• 7 مئی, 2025

وَمَا أَرْسَلْنَاکَ إِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْنَ

حضرت مسیح موعود ؑ اپنے محبوب آقا آنحضرت ﷺ کا ذکر یوں فرماتے ہیں۔

ہیچ محبوبے نَماند ہمچُو یار دلبرم
مہر و مہ را نیست قدرے در دیارِ دلبرم
آں کجا رُوئے کہ دارد ہمچو رُویش آب و تاب
واں کُجا باغے کہ مے دارد بہارِ دلبرم

(روحانی خزائن جلد اول صفحہ 597-598 حاشیہ)

ترجمہ: میرے محبوبؐ جیسا کوئی اور محبوب نہیں ہے۔ اس کے ہاں چاند اور سورج کی بھی کوئی قیمت نہیں۔ ایسا چہرہ کہاں کہ اس جیسی آب و تاب رکھتا ہو اور ایسا باغ کہاں جو میرے محبوبؐ جیسی بہار رکھتا ہو۔

مشہور مصنف، مائیکل ہارٹ جب دنیا کی 100 مؤثر ترین شخصیات کی فہرست تیار کرتا ہے تو وہ عیسائی ہونے کے باوجود حضرت موسیٰؑ و حضرت عیسیٰؑ یا سینٹ آگسٹائن، فرائڈ،مدر ٹریسا، اور گوتم بدھ جیسے بڑے بڑے ناموں کو ایک طرف رکھ کر ہمارے آقا و مولا حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ رَحْمَۃٌ لِّلْعَالَمِیْنَ کی ذات اقدس کو سرفہرست قرار دیتا ہے۔ جو علم و عمل ،حسن اخلاق و کردار، شفقت و رحمت کی بنیاد پرعظیم سماجی و معاشرتی و معاشی تبدیلی بپا کرنے میں سب سے اولیٰ و اعلیٰ ہیں جو دینی و دنیوی دونوں محاذوں پر اپنی زندگی میں ہی کامیاب ہوئے۔ اور آپ ﷺ نے اپنی آنکھوں سے اپنے لائے ہوئے انقلاب کے ثمرات دیکھ لئے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں حضرت محمد ﷺ کو یوں مخاطب فرماتا ہے:

وَمَا أَرْسَلْنَاکَ إِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْنَ

(الانبیاء:108)

ترجمہ:اور ہم نے آپ ﷺ کو تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔

یہ اسلوبِ خطاب بَلاغت کی اِصْطلاح میں بیانِ حَصْرِی کہلاتا ہے جو مضمون اور اس میں بیان کردہ عنوان کیلئے اپنی خصوصی بلاغی قوت کا حامل ہوتا ہے ۔ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی بِعثت کو تمام جہانوں کیلئے رحمت ہونے کے ساتھ محصور فرمادیا کہ آپ ﷺ سراپا رحمت ہیں اور اس رحمت سے تمام عَالمین میں سے کسی مخلوق کا بھی استثناء نہیں۔ اس رحمت میں آپؐ کا بلند و برتر اور عالی مقام ’بعد از خدا توہی‘ قصہ مختصر ہے ۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:

ِأنَّمَا أَنَا رَحْمَةٌ مُهْدَاةٌ

(حاکم المستدرک، 1:91، رقم:100)

میں اللہ تعالیٰ کی ایک ایسی رحمت ہوں جس کو اس نے مخلوق کو تحفے کے طور پر دیا ہے۔ (لفظ مہداۃ، ہدیہ سے ہے ۔میں مخلوق کے لئے اللہ تعالیٰ کا خاص ہدیہ اور تحفہ ہوں اور اس میں کوئی شک بھی نہیں۔)

پہلے ہم لفظ رَحمت کے معنوں پر غور کرتے ہیں اور پھر عَالَمین پر بدِیدَہ تَعَمُّقْ طَائِرَانہ نظر ڈالیں گے۔

لِأَجَلِ الرَّحْمَةْ یعنی آپ رحمت کا سبب ہیں کائنات، عالم اور دنیا میں جس کو بھی اللہ کی رحمت ملے وہ آپ ﷺ کے وسیلہ اور ذریعہ سے ملے۔حدیث اس معنی کی تائید کرتی ہے۔ إنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ وَاﷲ يُعْطِيْ

(صحيح بخاری، باب من يرداللّٰه به خيرا يفقه فی الدين)

