اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے۔
اِعۡلَمُوۡۤا اَنَّمَا الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَا لَعِبٌ وَّ لَہۡوٌ وَّ زِیۡنَۃٌ وَّ تَفَاخُرٌۢ بَیۡنَکُمۡ وَ تَکَاثُرٌ فِی الۡاَمۡوَالِ وَ الۡاَوۡلَادِ ؕ کَمَثَلِ غَیۡثٍ اَعۡجَبَ الۡکُفَّارَ نَبَاتُہٗ ثُمَّ یَہِیۡجُ فَتَرٰٮہُ مُصۡفَرًّا ثُمَّ یَکُوۡنُ حُطَامًا ؕ وَ فِی الۡاٰخِرَۃِ عَذَابٌ شَدِیۡدٌ ۙ وَّ مَغۡفِرَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ وَ رِضۡوَانٌ ؕ وَ مَا الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الۡغُرُوۡرِ
(الحدید:21)
ترجمہ: جان لو کہ دنیا کی زندگی محض کھیل کود اور نفس کی خواہشات کو پورا کرنے کا ایسا ذریعہ ہے جو اعلیٰ مقصد سے غافل کردے اور سج دھج اور باہم ایک دوسرے پر فخر کرنا ہے اور اموال اور اولاد میں ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کرنا ہے۔ (یہ زندگی) اس بارش کی مثال کی طرح ہے جس کی روئیدگی کفار (کے دلوں) کو لبھاتی ہے۔ پس وہ تیزی سے بڑھتی ہے۔ پھر تُو اسے زرد ہوتا ہوا دیکھتا ہے پھر وہ ریزہ ریزہ ہوجاتی ہے۔ اور آخرت میں سخت عذاب (مقدر) ہے نیز اللہ کی طرف سے مغفرت اور رضوان بھی۔ جبکہ دنیا کی زندگی تو محض دھوکے کا ایک عارضی سامان ہے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں دنیا اور دنیاوی زندگی کی حقیقت بیان فرمائی ہے کہ یہ زندگی بے حقیقت ہے۔ اصل زندگی اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے لئے سب کچھ تیاگ دینے میں ہے اپنی ضرورتوں اور خواہشات پر اللہ کی رضامقدم کرنے میں ہی دائمی زندگی ہے۔
صحیح بخاری میں حضرت علی ؓ کا واقعہ ملتا ہے کہ کس طرح انہوں نے اپنی تکلیف پر اللہ تعالیٰ کی رضا کو مقدم کیا آنکھوں کی تکلیف کے باوجود اپنے آرام و سکون کی پرواہ نہ کرتے ہوئے دین کو دنیا پر مقدم کیا۔ وہ واقعہ کچھ اس طرح ہے۔
حضرت سلمہ بن اکوع ؓ روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی ؓ غزوۂ خیبر میں آنحضرتﷺ سے پیچھے رہ گئے۔ ان کی آنکھوں میں آشوب تھا پھر کہنے لگے بھلا میں آنحضرتﷺ کو چھوڑدوں گا؟ (صرف آنکھوں کی تکلیف کی وجہ سے یہ نہیں ہوسکتا) اور نکل کھڑے ہوئے اور آنحضرت ﷺ سے جاملے۔ جب وہ رات آئی جس کی صبح کو حضرت علی ؓ نے خیبر فتح کیا توآنحضرتﷺ نے فرمایا کہ کل میں ایسے شخص کو جھنڈادوں گا۔ یا ایسا شخص جھنڈا سنبھالے گا۔ جس سے اللہ اور اس کا رسول دونوں محبت کرتے ہیں یاوہ اللہ اور رسول سے محبت رکھتا ہے۔ اللہ اس کے ہاتھ پر خیبر کی فتح کرا دے گا۔ دوسرے دن کیا دیکھتے ہیں کہ حضرت علی ؓ آن موجود ہوئے۔ صحابہ بیان کرتے ہیں کہ ہمیں ان کے آنے کی امید نہ تھی۔ لوگوں نے کہا یہ حضرت علی ؓ آپہنچے۔ حضور ﷺ نے انہیں جھنڈا دیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھ پر خیبر کی فتح دی۔
