• 7 مئی, 2025

نماز میں معرفت کیسے حاصل کی جا سکتی ہے

رمضان عبادت کا مہینہ ہے یا یوں کہہ لیں کہ عبادات کے مجموعے کا نام رمضان ہے۔ روزہ اپنی ذات میں عبادت ہے بلکہ روزہ دار کی ہر حرکت عبادت بن جاتی ہے۔ اس کا خاموش رہنا عبادت ہے۔ اس کی نیند عبادت ہے۔ (حدیث) قرآن کی تلاوت عبادت ہے۔ تسبیح و تحمید عبادت ہے ۔

عبادات میں سے سب سے اہم عبادت نماز ہے۔ خواہ وہ پنجوقتہ یا فرائض کی شکل میں ہوخواہ نفل کی صورت میں ہو۔ تہجد کی صورت میں، تراویح کی صورت میں، سنتوں اور فرائض کی صورت میں۔

نماز گناہوں کو دُور کرتی اور اُن کا کفارہ بن جاتی ہے۔ ایک دفعہ آنحضور ﷺ نے ایک درخت کی ٹہنی کو ہلایا۔ جس سے پَتّے گرے۔ آپؐ نے حضرت ابو ذر ؓ کو مخاطب ہو کر فرمایا کہ خدا کی رضامندی کے لئے جو شخص نماز پڑھتا ہے اس کے گناہ اسی طرح جھڑ جاتے ہیں جس طرح اس درخت کے پَتّے (حدیث) انسان کمزور ہے، بار بار گناہ کرتا ہے۔ بعض گناہوں کا بندے کو علم بھی نہیں ہوتا ایسے گناہوں کا کفارہ نماز ادا کرتی ہے۔ وہ نماز جو سوچ سمجھ کر، خوف ِالٰہی کو مدِّ نظر رکھ کرادا کی جائے ’’ایک شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا کہ گناہ کر بیٹھا ہوں، کوئی سزا دیں۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بات سُنی اَن سُنی کردی۔ اُس نے دو دفعہ پھر کہا مگر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے التفات نہ فرمایا۔ بعد ازاں آنحضور ﷺ نے با جماعت نماز پڑھائی۔ اُس شخص نے پھر اپنی غلطی کا ذکر کرکے کوئی سزا چاہی۔آنحضورﷺ نے فرمایا: تم نے ہمارے ساتھ نماز پڑھی ہے۔ اثبات میں جواب پا کرآنحضور ﷺ نے فرمایا: تمہارا گناہ معاف ہو گیا۔‘‘

الغرض سوچ سمجھ کر پڑھی ہوئی نماز، نمازی کے چُھپے ہوئے نفس کو مختلف حالتوں میں اُس کے سامنے پیش کرتی ہے، اپنے نفس کے محاسبہ کا بار بار اُسے موقع ملتا ہے ،نماز اُس کی برائیوں کی نشاندہی کرتی ہے جسے آئندہ دُور کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