میں تو صرف تقسیم کرنے والا ہوں، عطا کرنے والا تو اللہ ہے۔

رَحْمَةً حال ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔ اس کا معنی یہ ہے کہ آپ ﷺ کو صاحبِ رحمت بنا کر بھیجا۔
لفظ رَحْمَةً کو رَحْمَاً کے معنی میں لیں یعنی ’’آپ کو سارے جہانوں پر رحمت کرنے والا بنا کر بھیجا ہے۔‘‘
رَحْمَةً کا ایک معنی آپ ﷺ کا ذاتی وجود اور شخصیت کا دنیا میں ظہوررحمت بنا کر بھیجا ہے۔ آپ ﷺ نفسِ رحمت ہیں وَرَحْمَتِيْ وَسِعَتْ کُلَّ شَيْئٍ (الأعراف:157) اور میری رحمت ہر چیز پر وسعت رکھتی ہے۔ کے تحت آپ اللہ کی صفت رحمت کا پَرتَو اور ظہور ہیں۔

ہم لفظ ’’عَالمین‘‘ پرغور کرتے ہیں، جس کے لئے حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کو خدائے رحمان نے باعث رحمت بنایا ہے۔

اس کی شرح وتفسیر مناسب ہوگی۔ کہا اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ۔ سے لفظ عَالمین کی تفسیر کا اگر مطالعہ کریں تو واضح ہو گاکہ عَالمین ہی حضرت رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْنَ ﷺ کی رحمت کا دائرہ ہے اور قرآن کریم نے ربّ کی ربوبیت کا دائرہ بھی العالمین کو قراردیا ہے ۔

پھر اس امر میں کوئی اختلاف نہیں کہ آپ ﷺ عالم کے مومنین وکافرین تمام کےلئے رحمت ہیں ۔

حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں جوشخص اللہ اور آخرت پر ایمان لایا تو اللہ تعالیٰ نے اس کیلئے دنیا وآخرت میں رحمت لکھ دی اور جو اللہ اور رسول ﷺ پر ایمان نہ لایا وہ بھی آپ ﷺ کی رحمت کے سبب ہی اس دنیا میں زمینی خَسَفْ اور آسمانی قَذَفْ سے محفوظ و مامون رہے ہیں۔

علامہ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی رحمت تو آپ ﷺ کے دشمنوں پر بھی اس طرح حاوی رہی کہ آپ ﷺ نے اپنے مخالفین کی کبھی بھی جلد پکڑ نہیں چاہی۔

قرآن کریم میں ہے وَإِذْ قَالُوا اَللّٰهُمَّ إِن كَانَ هٰذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِندِكَ فَأَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَاءِ أَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ (الأنفال: 32) کہ کفار نے مطالبہ کرتے ہوئے کہا۔ اے اللہ! اگر یہ آپ کی طرف سے حق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسادےیا ایک دردناک عذاب دے۔ تو اللہ تعالیٰ نے ان کے رد میں فرمایا وَمَا كَانَ اللّٰهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنْتَ فِيهِمْ وَمَا كَانَ اللّٰهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ (الأنفال:33) کہ اللہ تعالیٰ ان کفار کو بھی جب تک آپ (ﷺ) ان کے درمیان موجود ہیں عذاب نہیں دے گا اور نہ اس وقت تک عذاب دے گا جب تک وہ مَغْفرت چاہتے ہوں۔

وجہ یہ ہے کہ آپ ﷺ کو خدانے رحمۃ للعالمین بنایا ہے۔ آپ ﷺ ان کفار کے لئے بھی نِعْمَتْ اور رحمت ہیں۔ نِقْمَتْ اور عذاب نہیں بنائے گئے۔

اگرہم نبی رحمت ﷺ کی سیرتِ مطہرہ میں اس عظیم موقف میں کچھ غورکریں کہ اہل طائف نے نہ صرف آپ ﷺ کی تردید وتکذیب کی بلکہ تکلیف واذیت پہنچانے کی بھی حد کردی۔ وہ بھی صرف اس وجہ سے کہ آپ ﷺ نے انہیں توحید باری کی دعوت دی۔ آپ ﷺ نے ان سے کچھ اور طلب نہیں فرمایا تھا۔نہ ہی کوئی معاوضہ چاہا تھا۔

حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ آپ ؓ نے حضرت رحمۃ للعالمین ﷺ سے پوچھا کہ کیا آپ ﷺ پر کوئی دن اُحد کے دن سے بھی زیادہ سخت گزرا؟ تو آپ ﷺ نے اس پر فرمایا:

