رمضان، رحمتوں اور برکتوں سے معمور ایام
قرآن کریم، رسول اللہ ﷺ اور امام الزمانؑ کے فرمودات
رمضان! ایک واجب التکریم مہمان،روحانی بہار کا موسم، رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ، مغفرت، بخشش اور آگ سے آزادی کا ذریعہ ہے۔ رمضان ! رضائے باری تعالیٰ کی خاطر بھوک پیاس برداشت کرنے، روحانی اور جسمانی طور پر صحتمند ہونے کا مہینہ ہے۔ رمضان! شب بیداری، تہجد و تراویح، صدقہ و خیرات کا مہینہ ہے۔ تلاوت قرآن مجید اور لاریب کتاب کے مطلب و معانی پر غور کرنے کا موسم ہے۔رمضان! نفس امّارہ کے شر سےبچنے کے لئے ڈھال، ہر طاقت، خواہش، جذبہ اور میلان ضبط ِنفس کی زنجیروں میں جکڑنے کا مہینہ ہے۔رمضان! تبتّل الیٰ اللہ اور اعتکاف کا مہینہ ہے، ہزار راتوں سے بہتر لیلۃ القدر کا حامل مومنوں کے لئے رحمٰن خدا کا عظیم تحفہ ہے۔
قرآنی احکام
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ۔اَیَّامًا مَّعۡدُوۡدٰتٍ ؕ فَمَنۡ کَانَ مِنۡکُمۡ مَّرِیۡضًا اَوۡ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنۡ اَیَّامٍ اُخَرَ ؕ وَ عَلَی الَّذِیۡنَ یُطِیۡقُوۡنَہٗ فِدۡیَۃٌ طَعَامُ مِسۡکِیۡنٍ ؕ فَمَنۡ تَطَوَّعَ خَیۡرًا فَہُوَ خَیۡرٌ لَّہٗ ؕ وَ اَنۡ تَصُوۡمُوۡا خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ۔شَہۡرُ رَمَضَانَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ فِیۡہِ الۡقُرۡاٰنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الۡہُدٰی وَ الۡفُرۡقَانِ ۚ فَمَنۡ شَہِدَ مِنۡکُمُ الشَّہۡرَ فَلۡیَصُمۡہُ ؕ وَ مَنۡ کَانَ مَرِیۡضًا اَوۡ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنۡ اَیَّامٍ اُخَرَ ؕ یُرِیۡدُ اللّٰہُ بِکُمُ الۡیُسۡرَ وَ لَا یُرِیۡدُ بِکُمُ الۡعُسۡرَ ۫ وَ لِتُکۡمِلُوا الۡعِدَّۃَ وَ لِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ہَدٰٮکُمۡ وَ لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ۔
(البقرہ:184 تا 186)
وَ کُلُوۡا وَ اشۡرَبُوۡا حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الۡخَیۡطُ الۡاَبۡیَضُ مِنَ الۡخَیۡطِ الۡاَسۡوَدِ مِنَ الۡفَجۡرِ۪ ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّیَامَ اِلَی الَّیۡلِ ۚ۔
(البقرة: 188)
اے لوگوجو ایمان لائے ہوتم پر بھی روزوں کا رکھنا (اسی طرح) فرض کیا گیا ہےجس طرح ان لوگوں پر فرض کیا گیا تھا، جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں تاکہ تم (روحانی اور اخلاقی کمزوریوں) سے بچو۔ (سو تم روزے رکھو) چند گنتی کے دن۔ اور تم میں سے جو شخص مریض ہو یا سفر میں ہو تو (اُسے) اور دنوں میں تعداد پُوری کرنی ہوگی۔ اور اُن لوگوں پر جواس یعنی روزہ کی طاقت نہ رکھتے ہوں بطور فدیہ ایک مسکین کا کھانا دینا بشرط استطاعت واجب ہے۔ اور جو شخص پوری فرمانبرداری سے کوئی نیک کام کرےگا تو یہ اس کے لئے بہتر ہوگا۔ اور اگر تم علم رکھتے ہو تو سمجھ سکتے ہوکہ تمہارا روزے رکھنا تمہارے لئے بہتر ہے۔رمضان کا مہینہ وہ مہینہ ہے جس کے بارہ میں قرآن کریم نازل کیا گیا ہے، وہ قرآن جو تمام انسانوں کے لئے ہدایت بنا کر بھیجا گیا ہے۔ اور جو کھلے دلائل اپنے اندر رکھتا ہے۔ ایسے دلائل جو ہدایت پیدا کرتے ہیں۔ اور اس کے ساتھ ہی قرآن میں الہٰی نشان بھی ہیں، اس لئے تم میں سے جو شخص اس مہینہ کو اس حال میں دیکھے کہ نہ مریض ہو، نہ مسافر اسے چاہئے کہ وہ اس کے روزے رکھے، اور جو شخص مریض ہو یا سفر میں ہو تو اس پر اور دنوں میں تعداد پوری کرنی واجب ہوگی۔ اللہ تمہارے لئے آسانی چاہتا ہے، اور تمہارے لئے تنگی نہیں چاہتا اور یہ حکم اس نے اس لئے دیا ہے کہ تم تنگی میں نہ پڑو، اور تاکہ تم تعداد کو پورا کر لو،اور اس بات پر اللہ کی بڑائی کرو کہ تم نے تم کو ہدایت دی ہے، اور تاکہ تم اس کے شکرگزار بنو۔
