موسم بہار کی آمد کے لئے عوام الناس پورا سال منتظر رہتے ہیں اور اس کے استقبال کے لئے مختلف تقاریب میں مصروف عمل ہو جاتے ہیں۔ روحانی دُنیا میں بھی موسم بہار کا ظہور ہوتا ہے اور اہل سعادت پورا سال اس اُمید میں رہتے ہیں کہ اُن کو وہ بہار ایک بار پھر اُن کی زندگیوں میں نصیب ہو ،تا وہ روحانی دُنیا میں اُونچی پرواز کر سکیں۔ یہ موسم بہار رمضان کا مہینہ ہے جو کہ اہل سعادت اور اہل علم کے لئے دُنیا و ما فیھا سے بہتر اور افضل ہے۔
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ
(البقرہ :184)
ترجمہ:اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! تم پر روزے اسی طرح فرض کر دیئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔
حضرت سلمان فارسی ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں شعبان کے آخری روز مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:اے لوگو! تم پر ایک عظیم اور بابرکت مہینہ سَایۂ فگن ہوا چاہتا ہے۔ اس میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے روزے رکھنے فرض کئے ہیں۔ اور اس کی راتوں کو قیام کرنا نفل ٹھہرایا ہے……… ھُوَ شَھرٌ اَوَّلُہٗ رَحمَۃٌ وَاَوسَطُہٗ مَغفِرَۃٌ وَاٰخِرُہٗ عِتقٌ مِّنَ النَّارِ ۔کہ وہ ایک ایسا مہینہ ہے جس کا ابتدائی عشرہ رحمت ہے اور درمیانی عشرہ مغفرت کا موجب ہے اورآخری عشرہ جہنم سے نجات دلانے والا ہے ………اور جس نے اس میں کسی روزہ دار کو سیْر کیا اُسے اللہ تعالیٰ میرے حوض سے ایسا مشروب پلائے گا کہ اُسے جنت میں داخل ہونے سے پہلے کبھی پیاس نہ لگے گی۔
(صحیح ابن خزیمہ کتاب الصیام باب فضائل شھر رمضان)
رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ۔
جو شخص ایمان کے تقاضے اور ثواب کی نیت سے رمضان کی راتوں میں اُٹھ کر عبادت کرتا ہے اُس کے گزشتہ گناہ بخش دئیے جاتے ہیں۔
(بخاری کتاب الصوم)
حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ۔
جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم آخری عشرہ میں داخل ہوتے تو کمرِ ہمت کَس لیتے، اپنی راتوں کو زندہ کرتے اورگھروالوں کو بیدارفرماتے۔
آپؓ فرماتی ہیں۔ قیامِ لَیل مت چھوڑنا ،اِس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں چھوڑتے تھے اورجب آپؐ بیمار ہوتے یا جسم میں سُستی محسوس کرتے تھے توبیٹھ کر تہجد کی نماز پڑھتے۔
(ابوداؤد)
حضرت ابن عمر ؓ حضرت نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا۔ عمل کے لحاظ سے اِن دنوں یعنی آخری عشرہ سے بڑھ کر خداتعالیٰ کے نزدیک عظمت والے اور محبوب کوئی دن نہیں۔ پس اِن ایام میں تہلیل یعنی لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کہنا، اللہ تعالیٰ کی بندگی پوری طرح اختیار کرنا اور تکبیر کہنا اور تحمید کہنا، اللہ تعالیٰ کی حمد کرنا، اللہ تعالیٰ کی بڑائی بیان کرنا بکثرت اختیار کرو۔
(صحیح ابن خزیمۃ کتاب الصیام ،باب فضائل شہر رمضان)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔
’’رمضان کا مہینہ مبارک مہینہ ہے۔دُعاؤں کا مہینہ ہے۔میری تو یہ حالت ہے کہ مرنے کے قریب ہو جاؤں تب روزہ چھوڑتا ہوں۔طبیعت روزہ چھوڑنے کو نہیں چاہتی۔یہ مبارک دن ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل ورحمت کے نزول کے دن ہیں‘‘
(ملفوظات جلداول صفحہ439-440)
’’روزہ کی حقیقت سے بھی لوگ ناواقف ہیں۔ اصل یہ ہے کہ جس ملک میں انسان جاتا نہیں اور جس عالَم سے واقف نہیں اُس کے حالات کیا بیان کرے۔ روزہ اتنا ہی نہیں کہ اس میں انسان بھوکا پیاسا رہتاہے بلکہ اس کی ایک حقیقت اور اس کااثر ہے جو تجربہ سے معلوم ہوتا ہے۔ انسانی فطرت میں ہے کہ جس قدر کم کھاتا ہے اُسی قدر تزکیۂ نفس ہوتا ہے اور کَشفی قوتیں بڑھتی ہیں۔ خداتعالیٰ کا منشاء اس سے یہ ہے کہ ایک غذا کو کم کرو اور دوسری کو بڑھاؤ۔ ہمیشہ روزہ دار کو یہ مدّنظر رکھنا چاہئے کہ اس سے اتنا ہی مطلب نہیں ہے کہ بھوکا رہے بلکہ اُسے چاہئے کہ خداتعالیٰ کے ذکر میں مصروف رہے تاکہ تَبَتُّل اور اِنْقِطاَع حاصل ہو ۔ پس روزہ سے یہی مطلب ہے کہ انسان ایک روٹی کو چھوڑ کر جوصرف جسم کی پرورش کرتی ہے دوسری روٹی کو حاصل کرے جو روح کی تسلی اور سیری کا باعث ہے اور جو لوگ محض خدا کے لئے روزے رکھتے ہیں اور نرے رسم کے طور پر نہیں رکھتے اُنہیں چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی حمد اور تسبیح اور تہلیل میں لگے رہیں جس سے دوسری غذا انہیں مل جاوے۔‘‘
(ملفوظات جلد پنجم صفحہ102)
’’مَیں تمہیں یہ سمجھانا چاہتا ہوں کہ جو لوگ قبل از نزولِ بَلا دُعا کرتے ہیں اور اِستغفار کرتے ہیں اور صدقات دیتے ہیں اللہ تعالیٰ اُن پر رحم کرتا ہے اور عذابِ الہٰی سے اُن کو بچا لیتا ہے۔ میری اِن باتوں کو قصّہ کے طور پر نہ سنو۔ مَیں نُصحًا لِلّٰہ کہتا ہوں اپنے حالات پر غور کرو اورآپ بھی اور اپنے دوستوں کو بھی دُعا میں لگ جانے کے لئے کہو۔استغفار،عذابِ الہٰی اورمصائبِ شدیدہ کے لئے سِپرکا کام دیتا ہے۔قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ مَاکَانَ اللّٰہُ مُعَذِّبَھُم وَھُم یَستَغفِرُونَ (الانفال: 34) اس لئے اگر تم چاہتے ہو کہ اس عذابِ الہٰی سے تم محفوظ رہو تو استغفار کثرت سے پڑھو۔‘‘
(ملفوظات جلداول صفحہ 134)
آپ فرماتے ہیں۔ ’’چاہئے کہ راتوں کو اٹھ اٹھ کرنہایت تضرع اور زاری وابتہال کے ساتھ خداتعالیٰ کے حضور اپنی مشکلات پیش کرے اور اس دعا کو اس حد تک پہنچاوے کہ ایک موت کی سی صورت واقع ہوجاوے، اس وقت دعا قبولیت کے درجہ تک پہنچتی ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد سوم ص616)
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ؓ فرماتے ہیں۔
رمضان کے دن بڑے بابرکت دن ہیں….اللہ تعالیٰ نے اس مہینے میں خاص احکام دئیے ہیں اور ان پر عمل کرنے کی خاص تاکید کی ہے….روزہ سے فارغ البالی پیدا ہوتی ہے اور دُنیا کے کاموں میں سُکھ کرنے کی راہیں حاصل ہوتیں ہیں۔آرام تو یا مَرکر حاصل ہوتا ہے یا بدیوں سے بچ کر حاصل ہوتا ہے۔اس لئے روزے سے بھی سُکھ حاصل ہوتا ہے اور اس سے انسان قُرب حاصل کر سکتا ہے اور متّقی بن سکتا ہے۔