انسان نماز کو کیسے سمجھ کر ادا کرے

  • اللّٰہ اکبر: اللہ اکبر کہنے سے نفس انسان کو پکڑتا اور پوچھتا ہے کہ کیا واقعتاً وہ خدا کو سب سے بڑا تصوّر کرتا ہے ۔ایسے وجود تو اُس کے اندر ہیں جو اس کے دل و دماغ پر قابض ہیں ۔ہر معبودباطلہ سے چھٹکارا پا لیتا ہے۔ آج کے دَور میں جب اسلام نے چودہ صدیوں کا سفر طے کر لیا ،آہستہ آہستہ رسم ورواج اور بدعات نے جگہ لے لی ہے ۔اسلام کا تابناک اور نورانی چہرہ چُھپ کر رہ گیا۔لہٰذا رمضان میں جہاں جائز باتوں سے روکا جا رہاہے وہاں ناجائز چیزوں سے اجتناب ضروری ہے اور ان میں سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے مقابل پرمعبود بنانا ہے ۔
  • اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن: کہنے میں یہ سبق ہے کہ تمام تعریف خدا کی ہے۔ اس دُنیا میں جو بھی خوبصورت اور قابلِ تعریف چیز نظر آتی ہے اُس کے پیچھے خدا کاچہرا دکھلائی دیتا ہے۔اپنے عزیز و اقارب، والدین اور بیوی بچوں کے حُسن میں خدا کا حُسن نظر آنا چاہئے۔
  • اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم: انسان جب یہ کلمات کہتا ہے تو فوراً اندر سے آواز ہے کہ تم رحمان رحیم خدا کی عبادت کر رہے ہو۔ یہی صفات اپناؤ۔ دُرشتی، سختی، غضب اورانتقام کا مادہ نہ ہو۔
  • مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْن: کہنے کا مطلب یہ ہے کہ حقیقی مالک اور جزا سزا دینے والا خدا ہے۔ تم بھی اپنے ماتحت لوگوں سے نرمی کرو ۔الغرض ان الفاظ سے انصاف رحمت و شفقت اور عفو و درگزر جیسی صفات پیدا ہوتی ہیں۔
  • اِھْدِنَاالصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم: انسان جب یہ دُعا کرتا ہےتو وہ سوچتا ہے کہ مَیں صراط مستقیم کے لئے دُعا کر رہا ہوں مگر فلاں فلاں وقت تم نے بدیاں کیں ، فلاں وقت تم نے عمداً جھوٹ بولا، فلاں کو تم نے دھوکہ دیا، فریب دیا پھر یہ دُعا کیسی۔ اس لئے اپنے اعمال درست کرو۔پھر انسان سنبھلتا ہے ،سیدھی راہ پر چلتا ہے ۔منعم علیہ گروہ میں شامل ہوتا ہے اور مغضوب گروہ سے دُور ہوجاتا ہے۔
  • سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْم: پاک خدا کی عبادت کرتے ہو تو خود کو بھی پاک بناؤ۔ ناپاکی کا پاکی سے کوئی تعلق نہیں ۔
  • اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ وَارْحَمْنِی : انسان کا کانشس (Conscious) اُسے جھنجھوڑتا ہے کہ تم خود تو دوسروں کے گناہ نہیں بخشتے۔ ان پر رحم نہیں کرتے، پھر یہ دُعا کیسی۔ ظلم سے کام لیتے ہو اور یہ دُعا کرتے ہو۔ اس دُعا سے بخشش اور رحمت کا جذبہ اُبھرتا ہے اور رحیم بننے کی طرف توجہ ہوتی ہے۔
  • وَارْزُقْنِی: خدا کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق رزق حاصل کرو ۔ شیطانی طریقے سے روزی کما کے یہ دُعا کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ سو انسان حرام کمائی سے دُور ہوتا ہے۔
  • اَلتَّحَیَاتُ لِلّٰہِ: نمازی تو یہ کہتا ہے کہ تمام تحفے خدا کے لئے ہیں مگر نفس اُسےجھنجھوڑتا ہے کہ تم تو خالی ہاتھ آئے ہو ،کون سے تحائف خدا کے لئے لائے ہو۔ پھر وہ اپنی اصلاح کرتا ہے اور آئندہ کوشش کرتا ہے کہ اگلی نماز سے پہلے یہ نیکی کر لوں تاتحفۃً خدا کے سامنے پیش کر سکوں۔
  • اَلسَّلَامُ عَلَیْنَا وَ عَلَی عِبَادِ اللّٰہ ِالصَّالِحِیْن: انسان اپنے نفس سے کہتا ہے کہ منہ سے تو دوسروں کی سلامتی کی دُعا کر رہے ہو مگر اس کے لئے کوشش کی کیا ہے۔ کیا کسی کی تکلیف دُور کی۔ کیا کسی غریب کی مدد کی۔ کیا کسی ضرورت مند کی ضرورت پوری کی۔ بلکہ تم تو دوسروں کو تکلیف اور نقصان پہنچاتے رہے ہو۔ سو یہ دُعا کرتے ہوئے دوسروں کے لئے سلامتی کا موجب بن جاتا ہے۔ اس کے ذہن سلامتی کا وہ مضمون اُبھرتا ہے جو اس حدیث میں ہے کہ اَلْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهٖ وَيَدِهٖ۔

