حضرت میر محمد اسحٰق رضی اللہ عنہ خلف حضرت میر ناصر نواب دہلوی رضی اللہ عنہ سلسلہ احمدیہ کے جلیل القدر اور عالی مرتبت بزرگان میں سے تھے۔ آپ 1890ء میں لدھیانہ میں پیدا ہوئے، بچپن ہی سے قادیان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زیر سایہ پرورش پائی۔ حضرت اقدسؑ سے قرابت داری ہونے کے علاوہ اپنی خدا داد صلاحیتوں کے لحاظ سے بھی ایک خاص وجود تھے، بچپن ہی سے نہایت ذہین اور ذکی تھے۔ آپ ایک بے نظیر مدرس، پُرحکمت مبلغ، لا جواب مناظر، نکتہ رس مجتہد اور گوناگوں انتظامی قابلیتوں کے مالک تھے، تقریر و تحریر دونوں میں کمال دسترس تھی اور ساری زندگی اسی دسترس کا حق ادا کرتے ہوئے گزری، قرآن کریم کا لفظی ترجمہ کرنے کی سعادت کے علاوہ علم حدیث اور موازنہ مذاہب وغیرہ میں نہایت عمدہ لٹریچر کا اضافہ کیا۔ خلافت کے انتہائی مطیع اور فرمانبردار اور اس کے مقابل اٹھنے والے ہر فتنے کے خلاف ایک ننگی تلوار تھے۔ سیرت رسولؐ اور حدیث سے بہت محبت تھی، آپ خود لکھتے ہیں:
’’مجھے خدا کی بزرگ کتاب قرآن مجید کے بعد حضور رسول مقبول ﷺ کی احادیث سے عشق ہے اور سرور کائنات کا کلام میرے لیے بطور غذا کے ہے کہ جب تک روزانہ اچھی غذا نہ ملنے کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا اسی طرح بغیر سید کونین کے کلام کو ایک دو دفعہ پڑھنے کے میری طبیعت بے چین رہتی ہے، جب کبھی میری طبیعت گھبراتی ہے تو بجائے اس کے کہ میں باہر سیر کے لیے کسی باغ کی طرف نکل جاؤں میں بخاری یا حدیث کی کوئی اور کتاب نکال کر پڑھنے لگتا ہوں اور مجھے اپنے پیارے آقا کے پیارے کلام کو پڑھ کر خدا کی قسم وہی تفریح حاصل ہوتی ہے جو ایک غمزدہ گھر میں بند رہنے والے کو کسی خوشبودار پھولوں والے باغ میں سیر کر کے ہوسکتی ہے۔‘‘
(الفضل 20 دسمبر 1940ء)
اسلام احمدیت کی تبلیغ میں بھی بہت سی خدمات سر انجام دیں، کئی علمی مضامین لکھے، ٹھوس علمی تقاریر اور مباحثے کیےاور ہر طرح سے دعوت الی اللہ کے حکم کو نبھانے کی توفیق پائی ، اس ضمن میں نئے راستے بھی سوچتے رہتے چنانچہ ایک مرتبہ آپ نے احباب جماعت کو ایک نیا محاورہ متعارف کراتے ہوئے لکھا:
’’عربی حروف تہجی میں ’ح‘ اور ’ھ‘ دو الگ الگ حرف ہیں لیکن چونکہ ان کا تلفظ اہل ہند بالخصوص اہل پنجاب کی زبان پر یکساں ہوتا ہے اس لیے املا کرتے وقت عمومًا لوگ پوچھا کرتے ہیں کہ کون سی ’ح‘ مراد ہے؟ جواب میں کہا جاتا ہے بڑی یا چھوٹی اور حیدرآبادی یا لاہوری۔ یہ دونوں محاورے درست ہیں مگر میری تجویز ہے کہ احمدی احباب آئندہ ایک تیسرا محاورہ استعمال کیا کریں اور اسے بکثرت رواج دیں جو یہ ہے کہ پوچھنے والے کو بتایا جائے کہ مسیح والی ہے یا مہدی والی، مثلًا کوئی شخص پوچھے کہ حوصلہ کون سی حے ہے تو کہو کہ مسیح والی۔ اسی طرح اگر سوال ہو کہ ہمت کس ہے سے ہے تو کہو مہدی والی سے۔
غرض بجائے بڑی چھوٹی یا حیدرآبادی لاہوری کے مسیح اور مہدی کے الفاظ کو مثال بنا لو۔ اس سے غرض بھی پوری ہو جائے گی اور ان الفاظ کے چرچا دینے سے امت مسلمہ میں ان الفاظ کی اہمیت اور شہرت بھی پیدا ہوگی اور روز و شب بچوں کو خیال رہے گا کہ یہ الفاظ بھی حقیقت آمدہ یا حقیقت منتظرہ ہیں۔ امید ہے کہ احباب اس بات کا خیال رکھیں گے کہ محاورات استعمال سے ہی رائج ہو جایا کرتے ہیں۔‘‘