(حقائق الفرقان جلداول ص306-307)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ فرماتے ہیں۔
خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃو السلام کا نام یوسف رکھا ہے اور اس کے ایک جانشین کا بھی۔اس میں یہ بھی حکمت ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانہ میں بادشاہ نے خواب دیکھا تھا کہ دُبلی گائیں موٹی گائیوں کو کھا گئی ہیں۔ اس میں اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ عبادات سے اپنے آپ کودُبلا کرنے والے مرغّن اور مقوّی اَغْذیہ کئی کئی وقت کھا کر موٹا ہونے والے دُشمن پر غالب آ جائیں گے اور مسیح کی دُبلی گائیں موٹی گائیوں کو کھا جائیں گی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا نام گئوپال بھی رکھا گیا ہے اور آپ کی جماعت کے لوگوں کو گائے قرار دیا گیا ہے اور حضرت یوسف علیہ السلام نے بتایا ہے کہ دُبلی گائیں پلی ہوئی گائیوں کو کھا جائیں گی۔ تم روزے رکھ کر اپنے آپ کو دُبلی گائیں بناتے ہواوراس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو یوسف اور گئو پال قرار دیتے ہو اوراس طرح موقع پیدا کرتے ہو کہ اللہ تعالیٰ اس رنگ میں اپنا جلال ظاہر کرے کہ موٹی کو دُبلی گائیں کھا جائیں۔ پس مت گھبراؤ کہ روزے رکھ رکھ کر تم دُبلے ہو رہے ہو، کیونکہ یہ روزِ ازل سے مقدّر ہے کہ دُبلابنا کر تمہیں موٹوں پر غالب کیا جائے۔ خدا تعالیٰ کی شان یہی چاہتی ہے اور اس کے دبدبہ اور شوکت کا یہی تقاضا ہے۔
(خطبات محمود جلد14ص2-3)
’’روزے تم پر اس لئے فرض کئے گئے ہیں تا کہ تم بچ جاؤ۔ اس کے کئی معنے ہوسکتے ہیں۔مثلاً ایک معنی تو یہی ہیں کہ ہم نے تم پر اس لئے روزے فرض کئے ہیں تا کہ تم اُن قوموں کے اعتراضوں سے بچ جاؤ جو روزے رکھتی رہی ہیں، جو بھوک اور پیاس کی تکلیف کو برداشت کرتی رہی ہیں، جو موسم کی شدت کو برداشت کرکے خداتعالیٰ کو خوش کرتی رہی ہیں۔اگر تم روزے نہیں رکھو گے تو وہ کہیں گی تمہارا دعویٰ ہے کہ ہم باقی قوموں سے روحانیت میں بڑھ کرہیں لیکن وہ تقویٰ تم میں نہیں جو دوسری قوموں میں پایا جاتا تھا …… لَعَلَّکُم تَتَّقُونَ میں دوسرا اشارہ اس امر کی طرف کیا گیاہے کہ اس ذریعہ سے خدا تعالیٰ روزے دار کا محافظ ہو جاتاہے۔ کیونکہ اِتّقاء کے معنے ہیں ڈھال بنانا، وِقَایا بنانا، نجات کا ذریعہ بنانا۔ پس …… تم پرروزے رکھنے اس لئے فرض کئے گئے ہیں تاکہ تم خداتعالیٰ کو اپنی ڈھال بنالو اور ہر شر سے اور ہر خیرکے فقدان سے محفوظ رہو …… روزہ ایک دینی مسئلہ ہے۔یا بلحاظ صحتِ انسانی دنیوی اُمور سے بھی کسی حد تک تعلق رکھتاہے۔ پس لَعَلَّکُم تَتَّقُونَ کے یہ معنے ہوئے کہ تا تم دِینی اور دُنیوی شُرور سے محفوظ رہو۔ دینی خیر وبرکت تمہارے ہاتھ سے نہ جاتی رہے یا تمہاری صحت کو نقصان نہ پہنچ جائے۔ کیونکہ بعض دفعہ روزے کئی قسم کے امراض سے نجات دِلانے کا بھی موجب ہو جاتے ہیں …… روزہ رکھنے والا بُرائیوں اور بدیوں سے بچ جاتاہے اور یہ غرض ا س طرح پوری ہوتی ہے کہ دُنیا سےاِنْقِطاع کی وجہ سے انسان کی روحانی نظر تیز ہو جاتی ہے اور وہ ان عیوب کو دیکھ لیتاہے جو اُسے پہلے نظر نہ آتے تھے۔