اور کھاؤ پیو، یہاں تک کہ تمہیں صبح کی سفید دھاری سیاہ دھاری سے الگ نظر آنے لگے۔ اس کے بعد صبح سے رات تک روزوں کی تکمیل کرو۔
(ترجمہ از تفسیر صغیر)
احادیث رسول ﷺ
فرضیتِ رمضان
حضرت طلحہ بن عبیداللہؓ بیان کرتے ہیں کہ ‘‘ایک پریشان حال بدوی بکھرے ہوئے بالوں کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا ،اُس نے پوچھا یا رسول اللہ! بتائیے اللہ تعالیٰ نے مجھ پر کتنی نمازیں فرض کی ہیں؟ آپؐ نے فرمایا کہ پانچ نمازیں یہ اور بات ہے کہ تم اپنی طرف سے نفل پڑھ لو، پھر اس نے کہا بتائیے اللہ تعالیٰ نے مجھ پر کتنےروزے فرض کئے ہیں؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ رمضان کے مہینے کے یہ اور بات ہے کہ تم خود اپنے طور پر کچھ نفلی روزے اور بھی رکھ لو، پھر اس نے پوچھا اور بتائیے زکوٰۃ کس طرح مجھ پر اللہ تعالیٰ نے فرض کی ہے؟ آپؐ نے اسے شرع اسلام کی باتیں بتا دیں۔ اس کے بعد ا س بدوی نے کہا اس ذات کی قسم جس نے آپؐ کو عزت دی اُس سے جو اللہ تعالیٰ نے مجھ پر فرض کر دیا ہے کچھ بڑھاؤں گا اور نہ گھٹاؤں گا۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر اس نے سچ کہا ہے تو یہ مراد کو پہنچا (یا فرمایا کہ) اگر سچ کہا ہے تو جنت میں جائے گا۔‘‘
(صحیح البخاری كتاب الصَّوم۔بَابُ وُجُوبِ صَوْمِ رَمَضَانَ)
رویت ہلال
حضرت عبداللہ بن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ ‘‘رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’جب تم چاند دیکھ لو تو روزہ رکھو، اور چاند دیکھ کر ہی روزے رکھنا ختم کرو اور اگر چاند بادل کی وجہ سے مشتبہ ہو جائے تو تیس دن کی گنتی پوری کرو۔‘‘
(سنن ابن ماجه كتاب الصيام۔ بَابُ: مَا جَاءَ فِي صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ وَأَفْطِرُوا لِرُؤْيَتِهِ)
کریب بیان کرتے ہیں کہ ام فضل بنت حارث نے انہیں معاویہؓ کے پاس شام بھیجا۔ میں شام آیا اور جو کام میرے ذمہ لگایا گیا، اسے مکمل کیا۔ اسی دوران رمضان کا چاند نکل آیا اور میں شام ہی میں تھا کہ ہم نے جمعہ کی رات کو چاند دیکھا پھر میں مہینے کے آخر میں مدینہ آیا تو ابن عباسؓ نے مجھ سے وہاں کے حالات پوچھے پھر انہوں نے چاند کا ذکر کیا اور کہا تم لوگوں نے چاند کب دیکھا تھا؟ میں نے کہا ہم نے اسے جمعہ کی رات کو دیکھا تھا۔ تو انہوں نے کہا کیا تم نے بھی جمعہ کی رات کو دیکھا تھا؟ تو میں نے کہا لوگوں نے اسے دیکھا اور انہوں نے روزے رکھے اور معاویہؓ نے بھی روزہ رکھا۔ اس پر ابن عباسؓ نے کہا لیکن ہم نے تو ہفتہ کی رات چاند دیکھا اور ہم تیس دن پورے کر یں گے سوائے اس کے کہ ہم 29 رمضان کو چاند دیکھ لیں۔ تو میں نے کہا کیا آپ معاویہ کے چاند دیکھنے اور روزہ رکھنے پر اکتفا نہیں کریں گے؟ انہوں نے کہا نہیں۔ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے ایسا ہی کرنے کا حکم دیا ہے‘‘
(سنن ترمذي كتاب الصيام باب مَا جَاءَ لِكُلِّ أَهْلِ بَلَدٍ رُؤْيَتُهُمْ)
حضرت عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک اعرابی نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور اس نے کہا رات میں نے چاند دیکھا ہے تو آپؐ نے پوچھا کیا تم اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد اس کے رسول ہیں؟ اس نے کہا ہاں۔ آپؐ نے فرمایا ’’اے بلال اٹھو اور لوگوں میں اعلان کر دو کہ لوگ کل روزہ رکھیں۔‘‘ ابوعلی کہتے ہیں ایسے ہی ولید بن ابی ثور اور حسن بن علی کی روایت ہے۔ اس کو حماد بن سلمہ نے روایت کیا ہے اور انہوں نے ابن عباسؓ کا ذکر نہیں کیا اور کہا تو بلالؓ نے اعلان کیا کہ لوگ قیام اللیل کریں (یعنی صلاۃ تراویح پڑھیں) اور روزہ رکھیں۔
