• 11 جولائی, 2025

قبولیتِ دعا کا اعجاز

اللہ تعالیٰ کی ایک صفت مجیب ہے جس کے تحت وہ اپنے بندوں کی پکار کو سنتا ہے اور قبولیت دعا کے ذریعہ وہ اپنی ہستی کا ثبوت دیتا ہے۔ قبولیت دعا کا جہاں فیضان عام ہے اور وہ مجبوروں ،بےکسوں اور مضطر کی دعاؤں کو سن کر ان کی حاجت روائی کرتا ہے وہاں یہ فیضانِ خاص بھی ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے مامورین کو قبولیتِ دعا کا اعجاز بخشتا ہے جس سے نہ صرف مامورین کی صداقت ظاہر ہوتی ہے اور ان کی تائید و نصرت کی جاتی ہے بلکہ اللہ تعالیٰ اپنی چمکار بھی دکھاتا ہے اور اپنی ہستی کے ثبوت اہل ِ دنیا کو دیتا ہے۔

دُعا کی اہمیت ، برکات اور اس کی قبولیت کے مضمون کو سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تحریر و تقریر،نظم و نثر میں تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا ہے ۔ آپؑ لیکچر سیالکوٹ میں تحریر فرماتے ہیں۔

’’دُعا وہ اکسیر ہے جو ایک مشتِ خاک کو کیمیا کر دیتی ہے۔ اور وہ ایک پانی ہے جو اندرونی غلاظتوں کو دھو دیتا ہے۔ اس دعا کے ساتھ روح پگھلتی ہے اور پانی کی طرح بہہ کر آستانہ ٔ حضرتِ اَحدیت پر گرتی ہے۔ وہ خدا کے حضور کھڑی بھی ہوتی ہے۔ اور رکوع بھی کرتی ہے اور سجدہ بھی کرتی ہے اور اسی کی ظلّ وہ نماز ہے جو اسلام نے سکھائی ہے۔‘‘

(لیکچر سیالکوٹ، روحانی خزائن جلد نمبر20 صفحہ222)

قبولیتِ دعا کے اعجاز کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :۔
’’اعجاز کی بعض اقسام کی حقیقت بھی دراصل استجابتِ دعا ہی ہے اور جس قدر ہزاروں معجزات انبیاء سے ظہور میں آئے ہیں یا جو کچھ کہ اولیائے کرام اِن دنوں تک عجائب کرامات دکھلاتے رہے اس کا اصل اور منبع یہی دعا ہے اور اکثردعاؤں کے اثر سے ہی طرح طرح کے خوارق قدرت ِ قادر کا تماشا دکھلا رہے ہیں۔ وہ جو عرب کے بیابانی ملک میں ایک عجیب ماجرا گزرا کہ لاکھوں مُردے تھوڑے دنوں میں زندہ ہوگئے اور پشتوں کے بگڑے ہوئے الٰہی رنگ پکڑ گئے۔ اور آنکھوں کے اندھے بینا ہوئے اور گونگوں کی زبان پر الٰہی معارف جاری ہوئے اور دنیا میں یک دفعہ ایک ایسا انقلاب پیدا ہوا کہ نہ پہلے اس سے کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا۔ کچھ جانتے ہو وہ کیا تھا؟ وہ ایک فانی فی اللہ کی اندھیری راتوں کی دعائیں ہی تھیں جنہوں نے دنیا میں شور مچا دیا اور وہ عجائب باتیں دکھلائیں کہ جو اِس اُمّی بے کس سے محالات کی طرح نظر آتی تھیں۔‘‘

(برکات الدعا، روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 10۔11)

مقبولین کا بڑا معجزہ ۔استجابتِ دعا

اللہ تعالیٰ اپنے مرسلین اور مقبول بندوں کو قبولیتِ دعا کے معجزہ سے نوازتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔

’’یہ بالکل سچ ہے کہ مقبولین کی اکثر دعائیں منظور ہوتی ہیں بلکہ بڑا معجزہ ان کا استجابتِ دعا ہی ہے۔جب ان کے دلوں میں کسی مصیبت کے وقت شدت سے بے قراری ہوتی ہے اور اس شدید بے قراری کی حالت میں وہ اپنے خدا کی طرف توجہ کرتے ہیں توخدا ان کو سنتا ہے اوراس وقت ان کا ہاتھ گویا خدا کا ہاتھ ہوتا ہے۔ خدا ایک مخفی خزانہ کی طرح ہے ۔ کامل مقبولوں کے ذریعہ سے وہ اپنا چہرہ دکھلاتا ہے۔‘‘

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ20)

قبولیتِ دعا کا نمونہ دکھانے کے لئے ہر وقت تیار ہوں

اللہ تعالیٰ نے امام آخر الزماں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو قبولیت ِ دعا کا اعجاز عطا فرمایا اور آپؑ نے قبولیتِ دُعا کے نمونے دکھانے کیلئے اپنے مخالفین کو چیلنج بھی دئیے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعاؤں کو سنا اور اپنی ہستی کے ثبوت دئیے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔

’’میں سچ کہتا ہوں کہ اگر اللہ تعالیٰ کے حضور ہماری چلّاہٹ ایسی ہی اضطراری ہو تو وہ اس کے فضل اور رحمت کو جوش دلاتی ہے اوراس کو کھینچ لاتی ہے اور میں اپنے تجربہ کی بناء پر کہتا ہوں کہ خدا کے فضل اور رحمت کو جو قبولیتِ دعا کی صورت میں آتا ہے میں نے اپنی طرف کھینچتے ہوئے محسوس کیا ہے بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ دیکھا ہے ۔ہاں آج کل کے زمانہ کے تاریک دماغ فلاسفر اس کو محسوس نہ کر سکیں یا نہ دیکھ سکیں تو یہ صداقت دنیا سے اٹھ نہیں سکتی اور خصوصاً ایسی حالت میں جبکہ میں قبولیت ِ دعا کا نمونہ دکھانے کیلئے ہر وقت تیار ہوں۔‘‘

(ملفوظات جلد اول صفحہ 128، ایڈیشن 2003ء)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی قبولیتِ دعا کے واقعات اپنی کتب میں جا بجا درج کئے ہیں۔ آپ نے اپنے مخالفین کو قبولیتِ دعا کے چیلنج بھی دئیے اور اس کے نتیجہ میں آپؑ کی دعا کئی معاندین کے لئے تیغِ دعا ثابت ہوئی۔ قبولیتِ دعا کا یہ سلسلہ آپؑ کے بعد آپؑ کی قائم کردہ جماعت میں جاری ہے۔ خلافت احمدیہ بھی آپؑ کی قبولیتِ دعا کا اعجاز ہے اور قبولیتِ دعا کا یہ اعجاز آپؑ کے خلفاء کو بھی عطا کیا۔

اپنوں نے بھی اور غیروں نے بھی قبولیتِ دعا کے اس اعجاز کے نتیجہ میں فیض پایا اور منکرین و معاندین کے لئے یہ تیغ دعا ثابت ہوتی رہی۔ہم ہر روز خلافت احمدیہ کی برکت سے قبولیتِ دعا کے نظاروں کا مشاہدہ کرتے ہیں۔آج کوئی خطہ زمین ایسا نہیں جہاں خلفاء کی دعاؤں کی قبولیت کے گواہ موجود نہ ہوں۔کہیں اس قبولیت سے بیمار شفا پاتے ہیں، کہیں اس قبولیت سے سعید روحیں ہدایت پاتی ہیں۔ کہیں خشک سالی سے تباہ حال علاقہ قبولیتِ دعا کے نتیجہ میں رحمت کی بارش کا نظارہ دیکھتا ہے۔ کہیں یہی قبولیتِ دعا شدید معاندین کے لئے قہری تجلّی بن کر ظاہر ہوتی ہے۔ اور کہیں اس قبولیت کے نتیجہ میں بے اولادوں کو اولاد کی نعمت عطا ہوتی ہے تو کبھی نرینہ اولاد کے خواہش مند قبولیت ِدعا کا دروازہ اپنے لئےکھلتا ہوئے دیکھتے ہیں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کی قبولیتِ دعا کاواقعہ

آج کے مضمون میں صرف ایک مثال پر اکتفا کروں گا جو کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کی قبولیتِ دعا کا واقعہ ہے جس کو مشاہدہ کرنے والا خاندان جرمنی میں موجود ہے۔یہ واقعہ خود انہوں نے مجھ سے بیان کیا اور میں نے تحریر کیا ہے۔

مکرم مسرور احمد باجوہ سابق سیکرٹری مال جماعت احمدیہ جرمنی بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے شادی کے بعد لگاتار مجھے تین بیٹیوں کی نعمت سے نواز رکھا تھا۔ میری اور اہلیہ کی خواہش تھی کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اولاد نرینہ بھی عطا فرما دے۔ ہمارا یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی پکار کو سنتا ہے۔

آغاز 1986ء کی بات ہے میں نے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کی خدمتِ اقدس میں اولاد نرینہ عطا ہونے کے لئے خط لکھا۔ حضور رحمہ اللہ نے اپنے دستِ مبارک سے مجھے خط کا جواب عنایت فرمایا اور تحریر فرمایا کہ مجھے دعا کی تحریک ہوئی ہے اور مجھے پورا یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ فضل فرمائے گا۔ آپ بھی دعا کرتے رہیں اور مجھے ہر ماہ خط لکھتے رہیں۔

اس کے بعد میری اہلیہ اللہ کے فضل سے امیّد ہو گئیں۔ چند ماہ بعد جب الٹرا ساؤنڈ کروایا تو ہمارے ڈاکٹر نے کہا لگتا ہے بیٹی ہوگی۔ میں نے ڈاکٹر کو کہا کہ میں مذہبی آدمی ہوں اور اللہ تعالیٰ اور اس کے بندے کی بات پر یقین رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے اولادِ نرینہ عطا کرے گا ۔ڈاکٹر نے کہا کہ میں تو سائنس پر یقین رکھتا ہوں۔ الٹراساؤنڈ رپورٹ اور ڈاکٹر کا تجزیہ میں نے حضرت صاحب کی خدمت میں لکھا۔ حضرت صاحب نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فضل فرمائے گا دُعا جاری ہے۔