(صحیح بخاری کتاب الجہاد وایسرباب ماقیل فی لواء النبیؐ)
حضرت علی ؓ کے اس واقعہ میں ہمارے لئے واضح سبق موجود ہے کہ حضرت علی ؓ نے آنکھوں کی تکلیف کے باوجود اپنے آرام و سکون پر خدمت ِ دین کو ترجیح دی اور جہاد کے لئے نکل کھڑے ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے آنکھوں کی تکلیف بھی دور کردی۔ اور آپؓ کے ہاتھ پر خیبر کی فتح عطا کی یعنی دین کو دنیا پر مقدم کرنے کے نتیجہ میں شفاء بھی ملی اور کامیابی بھی عطا ہوئی۔
سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں۔
’’یہ حالت انسان کے اندر پیدا ہوجانا آسان بات نہیں کہ وہ خداتعالیٰ کی راہ میں جان دینے کو آمادہ ہوجاوے مگر صحابہ ؓ کی حالت بتاتی ہے کہ انہوںنے اس فرض کو ادا کیا جب انہیں حکم ہوا کہ اس راہ میں جان دے دو۔ پھر وہ دنیا کی طرف نہیں جھکے۔ پس یہ ضروری امر ہے کہ تم دین کو دنیا پر مقدم کرلو۔
(ملفوظات جلدچہارم ص595)
پھر حضورؑ فرماتے ہیں۔
دیکھو دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں ایک تو وہ جو اسلام قبول کرکے دنیا کے کاروبار اور تجارتوں میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ شیطان ان کے سر پر سوار ہوجاتا ہے۔ میرا یہ مطلب نہیں کہ تجارت کرنی منع ہے۔ نہیں۔ صحابہ تجارتیں بھی کرتے تھے۔ مگر وہ دین کو دنیا پر مقدم رکھتے تھے انہوں نے اسلام قبول کیا تو اسلام کے متعلق سچا علم جو یقین سے ان کے دلوں کو لبریز کردے انہوں نے حاصل کیا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ کسی میدان میں شیطان کے حملے سے نہیں ڈگمگائے۔ یاکوئی امر ان کو سچائی کے اظہار سے نہیں روک سکا۔ میرا مطلب اس سے صرف یہ ہے کہ جو بالکل دنیا ہی کے بندے اور غلام ہوجاتے ہیں گویا دنیا کے پرستار ہوجاتے ہیں۔ ایسے لوگوں پر شیطان اپنا غلبہ اور قابو پالیتا ہے۔ دوسرے وہ لوگ ہوتے ہیں جو دین کی ترقی کی فکر میں ہوجاتے ہیں یہ وہ گروہ ہوتا ہے۔ جو حزب اللہ کہلاتا ہے اور جو شیطان اور اس کے لشکر پر فتح پاتا ہے۔
(ملفوظات جلد دوم ص142)
پھر حضور ؑ فرماتے ہیں۔
میں سچ کہتا ہوں کہ اصل مراد تب ہی حاصل ہوتی ہے۔ جب سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر خداتعالیٰ کی طرف متوجہ ہو اور درحقیقت دنیا پر دین کو مقدم کردے۔یادرکھو مخلوق کو انسان دھوکہ دے سکتا ہے اور لوگ یہ دیکھ کر کہ پنجوقتہ نماز پڑھتا ہے یا اور نیکی کے کام کرتا ہے۔ دھوکہ کھاسکتے ہیں مگر خداتعالیٰ دھوکہ نہیں کھاسکتا۔ اس لئے اعمال میں ایک خاص اخلاص ہونا چاہئے۔ یہی ایک چیز ہے جو اعمال میں صلاحیت اور خوبصورتی پیدا کرتی ہے۔