(سنن ابن ماجہ كتاب الصيام بَابُ: مَا جَاءَ فِي الشَّهَادَةِ عَلَى رُؤْيَةِ الْهِلاَلِ)
استقبالِ رمضان
حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ ’’نبی کریم ﷺ نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص رمضان سے پہلے (شعبان کی آخری تاریخوں میں) ایک یا دو دن کے روزے نہ رکھے البتہ اگر کسی کو اِن دنوں میں روزے رکھنے کی عادت ہو تو وہ اس دن بھی روزہ رکھ لے۔‘‘
(صحیح البخاری،كِتَاب الصَّوْمِ۔بَابُ لاَ يَتَقَدَّمَنَّ رَمَضَانَ بِصَوْمِ يَوْمٍ وَلاَ يَوْمَيْنِ)
حضرت سلمان فارسیؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ شعبان کی آخری رات صحابہ سے مخاطب ہوئے اور فرمایا ‘‘اے لوگو ایک عظیم الشان برکت والا مہینہ تم پر سایہ فگن ہوا ہے۔اس مہینے میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس مہینے میں روزے رکھنا فرض قرار دیا ہے اور راتوں کے قیام کو نفل عبادت اور اپنے قرب کا ذریعہ قرار دیا ہے ۔ جو شخص ان ایام میں قرب خداو ندی کے حصول کی نیت سےکوئی نیکی کرتا ہے ،اُسے فرض کا ثواب ملتا ہے ۔ اور جس نے رمضان میں کوئی فرض ادا کیا ،اُس کا ثواب ستر گنا ملے گا۔یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔یہ ہمدردی اور غمخواری کا مہینہ ہے۔ اس مہینے میں مومن کے رزق میں برکت دی جاتی ہے۔ جو شخص کسی روزہ دار کو افطار کروائے گا تو یہ عمل اُس کے لئے مغفرت اور آگ سے آزادی کا ذریعہ بنے گا اور افطار کرنے والے کے ثواب میں بھی کوئی کمی نہیں ہوگی۔صحابہ نے عرض کی یا رسول اللہ ہم میں سے ہر کوئی اتنی استطاعت نہیں رکھتا کہ وہ کسی کا روزہ افطار کروائے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ چاہے کوئی ایک گھونٹ دودھ، ایک کھجوریا ایک گھونٹ پانی سے کسی کا روزہ افطار کروائے وہ بھی ثواب کا مستحق ہے۔ اور جو شخص کسی روزہ دار کو سیر ہوکر کھانا کھلائے گا اللہ اُسے میرے حوض سے شربت پلائے گا اور وہ جنت میں داخل ہونے تک پیاسا نہیں ہوگا۔یہ ایسا مہینہ کہ جس پہلا عشرہ رحمت، درمیانی عشرہ بخشش اور آخری عشرہ آگ سے آزادی کا ذریعہ ہے۔ان ایام میں جو شخص اپنے ملازم کا بوجھ ہلکا کرے گا تو اس کا یہ عمل اُس کی بخشش اور جہنم کی آگ سے نجات کا ذریعہ بنے کا‘‘
(مشكوٰة المصابيح كتاب الصوم)
فضائل و برکات
حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’جب رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو شیطان اور سرکش جن زنجیروں میں جکڑ دئیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں، اور اس کا کوئی بھی دروازہ کھلا ہوا نہیں رہتا، جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں، اور اس کا کوئی بھی دروازہ بند نہیں رہتا، منادی پکارتا ہے اے بھلائی کے طالب! بھلائی کے کام پہ آگے بڑھ، اور اے برائی کے چاہنے والے! اپنی برائی سے رک جا، ان ایام میں اللہ کچھ لوگوں کی گردن جہنم کی آگ سے آزاد کرتا ہے، اور ایسا رمضان کی ہر رات کو ہوتا ہے۔‘‘
حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ رمضان آیا تو رسول اکرم ﷺ نے فرمایا ’’ایک بابرکت مہینہ تمہاری زندگی میں آیا ہے۔ اور اس میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے، جو اس سے محروم رہا وہ ہر طرح کے خیر (بھلائی) سے محروم رہا اور اس کے فیض سے وہی محروم رہے گا جو (واقعی) محروم ہو۔‘‘