اسی طرح گناہوں سے انسان اس طرح بھی بچ جاتاہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے روزہ اس چیز کا نام نہیں کہ کوئی شخص اپنامنہ بند رکھے اور سارا دن نہ کچھ کھائے اور نہ پئے بلکہ روزہ یہ ہے کہ منہ کو کھانے پینے سے ہی نہ روکا جائے بلکہ اُسے ہر روحانی نقصان دہ اور ضرر رساں چیز سے بھی بچایا جائے۔ نہ جھوٹ بولا جائے،نہ گالیاں دی جائیں، نہ غیبت کی جائے، نہ جھگڑا کیا جائے۔اب دیکھو زبان پر قابو رکھنے کا حکم تو ہمیشہ کے لئے ہے لیکن روزہ دار خاص طورپر اپنی زبان پر قابو رکھتاہے کیونکہ اگر وہ ایسا نہ کرے تو اس کاروزہ ٹوٹ جاتاہے……روزوں کا ایک اور فائدہ یہ بتایا گیاہے کہ اس کے نتیجہ میں تقویٰ پرثبات قدم حاصل ہوتاہے اورانسان کو روحانیت کے اعلیٰ مدارج حاصل ہوتے ہیں۔ چنانچہ روزوں کے نتیجہ میں صرف امراء ہی اللہ تعالیٰ کا قُرب حاصل نہیں کرتے بلکہ غرباء بھی اپنے اندر ایک نیا روحانی انقلاب محسوس کرتے ہیں اور وہ بھی اللہ تعالیٰ کے وصال سے لُطف اندوز ہوتے ہیں۔ غرباء بیچارے سارا سال تنگی سے گزار ہ کرتے ہیں اور بعض دفعہ اُنہیں کئی کئی فاقے بھی آ جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے رمضان کے ذریعہ اُنہیں توجہ دلائی ہے کہ وہ ان فاقوں سے بھی ثواب حاصل کرسکتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے لئے فاقوں کا اتنا بڑا ثواب ہے کہ حدیث میں آتاہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا اَلصَّوْمُ لِی وَاَنَااُجْزٰی بِہٖ یعنی ساری نیکیوں کے فوائد اور ثواب الگ الگ ہیں لیکن روزہ کی جزا خود میری ذات ہے اور خدا تعالیٰ کے ملنے کے بعد انسان کو اور کیا چاہئے۔‘‘
(تفسیر کبیر جلد2 صفحہ374-377)
حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ فرماتے ہیں۔
رَمَضَان کا مہینہ پانچ بنیادی عبادتوں کا مجموعہ ہے۔پہلے تو روزہ ہے دوسرے نماز کی پابندی کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ پھر قیام اللیل یعنی رات کے نوافل پڑھے جاتے ہیں۔ تیسرے قرآن کریم کی کثرت سے تلاوت ہے چوتھے سخاوت اور پانچویں آفات ِنفس سے بچنا ہے ان پانچ بنیادی عبادات کا مجموعہ عبادات ماہِ رمضان کہلاتی ہیں۔
(خطبات ناصر جلد2 صفحہ954)
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں۔
کبھی کسی اور مہینے میں اس کثرت کے ساتھ خدا کی رحمت کے ایسے چھینٹے نہیں پھینکے جاتے جو دنیا کے ہر کونے میں، ہر ملک میں برس رہے ہوں اور جس کسی پر بھی پڑیں اُسے خوش نصیب بنا دیں۔اس لئے رمضان کو بہت بڑی اہمیت حاصل ہے۔ رمضان مبارک میں جو لوگ روزے نہیں رکھتے وہ تصور بھی نہیں کر سکتے کہ وہ کن نیکیوں سے محروم رہ گئے ہیں۔ چند دن کی بھوک انہوں نے برداشت نہیں کی، چند دن کی پابندیاں انہوں نے برداشت نہیں کیں اور بہت ہی بڑی نعمتوں سے محروم رہ گئے۔
(خطبات طاہر جلد7 صفحہ258)
