر اور فرقانی وصایا کو ترک کر کے کیا کچھ بلائیں انسانوں پر وارد ہوتی ہیں اور ایسے بے احتیاط لوگ جو نجاستوں سے پرہیز نہیں کرتے اور عفونتوں کو اپنے گھروں اور کوچوں اور کپڑوں اور منہ سے دور نہیں کرتے اُن کی بے اعتدالیوں کی وجہ سے نوعِ انسان کے لئے کیسے خطرناک نتیجے پیدا ہوتے ہیں اور کیسی یک دفعہ وبائیں پھوٹتی اور موتیں پیدا ہوتیں ہیں اور شور قیامت برپا ہو جاتا ہے یہاں تک کہ لوگ مرض کی دہشت سے اپنے گھروں اور مال اور املاک اور تمام اس جائیداد سے جو جانکاہی سے اکٹھی کی تھی دست بردار ہو کر دوسرے ملکوں کی طرف دوڑتے ہیں اور مائیں بچوں سے اور بچے ماؤں سے جدا کئے جاتے ہیں۔ کیا یہ مصیبت جہنم کی آگ سے کچھ کم ہے؟ ڈاکٹروں سے پوچھو اور طبیبوں سے دریافت کرو کہ کیا ایسی لا پروائی جو جسمانی طہارت کی نسبت عمل میں لائی جائے وبا کے لئے عین موزوں اور مؤید ہے یا نہیں؟ پس قرآن نے کیا بُرا کیا کہ پہلے جسموں اور گھروں اور کپڑوں کی صفائی پر زور دے کر انسانوں کو اس جہنم سے بچانا چاہا جو اسی دنیا میں یکدفعہ فالج کی طرح گِرتا اور عدم تک پہنچاتا ہے۔ پھر دوسرے جہنم سے محفوظ رہنے کے لئے وہ صراطِ مستقیم بتلایا جو انسانی فطرت کے تقاضا کے عین موافق اور قانونِ قدرت کے عین مطابق ہے اور ہمیں نجات کی وہ راہ بتلائی جس میں کسی بناوٹی منصوبہ کی بدبُو نہیں آتی۔‘‘

(ایام الصلح، روحانی خزائن جلد نمبر 14صفحہ نمبر 332 تا 334)

“سو اوّل درجہ کی ناپاکی جو انسان کو وحشیانہ حالت میں ڈالتی ہے جسمانی ناپاکی ہے اور اِسی سے خطرناک امراض اور مہلک بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ سو ضرور تھا کہ خدا کی کامل کتاب اپنی تعلیم کا ابتدا اسی سے کرتی سو خدا نے ایسا ہی کیا۔ اوّل جسمانی ناپاکیوں اور دوسری وحشیانہ حالتوں سے چُھڑا کر وحشیوں کو انسان بنانا چاہا۔پھر اخلاق فاضلہ اور طہارت باطنی کے احکام سکھلا کر انسانوں کو مہذب انسان بنایا اور پھر محبت اور فنافی اﷲ کے باریک دقائق تک پہنچا کر مہذّب انسانوں کو باخدا انسان بنا دیا۔ اور پھریہ سب کچھ کر کے فرمادیا۔اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِي الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا (الحديد:18) یعنی جان لو کہ خدا نے زمین کو مرنے کے بعد پھر زندہ کیا۔