’’تمہاری قوم (قریش) کی طرف سے میں نے بہت سی مصیبتیں اٹھائی ہیں لیکن اس سارے دور مصائب میں عقبہ کا دن مجھ پر سب سے زیادہ سخت تھا ۔یہ وہ موقع تھا جب میں نے (طائف کے سردار) کَنَانَہ بِنْ عَبْدِ یَا لَیْل بِنْ عَبْدِ کلَال کے ہاں اپنے آپ کو پیش کیا تھا لیکن اس نے میری دعوت توحیدکو رد کردیا۔ میں وہاں سے انتہائی رنجیدہ ہوکر واپس لوٹا۔پھر جب میں قَرَنُ الثَّعَالَبْ پہنچا تب مجھ کو کچھ ہوش آیا۔ میں نے اپنا سر اٹھایا تو کیا دیکھتاہوں کہ بادل کے ایک ٹکڑے نے مجھ پر سایہ کیا ہوا ہے اور میں نے دیکھا کہ حضرت جبریلؑ اس میں موجود ہیں ۔انہوں نے مجھے آواز دی اور کہاکہ اللہ تعالیٰ آپ کے بارے میں آپ کی قوم کی باتیں سن چکا اور جو انہوں نے رد کیا ہے وہ بھی سن چکا۔ آپ ﷺ کے پاس اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کا فرشتہ بھیجا ہے آپ ﷺ ان کے بارے میں جو چاہیں اسے حکم دیں۔ اس کے بعد مجھے پہاڑوں کے فرشتے نے آواز دی۔ انہوں نے مجھے سلام کیا اور کہا اے محمد(ﷺ)! پھر انہوں نے بھی وہی بات کہی۔ آپ ﷺ جو چاہیں مجھے حکم دیں۔ اگر آپ ﷺ چاہیں تو میں دونوں طرف کے پہاڑ ان پر لاکر ملادوں۔ اس پر میں نے کہا کہ مجھے تو اس بات کی امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی نسل سے ایسی اولاد پیدا کرے گا جو اکیلے اللہ کی عبادت کرے گی اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے گی۔‘‘

یہ تھی، نبی رحمۃ للعالمین ﷺ کی اپنے شدید ترین اذیت دینے والے دشمنوں کیلئے رحمت وشفقت ۔آپ ﷺ نےاُن سے نہ صرف انتقام نہیں لیا بلکہ اللہ تعالیٰ سے بھی ان کیلئے رحمت کی دعا فرمائی۔

پھر فتح مکہ کے بعداسی طائف کے سردارعبد یالیل کابیٹا آپ ﷺ کی خدمت اقدس میں آتا ہے جس کے ظالم وجابر باپ نے محسنِ انسانیت ﷺ کے ساتھ غیرانسانی اور غیر اخلاقی سلوک کیا تھا اور نہ صرف نبیٔ رحمت ﷺ کی باتیں سننے سے انکار کیا تھا بلکہ آپ ﷺ کا مزاق بھی اڑایا تھا، مظالم کے پہاڑ توڑے تھے لیکن جب وہ وفد کے ساتھ مدینہ آیا تو نبی رحمۃ للعالمین ﷺ کواس کی اطلاع دی جاتی ہے۔ آپ ﷺ نے مسرت و شادمانی کا اظہار فرماتے ہوئے آگے بڑھ کراس کا استقبال کیا،صحنِ حرم کعبہ میں اس کے قیام کا انتظام فرمایا۔اس کو آرام و راحت بہم پہچانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ روزانہ آپ ﷺ اس کے خیمے میں تشریف لے جاتے۔ خیریت دریافت کرتے اور طائف مظالم کی داستان سناتے ہیں۔ بالآخر اسے معافی کا پروانہ دیتے ہیں تو وہ بخوشی اسلام میں داخل ہو جاتا ہے۔

نبی کریم ﷺ باوجودیکہ بہادری کے اعلیٰ منصب پر فائز تھے مگر آپ ﷺ نے پوری زندگی میں ایک فردِ واحد کو بھی قتل نہ کیا۔