(سنن ابن ماجہ كتاب الصيام بَابُ: مَا جَاءَ فِي فَضْلِ شَهْرِ رَمَضَانَ)
حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ ’’رسول اللہ ؐ نے فرمایا روزہ دوزخ سے بچنے کے لئے ایک ڈھال ہے اس لئے (روزہ دار) نہ فحش باتیں کرے اور نہ جہالت کی باتیں اور اگر کوئی شخص اس سے لڑے یا اسے گالی دے تو اس کا جواب صرف یہ ہونا چاہئے کہ میں روزہ دار ہوں، یہ الفاظ دو مرتبہ کہہ دے۔ اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک کستوری کی خوشبو سے بھی زیادہ پسندیدہ اور پاکیزہ ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے بندہ اپنا کھانا پینا اور اپنی شہوت میرے لئے چھوڑ دیتا ہے، روزہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا اور دوسری نیکیوں کا ثواب بھی اصل نیکی کے دس گنا ہوتا ہے۔‘‘
(صحیح البخاری، كِتَاب الصَّوْمِ۔بَابُ فَضْلِ الصَّوْمِ)
حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’انسان کی ہر نیکی دس گنا سے سات سو گنا تک بڑھا دی جاتی ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ سوائے روزے کے اس لئے کہ وہ میرے لئے خاص ہے، اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا، آدمی اپنی خواہش اور کھانا میرے لئے چھوڑ دیتا ہے، روزہ دار کے لئے دو خوشیاں ہیں ایک افطار کے وقت اور دوسری اپنے رب سے ملنے کے وقت۔ اور روزے دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بہتر ہے‘‘
(سنن ابن ماجہ كتاب الصيام)
حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ ‘‘رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو کوئی شب قدر میں ایمان کے ساتھ اور حصول ثواب کی نیت سے عبادت کے لئے کھڑا ہو اس کے تمام اگلے گناہ بخش دیئے جائیں گے اور جس نے رمضان کے روزے ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے رکھے اس کے اگلے تمام گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔‘‘
(صحیح البخاری، كِتَاب الصَّوْمِ۔بَابُ مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا وَنِيَّةً)
حضرت سہل بن سعد ساعدیؓ روایت کرتے ہیں کہ ’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جنت کا ایک دروازہ ہے جسے ریان کہتے ہیں قیامت کے دن اس دروازہ سے صرف روزہ دار ہی جنت میں داخل ہوں گے۔ ان کے سوا اور کوئی اس میں سے نہیں داخل ہو گا۔ پکارا جائے گا کہ روزہ دار کہاں ہیں؟ وہ کھڑے ہو جائیں گے۔ جب یہ لوگ اندر چلے جائیں گے تو یہ دروازہ بند کر دیا جائے گا پھر اس سے کوئی اُس سے داخل نہ ہو گا۔‘‘
(صحيح البخاري كِتَاب الصَّوْمِ بَابُ الرَّيَّانُ لِلصَّائِمِينَ)
سحر و افطار
حضرت عدی بن حاتمؓ بیان کرتے ہیں کہ ’’جب یہ آیت نازل ہوئی ’’تا آنکہ کھل جائے تمہارے لئے سفید دھاری سیاہ دھاری سے۔‘‘ تو میں نے ایک سیاہ دھاگہ لیا اور ایک سفید اور دنوں کو تکیہ کے نیچے رکھ لیا اور رات میں دیکھتا رہا مجھ پر ان کے رنگ نہ کھلے، جب صبح ہوئی تو میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ ﷺ سے اس کا ذکر کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس سے تو رات کی تاریکی یعنی صبح کاذب اور دن کی سفیدی یعنی صبح صادق مراد ہے۔‘‘
(صحیح البخاری، كِتَاب الصَّوْمِ)
افطار کی دعائیں
مروان بن سالم مقفع کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عمرؓ کو دیکھا وہ اپنی داڑھی کو مٹھی میں پکڑتے اور جو مٹھی سے زائد ہوتی اسے کاٹ دیتے اور کہتے کہ رسول اللہ ﷺ جب افطار کرتے تو یہ دعا پڑھتے۔ ’’پیاس ختم ہو گئی، رگیں تر ہو گئیں اور اگر اللہ نے چاہا تو ثواب مل گیا۔‘‘