سو خدا کا کلام حکمت کے طریقوں سے انسان کو ترقی کے منار تک پہنچاتا ہے۔ وہ اس سے شرم نہیں کرتا کہ انسان کو جو انسانیت سے گرا ہوا ہے ظاہری ناپاکیوں سے بھی چھڑائے جیسا کہ وہ باطنی ناپاکیوں سے چھڑاتا ہے اُس نے اپنی پاک کلام میں انسانوں کو دونوں قسم کی پاکیزگی کی طرف ترغیب دی ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے۔ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ (البقرة:223) یعنی خدا توبہ کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے اور اُن کو بھی دوست رکھتا ہے جو جسمانی طہارت کے پابند رہتے ہیں۔ سو توّابین کے لفظ سے خدا تعالیٰ نے باطنی طہارت اور پاکیزگی کی طرف توجہ دلائی اور متطھّرین کے لفظ سے ظاہری طہارت اور پاکیزگی کی ترغیب دی۔ اور اس آیت سے یہ مطلب نہیں کہ صرف ایسے شخص کو خدا تعالیٰ دوست رکھتا ہے کہ جو محض ظاہری پاکیزگی کا پابند ہو بلکہ توّابین کے لفظ کو ساتھ ملا کر بیان فرمایا تا اس بات کی طرف اشارہ ہو کہ خدا تعالیٰ کی اپنے بندوں کے لئے اکمل اور اتم محبت جس سے قیامت میں نجات ہو گی اسی سے وابستہ ہے کہ انسان علاوہ ظاہری پاکیزگی کے خدا تعالیٰ کی طرف سچا رجوع کرے۔ لیکن محض ظاہری پاکیزگی کی رعایت رکھنے والا دنیا میں اس رعایت کا فائدہ صرف اس قدر اٹھا سکتا ہے کہ بہت سے جسمانی امراض سے محفوظ رہے۔ اور اگرچہ وہ خدا تعالیٰ کی اعلیٰ درجہ کی محبت کا نتیجہ نہیں دیکھ سکتا ۔مگر چونکہ اُس نے تھوڑا سا کام خدا تعالیٰ کی منشاکے موافق کیا ہے یعنی اپنے گھر اور بدن اور کپڑوں کو ناپاکیوں سے پاک رکھا ہے اس لئے اس قدر نتیجہ دیکھنا ضروری ہے کہ وہ بعض جسمانی بلاؤں سے بچا لیا جائے بجز اُس صورت کے کہ وہ کثرت گناہوں کی وجہ سے سزا کے لائق ٹھہر گیا ہو۔ کیونکہ اس صورت میں اس کے لئے یہ حالت بھی خدا تعالیٰ میسر نہیں کرے گا کہ وہ ظاہری پاکیزگی کو کماحقّہٗ بجا لاکر اس کے نتائج سے فائدہ اُٹھا سکے۔

غرض بموجب وعدہ الٰہی کے محبت کے لفظ میں سے ایک خفیف اور ادنی ٰسے حصہ کا وارث وہ دشمن بھی اپنی دنیا کی زندگی میں ہو جاتا ہے جو ظاہری پاکیزگی کے لئے کوشش کرتا ہو۔ جیسا کہ تجربہ کے رُو سے یہ مشاہدہ بھی ہوتا ہے کہ جو لوگ اپنے گھروں کو خوب صاف رکھتے اور اپنی بدر روؤں کو گندہ نہیں ہونے دیتے اوراپنے کپڑوں کو دھوتے رہتے ہیں اور خلال کرتے اور مسواک کرتے اور بدن پاک رکھتے ہیں اور بدبُو اور عفونت سے پرہیز کرتے ہیں وہ اکثر خطرناک وبائی بیماریوں سے بچے رہتے ہیں پس گویا وہ اس طرح پر يُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ کے وعدہ سے فائدہ اٹھا لیتے ہیں۔ لیکن جو لوگ طہارت ظاہری کی پروا نہیں رکھتے آخر کبھی نہ کبھی وہ پیچ میں پھنس جاتے ہیں اور خطرناک بیماریاں اُن کو آپکڑتی ہیں۔

اگر قرآن کو غو ر سے پڑھو تو تمہیں معلوم ہو گا کہ خدا تعالیٰ کے بے انتہا رحم نے یہی چاہا ہے کہ انسان باطنی پاکیزگی اختیار کر کے رُوحانی عذاب سے نجات پاوے اور ظاہری پاکیزگی اختیار کر کے دنیا کے جہنم سے بچا رہے جو طرح طرح کی بیماریوں اور وباؤں کی شکل میں نمودار ہو جاتا ہے اور اس سلسلہ کو قرآن شریف میں اوّل سے آخر تک بیان فرمایا گیا ہے۔ جیسا کہ مثلاً یہی آیت إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ (البقرة:223) صاف بتلا رہی ہے کہ تَوّابین سے مراد وہ لوگ ہیں جو باطنی پاکیزگی کے لئے کوشش کرتے ہیں اور مُتَطَهِّرِينَ سے وہ لوگ مراد ہیں جو ظاہری اور جسمانی پاکیزگی کے لئے جدوجہد کرتے رہتے ہیں۔ ایسا ہی ایک دوسری جگہ میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا (المؤمنون: 52) یعنی پاک چیزیں کھاؤ اور پاک عمل کرو۔ اس آیت میں حکم جسمانی صلاحیت کے انتظام کے لئے ہے جس کے لئے كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ کا ارشاد ہے۔ اور دوسرا حکم روحانی صلاحیت کے انتظام کے لئے ہے جس کے لئے وَاعْمَلُوا صَالِحًا کا ارشاد ہے اور ان دونوں کے مقابلہ سے ہمیں یہ دلیل ملتی ہے کہ بدکاروں کے لئے عالمِ آخرت کی سزا ضروری ہے۔ کیونکہ جب کہ ہم دنیا میں جسمانی پاکیزگی کے قواعد کو ترک کر کے فی الفور کسی بلا میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔ اس لئے یہ امر بھی یقینی ہے کہ اگر ہم رُوحانی پاکیزگی کے اصول کو ترک کریں گے تو اسی طرح موت کے بعد بھی کوئی عذاب ضرور ہم پر وارد ہو گا۔جو وباء کی طرح ہمارے ہی اعمال کا نتیجہ ہو گا۔