(الفضل 31۔اگست 1933ء)
آپ کی علمی گرفت اور حاضر دماغی کی مثالوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ 1916ء میں دہلی میں جماعت احمدیہ کا جلسہ ہوا، مخالفین کی کوشش تھی کہ جلسہ میں بد نظمی اور خرابی پیدا کی جائے لیکن جماعت کے قبل از وقت انتظامات کے مطابق انتظامیہ اور پولیس کی موجودگی کی وجہ سے مخالفین کی سب کوششیں ناکام گئیں۔ جلسہ کے چوتھے دن حضرت میر صاحب کی تقریر صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر تھی، تقریر کے دوران کسی بات پر ان شر پسند لوگوں نے تالیاں بجائیں، ایک دینی مجلس میں یہ مجنونانہ حرکت دیکھ کر حضرت میر صاحب ہنس پڑے تو ان لوگوں نے پھر تالیاں بجائیں۔ یہ دیکھ کر حضرت میر صاحب خاموش ہوگئے لیکن تالیوں والوں نے تالیاں مارنا بند نہ کیا، جب یہ لوگ اپنی اس غیر اسلامی حرکت سے باز نہ آئے تو حضرت میر صاحب نے بر جستہ فرمایا : اے ناخلفو! تمہارے بزرگ تو سیٹی کے ساتھ تالیاں بجایا کرتے تھے تم کیسے ان کے خلف ہو کہ آبائی عبادت میں تحریف کرتے ہو …..
(ملخص از فاروق16-2مارچ 1916ء)
داعی الی اللہ ہونے کے ساتھ ’’وَعَمِلَ صَالِحًا‘‘ کا بھی عمدہ نمونہ پیش کیا۔ غرباء، مساکین، یتامیٰ، بیوگان اور دیگر حاجت مندوں کے لیے ایک نافع وجود تھے، خدمت انسانیت آپ کی زندگی کا خاص جزو تھا۔ نظارت ضیافت میں بطور ناظر خدمات بھی ناقابل فراموش ہیں۔ 1918ء کے اواخر میں قادیان میں کسی پُر اسرار بیماری کی وجہ سے بہت سے لوگ بیمار ہوئے اور اس کے نتیجے میں چند لوگ فوت بھی ہوئے، ان دنوں حضرت میر محمد اسحق رضی اللہ عنہ نے محض ہمدردی انسانیت کی غرض سے عیادت اور خبر گیری میں بہت بڑا حصہ لیا، اخبار الحکم لکھتا ہے:
’’بیماروں کی تیمارداری اور خدمت گذاری میں جن لوگوں نے بہت بڑھ کر حصہ لیا ان میں حضرت میر محمد اسحق صاحب کا نام بھی عزت سے لینے کے قابل ہے، بیماری کی ابتدائی حملے ہی پر میر صاحب کو مہمان خانہ کا خیال آیا اور آپ نے اپنی خدمات مہمان خانہ میں دے دیں، مریضوں کی خبر گیری اور تیمارداری میں کوئی دقیقہ باقی نہیں رکھا، ماریشس والے نوجوان جو زیادہ مریض تھے، خود ان کو غذا اور دوا دیتے رہے۔
اس کثرت محنت اور بیماروں سے عام خلا ملا کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ خود بھی بیمار ہوگئے اور ان کی بیماری نے خطرناک صورت اختیار کر لی مگر اللہ تعالیٰ نے اپنا فضل کیا اب وہ اچھے ہیں اور خدا کے فضل سے امید ہے کہ جلد ان کی طاقت عود کر آئے گی۔‘‘
(الحکم 14اکتوبر تا 7نومبر 1918ء)
حضرت ماسٹر محمد علی خان اشرف صاحب رضی اللہ عنہ (وفات: 16جون 1960ء) بیان کرتے ہیں:
آپ کے ناظرِ ضیافت ہونے کے وقت ایک دفعہ مجھے میرصاحب مرحوم فرمانے لگے کہ آپ ہمارے مہمانِ خاص ہوں گے اور میری کوٹھی پر میرے ہمراہ چلیں گے اور وہاں ہی کھانا کھائیں گے وہیں ہی شب باش ہوں گے۔ میں نے بہترا عذر کیاکہ میں اپنے ایک مرض کی وجہ سے معذور ہوں مگرآپ نے اپنی ذہانت سے میرا مرض معلوم کر کے فرمایا کہ اس کا بھی علاج ہو جائے گا۔ باوجود میری بار بار کی معذرت کے آپ اپنے ہمراہ مجھ کو لے گئے۔