(سنن ابی داؤدكتاب الصيام باب الْقَوْلِ عِنْدَ الإِفْطَارِ)
معاذ بن زہرہ سے روایت ہے کہ انہیں یہ بات پہنچی ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب روزہ افطار فرماتے تو یہ دعا پڑھتے ’’اے اللہ! میں نے تیری ہی خاطر روزہ رکھا اور تیرے ہی رزق سے افطار کیا۔‘‘
(سنن ابی داؤدكتاب الصيام باب القول عندالإفطار)
سفر اور روزہ
حضرت جابر بن عبداللہؓ بیان کرتے ہیں کہ ’’رسول اللہ ﷺ ایک سفر (غزوہ فتح) میں تھے آپ ﷺ نے دیکھا کہ ایک شخص پر لوگوں نے سایہ کر رکھا ہے، آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ کیا بات ہے؟ لوگوں نے کہا کہ ایک روزہ دار ہے، آپ ﷺ نے فرمایا کہ سفر میں روزہ رکھنا اچھا کام نہیں ہے۔‘‘
(صحیح البخاری،كِتَاب الصَّوْمِ۔بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ لِمَنْ ظُلِّلَ عَلَيْهِ، وَاشْتَدَّ الْحَرُّ)
قبیلہ بنی عبداللہ بن کعب کے ایک شخص نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے سوار ہمارے اوپر حملہ آور ہوئے تو میں آپ ﷺ کے پاس آیا اور آپ دوپہر کا کھانا تناول فرما رہے تھے، آپ ﷺ نے فرمایا ‘‘قریب آ جاؤ اور کھاؤ’’ میں نے کہا میں روزے سے ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا ’’بیٹھو میں تمہیں روزے کے سلسلے میں بتاتا ہوں’’ اللہ تعالیٰ نے مسافر سے آدھی نماز معاف کر دی ہے اور مسافر، حاملہ اور مرضعہ (دودھ پلانے والی) سے روزہ معاف کر دیا ہے۔ قسم اللہ کی نبی اکرم ﷺ نے یہ دونوں باتیں فرمائیں، یا ایک بات فرمائی، اب میں اپنے اوپر افسوس کرتا ہوں کہ میں آپ کے ساتھ کھانے میں کیوں شریک نہ ہوا۔‘‘
(سنن ابن ماجہ كتاب الصيام۔بَابُ مَا جَاءَ فِي الإِفْطَارِ لِلْحَامِلِ وَالْمُرْضِعِ)
تہجد و تراویح
حضرت ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے عائشہؓ سے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ (تراویح یا تہجد کی نماز) رمضان میں کتنی رکعتیں پڑھتے تھے؟ تو انہوں نے بتلایا کہ رمضان ہو یا کوئی اور مہینہ آپؐ گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ آپ ﷺ پہلی چار رکعت پڑھتے، تم ان کے حسن و خوبی اور طول کا حال نہ پوچھو، پھر چار رکعت پڑھتے، ان کے بھی حسن و خوبی اور طول کا حال نہ پوچھو، آخر میں تین رکعت (وتر) پڑھتے تھے۔ میں نے ایک بار پوچھا، یا رسول اللہ! کیا آپ وتر پڑھنے سے پہلے سو جاتے ہیں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا، عائشہ! میری آنکھیں سوتی ہیں لیکن میرا دل نہیں سوتا۔
(صحيح البخاري كِتَاب صَلَاةِ التَّرَاوِيحِ، بَابُ فَضْلِ مَنْ قَامَ رَمَضَانَ)
حضرت عبدالرحمٰن بن عبدالقاری نے بیان کیا میں عمر بن خطابؓ کے ساتھ رمضان کی ایک رات کو مسجد میں گیا۔ سب لوگ متفرق اور منتشر تھے، کوئی اکیلا نماز پڑھ رہا تھا، اور کچھ کسی کے پیچھے کھڑے ہوئے تھے۔ اس پر عمرؓ نے فرمایا میرا خیال ہے کہ اگر میں تمام لوگوں کو ایک قاری کے پیچھے جمع کر دوں تو زیادہ اچھا ہو گا۔ چنانچہ اس ارادے کے مطابق آپ نے ابی بن کعبؓ کو ان کا امام بنا دیا۔ پھر ایک رات جو میں ان کے ساتھ نکلا تو دیکھا کہ لوگ اپنے امام کے پیچھے نماز (تراویح) پڑھ رہے ہیں۔ عمرؓ نے فرمایا، یہ نیا طریقہ بہتر اور مناسب ہے اور رات کا وہ حصہ جس میں یہ لوگ سو جاتے ہیں اس حصہ سے بہتر اور افضل ہے جس میں یہ نماز پڑھتے ہیں۔ آپ کی مراد رات کے آخری حصہ کی فضیلت سے تھی کیونکہ لوگ یہ نماز رات کے شروع ہی میں پڑھ لیتے تھے۔
(صحيح البخاري كِتَاب صَلَاةِ التَّرَاوِيحِ، بَابُ فَضْلِ مَنْ قَامَ رَمَضَانَ)