چنانچہ یہی طاعون اس بات کی گواہ ہے کہ جن جن شہروں اور گھروں میں جسمانی پاکیزگی کی ایسی رعایت نہیں کی گئی جیسی کہ چاہئے تھی آخر وبا نے اُن کو پکڑ لیا۔ اگرچہ یہ عفو نتی اجرام کم و بیش ہر وقت موجود تھے لیکن وہ اندازہ غلیان سمیّت کا پہلے دنوں میں اکٹھا نہیں تھا۔ اور بعد میں اور اسباب کے ذریعہ سے پیدا ہو گیا۔ یہ کس قدر مشکل بات ہے کہ جب کہ ہم جسمانی ناپاکی اورعفونتِ مہلکہ کا کوئی اندازہ قائم نہیں کر سکتے جب تک وہ خود ہم پر وارد نہ ہو جائے پس کیونکر روحانی سمیّت کا ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ کب اور کس وقت ہمیں ہلاک کر سکتی ہے۔ لہٰذا ہمیں لازم ہے کہ لاپروائی اور غفلت سے زندگی بسر نہ کریں اور دُعا میں لگے رہیں۔ خدا سے اُس کا فضل مانگنا اور دُعامیں لگے رہنا اِس سے بہتر اور کوئی طریق نہیں۔ یہی ایک راہ ہے جو نہایت ضروری اور واجب طریق ہے۔ اسی وجہ سے قرآن شریف میں عذاب سے بچنے کے لئے دعا ہی ہمیں سکھائی گئی ہے۔ اور وہ دعا سورۃ فاتحہ کی دعا ہے جوپنج وقت نماز میں پڑھی جاتی ہے یہ دونوں قسم کے عذابوں سے بچنے کے لئے دعا ہے۔ کیونکہ آخری فقرہ دعا کا یہ ہے کہ ’’یا الٰہی اُن لوگوں کی راہ سے بچا جن میں طاعون پھوٹی تھی۔‘‘ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دعا اِس لئے ہے کہ تا ہم دنیا کے جہنم اور آخرت کے جہنم دونوں سے بچائے جائیں۔ لہٰذا میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر کوئی شخص یہ دُعا یعنی سورۂ فاتحہ دفع طاعون کے لئے اخلاص سے نماز میں پڑھتا رہے تو خدا اُس کو اس بَلا سے اور اِس کے بد نتائج سے بچائے گا۔‘‘

(ایام الصلح، روحانی خزائن جلد 14صفحہ نمبر 336 تا 339)

’’کفارہ کچھ چیز نہیں ۔بلکہ جیسا کہ ہم اپنے جسمانی بدطریقوں سے وباء کو اپنے پر لے آتے ہیں ۔اور پھر حفظِ صحت کے قواعد کی پابندی سے اس سے نجات پاتے ہیں ۔یہی قانون قدرت ہمارے روحانی عذاب اور نجات سے وابستہ ہے ۔‘‘

(ایام الصلح ،روحانی خزائن جلد 14صفحہ 338حاشیہ)

حفظ صحت کے قواعد کی پابندی سے ان وباؤں سے کسی قدرمحفوظ رہا جا سکتا ہے لیکن اصل چیز اس مسبب الاسباب کی طرف رجوع کرنا ہے ۔اس سے دعا کرنا ہے۔التجا کرنی ہے ۔باقی تمام علوم باقی تمام اسباب ظنیات پر مبنی ہوتے ہیں لیکن قطعی اور یقینی بات یہ ہے کہ وہ خالق کل کائنات ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ

’’قانونِ قدرت ہی بتلا رہا ہے کہ علمِ طب ظنّی ہے اور تمام تدابیر اور معالجات بھی ظنّی تو اس صورت میں کس قدر بد نصیبی ہے کہ ایسے ظنّیات پر بھروسہ کر کے مبدء فیض اور رحمت سے بذریعہ دُعا طلبِ فضل نہ کیا جائے۔

دُعا سے ہم کیا چاہتے ہیں؟ یہی تو چاہتے ہیں کہ وہ عالم الغیب جس کو اصل حقیقت مرض کی بھی معلوم ہے اور دوا بھی معلوم ہے وہ ہماری دستگیری فرماوے اور چاہے تو وہ دوائیں ہمارے لئے میسر کرے جو نافع ہوں اور یا اپنے فضل اور کرم سے وہ دن ہی ہم کو نہ دکھلاوے کہ ہمیں دواؤں اور طبیبوں کی حاجت پڑے۔ کیا اِس میں شک ہے کہ ایک اعلیٰ ذات تمام طاقتوں والی موجود ہے جس کے ارادہ اور حکم سے ہم جیتے اور مرتے ہیں۔ اور جس طرف اس کا ارادہ جھکتا ہے تمام نظام زمین اور آسمان کا اسی طرف جھک جاتا ہے۔اگر وہ چاہتا ہے کہ کسی ملک کی حالت صحت کسی وقت عمدہ ہو تو ایسے اسباب پیدا کر دیتا ہے جن سے پانی اُس ملک کا ہر ایک عفونت سے محفوظ رہے اور ہوا میں کوئی تغیّرغیر طبعی پیدا نہ ہو اور غذائیں صالحہ میسر آویں اور دوسرے تمام مخفی اسباب کیا ارضی اور کیا سماوی جو مضر صحت ہیں ظہور اور بروز نہ کریں اور اگر وہ کسی ملک کے لئے وبا اور موت کو چاہتا ہے تو وباء کے پیدا کرنے والے اسباب پیدا کر دیتا ہے کیونکہ تمام ملکوت السماوات والارض اُسی کے ہاتھ میں ہے اور ہر ایک ذرّہ دوا اور غذا اور اجرام اجسام کا اُس کی آواز سُنتا ہے یہ نہیں کہ وہ دنیا کو پیدا کر کے معطّل اور بے اختیار کی طرح الگ ہو کر بیٹھ گیا ہے بلکہ اب بھی وہ دنیا کا خالق ایسا ہی ہے جیسا کہ پہلے تھا۔ چند سال میں ہمارے جسم کے پہلے اجزا تحلیل پا جاتے ہیں اور دوسرے اجزا اُن کی جگہ آجاتے ہیں۔

سو یہ سلسلہ خَلق اور آفرینش ہے جو برابر جاری رہتا ہے ایک عالم فنا پذیر ہوتا ہے اور دوسرا عالم اُس کی جگہ پکڑتا ہے۔ ایسا ہی ہمارا خدا قیّومُ العَالَم بھی ہے جس کے سہارے سے ہر ایک چیز کی بقا ہے۔ یہ نہیں کہ اُس نے کسی رُوح اور جسم کو پیدا نہیں کیا یا پیدا کر کے الگ ہو گیا بلکہ وہ فی الواقع ہر ایک جان کی جان ہے اور ہر ایک موجود محض اس سے فیض پا کر قائم رہ سکتا ہے اور فیض پا کر ابدی زندگی حاصل کر تا ہے جیسا کہ ہم بغیر اس کے جی نہیں سکتے ایسا ہی بغیر اس کے ہمارا وجود بھی پیدا نہیں ہوا۔ پس جب کہ وہ ایساخدا ہے کہ ہماری حیات اور زندگی اُسی کے ہاتھ میں ہے اور اُسی کے حکم سے ہمارے وجود کے ذرّات ملتے اور علیحدہ علیحدہ ہوتے ہیں تو پھر اُس کے مقابل پر یہ کہنا کہ بغیر اُس کی امداد اور فضل کے ہم محض اپنی تدبیروں پر بھروسہ کر کے جی سکتے ہیں کس قدر فاش غلطی ہے۔ نہیں بلکہ ہماری تدبیریں بھی اُسی کی طرف سے آتی ہیں۔ ہمارے ذہنوں میں تبھی روشنی پید اہوتی ہے جب وہ بخشتا ہے۔ پانی اور ہوا پر بھی ہمارا تصرف نہیں۔ بہت سے اسباب ہیں جو ہمارے اختیار سے باہر اور صرف قبضۂ قدرت خدائے تعالیٰ میں ہیں جو ہماری صحت یا عدم صحت پر بڑا اثر ڈالنے والے ہیں۔ جیسا کہ اﷲ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے تَصْريفِ الرِّيَاحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ (البقرة:165) یعنی ہواؤں اور بادلوں کو پھیرنا یہ خدا تعالیٰ کا ہی کام ہے اور اس میں عقل مندوں کو خدا تعالیٰ کی ہستی اور اس کے اختیارِ کامل کا پتہ لگتا ہے اور یہ پھیرنا دو قسم پر ہے۔