(ملفوظات جلد پنجم ص89)
پھر حضور ؑ فرماتے ہیں۔
دین اور دنیا ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتے۔ سوائے اس حالت کے جب خدا چاہے تو کسی شخص کی فطرت کو ایسا سعید بنائے کہ وہ دنیا کے کاروبار میں پڑکر بھی اپنے دین کو مقدم رکھے۔ ایسے شخص بھی دنیا میں ہوتے ہیں۔ چنانچہ ایک شخص کا ذکر تذکرۃ الاولیاء میں ہے کہ ایک شخص ہزارہا روپیہ کے لین دین کرنے میں مصروف تھا۔ ایک ولی اللہ نے اس کو دیکھا اور کشفی نگاہ اس پر ڈالی تو اسے معلوم ہوا کہ اس کا دل باوجود اس قدر لین دین روپیہ کے خداتعالیٰ سے ایک دم غافل نہ تھا۔ ایسے ہی آدمیوں کے متعلق خداتعالیٰ نے فرمایا ہے۔ لَا تُلۡہِیۡہِمۡ تِجَارَۃٌ وَّ لَا بَیۡعٌ عَنۡ ذِکۡرِ اللّٰہِ (النور:38) کوئی تجارت اور خرید و فروخت ان کو غافل نہیں کرتی۔
اور انسان کا کمال بھی یہی ہے کہ دنیوی کاروبار میں بھی مصروف رکھے اور پھر خداکوبھی نہ بھولے۔ وہ ٹٹوکس کام کاہے۔ جو بہ وقت بوجھ لادنے کے بیٹھ جاتا ہے اور جب خالی ہوتو خوب چلتا ہے۔ وہ قابل تعریف نہیں۔ وہ فقیر جو دنیوی کاموں سے گھبراکر گوشہ نشین بن جاتا ہے۔ وہ ایک کمزوری دکھلاتا ہے۔ اسلام میں رہبانیت نہیں۔ ہم کبھی نہیں کہتے کہ عورتوں کو اور بال بچوں کو ترک کردو اور دنیوی کاروبار چھوڑ دو۔ نہیں بلکہ ملازم کو چاہئے کہ وہ اپنی ملازمت کے فرائض اداکرے اور تاجر اپنی تجارت کے کاروبار کوپورا کرے لیکن دین کو مقدم رکھے۔
(ملفوظات جلدپنجم ص162)
پھر حضور ؑ فرماتے ہیں۔
دین کو دنیا پر مقدم رکھنا نہایت مشکل امر ہے کہنے کو تو انسان کہہ لیتا ہے اور اقرار بھی کرلیتا ہے۔ مگر اس کا پورا کرنا ہر ایک کا کام نہیں۔ دین کو دنیا پر مقدم رکھنا اس طرح سے پہچانا جاتا ہے کہ جب انسان کا دنیوی مال میں نقصان ہوتو کس قدر درد اس کے دل کو پہنچتا ہے اور اس کے بالمقابل جب کسی دینی امر میں نقصان ہو جائے تو پھر کس قدردرد اس کے دل کوہوتا ہے۔ انسان کو چاہئے کہ اس شناخت کے واسطے اپنے دل کو ہی ترازو بنائے۔ کہ دنیوی نقصان کے واسطے وہ کس قدر بے قرار ہوتا ہے اور چیختا چلاتا ہے اور پھر دینی نقصان کے وقت اس کا کیا حال ہوتا ہے؟ بدہے وہ شخص جو دوسرے کو دھوکہ دیتا ہے۔ مگر بدتروہ ہے جو اپنے آپ کو بھی دھوکا دیتا ہے دین کو مقدم نہیں کرتا اور خیال کرتا ہے کہ میں دین کو مقدم کئے ہوئے ہوں۔ وہ سچے طور پر خدا تعالیٰ کا فرمانبردار نہیں بنا اور ظن کرتا ہے کہ میں مسلمان ہوں۔ جو شخص دوسرے پر ظلم کرتا ہے ممکن ہے وہ ظلم کرکے بھاگ جائے گا اور اس طرح اپنے آپ کو بچائے۔ مگر وہ جس نے اپنی جان پر ظلم کیا وہ کہاں بھاگ کر جائے گا اور اس ظلم کی سزاسے کس طرح بچ سکے گا۔ مبارک وہ جو دین کو اور خداتعالیٰ کو سب چیزوں پر مقدم رکھتا ہے۔ کیونکہ خدا بھی اسے مقدم رکھتا ہے۔