جب اہلیہ کا تیسری بار الٹرا ساؤنڈ ہوا تب بھی ڈاکٹر اپنے موقف پر قائم رہا کہ لگتا ہے کہ لڑکی ہوگی۔اکتوبر 1986ء کے شروع میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ جرمنی تشریف لائے۔ میں نے حضور انور سے ملاقات کی سعادت حاصل کی اور حالات بتائے۔ آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فضل کرے گا۔ ملاقات میں حضور انور نے پوچھا کہ اہلیہ صاحبہ کہاں ہیں۔ بتایا کہ گھر ہیں۔ فرمایا کہ اسے بھی بلائیں۔ چنانچہ اگلے روز اہلیہ کی حضرت صاحب سے ملاقات ہوئی۔ حضرت صاحب نے میری بیوی کو فرمایا کہ مجھے پورا یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ بیٹا عطا کرے گا۔ میں نے حضرت صاحب کو کہا کہ ڈاکٹر کہتا ہے کہ بیٹی ہے۔ یہ مذہب اور سائنس کا مقابلہ ہے۔ حضرت صاحب نے فرمایا کہ سائنس مذہب کے تابع ہے۔ ڈاکٹر جھوٹ کہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ بیٹا ہوگا۔ اس ملاقات میں حضرت صاحب کے چہرے کی عجب کیفیت تھی جیسے خدا تعالیٰ آپ کے ساتھ ہم کلام ہورہا ہے۔

ملاقات میں میں نے حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کی کہ لڑکا ہوا تو اس کا وقف قبول فرمائیں۔ آپ نے ازراہِ شفقت اسی وقت وقف قبول فرمایا۔ میں نے بیٹے کا نام تجویز کرنے کیلئے عرض کی تو آپ نے فرمایا طارق نام رکھ لیں۔ پھر فرمایا طارق منصور رکھیں اور پھر فرمایا طارق منصور احمد رکھ لیں اور دعا دی کہ اللہ تعالیٰ اسے جماعت کے لئے طارق بنائے۔ آمین

حضرت صاحب نے مجھے ملاقات میں ہی فرمایا کہ میں ہالینڈ جارہا ہوں۔ (اس وقت نن سپیٹ مشن والی جگہ خریدی گئی تھی) وہاں دس پندرہ دن قیام ہے۔ مجھے بیٹے کی پیدائش کی مٹھائی بھجوانا۔حضورؒ کے علم میں تھا کہ میری ہمشیرہ ہالینڈ میں ہوتی ہیں۔

ڈاکٹر کا آخری وقت تک یہی خیال تھا کہ لڑکی پیدا ہوگی۔ قبولیت دعا کی گھڑی آن پہنچی۔29؍اکتوبر 1986ء کو آپریشن کے ذریعہ ولادت ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے کی دعا کو سنا اور مجھے لڑکے کی نعمت سے نوازا۔ ڈاکٹر حیران تھا۔ ڈاکٹر نے مجھے کہا کہ تمہارا یقین کامل ہے۔ میں نے کہا کہ میرے پیرومرشد کی دعا ہے۔ میں نے ہالینڈ ہمشیرہ کو فون کیا کہ فوراً حضرت صاحب کو مٹھائی پہنچا دیں اور حضرت صاحب کو اطلاع دیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا فضل کیا اور آپ کی دعا کو سنا اور بیٹا عطا کیا ہے۔ یہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کی قبولیت دعا کا اعجاز تھا۔ حضرت صاحب کو اللہ تعالیٰ نے بتایا تھا کہ بیٹا ہوگا۔

جس بات کو کہے کہ کروں گا میں ضرور
ٹلتی نہیں وہ بات خدائی یہی تو ہے

اس واقعہ کا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ کو بھی علم تھا۔ جب حضرت صاحب منصب خلافت پر فائز ہوئے تو میری ملاقات کے دوران حضو ر انور ایدہ اللہ نے یہ سارا واقعہ مجھ سے سنا۔ حضور انور ایدہ اللہ کی رہنمائی و اجازت سے میرے بیٹے عزیزم طارق منصور احمد نے آرکیٹیکچر میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی ہے اور اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے یک صد مساجد جرمنی کی تحریک میں نقشے بنانے کی سعادت بھی حاصل ہورہی ہے۔اللہ تعالیٰ اسے مقبول خدمت دین کی توفیق عطا فرمائے اور اپنے فضلوں کا وارث بنائے۔ آمین

دعا کی تاثیر اور اعجاز کے بارہ میں حضرت مصلح موعود ؓ نے کیا خوب فرمایا ہے۔

غیر ممکن کو یہ ممکن میں بدل دیتی ہے
اے میرے فلسفیو ! زورِ دعا دیکھو تو

(محمد محمود طاہر)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 2 مئی 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 اپ ڈیٹ 04 ۔مئی2020 ء