’’یہ رمضان ہمارے لئے ایک بہت بڑی اور خاص نعمت بن کر آیا ہے کیونکہ یہ وہ دَور ہے جس میں احمدیت کے دُشمنوں نے اپنے غیظ و غضب کے سارے دروازے ہماری طرف کھول دئیے ہیں۔یہ وہ دَور ہے جن میں احمدیت کے معاندین ایک پُر امن ملک میں کھلے بندوں یہ تعلیم دے رہے ہیں کہ ……اِس جماعت کا ایک فرد بھی زندہ باقی نہ رہنے دو، اس ملک میں خون کی ندیاں بہا دو یہاں تک کہ ایک احمدی بھی دیکھنے کو نہ ملے۔ یہ تعلیم کھلم کھلا دی جا رہی ہے۔ اِس موقع پر رمضان المبارک ہمارے لئے اللہ کی رحمتوں کے دروازے کھولنے کے لئے آیا ہے۔ رمضان ہمارے لئے یہ پیغام لے کر آیا ہے کہ پہلے بھی خدا دُعائیں سنا کرتا تھا لیکن اب تو اور بھی تمہارے قریب آگیا ہے وہ تم پر رحمت کے ساتھ جھک رہا ہے۔ دُعائیں سننے کے سارے دروازے کھل چکے ہیں۔تمہاری ہر آہ و پکار آسمان تک پہنچے گی۔ کوئی ایسی آواز نہیں ہو گی جو تمہارے دل سے اُٹھے اور اللہ کے عرش کو ہلا نہ رہی ہو……یہ رمضان المبارک بہت بر کتوں والا مہینہ ہے، بہت بَر وقت آیا ہے۔ایک طرف مخالف خوف و ہراس پھیلانے کی کو شش کر رہا ہے دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی رحمت کے دروازے کھل رہے ہیں اور حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیاری آواز ہمارے کانوں میں گونج رہی ہے کہ جس کی زندگی میں یہ مہینہ داخل ہو جائے گا اللہ کی رحمت کے دروازے اُس پر کھولتا چلا جائے گا۔ پس اِس مہینہ کو اپنی زندگی میں داخل کر لیں،خود اِس مہینہ میں داخل ہو جائیں کیونکہ اِس سے بہتر اَمن کی اور کوئی جگہ نہیں …… یہ بہت ہی مبارک مہینہ ہے۔ہمیں سنبھالنے اور پناہ دینے کے لئے عین وقت پر آیا ہے اِس لئے بہت دُعائیں کریں اور خاص طور پر اپنے ربّ سے اُس کی محبت مانگیں، اللہ کی رضا تلاش کریں اُس سے اِلتجا کریں کہ اے خدا!ہم تیری رضا پر راضی ہیں۔ جو بھی تیری رضا ہے ہمارے لئے ٹھیک ہے لیکن ہم بہر حال تیری پناہ میں آتے ہیں۔ ہمیں لپیٹ لے۔ ہمیں چھپالے، ہماری کمزوریوں سے پردہ پوشی فرما، ہماری غفلتوں کو دُور فر ما دے اور ہماری پناہ بن جا، ہمارے لئے قلعہ بن جا جس کے چاروں طرف تو ہی تو ہو اور دُشمن ہم تک نہ پہنچ سکے جب تک تجھ پر حملہ آور ہو کر نہ پہنچے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اِس کی تو فیق عطا فرمائے۔‘‘
(خطبات طاہر جلد2ص335-338)
ہمارے پیارے اِمام سیّدنا حضرت خلیفۃالْمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں۔
پس اللہ تعالیٰ نے یہ مہینہ جو رمضان کا مہینہ ہے، جو روزہ رکھنے کے دن ہیں، ہمیں اس طرف توجہ دلائی کہ ان دنوں میں میری خاطر، میری رضا کے حصول کی خاطر، صرف ناجائز چیزوں سے ہی نہیں بچنا بلکہ کان، آنکھ، زبان، ہاتھ کو تو ایک خاص کوشش سے معمولی سے بھی ناجائز کام سے بچا کر رکھنا ہے۔ اس کو محفوظ رکھنے کے لئے ایک مجاہدہ توکرنا ہی ہے لیکن جائز چیزوں سے بھی بچنا ہے۔ ایک ایسا جہاد کرنا ہے جس سے تمہارے اندر صبر اور برداشت پیدا ہو اور ڈسپلن پید اہو۔ پھر یہ مجاہدہ ایسا ہو گا جو تمہاری روحانی حالتوں کو بہتر کرنے کا ذریعہ بنے گا۔ اللہ کا قُرب دلانے کا ذریعہ بنے گا، دُعاؤں کی قبولیت کا ذریعہ بنے گا….پس یہ روزے اس کا قُرب پانے کا ذریعہ ہیں اور دُعاؤں کی قبولیت کا ذریعہ ہیں۔ پس ان دنوں میں ہمارا کام ہے کہ پہلے سے بڑھ کر چِلاّ چِلاّ کر، گِڑ گِڑا کر اپنے ربّ کو پُکاریں۔