(ملفوظات جلدپنجم ص235)
پھرحضورؑ فرماتے ہیں۔
ہم یہ نہیں کہتے کہ زراعت کو اور تجارت والا تجارت کو، ملازمت کو اور صنعت وحرفت والا اپنے کاروبار کوترک کردے اور ہاتھ پاؤں توڑ کر بیٹھ جائے۔ بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ لَا تُلۡہِیۡہِمۡ تِجَارَۃٌ وَّ لَا بَیۡعٌ عَنۡ ذِکۡرِ اللّٰہِ (النور:38) والا معاملہ ہے۔
دست درکار و دل بایار والی بات ہو۔ تاجر اپنے کاروبارِ تجارت میں اور زمیندار اپنے امورِ زراعت میں اور بادشاہ اپنے تخت حکومت پر بیٹھ کر، غرض جو جس کام میں ہے۔ اپنے کاموں میں خداکو نصب العین رکھے اوراس کی عظمت اورجبروت کو پیش نظر رکھ کر اس کے احکام اور اوامرونواہی کا لحاظ رکھتے ہوئے جو چاہے کرے۔ اللہ سے ڈر اور سب کچھ کر۔
اسلام کہاں ایسی تعلیم دیتا ہے کہ تم کاروبار چھوڑ کر لنگڑے لولوں کی طرح نکمے بیٹھے رہو اور بجائے اس کے کہ اوروں کی خدمت کروخود دوسروں پر بوجھ بنو۔نہیں بلکہ سست ہونا گناہ ہے۔ بھلا ایسا آدمی پھر خدااور اس کے دین کی کیا خدمت کرسکے گا۔ عیال واطفال جو خدا نے اس کے ذمے لگائے ہیں ان کو کہاں سے کھلائے گا۔ پس یادرکھو کہ خدا کا یہ ہرگز منشا نہیں کہ تم دنیا کو بالکل ترک کردو۔ بلکہ اس کا جومنشا ہے وہ یہ ہے کہ قَدۡ اَفۡلَحَ مَنۡ زَکّٰٮہَا (الشمس:10) تجارت کرو، زراعت کرو، ملازمت کرو اور حرفت کرو، جو چاہوکرو۔ مگر نفس کو خداتعالیٰ کی نافرمانی سے روکتے رہو اور ایسا تزکیہ کرو کہ یہ امور تمہیں خدا سے غافل نہ کر دیں۔ پھر جو تمہاری دنیا ہے یہی دین کے حکم میں آجاوے گی۔ انسان دنیا کے واسطے پیدا نہیں کیا گیا دل پاک ہواور ہروقت یہ لواورتڑپ لگی ہوئی ہو کہ کسی طرح خدا خوش ہو جائے تو پھر دنیا بھی اس کے واسطے حلال ہے۔
(ملفوظات جلدپنجم ص550)
پھر حضورؑ فرماتے ہیں۔
بیعت کے وقت جو اقرارکیا جاتا ہے کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا۔ یہ اقرار خدا کے سامنے اقرار ہے اب چاہئے کہ اس پر موت تک خوب قائم رہے ورنہ سمجھو کہ بیعت نہیں کی اور اگر قائم ہوگے تو اللہ تعالیٰ دین و دنیا میں برکت دے گا اپنے اللہ کے منشاء کے مطابق پورا تقویٰ اختیار کرو۔ زمانہ نازک ہے قہر الہٰی نمودار ہورہا ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کی مرضی کے موافق اپنے آپ کو بنالے گا وہ اپنی جان اور اپنی آل و اولاد پر رحم کرے گا۔
(ملفوظات جلد3ص67،68)
پھر حضور ؑ فرماتے ہیں۔
