• 11 جولائی, 2025

ماہ رمضان اور دعوت الیٰ اللہ

رمضان کا مبارک مہینہ مومنین کو جن اہم دینی فرائض اور ذمہ داریوں کی یاد دلاتاہے ان میں سے ایک نہایت اہم فریضہ دعوت الیٰ اللہ کاہے۔ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن مجید کے نزول کا آغاز ہوا جسے اللہ تعالیٰ نے ’’ھُدًی لِّلنَّاس‘‘ یعنی تمام بنی نوع انسان کے لئے ہدایت کا موجب بنایاہے۔ یہ وہ کتاب ہے جو بندے کو خدا سے ملانے والی ہے۔

رمضان کے مقدس مہینہ میں ہی جب قرآنی وحی کے نزول کا آغاز ہوا تو ہمارے سیدو مولا حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے یہ ارشاد فرمایا کہ ’’اِقْرَاء بِاسْمِ رَبِّکَ‘‘ تُو یہ کلام اپنے رب کے نام کے ساتھ لوگوں کو پڑھ کر سنا۔ گویا باقاعدہ طورپر دعوت الیٰ اللہ کی مہم کاآغاز بھی اسی مبارک ماہ میں ہوا۔ اور پھر حضور اکرم ﷺ نے جس شان کے ساتھ اس حکم کی تعمیل فرمائی اور جس طرح آپؐ نے بغیر کسی قسم کے ناغہ کے دن رات نہایت محنت اور لگن اور بے قراری کے ساتھ خدا کا پیغام بنی نوع انسان تک پہنچانے کے لئے جہاد فرمایا اس کی نظیر ڈھونڈے سے نہیں ملتی۔ اس راہ میں اپنے عزیزوں کی ہی مخالفت مول نہیں لی بلکہ عملاً ساری دنیا کو مخالف کر لیا۔ معاندین نے آ پ کو دعوت الیٰ اللہ کے مشن سے باز رکھنے کے لئے ہر ممکن تدبیریں کیں۔ حرص و طمع دلا کر، خوف دلا کر، بدزبانی کر کے، گالیاں دے کر، آپؐ پر پتھر برسا کر، آپؐ کے قتل کے منصوبے باندھ کر،آپ کو اور آ پ کے ساتھیوں کو طرح طرح کے مظالم کانشانہ بنا کر، غرض ہر ممکن طریق سے انہوں نے آپؐ کو دعوت الیٰ اللہ سے روکنے کی کوشش کی۔ لیکن دشمن کی کوئی تدبیر آپؐ کو احکامات الہٰیہ کی بجا آوری سے نہ روک سکی اور آپؐ مسلسل دعوت الیٰ اللہ کرتے رہے۔ رفتہ رفتہ توحید کی طرف بلانے والی یہ آواز تمام معاندانہ و مخالفانہ آوازوں پرغالب آنے لگی اور آنحضرتؐ کے ساتھ داعیان الیٰ اللہ کی ایک فدائی جماعت بن گئی اور وہ بھی آپؐ ہی کے رنگ میں رنگین ہو کر، آپؐ ہی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے، راہ حق میں ہر قسم کی تکالیف و مصائب کا نہایت بشاشت سے مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے دعوت الیٰ اللہ میں مصروف رہے۔ یہاں تک کہ ان میں سے بعض نے اپنی جانیں بھی اس راہ میں قربان کرنے سے دریغ نہیں کیا۔ غرضیکہ دن بدن یہ مہم زورپکڑتی چلی گئی اور دشمنوں کی زمین کم ہوتی چلی گئی اور پھروہ دن بھی آیا جب سارا جزیرہ عرب اسلام کے نور سے منور ہو گیا۔