اسوہ کامل
حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ ’’نبی کریم ﷺ سخاوت اور خیر کے معاملہ میں سب لوگوں سے زیادہ سخی تھے اور آپ ﷺ کی سخاوت اس وقت اور زیادہ بڑھ جاتی تھی جب جبرائیل علیہ السلام آپ ﷺ سے رمضان میں ملتے۔ جبرائیل علیہ السلام نبی کریم ﷺ سے رمضان شریف کی ہر رات میں ملتے یہاں تک کہ رمضان گزر جاتا۔ نبی کریم ﷺ جبرائیل علیہ السلام سے قرآن کا دور کرتے تھے جب جبرائیل علیہ السلام آپ ﷺ سے ملنے لگتے تو آپ ﷺ چلتی ہوا سے بھی زیادہ بھلائی پہنچانے میں سخی ہو جایا کرتے تھے۔‘‘
(صحیح البخاری،كِتَاب الصَّوْمِ۔بَابُ أَجْوَدُ مَا كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يَكُونُ فِي رَمَضَانَ)
عمومی مسائل
حضرت عامر بن ربیعہؓ سے منقول ہے کہ ‘‘انہوں نے کہا میں نے رسول اللہ ﷺ کو روزہ کی حالت میں بےشمار دفعہ وضو میں مسواک کرتے دیکھا اور ابوہریرہؓ نے نبی کریم ﷺ کی یہ حدیث بیان کی کہ اگر میری امت پر مشکل نہ ہوتی تو میں ہر وضو کے ساتھ مسواک کا حکم دے دیتا۔ اسی طرح کی حدیث جابر اور زید بن خالدؓ سے بھی نبی کریم ﷺ سے منقول ہے۔ اس میں نبی کریم ﷺ نے روزہ دار وغیرہ کی کوئی تخصیص نہیں کی۔ عائشہؓ نے نبی کریم ﷺ کا یہ فرمان نقل کیا کہ مسواک منہ کو پاک رکھنے والی اور رب تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔ اور عطاء اور قتادہ نے کہا روزہ دار اپنا تھوک نگل سکتا ہے۔
(صحیح البخاری،كِتَاب الصَّوْمِ۔بَابُ سِوَاكِ الرَّطْبِ وَالْيَابِسِ لِلصَّائِمِ)
اعتکاف
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔’’
(صحيح مسلم ،كِتَاب الِاعْتِكَافِ۔باب اعْتِكَافِ الْعَشْرِ الأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ)
ام المؤمنین سیدہ عائشہؓ نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ ہمیشہ رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرماتے تھے یہاں تک کہ آپ ﷺ نے وفات پائی۔ پھر آپ ﷺ کے بعد آپ کی ازواجؓ اعتکاف بیٹھا کرتی تھیں۔
(صحيح مسلم ،كِتَاب الِاعْتِكَافِ۔باب اعْتِكَافِ الْعَشْرِ الأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ)
آخری عشرہ
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب رمضان کے آخری عشرہ میں داخل ہوتے تو آپ کی راتیں زندہ ہوجاتیں۔ آپؐ کمر ہمت کس لیتے اور اپنے اہل و عیال کو بھی عبادت کے لئے بیدار کرتے۔
(صحيح مسلم كِتَاب الِاعْتِكَافِ،باب الاِجْتِهَادِ فِي الْعَشْرِ الأَوَاخِرِ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ)
سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ رمضان کے آخری عشرہ میں اتنی کوشش کرتے عبادت میں جو اور دنوں میں نہ کرتے۔
(صحيح مسلم كِتَاب الِاعْتِكَافِ،باب الاِجْتِهَادِ فِي الْعَشْرِ الأَوَاخِرِ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ)
شب قدر
حضرت عائشہؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ شب قدر کو رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔
(صحيح البخاري كِتَاب فَضْلِ لَيْلَةِ الْقَدْرِ؛ بَابُ تَحَرِّي لَيْلَةِ الْقَدْرِ فِي الْوِتْرِ مِنَ الْعَشْرِ الأَوَاخِرِ)
حضرت ابن عباسؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، شب قدر کو رمضان کے آخری عشرہ میں تلاش کرو، جب نو راتیں باقی رہ جائیں یا پانچ راتیں باقی رہ جائیں۔ (یعنی اکیسوئیں یا تئیسوئیں یا پچیسویں راتوں میں شب قدر کو تلاش کرو)۔
(صحيح البخاري كِتَاب فَضْلِ لَيْلَةِ الْقَدْرِ؛ بَابُ تَحَرِّي لَيْلَةِ الْقَدْرِ فِي الْوِتْرِ مِنَ الْعَشْرِ الأَوَاخِرِ)