جب انسان یہ اقرار کرتا ہے کہ میں تمام گناہوں سے بچوں گا اور دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا۔ تو اس کے یہ معنے ہیں کہ اگرچہ مجھے اپنے بھائیوں، رشتہ داروں اور سب دوستوں سے قطع تعلق ہی کرنا پڑے۔ مگر میں خدا تعالیٰ کو سب سے مقدم رکھوں گا اور اسی کے لئے اپنے تعلقات چھوڑتا ہوں ایسے لوگوں پر خدا تعالیٰ کا فضل ہوتا ہے۔ کیونکہ انہیں کی توبہ دلی توبہ ہوتی ہے۔
(ملفوظات جلدسوم ص219)
سیدنا حضرت حکیم مولانا نورالدین خلیفۃ المسیح الاول ؓ فرماتے ہیں۔ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ کے کہنے میں ہم سب یہ اقرار کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے سواکوئی معبود محبوب اور مطاع نہ ہوگا اور کوئی غرض و مقصد اللہ تعالیٰ کے اس راہ میں روک نہ ہوگی۔ اس امام نے اس مطلب کو ایک اور رنگ میں ادا کیا ہے۔ کہ ہم سے یہ اقرار لیتا ہے ‘‘دین کو دنیا پر مقدم کروں گا’’ اب اس اقرار کو مدنظر رکھ کر اپنے عمل درآمد کو سوچ لو کہ کیا اللہ تعالیٰ کے احکام اور امرونواہی مقدم ہیں یا دنیا کے اغراض و مطالب؟ اس اقرار کا منشاء یہ ہے کہ ساری جزئیں اللہ کے خوف کی اور حصول مطالب کی امید کی اللہ تعالیٰ کے سوا نہ رہیں یعنی خوف ہوتو اسی سے، امید ہو تو اسی سے! وہی معبود ہو۔ اسی کی عظمت وجبروت کا خوف ہو جس سے اطاعت کو جوش پیدا ہو۔ ایسی اطاعت اور عبادت روح میں ایک تذلل اور انکساری پیدا کرے گی جس سے سرور اور لذت پیدا ہوگی اور عملی زندگی کو قوت ملے گی۔
(حقائق الفرقان جلد 4ص127)
پھر حضورؓ فرماتے ہیں۔
ہماری جماعت امام کے ہاتھ پر معاہدہ کرتی ہے کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا۔ رنج میں راحت میں عسر میں یسر میں قدم آگے بڑھاؤں گا۔ بغاوت اور شرارت کی راہوں سے بچنے کا اقرار کرتا ہے۔ غرض ایک عظیم الشان معاہدہ ہوتا ہے پھر دیکھا جاوے کہ نفسانی اغراض اور دنیوی مقاصد کی طرف قدم بڑھاتا ہے۔ یا دین کو مقدم کرتا ہے، عامہ مخلوقات کے ساتھ نیکی اور مسلمانوں کے ساتھ خصوصاً نیکی کرتا ہے یا نہیں۔ ہر امر میں خداتعالیٰ کی رضا کو مقدم رکھے۔
(حقائق الفرقان جلد4 ص289،290)
دین کو دنیا پر مقدم کرنے کی ایک شاندار اور عظیم الشان مثال امت مسلمہ میں ہمیں ملتی ہے سیدنا حضرت مرزابشیر الدین محموداحمد خلیفۃ المسیح الثانی ؓ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت عمر ؓکے زمانہ میں جب عراق میں قادسیہ کے مقام پر جنگ جاری تھی تو کسریٰ میدان جنگ میں ہاتھی لایا۔ اونٹ ہاتھی سے ڈرتا ہے اس لئے وہ انہیں دیکھ کر بھاگتے تھے اور اس طرح مسلمانوں کو بہت نقصان ہوا۔ اور بہت سے مسلمان مارے گئے۔آخر ایک دن مسلمانوں نے فیصلہ کیا کہ خواہ کچھ ہو آج ہم میدان سے ہٹیں گے نہیں۔ جب تک دشمن کو شکست نہ دے دیں۔