(رواہ البخاری و المسلم)

کہ اس سے خود بھی اور دوسرےمسلمان محفوظ ہوجاتے ہیں۔

  • اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ: میرا محبوب، مسجود، معبود اور مقصود خدا ہے۔ نفس کہتا ہےکہ نہیں تمہارا محبوب اور معبود تو فلاں فلاں ہے جسے خوش کرنے اور راضی رکھنے کے لئے تم نے کوئی کَسر نہیں اُٹھا رکھی۔ تم نے کب خدا کو راضی کرنے اور محبوب بنانے کی کوشش کی تھی۔ پھر اس کا جھکاؤ خدا کی طرف مزید ہوتا ہے۔
  • اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدً رَّسُوْلُ اللّٰہ: یہ کلمات کہتے ہوئے یہ اعلان کرتا ہے کہ محمدؐ ہی میرے Ideal ہیں اور اِنْ كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللّٰه۔ (اٰل عمران : 32) پر عمل کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا پیارا بننے کے لئے حضرت محمد ؐ کی پیروی کرتا ہے۔ آپؐ کے اخلاق اپناتا ہے۔
  • اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃ: دین کی باتیں کرتے ہو۔ دُنیا کو چھوڑو گے تو دین کماؤگے۔
  • رَبِّ اجْعَلْنِیْ مُقِیْمَ الصَّلوٰۃِ وَمِنْ ذُرِّیَّتِی: نمازی بننے کے لئے دُعا کرتے ہو مگر مزے سے دوسرے کاموں میں مصروف رہتے ہو۔ نماز کے لئے کاروبار بند کرو اور نماز کا حق ادا کرو۔ پھر اولاد کے لئے دُعا کرتے ہو مگر آنکھوں کے سامنے اولاد کو بیٹھا دیکھتے ہو اور نماز کے لئے نہیں کہتے۔ کیوں صبح انہیں بیدار نہیں کرتے۔ کیوں اُنہیں اپنے ساتھ مسجد میں لے کر نہیں جاتے۔ گویا کہ نماز کا ہر کلمہ، ہرحرف اُسے جھنجھوڑتا ہے، اُسے بیدار کرتا اور رکھتا ہے، اندرونی بیماریوں کی نشاندہی کرتا ہے، اُنہیں باہر نکالتا ہے ۔حسن و قبح کو سامنے لاتا ہے، انسان کا تزکیہ ہوتا ہے، آئندہ نیکی کرنے کےلئے قدم اُٹھاتا ہے اور آہستہ آہستہ نماز اُسے تمام بُرائیوں سے بچا لیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔ اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْکَرِ (العنکبوت: 46)

آخر میں آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کی نماز پڑھنے کی کیفیت بیان کرتا ہوں۔آپؐ لمبی لمبی نماز پڑھا کرتے تھے۔ روزمرہ کے معمول بھی نبٹایا کرتے تھے۔ نمازوں میں ہنڈیا کے اُبلنے کی طرح آواز آتی تھی۔ مرض الموت میں بھی نماز کا خیال رکھا اور دو صحابہؓ کے مونڈھوں کے سہارے مسجد میں تشریف لائے۔ آپؐ کی نمازوں میں معرفت تھی، تعلق باللہ تھا اور مقبول دعائیں تھیں۔ اللہ تعالیٰ اس رمضان میں ہمیں بھی ایسی معرفت بھری مقبول نمازیں پڑھنے کی توفیق دے۔ آمین

(ابو سعید)


پچھلا پڑھیں

Covid-19 افریقہ ڈائری نمبر 21، 07 مئی 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 7 مئی 2020