• 28 اپریل, 2024

وبائی بیماری اور احتیاطی تدابیر کی اسلامی تعلیم

یہ بجاکہ کرونا وائرس بےشک ڈاکٹرز کے مطابق ایک بےجان خلیہ ہے،مگر خدائے قادر و توانا کی شان دیکھیں اس مردہ وجود کے ذریعہ اپنی ذات کی قہری تجلی کاایسا نمونہ دکھایا ہے کہ تاریخ عالم کی انتہائی ترقی یافتہ دنیا کو اس ذرّۂ حقیر نے بے بس کرکے رکھ دیا ہےاوریہ خدائی جلوہ دیکھ کر مذہبی دنیا ہو یا لامذہب سب کو ایک دفعہ خدایادآہی گیا ہے۔ کچھ ایسی ہی واردات قلبی کا اظہار 29 مارچ کوعلی الصبح ہماری ایک بزرگ خاتون نے کیاکہ فجر کے وقت جب وہ بیدار ہوئیں تو زبان پر یہ شعر جاری تھا: ؎

کس قدر ظاہر ہے نور اس مبدء الانوار کا
بن رہا ہے سارا عالم آئینہ ابصار کا

بےشک دنیا کا یہ ہرجائی پن ایک وقتی ردعمل سہی مگر ایک نئے انقلابی دور کا آغاز دکھائی دیتا ہے کہ فی الوقت تو اس بےجان ذرہ نے انسانی معاشرت،اخلاقیات، اقتصادیات اور مذہب غرضیکہ ہر شعبۂ زندگی کوتہہ وبالاکرکےایک ہیجان برپا کر رکھا ہے۔

اس متعدی عالمی وبا سے بچاؤ کااہم علاج باہمی میل جول کے انفرادی سطح تک محدود کرنے میں بتایاگیا ہے، اور معاشرتی یا مذہبی فرائض کی اجتماعی بجاآوری پر بھی قدغن عائد ہے۔پھربھی پاکستان کے بعض علماء اس فیصلہ سے مکمل طور پرموافقت نہ کرتے ہوئے یہ موقف رکھتے ہیں کہ کوئی بیماری متعدّی نہیں ہوتی، اس لیے تبلیغی گروہ اپنے سفر جاری رکھے ہوئے ہیں اورمولوی حضرات کے نزدیک بیماری کی وجہ سے مساجد کو عارضی طور پر بھی بند نہیں کرنا چاہیے۔ اپنے اس موقف کی تائید میں وہ بعض احادیث بھی پیش کرتے ہیں اس لیے اس سنجیدہ دینی مسئلہ کا علمی محاسبہ ضروری ہے تاکہ جو لوگ مکمل تخلیہ اختیارکرتے ہوئے نمازبھی گھروں میں ادا کررہے ہیں اور وبا کے ضرر سے محفوظ ہیں،ان کے لیے کسی انقباض کی بجائے مزیددلی تسکین کا سامان ہو۔

بیماری کے متعدّی ہونے کے بارہ میں ارشاد نبویؐ:

امرواقعہ یہ ہے کہ بیماریوں کا متعدّی ہونا اس جدید سائنسی دور میں ایک ثابت شدہ حقیقت ہے جس کے بعد کسی عالم کا یہ دینی موقف خلاف واقعہ ہےکہ بیماریاں متعدّی نہیں ہوتیں اوریہ خیال احادیث نبویہؐ کا درست مفہوم نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے کیونکہ ہمارے معلم کتاب و حکمت سید الانبیاء ﷺ خلاف حقیقت بات نہیں فرما سکتے۔ آئیے اس پہلو سے پیش کردہ حدیث کا مطالعہ کریں۔

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ

لاَ عَدْوَى وَلاَ طِيَرَةَ، وَلاَ هَامَةَ وَلاَ صَفَرَ، وَفِرَّ مِنَ المَجْذُومِ كَمَا تَفِرُّ مِنَ الأَسَدِ

(صحيح البخاري کتاب الطب باب الجذام)

یعنی ہربیماری اپنی ذات میں متعدّی نہیں ہوتی (جب تک مسبب الاسباب خدا کا اذن نہ ہو) اور جاہلیت کے دیگر اوہام باطلہ بدشگونی، ھامة (مقتول کی روح کا پرندہ کے روپ میں انتقام نہ لینے تک دہائی دینا) اور صفر (پیٹ میں سانپ کی موجودگی سے بھوک کی بیماری) کی کچھ حقیقت نہیں ہے۔ مگر اس کے باوجود جذام کے بیمار سے تم ایسے بھاگو جیسے شیر سے بھاگتے ہو۔