ایک عورت حضرت حنساء ؓ اپنے چاربیٹوؓں کو لے کر میدانِ جنگ میں آئیں اور ان کو مخاطب کر کے کہنے لگیں کہ پیارے بیٹو! تمہارے باپ نے اپنی زندگی میں ساری جائیداد تباہ کردی تھی اورمجھے مجبور کیا کہ میں اپنے بھائی سے کہوں کہ وہ مجھے حصہ دے۔ چنانچہ میں اس کے پاس گئی اس نے میرا بڑا اعزاز کیا بڑی دعوت کی اور پھر اپنی جائیداد میں سے آدھی مجھے بانٹ دی۔ میں وہ لے کر چلی گئی۔ تو تمہارے باپ سے میں نے کہا کہ اب تو آرام سے گزارہ کرو۔ مگر اس نے پھر اسے بھی برباد کردیا اور پھر مجبور کر کے میرے بھائی کے پاس مجھے بھیجا۔ پھر میں اس کے پاس گئی اس نے پھر میرا اعزاز و احترام کیا اور پھر بقیہ میں سے مجھے آدھی جائیداد بانٹ دی مگر وہ بھی تمہارے باپ نے برباد کردی اور پھر مجھے مجبور کیا کہ اپنے بھائی سے جاکر حصہ لوں۔ چنانچہ میں پھر بھائی کے پاس گئی اور اس نے پھر بقیہ جائیداد بانٹ دی مگر وہ بھی تمہارے باپ نے برباد کردی اور پھر مجھے مجبورکیا کہ اپنے بھائی سے جاکر حصہ لوں۔ چنانچہ پھر میں بھائی کے پاس گئی اور اس نے پھر جائیداد بانٹ دی۔ مگر وہ بھی تمہارے باپ نے بربادکردی اور جب تمہارا باپ مرا تو اس نے کوئی جائیداد نہ چھوڑی۔ میں اس وقت جوان تھی۔ تمہارے باپ کی کوئی جائیداد نہ تھی پھر اپنی زندگی میں اس نے میرے ساتھ کوئی حسن سلوک بھی نہ کیا تھا اور اگر عرب کے رسم و رواج کے مطابق میں بدکار ہوجاتی تو کوئی اعتراض کی بات نہ تھی مگر میں نے اپنی تمام عمر نیکی سے گزاری۔ اب کل فیصلہ کن جنگ ہونے والی ہے میرے تم پر بہت حقوق ہیں۔ کل کفر اور اسلام میں مقابلہ ہوگا۔ اگر تم فتح حاصل کئے بغیر واپس آئے تو میں خداتعالیٰ کے حضور کہوں گی کہ میں ان کو اپنا کوئی بھی حق نہیں بخشتی۔ اس طرح اس نے اپنے چاروں بیٹوں کو جنگ میں تیارکرکے بھیج دیا اورپھر گھبرا کر خود جنگل میں چلی گئی اور وہاں تنہائی میں سجدہ میں گر کر اور رو رو کر اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگنے لگی اور دعا یہ کی کہ اے میرے خدا میں نے اپنے چاروں بیٹوں کو دین کی خاطر مرنے کیلئے بھیج دیا ہے لیکن تجھ میں یہ طاقت ہے کہ ان کو زندہ واپس لے آئے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ایسا فضل کیا کہ مسلمانوں کو فتح بھی ہوگئی اور اس کے چاروں بیٹے بھی زندہ واپس آگئے۔
(تفسیر کبیر جلد7 ص339)
دین کو دنیا پر مقدم کرنے کی برکتوں سے اللہ تعالیٰ نے اس ماں کو نوازا اللہ تبارک و تعالیٰ نے سیدنا حضرت اقدس محمد رسول اللہﷺ کے عاشق صادق سیدنا حضرت اقدس مسیح موعودؑ کو بھی ایسے جانثار مخلصین عطاء فرمائے ہیں جو دین کو دنیا پر مقدم کرتے ہوئے رب ذوالجلال کی رضا کی خاطر اپنی عزیز جان تک قربان کرنے سے دریغ نہیں کرتے ایک ایسے ہی باوفا فدائی کی عظیم الشان قربانی کا ذکرکرتے ہوئے سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں۔