ایک ظاہری طور پراور وہ یہ ہے کہ ہواؤں اور بادلوں کو ایک جہت سے دوسری جہت کی طرف اور ایک مقام سے دوسرے مقام کی طرف پھیرا جائے۔

دوسری قسم پھیرنے کی باطنی طور پر ہے اور وہ یہ کہ ہواؤں اور بادلوں میں ایک کیفیت تریاقی یا سمّی پیدا کر دی جائے تا موجب امن و آسائشِ خلق ہوں یا امراضِ وبائیہ کا موجب ٹھہریں۔

سو ان دونوں قسموں کے پھیرنے میں انسان کا دخل نہیں اور بکّلی انسانی طاقت سے باہر ہیں۔ اور باایں ہمہ ایک یہ مشکل بھی پیش ہے کہ ہماری صحت یا عدم صحت کا مدار صرف اِ ن ہی دوچیزوں پر نہیں بلکہ ہزا ر در ہزار اسباب ارضی و سماوی اَور بھی ہیں جو دقیق در دقیق اور انسان کی فکر اور نظر سے مخفی ہیں اور کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ تمام اسباب اُس کی جدوجہد سے پیدا ہو سکتے ہیں۔

پس اِس میں کیا شک ہے کہ انسان کو اس خدا کی طرف رجوع کرنے کی حاجت ہے جس کے ہاتھ میں یہ تمام اسباب اور اسباب در اسباب ہیں۔ اور جس طرح خدا تعالیٰ کی کتابوں میں نیک انسان اور بد انسان میں فرق کیا گیا ہے اور اُن کے جُدا جُدا مقام ٹھہرائے ہیں اِسی طرح خدا تعالیٰ کے قانونِ قدرت میں ان دو انسانوں میں بھی فرق ہے جن میں سے ایک خداتعالیٰ کو چشمہء فیض سمجھ کر بذریعہ حالی اور قالی دُعاؤں کے اس سے قوت اورامداد مانگتا اوردوسرا صرف اپنی تدبیر اور قوت پر بھروسہ کرکے دُعا کو قابل مضحکہ سمجھتا ہے بلکہ خدا تعالیٰ سے بے نیاز اور متکبّرانہ حالت میں رہتا ہے۔ جو شخص مشکل اور مصیبت کے وقت خدا سے دُعا کرتا اور اس سے حلِ مشکلات چاہتا ہے وہ بشرطیکہ دُعا کو کمال تک پہنچاوے خدا تعالیٰ سے اطمینان اور حقیقی خوشحالی پاتا ہے اور اگر بالفرض وہ مطلب اس کو نہ ملے تب بھی کسی اَور قسم کی تسلّی اور سکینت خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کو عنایت ہوتی ہے اور وہ ہرگز ہرگز نامراد نہیں رہتا اور علاوہ کامیابی کے ایما نی قوت اس کی ترقی پکڑتی ہے اور یقین بڑھتا ہے لیکن جو شخص دُعا کے ساتھ خدا تعالیٰ کی طرف مُنہ نہیں کرتا وہ ہمیشہ اندھا رہتا اور ا ندھا مرتا ہے اور ہماری اس تقریر میں اُن نادانوں کا جواب کافی طو رپر ہے جو اپنی نظرِ خطاکار کی وجہ سے یہ اعتراض کر بیٹھتے ہیں کہ بہتیرے ایسے آدمی نظر آتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ وہ اپنے حال اور قال سے دُعا میں فنا ہوتے ہیں پھر بھی اپنے مقاصد میں نامراد رہتے اور نامراد مرتے ہیں اور بمقابل ان کے ایک اَور شخص ہوتا ہے کہ نہ دُعا کا قائل نہ خدا کا قائل وہ اُن پر فتح پاتا ہے اور بڑی بڑی کامیابیاں اُس کو حاصل ہوتی ہیں۔