رمضان کا مہینہ مبارک تھا۔ کوٹھی پر پہنچ کر اپنے نوکر کو کہا کہ جاؤ ہر ایک کوٹھی میں اردگرد تلاش کرو جس کوٹھی میں کوئی حقہ نظر آئے یہ کہہ کر اٹھا لاؤ کہ میر صاحب کا حکم ہے۔ ساتھ ہی پیسے دے کر کہا کہ تمباکو اور ساتھ ہی سگرٹ اور دیا سلائی کی ڈبیاں لیتے آؤ اور فرمانے لگے کیوں جی یہی مرض تھا۔ سو میں نے علاج کر دیا ۔ میں شرمندہ تھا کہ انہوں نے کس طرح سمجھ لیا ۔ رات کو نہایت مزیدار انواع و اقسام کے کھانے لائے جو میں نے مزے لے لے کر کھائے۔
(ماخوذ از خود نوشت حالات حضرت ماسٹر محمد علی اشرفؓ۔ غیر مطبوعہ)
ایک مرتبہ آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواہش کو پورا کرنے کے لیے رسالہ ریویو آف ریلیجنز کی اشاعت میں بھرپور حصہ لیا، آپ لکھتے ہیں:
’’جس وقت میں نے خدا کا نام لے کر یہ مہم شروع کی تھی اس وقت ریویو آف ریلیجنز اردو کے صرف دو سو خریدار تھے مگر دوسری قسط جو الفضل میں شائع ہوئی آٹھ سو پینتالیس خریداروں پر مشتمل تھی، پھر تیسری قسط میں کل خریداروں کی میزان آٹھ سو اکاسی تک پہنچی تھی۔ میں چوتھی قسط شائع کرتا ہوں اس وقت تک کل خریداروں کی میزان نو سو بیالیس تک پہنچ چکی ہے، الحمد للہ فالحمد للہ۔ اب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواہش کے پورا ہونے میں نو ہزار اٹھاون خریداروں کی کمی ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ اس چوتھی قسط کو ملاحظہ کرتے ہوئے احباب فوری توجہ فرمائیں گے اور اپنے آقا اور مطاع حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواہش کو پورا کر کے آپ کے خاص ناصر اور مددگاروں میں شامل ہونے کا فخر حاصل کریں گے۔ اے اللہ میری آواز صدا بہ صحر ثابت نہ ہو بلکہ مخلصوں اور مومنوں کے دلوں میں اثر کرنے والی آواز ہو…..آمین ثم آمین۔‘‘
(الفضل 16؍نومبر 1939ء)
دسمبر 1938ء میں آپ شدید بیمار ہوگئے اور قریبًا دو ہفتے اسی شدید علالت میں گزارے، بالآخر اللہ تعالیٰ نےشفاء کاملہ سے نوازا تو آپ نے اخبار الفضل کے ذریعہ دعا اور تیمارداری کرنے والوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے آخر پر یہ دعا کی:
’’اے میرے قادر مطلق خدا! اب جبکہ تونے مجھے ایک دفعہ اور موت کے مونہہ نکالا ہے تجھ سے بصد منت عرض کرتا ہوں کہ جب تک میں زندہ رہوں تو مجھے توفیق عطا فرما کہ تیری عبادت کے علاوہ باقی تمام اوقات تیری مخلوق کی خدمت میں گزاروں اور میرا کوئی وقت بے کار نہ گزرے، آمین یا رب العالمین۔‘‘
(الفضل 18دسمبر 1938ء)
آپ کی شادی حضرت صالحہ بیگم ؓ بنت حضرت پیر منظور محمد رضی اللہ عنہ موجد قاعدہ یسرنا القرآن کے ساتھ ہوئی۔ دینی خدمات اور ہمدردی مخلوق کے علاوہ گھر میں بھی ایک مثالی زندگی گزاری اور فرمان رسولؐ ’’خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لأَهْلِه‘‘ کا شاندار نمونہ پیش کیا جس کا کچھ حال آپ کی ڈائری مطبوعہ الفضل یکم فروری 2010ء سے ہوتا ہے۔ غرض یہ کہ آپ آسمان احمدیت کے ایک درخشندہ ستارے تھے۔ 17مارچ 1944ء کو وفات پائی اور بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہوئے۔
(غلام مصباح بلوچ۔کینیڈا)