دیکھو مولوی عبداللطیف صاحب شہید اسی بیعت کی وجہ سے پتھروں سے مارے گئے۔ ایک گھنٹہ تک برابر ان پر پتھر برسائے گئے۔ حتیٰ کہ ان کا جسم پتھروں میں چھپ گیا۔ مگر انہوں نے اُف تک نہ کی۔ ایک چیخ نہ ماری۔ بلکہ ان کو اس ظالمانہ کارروائی سے پیشتر تین بارخود امیر نے اس امر سے توبہ کرنے کے واسطے کہا اور وعدہ کیا کہ اگر تم توبہ کرو تو معاف کردیا جاوے گا اور پیشتر سے زیادہ عزت اور عہدہ عطا کیاجاوے گا۔ مگر وہ تھا کہ خدا کو مقدم کیا اور کسی دکھ کی جو خدا کے واسطے اُن پر آنے والا تھا پرواہ نہ کی اور ثابت قدم رہ کر ایک نہایت عمدہ زندہ نمونہ اپنے کامل ایمان کا چھوڑ گئے۔ وہ بڑے فاضل، عالم اور محدث تھے۔ سنا ہے کہ جب ان کو پکڑ کرلے جانے لگے تو ان سے کہا گیا کہ اپنے بال بچوں سے مل لوان کو دیکھ لو۔ مگر انہوں نے کہا کہ اب کچھ ضرورت نہیں۔ یہ ہے بیعت کی حقیقت اور غرض و غایت۔
(ملفوظات جلدپنجم ص457)
سیدنا حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں۔
اے آسمانی بادشاہت کے موسیقارو! اے آسمانی بادشاہت کے موسیقارو! اے آسمانی بادشاہت کے موسیقارو! ایک دفعہ پھر اس نوبت کو اس زور سے بجاؤ کہ دنیا کے کان پھٹ جائیں۔ ایک دفعہ پھر اپنے دل کے خون اس قرنا میں بھر دو ایک دفعہ پھر اپنے دل کے خون اس قرنا میں بھردو کہ عرش کے پائے بھی لرز جائیں اور فرشتے بھی کانپ اٹھیں۔ تاکہ تمہاری دردناک آوازیں اور تمہارے نعرہ ہائے تکبیر اور نعرہ ہائے شہادت توحید کی وجہ سے خداتعالیٰ زمین پر آجائے اورپھر خداتعالیٰ کی بادشاہت اس زمین پر قائم ہوجائے۔ اسی غرض کے لئے میں نے تحریک جدید کو جاری کیا ہے اور اسی غرض کے لئے میں تمہیں وقف کی تعلیم دیتاہوں۔ سیدھے آؤ اور خدا کے سپاہیوں میں داخل ہوجاؤ۔ محمد رسول اللہ ﷺ کا تخت آج مسیح نے چھینا ہوا ہے۔ تم نے مسیح سے چھین کر پھر وہ تخت محمد رسول اللہﷺ کودنیا ہے۔ اور محمد رسول اللہﷺ نے وہ تخت خدا کے آگے پیش کرنا ہے۔ اور خداتعالیٰ کی بادشاہت دنیا میں قائم ہونی ہے۔ پس میری سنو اور میری بات کے پیچھے چلو کہ میں جو کچھ کہہ رہا ہوں وہ خدا کہہ رہا ہے۔ میری آواز نہیں ہے۔ میں خدا کی آواز تم کو پہنچا رہا ہوں۔ تم میری مانو! خدا تمہارے ساتھ ہو، خدا تمہارے ساتھ ہو خدا تمہارے ساتھ ہو اور تم دنیا میں بھی عزت پاؤ اور آخرت میں بھی عزت پاؤ۔
(سیرروحانی ص619،620)
اللہ تعالیٰ ہمیں دین کو دنیا پر مقدم کرتے ہوئے اپنے بے انتہا فضلوں اور رحمتوں کا وارث بنائے۔ (آمین)
(رانا غلام مصطفیٰ منصور)