سو جیسا کہ ابھی مَیں نے اشارہ کیا ہے اصل مطلب دُعا سے اطمینان اور تسلّی اور حقیقی خوشحالی کا پانا ہے اور یہ ہرگز صحیح نہیں کہ ہماری حقیقی خوشحالی صرف اُسی امر میں میسّرآ سکتی ہے جس کو ہم بذریعہ دُعا چاہتے ہیں بلکہ وہ خدا جو جانتا ہے کہ ہماری حقیقی خوشحالی کس امرمیں ہے وہ کامل دُعا کے بعد ہمیں عنایت کر دیتا ہے جو شخص رُوح کی سچائی سے دُعا کرتا ہے وہ ممکن نہیں کہ حقیقی طور پر نامراد رہ سکے بلکہ وہ خوشحالی جو نہ صرف دولت سے مل سکتی ہے اور نہ حکومت سے اور نہ صحت سے بلکہ خدا کے ہاتھ میں ہے جس پیرایہ میں چاہے وہ عنایت کر سکتا ہے ہاں وہ کامل دعاؤں سے عنایت کی جاتی ہے۔ اگر خدا تعالیٰ چاہتا ہے تو ایک مخلص صادق کو عین مصیبت کے وقت میں دُعا کے بعد وہ لذت حاصل ہو جاتی ہے جو ایک شہنشاہ کو تختِ شاہی پرحاصل نہیں ہو سکتی۔

سو اسی کا نام حقیقی مراد یابی ہے جو آخر دُعا کرنے والوں کو ملتی ہے اور اُن کی آفات کا خاتمہ بڑی خوشحالی کے ساتھ ہوتا ہے۔ لیکن اگر اطمینان اور سچی خوشحالی حاصل نہیں ہوئی تو ہماری کامیابی بھی ہمارے لئے ایک دُکھ ہے۔سو یہ اطمینان اور رُوح کی سچی خوشحالی تدابیر سے ہر گز نہیں ملتی بلکہ محض دُعا سے ملتی ہے۔مگر جو لوگ خاتمہ پر نظر نہیں رکھتے وہ ایک ظاہری مرادیابی یا نامرادی کو دیکھ کر مدارِ فیصلہ اسی کو ٹھہرادیتے ہیں اور اصل بات یہ ہے کہ خاتمہ بالخیر اُن ہی کا ہوتا ہے جو خدا سے ڈرتے اور دُعا میں مشغول ہوتے ہیں اور وہی بذریعہ حقیقی اور مبارک خوشحالی کے سچی مراد یابی کی دولتِ عظمیٰ پاتے ہیں۔

(ایام الصلح، روحانی خزائن جلد نمبر 14صفحہ235 تا 238)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام وبائی امراض کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ

’’بیماری وبائی کا بھی خیال تھا ۔اس کا علاج خدا تعالیٰ نے یہ بتلایا کہ اس کے ان ناموں کا ورد کیا جاوے

یَاحَفِیظُ یَا عَزِیزُ یَا رَفِیقُ

رفیق خداتعالیٰ کا نیا نام ہے جو کہ اس سے بیشتر اسماء باری تعالیٰ میں کبھی نہیں آیا۔‘‘

(ملفوظات جلد سوم صفحہ نمبر 426،427)

پاک وجودوں کی موجودگی اور ان سے وابستگی بھی امن مہیا کرتی ہے ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ

’’درحقیقت خدائے تعالیٰ کا پاک قانون قدرت یہی ہے کہ یہ تمام امور مقبولوں کے ہی اثر وجود سے ہوتے ہیں اور ان کے انفاس پاک سے اور ان کی برکت سے دنیا میں امن رہتا ہے اور وبائیں دور ہوتی ہیں اور فساد مٹائے جاتے ہیں اور انہیں کی برکت سے دنیا دار لوگ اپنی تدابیر میں کامیاب ہوتے اور انہیں کی برکت سے چاند نکلتا اور سورج چمکتا ہے وہ دنیا کے نور ہیں جب تک وہ اپنے وجود نوعی کے لحاظ سے دنیا میں ہیں دنیا منور ہے اور ان کے وجود نوعی کے خاتمہ کے ساتھ ہی دنیا کا خاتمہ ہو جائے گا کیونکہ حقیقی آفتاب وماہتاب دنیا کے وہی ہیں۔‘‘

(آسمانی فیصلہ،روحانی خزائن جلد نمبر 4صفحہ 328 ،329)


(ابن قدسی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 31 مارچ 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 2 اپریل 2020