جیساکہ ظاہرہے یہاں ایک طرف رسول کریمﷺ نےعربوں کے جاہلیت کے خیالات کا ردّ فرمایا ہے جوہربیمار سے دوسرے کو بیماری لگ جانے کے وہم میں مبتلا تھے اور ان کو اس مشرکانہ خیال سے بچاکر سچی توحید کا درس دیا تو دوسری طرف متعدّی بیماریوں سے سختی سے بچنے کی بھی ہدایت فرمائی ہے جس کی نافرمانی گناہ کے زمرے میں آتی ہے۔

علمائے سلف نے اس حدیث کے یہی معنے کیے ہیں کہ زمانہ جاہلیت کے خیال کے مطابق ہر بیماری دوسرے کو لگ نہیں سکتی سوائے اس کے کہ اذن الہٰی ہو۔

چنانچہ شارح بخاری علامہ ابن حجر اس حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں کہ

’’حدیث لاعدویٰ میں بیماری کے متعدّی ہونے کی وہ نفی مراد ہے جو عرب لوگ جاہلیت میں خیال کرتے تھے کہ کسی بھی بیمار کے میل جول سے اسے بیماری لگ جاتی ہے یا اس حقیقت کی نفی ہے کہ محض کوئی چیز کسی کو بیماری نہیں لگاتی۔ ورنہ (بتاؤکہ) سب سے پہلے بیمار کو وہ بیماری کس نےلگائی؟‘‘

(فتح الباری لابن حجر جزء 1صفحہ154)

اسی طرح علامہ بیھقی نے بھی اس حدیث کی یہی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ
’’دراصل رسول کریم ﷺ نے بیماری کے متعدی ہونے کی نفی جاہلیت کے اس خیال کی بناء پر فرمائی جو وہ اس فعل کو اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی بیمار کی طرف منسوب کیا کرتے تھے حالانکہ اللہ تعالیٰ اپنی مشیئت سے صحت مند کے بیمار سے ملنے کا سبب پیدا کردیتا ہے (پس وہ بیمار حقیقی سبب نہیں اللہ کی ذات مسبب الاسباب ہے) لیکن ساتھ ہی رسول کریم ﷺ نے یہ ہدایت بھی فرمائی کہ بیمار صحت مند کے پاس نہ آئے اور طاعون کے بارہ میں آپؐ نے فرمایا کہ جو شخص سنے کہ فلاں جگہ طاعون ہے تو وہاں نہ جائے۔‘‘

(فتح الباري لابن حجر جزء10صفحہ 160 تا 162)

یہی بات دیگرعلمائے حدیث علامہ نووی اور علامہ طیبی نے بیان کی ہے۔طوالت سے بچنے کے لیے تکرار کی ضرورت نہیں،حوالہ کافی ہے۔

(الكواكب الدراري في شرح صحيح البخاري جزء21 صفحہ 45)

حضرت مسیح موعود بانیٔ جماعت احمدیہؑ نے اسی حدیث کی روشنی میں یہ پُرحکمت اصول اخذ فرمایا کہ احادیث کے ظاہری معنے اگر ثابت شدہ علم اور تجربہ کے خلاف ہوں تو ان کی تاویل کے بغیر چارہ نہیں ہوتا جیساکہ اس حدیث کی مثال ہے، آپؑ بیان فرماتے ہیں:

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ لاعدویٰ یعنے ایک مرض دوسرے کو نہیں لگتی یعنے تجاوز نہیں کرتی ایک چیز دوسری تک لاکن طبی تجارب سے اس کے مخالف ثابت ہوگیا اور ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں

کہ بعض مرضیں مثلاً آتشک کی بیماری ایک سے دوسرے کو لگ جاتی ہےاور ایک آتشک زدہ عورت سے مرد کو آتشک ہو جاتی ہے اور ایسا ہی مرد سے عورت کو اور یہی صورت ٹیکا لگانے میں بھی مشاہدہ ہوتی ہے کیونکہ جس پر چیچک والے کے خمیر سے ٹیکا کا عمل کیا جاوے اس کے بدن پر بھی آثار چیچک ظاہر ہو جاتے ہیں پس یہی توعدوی ہے سو ہم کیوں کر اس کاانکار کرسکتے ہیں، کیونکہ اس کا انکار علوم حسیہ بدیہیہ کا انکار ہے جو تجارب طبیہ سےثابت ہو چکے ہیں اور ان میں ان بچوں کو بھی شک نہیں رہا جو کوچوں میں کھیلتے پھرتے ہیں چہ جائے کہ عقلمند مردوں کو کچھ شک ہو ۔ پس ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اس حدیث کی تاویل کریں اور ان معانی کی طرف پھیر دیں جو ثابت شدہ حقیقت کے مخالف نہیں اور اگر ہم ایسا نہ کریں تو گویا ہم ایک مخالف کو بلائیں گے تو وہ ہم پر اورہمارے مذہب پر ٹھٹھا کرے اور اس صورت میں ہم ٹھٹھا کرنے والوں کے مددگار ٹھہریں گے۔ پس ہم اس حدیث کی تاویل یوں کریں گے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قول لاعدویٰ میں ہرگز یہ ارادہ نہیں کیا کہ من کل الوجوہ ایک کی مرض دوسرے میں سرایت نہیں کرتی اور کیونکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایسا کہہ سکتے تھے جبکہ آپ نے ایک دوسری حدیث میں مجذوموں سے پرہیز کرنے کے لئے ممانعت فرمائی ہے اور ان کے چھونے سے ڈرایا پس آنحضرت صلعم کی اس حدیث سے بجز اس کے کوئی مراد نہیں تھی کہ تمام تاثیریں عدویٰ وغیرہ کی خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں اور بجز اس کے حکم اور ارادہ اور مشیت کے اس عالم کون اور فساد میں کوئی مؤثر نہیں۔‘‘

(نورالحق الحصة الاولیٰ، اردو ترجمہ روحانی خزائن جلد 8صفحہ15-14)

مزیدبرآں اس حدیث کی وضاحت میں یہ سیاق و سباق بھی توجہ طلب ہے کہ جب رسول کریم ﷺ نے جاہلیت کے اس خیال کا ازالہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ہر بیماری متعدّی نہیں ہوتی تو ایک صحابی نے یہ دلیل دی کہ ایک اونٹ سے دوسرے کوخارش کی بیماری لگنا ہمارا مشاہدہ ہےتویہ کیسےہوجاتا ہے؟ اس پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا: ورنہ پہلے اونٹ کو کس نے بیماری لگائی تھی۔

(صحیح بخاری کتاب الطب بَابُ لاَ صَفَرَ، وَهُوَ دَاءٌ يَأْخُذُ البَطْنَ)

گویا بیماری متعدّی ہوسکتی ہے مگر ہر کوئی اس متعدیت وجہ سے بیمار نہیں ہوتایعنی اصل میں مسبب الاسباب اور قادر مطلق خدا کے اذن سے سب ہوتا ہے۔ جیساکہ فرمایا: قُلْ كُلٌّ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ (النساء 79) یعنی سب کچھ خدا کی طرف سے ہوتاہے۔ تاہم ایک کمزور انسان بیماری کے لیےاپنے اندر موافقت پانے یادیگرایسے اسباب عدم احتیاط وعلاج وغیرہ کے باعث خودممد ومعاون ہوکر مصیبت میں پڑجاتا ہے۔ یہی مطلب اس آیت کا ہے کہ

وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ

(الشعراء 81)

یعنی جب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہ شافی مطلق مجھے شفا عطا فرماتا ہے۔

اسی لیے رسول کریم ﷺ نے جذام میں مبتلا مریض سے دور رہنے کی ہدایت فرماکر احتیاطی تدابیر اور اسباب اختیار کرنے کی تلقین فرمائی۔

اسی طرح آپ ﷺ نےفرمایا:

لاَ تُورِدُوا المُمْرِضَ عَلَى المُصِحِّ

(صحيح البخاري کتاب الطب باب لاعدویٰ)

کہ تم (متعدی) بیمار کو صحت مند کے پاس مت لے جاؤ۔

جذام کی متعدّی بیماری:

یہ وضاحت بھی مناسب ہوگی کہ جذام (Leprosy) یعنی کوڑھ چُھوت سے لگنے والی متعدّی بیماری ہے جو ایک جرثومہ Mycobacterium leprae کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے اس جلدی بیماری میں مریض کا جسم پھوڑوں پھنسیوں سے گلنا شروع ہوجاتا اور پیپ پڑجاتی ہے، جسم سے بدبو آتی ہے اور انسانی جسم ٹوٹ ٹوٹ کر گرنے لگتا ہے جس سے چہرہ بدنما ہوجاتا ہے۔

