• 28 اپریل, 2024

نیک اولاد کی خواہش کرنی چاہئے

حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ دعا بھی سکھا دی کہ اس دنیا کو جنت بنانے کے لئے اور آخری جنت کے وارث بننے کے لئے اپنے بیوی بچوں کے لئے بھی دعا کرو اور ان کے لئے سب سے بڑی دعا ان کا تقویٰ پر قائم رہنا ہے۔ چنانچہ فرمایا وَالَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا ھَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیّٰتِنَاقُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا (الفرقان آیت: 75) اور وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہمیں اپنے جیون ساتھیوں (بیویوں) اور اپنی اولاد سے، آنکھوں کی ٹھنڈک عطا کر۔ اور ہمیں متقیوں کا امام بنا۔

اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’نکاح سے ایک اور غرض بھی ہے جس کی طرف قرآن کریم میں یعنی سورۃ الفرقان میں اشارہ ہے اور وہ یہ ہے وَالَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا ھَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیّٰتِنَاقُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا یعنی مومن وہ ہیں جو یہ دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے خدا! ہمیں اپنی بیویوں کے بارے میں اور فرزندوں کے بارے میں دل کی ٹھنڈک عطا کر۔ اور ایسا کر کہ ہماری بیویاں اور ہمارے فرزند نیک بخت ہوں اور ہم ان کے پیش رو ہوں۔‘‘

(تفسیر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام، سورۃ الفرقان زیر آیت نمبر 75، آریہ دھرم، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ23)

پھر فرمایا کہ ’’انسان کو سوچنا چاہئے کہ اسے اولاد کی خواہش کیوں ہوتی ہے؟ کیونکہ اس کو محض طبعی خواہش ہی تک محدود نہ کر دینا چاہئے کہ جیسے پیاس لگتی ہے یا بھوک لگتی ہے لیکن جب ایک خاص اندازہ سے گزر جاوے تو ضرو ر اس کی اصلاح کی فکر کرنی چاہئے۔ خداتعالیٰ نے انسان کو اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا جیسا کہ فرمایا ہے مَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ (الذّاریات: 57) اب اگر انسان خود مومن اور عبد نہیں بنتا ہے اور اپنی زندگی کے اصل منشاء کو پورا نہیں کرتا ہے اور پورا حق عبادت ادا نہیں کرتا بلکہ فسق و فجور میں زندگی بسر کرتا ہے اور گناہ پر گناہ کرتا ہے تو ایسے آدمی کی اولاد کے لئے خواہش کیا نتیجہ رکھے گی؟ صرف یہی کہ گناہ کرنے کے لئے وہ اپنا ایک اور خلیفہ چھوڑنا چاہتا ہے۔ خود کونسی کمی ہے جو اولاد کی خواہش کرتا ہے۔ پس جب تک اولاد کی خواہش محض اس غرض کے لئے نہ ہو کہ وہ دیندار اور متقی ہو اور خداتعالیٰ کی فرمانبردار ہو کر اس کے دین کی خادم بنے، بالکل فضول بلکہ ایک قسم کی معصیت اور گناہ ہے اور باقیات صالحات کی بجائے اس کا نام باقیات سیّئات رکھنا جائز ہو گا…‘‘

(ملفوظات جلداوّل صفحہ560)

(خطبہ جمعہ مورخہ 22ستمبر 2006ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 8 اپریل 2020

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