ارشادات امام آخرالزمان
رمضان کی فرضیت
’’کُتِبَ‘‘ سے فرضی روزے مراد ہیں۔
’’تم پر روزے فرض کئے ہیں مگر جو تم میں سے بیمار ہو یا سفر پر ہو وہ اتنے روزے پھر رکھے‘‘
’’میری تو یہ حالت ہے کہ مرنے کے قریب ہو جاؤں تب روزہ چھوڑتا ہوں طبیعت روزہ چھوڑنے کو نہیں چاہتی۔ یہ مبارک دن ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کے نزول کے دن ہیں۔‘‘
‘‘خداتعالیٰ نے دین اسلام میں پانچ مجاہدات مقرر فرمائے ہیں۔ 1 نماز، 2 روزہ، 3 زکوۃ، صدقات، 4 حج، 5 اسلامی دشمن کا ذبّ اور دفع خواہ سیفی ہو یا قلمی۔ یہ پانچ مجاہدے قرآن شریف سے ثابت ہیں، مسلمانوں کو چاہیئے کہ ان میں کوشش کریں اور ان کی پابندی کریں یہ روزے تو سال میں ایک ماہ کے ہیں۔ بعض اہل اللہ تو نوافل کے طور پر اکثر روزے رکھتے ہیں اور ان میں مجاہدہ کرتے ہیں۔ ہاں دائمی روزے رکھنا منع ہیں، یعنی ایسا نہیں چاہیئے کہ آدمی ہمیشہ روزے ہی رکھتا رہے، بلکہ ایسا کرنا چاہیئے کہ نفلی روزے کبھی رکھے اور کبھی چھوڑدے‘‘
برکات و فوائد
’’تیسری بات جو اسلام کا رکن ہے وہ روزہ ہے، روزہ کی حقیقت سے بھی لوگ ناواقف ہیں۔ اصل یہ ہےکہ جس ملک میں انسان جاتا نہیں اور جس عالم سے واقف نہیں اس کے حالات کیا بیان کرے۔ روزہ اتنا ہی نہیں کہ اس میں انسان بھوکا پیاسا رہتا ہے بلکہ اس کی ایک حقیقت اور اس کا اثر ہے، جو تجربہ سے معلوم ہوتا ہے۔ انسانی فطرت میں ہے کہ جس قدر کم کھاتا ہے اُسی قدر تزکیہ نفس ہوتا ہے، اور کشفی قوتیں بڑھتی ہیں۔ خدا تعالیٰ کا منشا اس سے یہ ہے کہ ایک غذا کو کم کرو اور دوسری کو بڑھاؤ۔ ہمیشہ روزہ دار کو یہ مد نظر رکھنا چاہیئے کہ اس سے اتنا ہی مطلب نہیں ہے کہ بھوکا رہے، بلکہ اُسے چاہیئے کہ خدا تعالیٰ کے ذکر میں مصروف رہے، تاکہ تبتل اور انقطاع حاصل ہو۔ پس روزے سے یہی مطلب ہے کہ انسان ایک روٹی چھوڑ کر جو صرف جسم کی پرورش کرتی ہے دوسری روٹی کو حاصل کرے جو روح کے لئے تسلی اور سیری کا باعث ہے۔ اور جو لوگ محض خدا کے لئے روزے رکھتے ہیں اور نرے رسم کے طور پر نہیں رکھتے انہیں چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ کی حمد اور تسبیح اور تہلیل میں لگے رہیں، جس سے دوسری غذا اُنہیں مل جاوے۔‘‘
’’روزہ اور نماز ہر دو عبادتیں ہیں۔ روزے کا زور جسم پر ہے اور نماز کا زور روح پر ہے۔ نماز سے ایک سوزو گذاز پیدا ہوتی ہے۔ اس واسطے وہ افضل ہے روزے سے کشوف پیدا ہوتے ہیں۔ مگر یہ کیفیّت بعض دفعہ جوگیوں میں بھی پیدا ہو سکتی ہے۔ لیکن روحانی گدازش جو دعاؤں سے پیدا ہوتی ہے، اس میں کوئی شامل نہیں۔‘‘
رمضان کا فلسفہ
’’رمض سورج کی تپش کو کہتے ہیں ۔ رمضان میں چونکہ انسان اکل و شرب اور دیگر تمام جسمانی لذتوں پر صبر کرتا ہے، دوسرے اللہ تعالیٰ کے احکام کے لئے ایک جوش اور حرارات پیدا کرتا ہے۔ روحانی اور جسمانی حرارت اور تپش مل کر رمضان ہوا۔ اہل لغت جو کہتے ہیں کہ گرمی کے مہینے میں آیا اس لیے رمضان کہلایا میرے نزدیک یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ عرب کے لئے یہ خصوصیت نہیں ہو سکتی۔ روحانی رمض سے مراد روحانی ذوق و شوق اور حرارت دینی ہوتی ہے۔ رمض اُس حرارت کو بھی کہتے ہیں جس سے پتھر وغیرہ گرم ہو جاتے ہیں‘‘