جذام کی کرونا وائرس سے یہ عجیب مماثلت ہے کہ اس کا جرثومہ بھی چھینک اور کھانسی کے ذریعہ دوسرے جسم میں منتقل ہوتا ہے۔ گویا جس طرح نبی کریم ﷺ نےکوڑھی کے متعدّی مریض سے بچنے کی سختی سے ہدایت فرمائی ہے اسی طرح کرونا سے متاثرہ شخص سے بھی بچنا حسب ہدایت نبویؐ لازم ہے اور چونکہ کرونا کے مشتبہ مریض کاواضح علامات ظاہر ہونے تک علم نہیں ہوپاتا اس لیے ممکنہ مزمن مریض سے علیحدگی اور تخلیہ بھی ضروری ہے۔

یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ طبّی تحقیقات کے بعدکرونا کے ہرقسم کے مریض سے چھ فٹ کا فاصلہ رکھنے کی جو ہدایت آج کی جارہی ہے۔ وہ اپنی جگہ اہم ہے۔ پھونک اور چھینک وغیرہ کے پھیلاؤ کاوسیع دائرہ بھی ثابت ہے۔ہمارے سید الحکماء ﷺ نے آج سے چودہ سو سال قبل اس کی طرف توجہ دلائی اور فرمایا کہ کوڑھی سے ایک نیزے کے فاصلہ پر رہو اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک نیزہ کی پیمائش ساڑھے چھ فٹ بنتی ہے۔

چنانچہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ

’’تم مجذوم شخص کی طرف مسلسل ٹکٹکی لگا کر نہ دیکھو اور جو کوئی تم میں سے اس سے بات کرے تو دونوں کے درمیان کم ازکم ایک نیزے یعنی ساڑھے چھ فٹ کا فاصلہ ہونا چاہیے۔‘‘

(الطب النبوي لأبي نعيم الأصفهاني جزء1صفحہ 355)

بلکہ حضرت عبد اللہ بن ابی اوفیٰؓ کی روایت میں تو اور زیادہ احتیاط کا ذکر ہے کہ جذام کے مریض سے دو نیزے یعنی تیرہ فٹ کا فاصلہ رکھاجائے۔ رسول کریم ﷺ جن بیماریوں (جنون،برص وغیرہ) سے بچنے کی دعا کرتے تھے ان میں ایک یہ متعدّی بیماری جذام بھی شامل ہے۔

چنانچہ رسول کریم ﷺ کی سنت بھی ہے کہ آپ کوڑھی سے ہاتھ نہیں ملاتے تھے چنانچہ حضرت عمرو بن شرید اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ طائف(سے آنے والے ثقیف قبیلہ) کے وفد میں میں ایک مجذوم شخص بھی تھا (جو بیعت کرنا چاہتا تھا) رسول کریمؐ کو پتہ چلا تو آپؐ نے اسے پیغام بھجوایا کہ ہم نے آپ کی (زبانی) بیعت قبول کرلی ہے۔آپ بے شک واپس چلے جائیں۔(گویا ہاتھ میں ہاتھ دے کر کر بیعت کی ضرورت نہیں)۔

(صحيح مسلم کتاب السلام بَابُ اجْتِنَابِ الْمَجْذُومِ وَنَحْوِهِ)

اور اسی سنت رسولؐ پر خلفائے راشدین نے عمل کیا چنانچہ حضرت عمرؓ کے دور میں آپ کےبیت المال کا خزانچی مرض جذام میں مبتلا ہوگیا۔ اسے مالی امور کاحساب دکھانے مجبوراً خود حضرت عمرؓ کے پاس آنا پڑتا اگر کبھی وہ کھانے کے وقت میں آجاتا تو حضرت عمرؓ اسے فرماتے کہ اپنے سامنے سے کھالو (یعنی سارے کھانے میں ہاتھ نہ ڈالو)۔ اگر تمہارے علاوہ کوئی شخص اس بیماری میں مبتلا ہوتا تو وہ مجھ سے ایک نیزہ یعنی کم از کم ساڑھے چھ فٹ کے فاصلہ پر رہتا۔

(الجامع لابن وهب صفحہ728)