اِس زمانہ میں دعوت الیٰ اللہ کا عَلَم خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے عظیم روحانی فرزند، رجل فارس حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور آپؑ کی جماعت کے ہاتھوں میں دیا ہے۔ آج سار ی دنیا میں دین اسلام کے غلبہ کی ذمہ دار ی جماعت احمدیہ پر ڈالی گئی ہے ۔ چنانچہ ہمارے پیار ے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز باربار اپنے خطبات و خطابات میں احباب جماعت کو اس نہایت اہم فریضہ کی بجا آوری کے لئے توجہ دلاتے رہتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ دنیا بھر میں جگہ جگہ ایسے مخلصین داعیان الیٰ اللہ کے پاک گروہ پیدا ہو رہے ہیں جنہوں نے دعوت الیٰ اللہ کو حرزِ جان بنا رکھاہے اور ان کی نیک کوششیں خداتعالیٰ کے فضل سے ثمر آور ہو رہی ہیں اور ہر سال لاکھوں کی تعداد میں لوگ اسلام احمدیت میں داخل ہو رہے ہیں ۔ تاہم یہ یاد رکھنا چاہئے کہ دعوت الیٰ اللہ کوئی فرض کفایہ نہیں کہ ساری جماعت میں سے چند افراد اسے ادا کردیں توکافی ہے بلکہ یہ ہم میں سے ہر فرد کی ذمہ داری ہے ۔ مردوں کی بھی اور عورتوں کی بھی۔ چھوٹوں کی بھی اور بڑوں کی بھی اور اگر ہم سب ا س جہاد میں اپنی اپنی بساط اور توفیق کے مطابق حصہ لیں تو عالمگیر غلبہ ٔ اسلام کی منزل خدا کے فضل سے بہت جلد سر ہو سکتی ہے۔

رمضان المبارک کا جہاں دعوت الیٰ اللہ کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے وہاں اس دعوت الیٰ اللہ کے نتیجہ میں اسلام میں داخل ہونے والوں اور نومبائعین کی دینی و روحانی تعلیم و تربیت میں بھی ماہ رمضان ایک نہایت اہم اور کلیدی حیثیت رکھتاہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے ایک موقع پرداعیان الیٰ اللہ کو اس طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا۔

’’مَیں داعیان الیٰ اللہ کو خصوصیت سے متوجہ کرنا چاہتاہوں کہ ان کو مستقلاً خدا کا بنا دینے کا ایک بہت اچھا وقت ہاتھ آیاہے۔ آج کل جو نئے احمدی ہو ئے ہیں، دنیا کے کونے کونے میں ہو رہے ہیں ۔ کوئی شرک سے آ رہے ہیں ، کوئی دہریت سے آ رہے ہیں، کوئی دوسرے مسلمانوں سے چلے آ رہے ہیں جنہوں نے اب اسلام کا حقیقی نور پایا اوردیکھا اور پہچانا ہے ۔ غرضیکہ ہر قسم کے لوگ ہر ملک سے آ رہے ہیں اور یہ تعداد خدا کے فضل سے دن بدن بڑھتی چلی جارہی ہے ان کو سنبھالنے کا مسئلہ ہوا کرتاہے اور مَیں داعیان الی اللہ کو نصیحت کرتاہوں کہ اب رمضان میں ان کو ا س طرح سنبھالیں کہ خدا کے ہاتھ میں ہاتھ پکڑا دیں۔ اس سے بہتر سنبھالنے کا اورکوئی طریق نہیں ہے ۔ سارے مسائل ایک طرف،سارے روز مرہ کے جھگڑے ایک طرف اور کسی کا ہاتھ خدا کے ہاتھ میں تھما دیا جائے یہ ایک طرف، اس کے بعد خدا اسے پکڑ لیتاہے اور مضبوطی سے اس کو تھام لیتاہے………جب تک یہ ہاتھ اس ہاتھ میں نہ آ جائے جو خدا کا ہاتھ کہلاتاہے اس وقت تک آپ کے ہاتھوں میں تو محفوظ نہیں ہیں۔ آج ہے کل نکل جائے گا ہاتھ سے ۔ آپ کو کب توفیق ہے کہ سارا دن تمام سال بھر آپ روزانہ کی فکرکریں۔ مہینے میں ایک دو دفعہ بھی فکر کا آپ کے پاس وقت نہیں رہتا۔ اب تو رفتار بھی بہت پھیل چکی ہے۔ لکھو کھا کی تعداد میں لوگ احمدیت قبول کر رہے ہیں اور ہر قوم سے،ہر مذہب سے، ہر زبان بولنے والوں میں سے آ رہے ہیں تو ان کو آپ کیاسمجھائیں گے ، کیسے کیسے ان کی طرف توجہات کا حق ادا کریں گے ۔ایک ہی طریقہ ہے کہ خدا کے ہاتھ میں ان کا ہاتھ تھما دیں اور رمضان مبارک میں یہ کام ہر دوسرے دور سے زیادہ آسان ہو جاتاہے۔ اس ضمن میں ان کو روزے رکھنے کی تلقین کریں۔ روزے رکھنے کے سلیقے سکھائیں۔ ان کو بتائیں کہ اس طرح دعائیں کرو اور اللہ تعالیٰ دعاؤں کو سنتاہے لیکن اُس سے عہد باندھو کہ تم اس کو چھوڑو گے نہیں۔‘‘