اللہ تعالیٰ نے حضور اقدس ﷺ کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا۔ رَحْمَۃٌ لِّلْعَالَمِیْنَ ﷺ کی آمد سے قبل پوری دنیا شرک و بدعت، ضلالت و گمراہی اور معصیت و نافرمانی کے عمیق گڑھے میں گری ہوئی تھی، انساینت نام کی کوئی چیز ان میں باقی نہ تھی۔ لڑکیوں کو زندہ درگور کیا جاتا تھا۔ عورتوں اور غلاموں کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک کیا جاتا۔ بیت اللہ کا برہنہ طواف کیا جاتا۔ ایک خدا کو چھوڑ کر اپنے ہاتھوں سے تراشیدہ 360 بتوں کی پرستش کی جاتی ۔فِسق و فجور اور بدکاریوں پر ندامت و شرمندگی کے بجائے ان پر فخر کیا جاتا تھا۔شراب نوشی اور قمار بازی ان کا پسندیدہ و محبوب مشغلہ تھا۔ حسب و نسب پر تفاخر کیا جاتا۔ انتقام و کینہ پروری کو خوبی سمجھا جاتا۔ بغض و عداوت میں کوئی عار نہ ہوتی۔ بتوں کے نام پر جانور ذبح کئے جاتے اور چڑھاوے چڑھائے جاتے۔ زندہ جانوروں کا گوشت کاٹ کر کھایا جاتا اس طرح جانور کو تکلیف دی جاتی۔ہر قبیلہ دوسرے قبیلہ کو کمتر اور ذلیل سمجھتا۔ گھوڑ دوڑ پر بازی لگائی جاتی۔ سودی لین دین عام تھا۔معمولی معمولی باتوں پر لڑائی جھگڑے صدیوں چلتے گویا کہ دنیا تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی تھی۔ان حالات میں جبکہ ہر طرف انسانیت سسکتی اور دم توڑتی دکھائی دے رہی تھی نبی کریم ﷺ دنیا میں ’’رحمتہ للعالمین‘‘ بن کر تشریف لاتے ہیں رحمت کی روشنی سے پوری دنیا فیضیاب ہونے لگی۔ آپ ﷺ کی تشریف آوری اللہ تعالیٰ کا دنیا پر احسانِ عظیم ہے۔ آپ ﷺ ابرِ رحمت بن کر انسانیت پر برسے اور ان کو کفروشرک اور ضلالت و گمراہی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں سے نکال کر توحید باری کی روشنی سے منور کیا۔ آپ ﷺ نے انسانیت سے گری ہوئی قوم کو مثالی پاکیزگی کا تصور دیا اور ایسے باکردار سراج منیر کی طرح روشن زندگی گزاری کہ وہ کفار جن کی بداعمالیوں کی وجہ سے کوئی ان پر حکومت کرنا بھی اپنے لیے توہین و عیب سمجھتا تھا، وہ عیوب رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْنَ نے اوصاف اور اخلاق میں بدل دئیے۔

پیغام توحید کی پاداش میں آپ ﷺ پر گندگی پھینکی جاتی اور آپ ﷺ کو مجنون دیوانہ اور ساحرتک کہا گیا، آپ ﷺ پر ایمان لانے کی وجہ سے آپ کےصحابہ کرام ؓ کو ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔شعب ابی طالب میں آپ ﷺ اور آپ کے جانثار صحابہؓ کو 3 سال تک قید و بند رکھا جاتا ہے آپ ﷺ کے ساتھ اس قید میں آپ کی مددگار و غمگسار بیوی حضرت خدیجہؓ سمیت عورتیں بچے اور بوڑھے سب شامل تھے۔ آپ ﷺ کا مکمل مقاطعہ اور سوشل بائیکاٹ کر دیا جاتا ہے کھانے پینے کی کوئی چیز بھی آپ اور آپ کے ساتھیوں تک نہ پہنچنے دی جاتی تاکہ آپ کے ساتھی بھوک اور پیاس سے تنگ آ کر آپ ﷺ کا ساتھ چھوڑ دیں۔ دودھ پیتے بچے بھوک سے روتے بلکتے تو کفار ان کے رونے کی آوازوں سے خوش ہوتے۔ ان مشکل ترین حالات میں بھی آپ ﷺ کے جانثار صحابہ ؓنے جانثاری و فدا ئیت کی اعلیٰ اور بے نظیر مثالیں قائم کیں۔ درختوں کے پتے چبا کر کھا لیتے اور خشک چمڑے کو پانی میں بھگو کر نگل لیتے لیکن آپ ﷺ کا ساتھ اور اپنا ایمان نہ چھوڑا۔ آپ ﷺ کو اُحد کے میدان میں زخمی کیا گیا۔ آپؐ کے دو دندان مبارک شہید ہو گئے۔آپ ﷺ پر ایمان لانے کی پاداش میں آپ کے ہر ساتھی کو ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا گیا ۔کفار ان صحابہ ؓ کو گرم ریت اور دہکتے ہوئے انگاروں پر لٹا دیتے۔ ہر طرح اور ہر طرز سے دکھ اور تکلیف دیتے لیکن اس سب کے باوجود رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْنَ ﷺ نے کبھی ان ظالموں کے لئے بددعا نہیں کی بلکہ ہمیشہ رحمت کی وجہ سے ان کی رشد و ہدایت کے لئے دعا کی۔ ان حالات میں بھی رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْنَ ﷺ انسانیت بچانے کے لئے اپنے مشن کو زندہ اور جاری رکھتے ہیں۔ مکہ کے لوگوں کاظلم و تشدد حد سے بڑھ گیا تو آپ ﷺ خدا تعالیٰ کے حکم سے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کر جاتے ہیں۔