ورنہ حضرت عمرؓ اس بارہ میں اتنے محتاط تھے کہ آپ نے اپنے زمانۂ خلافت میں ایک مجذوم عورت کو طواف کرتے دیکھا تو اسے اس سے منع کرتے ہوئے فرمایا کہ تم لوگوں کو تکلیف نہ پہنچاؤ۔ وہ عورت فوراً گھر چلی گئی۔ حضرت عمرؓ کی وفات کے بعد اسے کسی نے کہا کہ تمہیں باہر نکلنے سے منع کرنے والے (حضرت عمرؓ) فوت ہوگئے اب تو تم باہر نکل سکتی (اور طواف کرسکتی) ہو۔ اس وفا شعار عورت نے کیا خوب جواب دیا کہ میں ایسی نہیں ہوں کہ ایک خلیفہ کی زندگی میں تو اطاعت کروں اور وفات کے بعد اس کی نافرمانی کروں۔

(الجامع لابن وهب صفحہ 729)

اس بارہ میں زمانہ کے حکم عدل حضرت مسیح موعودؑ وبائی بیماری میں احتیاط کی نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ

’’اگرچہ سوائے اذن الہٰی کے کچھ نہیں ہوتا مگر تاہم احتیاط کرنی ضروری ہے کیونکہ اس کے لیے بھی حکم ہی ہے۔احادیث میں جو متعدی امراض کے ایک دوسرے سے لگ جانے کی نفی ہے اس کے بھی یہی معنے ہیں۔‘‘

(البدر جلد3 نمبر18-19 صفحہ3 مورخہ 8 تا 16مئی 1904ء)

خودحضرت مسیح موعودؑ بھی اپنے آقا و مولاحضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی پیروی میں اسلامی تعلیم کا بہترین نمونہ تھے۔ حالانکہ آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے طاعون سے حفاظت کا وعدہ تھا مگر پھر بھی1902ء میں زمانۂ طاعون کے وبائی ایام میں حضورؑ کی ذاتی احتیاط کا یہ عالم تھا کہ اگر کسی کارڈ کو بھی جو وباء والے شہر سے آتا چھوتے تو ہاتھ ضرور دھو لیتے۔

(الفضل جلد 11نمبر88صفحہ9)

حضرت خلیفة المسیح الثانی ؓ تحریر فرماتے ہیں:
’’مسلم شہری کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ دوسرے لوگوں کی جانوں کو خطرے میں نہ ڈالے چنانچہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ جس علاقہ میں کوئی وبائی بیماری ہو وہاں کے لوگ دوسرے شہروں میں نہ جائیں اور دوسرے لوگ اس علاقہ میں نہ آئیں۔کیا ہی لطیف حکم ہے جسے آج قرنطینہ کے نام سے ایک نئی ایجاد قرار دیا جارہا ہے حالانکہ اس حکم کی ابتداء اسلام سے شروع ہوئی ہے۔ اگر اس حکم پر لوگ عمل کریں تو نہ قرنطینہ کے قیام کی ضرورت رہتی نہ سرکاری نگرانیوں کی۔خودبخود ہی وبائیں دب سکتی ہیں۔‘‘

(احمدیت یعنی حقیقی اسلام،انوار العلوم جلد 8صفحہ284)

اس لیے موجودہ حالات میں ایک ذمہ دار شہری کا ثبوت دیتے ہوئے ہمارا بھی فرض ہے کہ یہ جملہ احتیاطی تدابیر اختیار کریں جو اونٹ کا گھٹنا باندھنے کے مترادف ہے مگر اپنا اصل توکل اللہ تعالیٰ کی ذات پر رکھیں اور توبہ و استغفار کرتے ہوئے اسی کے در پر جھکیں اوراپنی عملی حالتوں میں تبدیلی پیدا کریں اور عالم انسانیت کےلیے عالم احمدیت پر رحم کی التجا کریں۔حضرت بانیٔ جماعت احمدیہؑ نےاس قسم کے حالات کے بارہ میں فرمایا:

؂ دن بہت ہیں سخت اور خوف و خطر درپیش ہے
پر یہی ہیں دوستو اس یار کو پانے کے دن
؂ ہے سرراہ پر کھڑا نیکوں کی وہ مولیٰ کریم
نیک کو کچھ غم نہیں ہے گوبڑا گرداب ہے

(حافظ مظفر احمد)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 2 اپریل 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 اپریل 2020