(خطبات مسرور جلد6 ص361-362)
فرمایا: روزہ ڈھال ہے۔ حفاظت کا ایک ایسا مضبوط ذریعہ ہے جس کے پیچھے چُھپ کر تم اپنے آپ کو شیطان کے حملوں سے محفوظ کر سکتے ہو…یہ قلعہ تو ہے لیکن اس ڈھال کے پیچھے اور اس قلعہ کے اندر کب تک اس قلعے میں حفاظت ہوتی رہے گی، کب تک محفوظ رہو گے……جب تک اس کو جھوٹ یا غیبت کے ذریعے سے پھاڑ نہیں دیتے۔ تو رمضان میں روزوں کی جو برکتیں ہیں اُسی وقت حاصل ہوں گی جب یہ چھوٹی چھوٹی بُرائیاں بھی جو بعض بظاہر چھوٹی لگ رہی ہوتی ہیں،آدمی معمولی سمجھ رہا ہوتا ہے ہر قسم کی بُرائیاں بھی ختم نہیں کرتے۔ اُن میں بہت بڑی بُرائی جو ہے جس کو آدمی محسوس نہیں کرتا وہ جھوٹ ہے۔ اگر جھوٹ بول رہے ہو تواس ڈھال کو پھاڑ دیتے ہو۔ لوگوں کی غیبت کر رہے ہو چُغلیاں کر رہے ہو، پیچھے بیٹھ کے ان کی باتیں کر رہے ہو تو یہ بھی تمہارے روزے کی ڈھال کو پھاڑنے والی ہیں۔ تو روزہ اگر تمام لَوازمات کے ساتھ رکھا جائے تو ڈھال بنے گا……اللہ تعالیٰ ہمیں روزے کو تمام شرائط کے ساتھ رکھنے کی توفیق عطا فرمائے اور خالصتاً اللہ تعالیٰ کی خاطر روزے رکھنے والے ہوں نہ کہ دنیا کے دکھاوے کے لئے۔
(خطبات مسرور جلد2 صفحہ748 تا 754)
نیزفرمایا: اگر ہم اللہ تعالیٰ کے حکم کو پورا کرتے ہوئے روزہ رکھ رہے ہیں اور تقویٰ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے یہ سب کچھ کر رہے ہیں، نیکیوں پر قدم مارنے کی کوشش کر رہے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے رسول نے ہمیں یہ خوشخبری دی ہے کہ اس نیت سے کئے گئے عمل پھر اللہ تعالیٰ ضائع نہیں کرتا۔ بلکہ اتنا دیتا ہے کہ تم سوچ بھی نہیں سکتے۔صرف ایک اچھی عادت اورنیکی کاکام کرنے کا اجر اتنا ہے کہ گویا تمام فرائض جو ہمارے ذمہ ہیں وہ ہم نے ادا کر دئیے اور رمضان میں تقویٰ پر چلتے ہوئے ادا کئے گئےایک فرض کا ثواب اتنا ہے کہ عام حالات میں ادا کئے گئے 70فرائض جتنا ثواب ہوتا ہے۔ اتنا بڑھا کر اللہ میاں رمضان میں دیتا ہے۔ تو ان دنوں کی ایک ایک نیکی عام حالات کی 70-70 نیکیوں کے برابر ثواب دلا رہی ہے۔
(خطبات مسرور جلد3 ص597)
’’اس رمضان میں یہ جائزہ لینا چاہئے کہ گزشتہ رمضان میں جو منزلیں حاصل ہوئی تھیں کیاان پر ہم قائم ہیں۔کہیں اس سے بھٹک تو نہیں گئے۔ اگر بھٹک گئے تو رمضان نے ہمیں کیا فائدہ دیا اور یہ رمضان بھی اور آئندہ آنے والے رمضان بھی ہمیں کیا فائدہ دے سکیں گے…… پس جنہوں نے گزشتہ سال کے رمضان میں اپنے اندر…… تبدیلیاں پیدا کیں …… وہ تو خوش قسمت لوگ ہیں اور اب ان کے قدم آگے بڑھنے چاہئیں …… پس ہم سے جو غلطیاں ہوئیں اس کی خدا سے معافی مانگنی ہو گی اور یہ عہد کرنا ہو گا کہ اے میرے خدا! میری گزشتہ کوتاہیوں کو معاف فرما اور اس رمضان میں مجھے وہ تمام نیکیاں کرنے کی توفیق عطا فرما جو تیرا قرب دلانے والی ہوں اور مجھے اس رمضان کی برکات سے فیضیاب کرتے ہوئے ہمیشہ تقویٰ پر چلنے اور تقویٰ پر قائم رہنے کی توفیق عطا فرما۔ جب ہم اس طرح دُعا کریں گے اور اس طرح اپنے جائزے لے رہے ہوں گے تو ان نیکیوں کی طرف بھی توجہ پیدا ہو گی جن کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے۔ بہت سی بُرائیاں بھی چھوڑنی ہوں گی جن کے ترک کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حقوق بھی ادا کرنے ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کے بندوں کے حقوق بھی ادا کرنے ہوں گے……پس اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ لَعَلَّکُم تَتَّقُونَ تبھی پورا ہو گا جب ہم ان حکموں پر بھی عمل کریں گے اور نیکیوں میں بھی آگے بڑھنے کی کوشش کریں گے جن کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے۔‘‘
(خطبات مسرور جلد3 صفحہ593-594)
’’یہ رمضان ہمیں ایک دفعہ پھر موقع دے رہا ہے کہ ہم خدا کے آگے جھکیں جس طرح جھکنے کا حق ہے۔ اُس کی عبادت کریں، جس طرح عبادت کرنے کا حق ہے تو اللہ تعالیٰ ہماری دُعاؤں کا یقیناً جواب دے گا اور یہ عہد کریں کہ آئندہ ہم اِن عبادتوں کو ہمیشہ زندہ رکھیں گے۔ اگر یہ ہو جائے تو اِس سے ہم اِنْ شَاءَ اللّٰہُ تَعَالیٰ جماعت کی سالوں میں ہونے والی ترقیات کو دِنوں میں واقع ہوتے دیکھیں گے۔ اِس لئے مَیں پھر یہی کہوں گا کہ اپنی عبادتوں کو زندہ کریں۔ دوسروں کے پاس دُعائیں کروانے کی بجائے خود اللہ تعالیٰ کی ذات کی قدرتوں کا تجربہ حاصل کریں۔‘‘
(خطبات مسرور جلد2 ص764)
پھر آپ فرماتے ہیں۔ ’’پس مستقل مزاجی اور صبر بھی دُعا کرنے کی بہت اہم شرط ہے۔ یہی الہٰی جماعتوں کا ہمیشہ وطیرہ رہا ہے۔ جتنا زیادہ دُعا کا موقع ملتا ہے اللہ کا بھی یہ سلوک رہا ہے کہ اُتنے زیادہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے دروازے کھلتے ہیں۔ پس پاکستان میں بھی اور بعض دوسرے ممالک میں بھی جہاں احمدیوں پر تنگیاں وارد کی جا رہی ہیں اُن کویہ فکر نہیں کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کا دامن پکڑے رکھیں، اِنْ شَاءَ اللّٰہُ تَعَالیٰ اللہ تعالیٰ کی مدد آئے گی اور ضرور آئے گی اور ظلمت کے تمام بادل چَھٹ جائیں گے اور پھر اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کی گھٹائیں آئیں گی اِنْ شَاءَ اللّٰہ۔ گو ابھی بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت نے ہر احمدی کا ہاتھ تھاما ہوا ہے لیکن پہلے سے بڑھ کر اِس کے نظارے دیکھیں گے۔ اِس رمضان سے بھی فائدہ اُٹھاتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے دَر پر پڑ جائیں کہ اللہ تعالیٰ اِن دنوں میں ہمارے قریب تر آیا ہوا ہے۔ یہ اِبتلاؤں کی گرمی اور رمضان کی گرمی یقیناً ہماری دُعاؤں کو قبولیت کادرجہ دلانے والی ہیں۔ پس ہر احمدی کو پہلے سے بڑھ کر اِس سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کرنی چاہئے۔‘‘
(خطبات مسرور جلد5 ص396)
’’اللہ تعالیٰ ہم سب کو رمضان کے ان فیوض و برکات سے بے انتہا فائدہ اُٹھانے کی توفیق عطا فرمائے اور یہ رمضان ہمارے لئے بےانتہا برکتیں لے کر آئے۔‘‘ آمین
(خطبات مسرورجلد1صفحہ432)
(فراز یاسین ربانی۔ غانا)