اور پھر چشم فلک نے وہ منظر بھی دیکھا کہ جب رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْنَ ﷺ اپنے دس ہزار جانثار صحابہ ؓ کے لشکر کے ہمراہ اسی مکہ میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوتے ہیں جہاں سے آپ ﷺ اور صحابہ کرامؓ کو دس سال قبل ظلم و تشدد کر کے نکالا جاتا ہے۔ حضور ﷺ کے سر مبارک کی قیمت سو سرخ اونٹ مقرر کی گئی تھی۔ لیکن یہ کیسا فاتح ہے؟ نہ تو قتل عام کیا جا تاہے اور نہ ہی فتح کا جشن منایا جاتاہے آج انتقام اورفتح کا نشہ اور تکبر و غرور نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی۔ رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْنَ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرتے ہوئے عاجزی و انکساری کے ساتھ سواری پر اس قدر جھکے ہوئے ہیں کہ آپ ﷺ کا رخ انور سواری کی پشت کے ساتھ ٹکراتا ہوا نظر آتا ہے مکہ سے نکالنے والے خوف زدہ ہیں کہ حضور ﷺ ان کے ساتھ کیا سلوک کریں گے؟ انتقام اور بدلہ کا کونسا طریق اختیار کریں گے؟ ہر کوئی اپنے ظلم کےحساب سے سوچوں میں گم ہے ان میں وہ بھی ہیں جنہوں نے آپ ﷺ کے راستہ میں کانٹے بچھائے تھے۔ وہ بھی ہیں جو آپ ﷺ کے خون کے پیاسے تھے۔ وہ بھی ہیں جنھوں نے پتھر مار مار کر آپ ﷺ کے جسد مبارک کو لہو ،لہو کیا تھا وہ بھی ہیں کہ جنہوں نے آپ ﷺ کے جانثار صحابہ ؓ پر ایمان لانے کی پاداش میں ظلم و تشدد کے پہاڑ توڑتے ہوئے انہیں تپتی ریت پر لٹا کر ان کے سینوں پر وزنی پتھر رکھے تھے۔ دھکتے ہوئے کوئلوں پر لٹایاتھا اور ان کے جسموں کو گرم دہکتی سلاخوں کے ساتھ داغا تھا۔ ان میں وہ بھی ہیں جنہوں نے رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْنَ ﷺ اور صحابہؓ کو شعب ابی طالب کی قید میں درختوں کی چھال اور جانوروں کی سوکھی کھال چپانے پر مجبور کیا تھا۔ آج سارے مجرم رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْنَ کی بارگاہ میں مجرم کی حیثیت سے سزا پانے کے لئے کھڑے ہیں۔ رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْنَ ﷺ نے ان سب پر نگاہ ڈال کر پوچھا کہ جانتے ہو آج میں تمہارے ساتھ کیا معاملہ کرنے والا ہوں؟ بے بسی اور ندامت سے سر جھکے ہوئے ہیں۔ ہر طرف سے ایک ہی التجاء آئی کہ آپ ﷺ عالی ظرف اور شریف بھائی کے بیٹے ہیں رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْنَ ﷺ نے سب کے لئے معافی کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’آج تم پر کوئی گرفت نہیں ہے جاؤ تم سب آزاد ہو‘‘ جو فتح مکہ کے موقعہ پر حضور ﷺ کے انتقام کے خوف سے بھاگ رہے تھے وہ بھی آپ ﷺ کی شانِ رحمت کو دیکھ اور سن کر اسلام کی دولت سے مالا مال ہو گئے ۔ ؂

لیا ظلم کا عفو سے انتقام
عَلیکَ الصّلوٰۃُ عَلیکَ السّلام

حقیقت یہ ہے کہ حضرت سید ولد آدم رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْنَ ؐ کی پوری شریعت کے تمام احکام، عقائد، عبادات، انسانوں کے ساتھ معاملات سراسر رحمت ہی رحمت ہیں۔

(نعیم طاہر سون)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 14 اپریل 2020

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