’’اگر خدا چاہتا تو دوسری امتوں کی طرح اِس امُت میں کوئی قید نہ رکھتا ، مگر اس نے قیدیں بھلائی کے واسطے رکھی ہیں ۔ میرے نزیک اصل یہی ہے کہ جب انسان صدق اور کمال اخلاص سے باری تعالیٰ میں عرض کرتا ہے کہ اس مہینے میں تو مجھے محروم نہ رکھ، تو خدا ُسے محروم نہیں رکھتا ، اور ایسی حالت میں اگر انسان ماہ رمضان میں بیمار ہو جاوے تو یہ بیماری اس کے حق میں رحمت ہوتی ہےکیونکہ ہر ایک عمل کا مدار نیت پر ہے۔ مومن کو چاہیئےکہ وہ اپنے وجود سے اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کی راہ میں دلاور ثابت کر دے ۔ جو شخص کہ روزے سے محروم رہتا ہے مگر اس کے دل میں یہ نیت درد دل سے تھی کہ کاش میں تندرست ہوتا اور روزہ رکھتا اور اُس کا دل اس بات کے لئے گریاں ہے تو فرشتے اُس کے لئے روزے رکھیں گے بشرطیکہ وہ بہانہ جو نہ ہوتو خدا تعالیٰ ہرگز اُسے ثواب سے محروم نہ رکھے گا۔یہ ایک باریک امر ہے کہ اگر کسی شخص پر (اپنے نفس کی کسل کی وجہ سے) روزہ گراں ہے اور وہ اپنے خیال میں گمان کرتا ہے کہ میں بیمار ہوں اور میری صحت ایسی ہے کہ اگر ایک وقت نہ کھاؤں تو فلاں فلاں عوارض لاحق حال ہوں گے اور یہ ہوگا اور وہ ہوگا تو ایسا آدمی جوخدا کی نعمت کو خود اپنے اوپر گراں گمان کرتا ہے کب اُس ثواب کا مستحق ہوگا ۔ ہاں وہ شخص جس کا دل اس بات پر خوش ہے کہ رمضان آگیا اور اس کامنتظر میں تھا کہ آوے اور روزہ رکھوں اور پھر بوجہ بیماری کے نہیں رکھ سکا تو وہ آسمان پر روزے سے محروم نہیں ہے۔‘‘
بیمار اور مسافر
‘‘اصل بات یہ ہے کہ قرآن شریف کی رخصتوں پر عمل کرنا بھی تقویٰ ہے۔ خداتعالیٰ نے مسافر اور بیمار کو دوسرے وقت رکھنے کی اجازت اور رخصت دی ہے۔ اس لئے اس حکم پر بھی تو عمل کرنا چاہئے۔میں نے پڑھا ہے کہ اکثر اکابر اس طرف گئے ہیں کہ اگر کوئی حالت سفر یا بیماری میں روزہ رکھتا ہے تو یہ معصیت ہے، کیونکہ غرض تو اللہ تعالیٰ کی رضا ہے نہ اپنی مرضی، اور اللہ تعالیٰ کی رضا فرمانبرداری میں ہے جو حکم وہ دے اُس کی اطاعت کی جاوے۔ اور اپنی طرف سے اس پر حاشیہ نہ چڑھایا جاوے ۔ اُس نے تو یہ حکم دیا ہے مَنۡ کَانَ مَرِیۡضًا اَوۡ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنۡ اَیَّامٍ اُخَرَ اس میں کوئی قید اور نہیں لگائی کہ ایسا سفر ہو یا ایسی بیماری ہو۔ میں سفر کی حالت میں روزہ نہیں رکھتا، اور ایسا ہی بیماری کی حالت میں چنانچہ آج بھی میری طبیعت اچھی نہیں اور میں نے روزہ نہیں رکھا‘‘
(تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد دوم صفحہ 258 تا 265)
تہجد و تراویح
ایک شخص نے سوال کیا کہ ماہ رمضان میں نماز تراویح آٹھ رکعت باجماعت قبل خفتن مسجد میں پڑھنی چاہئے یا کہ پچھلی رات کو اٹھ کر اکیلے گھر میں پڑھنی چاہئے؟۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے فرمایا کہ: ‘‘نماز تراویح کوئی جدا نماز نہیں ۔ دراصل نماز تہجد کی آٹھ رکعت کو اوّل وقت میں پڑھنے کا نام تراویح ہے۔ اور یہ ہر دو صورتیں جائز ہیں جو سوال میں بیان کی گئی ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے ہر دوطرح پڑھی ہے۔ لیکن اکثر عمل آنحضرت ﷺ کا اس پر تھا کہ آپؐ پچھلی رات کو گھر میں اکیلے یہ نماز پڑھتے تھے۔‘‘
(ملفوظات جلد دہم صفحہ17)
’’آنحضرت ﷺ کی سنت ِدائمی تو وہی آٹھ رکعت ہے اور آپؐ تہجد کے وقت ہی پڑھا کرتے تھے اور یہی افضل ہے۔ مگر پہلی رات بھی پڑھ لینا جائز ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ آپؐ نے رات کے اوّل حصہ میں اُسے پڑھا۔ بیس رکعات بعد میں پڑھی گئیں۔ مگر آنحضرت ﷺ کی سُنت وہی تھی جو پہلے بیان ہوئی۔‘‘
(ملفوظات جلد دہم صفحہ 17)
خداتعالی محض اپنے فضل سےہم سب کو خلوص نیت کے ساتھ ان بابرکت ایام سے بھر پور فائدہ اٹھانے، روزے رکھنے، نمازیں پڑھنے، قرآن مجید کی کثرت سے تلاوت کرنے اور صدقہ و خیرات کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
(لئیق احمد مشتاق۔ سرینام)