فرمایا۔ ’’پس اس معنے میں ان کی تربیت کریں،ان کو سمجھائیں اور پھر چھوٹے موٹے روزمرہ کے رمضان کے آداب بھی تو بتائیں۔ روزے کیسے رکھے جاتے ہیں، کیوں رکھے جاتے ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے ا س سلسلہ میں جو نصیحتیں فرمائیں ان سے کچھ ان کو آگاہ کریں تو رفتہ رفتہ ان کی تربیت ہوگی اور اگر ان کو یہ تجربہ رمضان میں ہو گیا کہ ان کو لیلۃ القدر نصیب ہو گئی یعنی وہ رات آئی ہے جو رات کہلاتی ہے مگر سب سے زیادہ منور ہے اور سب سے زیادہ روشنیاں اوردائمی روشنیاں پیچھے چھوڑ جاتی ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ہو سکتاہے وہ آپ کو سنبھالنے والے بن جائیں، آپ کو ان کو سنبھالنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ ایسے لوگ مَیں نے دیکھے ہیں جب ان میں احمدیت میں انقلاب برپا ہو جاتاہے وہ ہر ابتلا سے اوپر نکل جاتے ہیں۔ کوئی ٹھوکر ان کے لئے ٹھوکر نہیں رہتی ۔ وہ یہ نہیں کہتے کہ دیکھو جی فلاں یوں کررہا ہے انہوں نے ہمیں احمدیت دی، اپنا یہ حال ہے۔ وہ اپنے آپ کو خدا کا ان سے بہتر نمائندہ سمجھنے لگتے ہیں اور ان کی فکر کرتے ہیں، ان کی تربیت کرتے ہیں، ان کو سمجھاتے ہیں۔ ایسے لوگ ہیں جن کی ہمیں آج ضرورت ہے دنیا کو سنبھالنے کے لئے۔ اگر ایسے ہی رہنے دیا گیا کہ ہروقت آپ ہی نے ان کو سنبھالے رکھنا ہے تو آپ کی طاقت میں تویہ سنبھالنا بھی نہیں۔انہوں نے پھر آگے دنیا کو کیا سنبھالنا ہے اس لئے رمضان سے یہ فائدہ اٹھائیں۔‘‘

یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ دعوت الیٰ اللہ کا دعا سے بہت گہرا تعلق ہے ۔بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ دعا کے بغیر دعوت الیٰ اللہ میں کامیابی ممکن نہیں۔کوئی انسان کسی دوسر ے کا دل بدل نہیں سکتا۔ دل خدا کے ہاتھ میں ہیں وہی ان پر تصرف رکھتاہے۔ اس لئے اگر آپ لوگوں کے دل خدا کے لئے جیتنا چاہتے ہیں تو دعاؤں سے کا م لینا ہوگا اور خدا تعالیٰ سے ہی اس کام میں کامیابی کے لئے مدد مانگنا ہوگی۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی عظیم کامیابیوں اور آپؐ کے ذریعہ پیدا ہونے والے عظیم الشان روحانی انقلاب کے متعلق یہی عارفانہ نکتہ بیان فرمایاہے کہ یہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی اندھیری راتوں کی دعائیں ہی تھیں جن کے نتیجہ میں صدیوں کے مردے زندہ ہو گئے۔ پس آج بھی دعوت الیٰ اللہ کے جہاد میں کامیابی کے لئے ہمیں دعا ہی کے حربہ سے کام لینا ہوگا۔ اور رمضان کا مہینہ اس پہلو سے ایک خاص مقام رکھتاہے کیونکہ اس ماہ میں اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمتوں کی خاص نسیم چلتی ہے اور دعاؤں کا ایک خاص ماحول پیدا ہوتاہے اور کثرت سے ملائکہ کا نزول ہوتاہے۔ اوردعاؤں کو خصوصی طورپر قبولیت کا شرف عطا ہوتاہے ۔

دعوت الیٰ اللہ میں کامیابی کے لئے پاکیزگی نفس بہت ضروری ہے ۔حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام دعوت الیٰ اللہ میں کامیابی اور لوگوں کے دلوں پر فتح پانے کے لئے نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔

’’اگر تم چاہتے ہو کہ تمہیں فلاح دارین حاصل ہو اور لوگوں کے دلوں پر فتح پاؤ تو پاکیزگی اختیار کرو، عقل سے کام لو اور کلام الٰہی کی ہدایات پر چلو۔ خود اپنے تئیں سنوارو اور دوسروں کو اپنے اخلاق فاضلہ کا نمونہ دکھاؤ تب البتہ کامیاب ہو جاؤگے۔ کسی نے کیااچھا کہاہے کہ

سخن کز دل بروں آید نشیند لا جرم بردل

پس پہلے دل پیدا کرو۔اگر دلوں پراثر اندازی چاہتے ہو تو عملی طاقت پیدا کرو۔ کیونکہ عمل کے بغیر قولی طاقت اور انسانی قوت کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکتی۔‘‘

اس ضمن میں آنحضرت ﷺ کی عظیم الشان کامیابیوں اور آپؐ کے اسوۂ حسنہ کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں۔

’’تم میری بات سن رکھو اورخوب یاد کرلوکہ اگر انسان کی گفتگو سچے دل سے نہ ہو اور عملی طاقت اس میں نہ ہو تو وہ اثر پذیر نہیں ہوتی۔ اسی سے تو ہمارے نبی کریم ﷺ کی بڑی صداقت معلوم ہوتی ہے کیونکہ جو کامیابی اور تاثیر فی القلوب آپؐ کے حصہ میں آئی ہے اس کی کوئی نظیر بنی آدم کی تاریخ میں نہیں ملتی اور یہ سب اس لئے ہوا کہ آپ ؐ کے قول اور فعل میں پوری مطابقت تھی۔‘‘

(ملفوظات جلد اول صفحہ46)

رمضان کا مقدس مہینہ اس پہلو سے اپنے نفوس کی پاکیزگی حاصل کرنے اور اپنے تئیں سنوارنے کا بہترین موقع ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو حقیقی معنوں میں کامیاب داعی الی اللہ بننے کی توفیق بخشے اور ہم دعوت الیٰ اللہ کے سلسلہ میں تمام ذمہ داریوں کو احسن رنگ میں پورا کرنے والے ہوں۔ آمین

(نصیر احمد قمر۔ لندن)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 2 مئی 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 اپ ڈیٹ 04 ۔مئی2020 ء